چلیں لگڑ بگے اور گیدڑ کی بات چل رہی ہے تو آپ کو چند ماہ پرانا ایک واقعہ ہی سنا دوں:
بالاکوٹ میں بچوں کے لیے منعقدہ سمر کیمپ کے دوران تفریح ایک اہم عنصر رہا۔ خاص طور پر بچوں نے ایک دوسرے کے گروپوں کو ڈرانے اور "ریکارڈ" لگانے کے خصوصی انتظامات کر رکھے تھے۔ انہی کے تحت ایک گروپ نے ایک "افواہ" پھیلا دی کہ کیمپ کے ارد گرد واقع پہاڑی جنگلات میں گیدڑ موجود ہیں اور رات کو واش روم جانے سے اجتناب کیا جائے۔ چند بچے یہ "خوفناک خبر" انتظامیہ کے پاس لائے، پہلے تو انہیں سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ صرف کو آپ ڈرانے کے لیے کہا جا رہا ہے البتہ آپ پھر بھی رات کو اکیلے واش روم کی جانب مت جائیں بلکہ کسی ساتھی کو لے کر جائیں۔
کیونکہ ہم نے انتظامی امور سنبھالنے ہوتے تھے۔ تو تمام دن کی سرگرمیوں کے بعد رات ہی کو وقت ملتا تھا کہ پروگرام پر کچھ نظر ڈالی جائے اور اگلے روز کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ایسی ہی ایک رات عشاء کے بعد انتظامیہ میں شامل ہم تین افراد بیٹھے تھے۔ مختلف معاملات پر غور اور منصوبہ بندی کے بعد رات تقریباً ڈھائی بجے ایک صاحب اٹھے اور سڑک کے اس جانب اپنی قیام گاہ کی سمت روانہ ہو گئے اور محض دو یا تین منٹوں بعد واپس آ گئے۔ استفسار پر بتایا کہ باہر سڑک پر دو لگڑ بگے کھڑے دیکھے ہیں۔ تیسرے صاحب ایک ایڈونچرسٹ تھے ان کی رگِ ایڈونچر پھڑک اٹھی اور بڑی سی ٹارچ اور کیمرہ لیے فوراً باہر بھاگے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے (ہاں! سب سے پیچھے) نکلا۔ باہر نکل کر سڑک کی جانب دیکھا تو کافی دور دو آنکھیں چمکتی دکھائی دیں۔ بتایا گیا کہ دو لگڑ بگے تھے جن میں سے ایک سیدھا سڑک پر الٹی جانب بھاگا جبکہ ایک ہمارے خیموں کے برابر میں واقع باورچی خانے کے پیچھے جا نکلا ہے۔ کافی دیر تلاش کے باوجود دوسرا لگڑ بگا ہمیں نہ ملا۔ میں تو اسے دیکھنے سے بھی محروم رہا (کیونکہ سب سے پیچھے جو تھا)
۔ ایڈونچرسٹ صاحب مُصر تھے کہ وہ لگڑ بگے تھے جبکہ ہم میں سے کوئی ماننے کو تیار نہ تھا کہ اس علاقے میں لگڑ بگے ہو سکتے ہیں اور ہمارا اصرار تھا کہ وہ گیدڑ ہی ہوں گے۔ اب اللہ ہی جانے وہ کیا تھے؟ اگلے روز سب بچوں کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ وہ رات کے وقت ہر گز بغیر بتائے نہ نکلیں بلکہ ان کے لیے کیمپ میں ہی عارضی بیت الخلاء کا اہتمام بھی کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ میرا کیمپ باورچی خانے کے عین برابر میں تھا اور میں تمام رات یہی سوچتا رہا کہ لگڑ بگا میرے خیمے کے پیچھے ہی کہیں درختوں میں دبکا بیٹھا ہوگا۔ اور انہی خیالوں کے دوران نجانے کس لمحے نیند آ گئی!