بہتر زندگی کی جانب ايک قدم

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بہتر زندگی کی جانب ايک قدم
امريکی کوششوں کی وجہ سےعام لوگوں کی زندگیوں میں تبديلی آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ خدیجہ بی بی کی کہانی کو منسلک لنک پر دیکھيے۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ ٹائٹل پر غور کريں تو ميں نے واضح کيا ہے کہ يہ عام پاکستانيوں کی بہتر زندگی کی جانب محض ايک قدم ہے۔ ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل سکتی ہے۔ يہ توقع بھی حقيقت پر مبنی نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کو کوئ ايسا نظام دے سکتا ہے جس کی بدولت پاکستان کو درپيش تعليم، بجلی، خوراک اور صحت سے متعلق تمام مسائل حل کيے جا سکتے ہيں۔ اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار اور ذمہ داری پاکستانی عوام، ان کے منتخب قائدين اور پارليمنٹ ميں موجود ان افراد کی ہے جو قانون بناتے ہيں۔ اسی مقصد کے لیے انھيں ووٹ ڈالے جاتے ہيں۔


ليکن اس قسم کے اقدامات اور ترقياتی منصوبے پاکستان کے عوام کی بہتری کے ليے طويل المدت بنيادوں پر ہمارے مصمم ارادے اور دہشت گردی کے ضمن ميں ايسے ماحول کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے ہماری خواہشات کا آئينہ دار ہے جس ميں مايوسی، تشدد اور بے بسی کو استعمال کر کے دہشت گرد اپنے صفوں ميں مزيد لوگوں کو شامل کرتے ہيں۔


يقینی طور پر آپ اميد کی کرن جلانے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں روزانہ ظلم سہتے ہوئے پاکستان کے عوام کو بہتر زندگی کے حصول کے ليے مواقع فراہم کرنے کی بنياد پر امريکہ کو ہدف تنقید نہيں بنا سکتے۔


ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک ميزبان ملک کی حکومت ، اس کی انتظاميہ، متعلقہ ماہرين اور عوام لوگوں کی مرضی اور منشا کے بغير امدادی پيکج، ترقياتی منصوبے اور باہم مفادات کے معاہدوں پر عمل درآمد نہيں کرسکتا۔


کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ ٹائٹل پر غور کريں تو ميں نے واضح کيا ہے کہ يہ عام پاکستانيوں کی بہتر زندگی کی جانب محض ايک قدم ہے۔ ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل سکتی ہے۔ يہ توقع بھی حقيقت پر مبنی نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کو کوئ ايسا نظام دے سکتا ہے جس کی بدولت پاکستان کو درپيش تعليم، بجلی، خوراک اور صحت سے متعلق تمام مسائل حل کيے جا سکتے ہيں۔ اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار اور ذمہ داری پاکستانی عوام، ان کے منتخب قائدين اور پارليمنٹ ميں موجود ان افراد کی ہے جو قانون بناتے ہيں۔ اسی مقصد کے لیے انھيں ووٹ ڈالے جاتے ہيں۔


ليکن اس قسم کے اقدامات اور ترقياتی منصوبے پاکستان کے عوام کی بہتری کے ليے طويل المدت بنيادوں پر ہمارے مصمم ارادے اور دہشت گردی کے ضمن ميں ايسے ماحول کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے ہماری خواہشات کا آئينہ دار ہے جس ميں مايوسی، تشدد اور بے بسی کو استعمال کر کے دہشت گرد اپنے صفوں ميں مزيد لوگوں کو شامل کرتے ہيں۔


يقینی طور پر آپ اميد کی کرن جلانے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں روزانہ ظلم سہتے ہوئے پاکستان کے عوام کو بہتر زندگی کے حصول کے ليے مواقع فراہم کرنے کی بنياد پر امريکہ کو ہدف تنقید نہيں بنا سکتے۔


ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک ميزبان ملک کی حکومت ، اس کی انتظاميہ، متعلقہ ماہرين اور عوام لوگوں کی مرضی اور منشا کے بغير امدادی پيکج، ترقياتی منصوبے اور باہم مفادات کے معاہدوں پر عمل درآمد نہيں کرسکتا۔


کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو کسی بھی ایک نقطے پر مرکوز کر کے نتائج کا استنباط ایک غلط طریقہ ہو گا۔ یہ درست کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نشیب و فراز کے دور سے گزرتے رہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ حالات کا درست اور غیر جانبدار تجزیہ کریں تو دیکھیں گے کہ 9 -11 کے بعد سے امریکی حکمرانوں کا رویہ امریکی دوستوں کی فہرست مختصر سے مختصر کر رہا ہے۔ امریکی پالیسیاں کمزور ممالک کے حکمرانوں اور ان کے عوام کے درمیان خلیج حائل کرنے پر مبنی ہیں۔ آپ کا مذکور یو ایس ایڈ کا پروگرام بھی اسی پالیسی کو تقویت دینے کی ایک کڑی ہے۔
ایک مذہبی گروپ کو امریکی امداد دینے پر آپ نے غلط بیانی کا سہارا لیا۔ اس امداد کا ہرگز کہیں ذکر نہ تھا اور نہ یہ امدادحکومتِ پاکستان کے علم میں لا کر دی گئی تھی ۔اس کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب امریکی سفارتخانے کی ایک خاتون نے یہ راز فاش کیا اور اس کے بعد مذکورہ مذہبی تنظیم نے اپنے کچھ اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹایا۔ اگر سب کچھ قانون کے مطابق ہوتا تو یہ ساری کارروائی عمل میں نہ آتی۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ايک اساتذہ اپنی شاگرد کو "پاکستان علم فسٹيول" کے دوران سايئنسی تجربہ سکھا رہی ہے۔ يو ايس ايڈ کا ادارہ پاکستان ميں تعليمی نظام کو بہتر بنانے کے ليئے اساتذہ پر 75 ميلين ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

photostream


http://www.flickr.com/photos/usaid_pakistan/5514532324/in/photostream/

يو ايس ايڈ کی مدد سے پاکستان کے مزيدار آموں کی برآمدات ميں اضافہ



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
انتہائی خوش کن ہیں دونوں ویڈیوز۔ سیاست سے عدم واقفیت اور امریکی ایجنڈے سے بے خبر کوئی بھی پاکستانی ان پر عش عش کر اٹھے گا اور امریکہ کو اپنا حقیقی دوست سمجھنے کی وہی تاریخی غلطی کر بیٹھے گا جو افغان عوام نے سوویت یونین کو سمجھنے میں کی تھی۔ ارے بھئی انداز اپنا اپنا ہے اور نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق جال بھی نیا ہے۔ تب کے سوویت یونین کو جن مکاریوں سے کام لینا تھا وہ اس نے اپنی یونیورسٹیوں میں افغان طلباء کی برین واشنگ اور افغانستان کی "ترقی" میں ایڈ کی ایڈز کے ذریعہ سے یوں دکھائیں کہ افغان عوام کو ان کے قومی دھارے سے الگ کر دیا۔ وہ اپنے ہر مسئلے کا حل سوویت یونین کو سمجھنے لگ گئے۔
آج یہی کہانی پاکستان میں امریکہ دہرا رہا ہے۔ دور ہونے کی وجہ سے اتنے سارے پاکستانیوں کو اپنے سکولوں میں لے جانے کی بجائے خود پاکستانی سکولوں میں سرایت کر رہا ہے اور عوامی خدمت کے نام پہ چند گروہوں کو ڈالروں سے نواز کر عوام کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کامیاب کوششیں کر رہا ہے۔ الزام سارے کا سارا امریکہ پر ہی نہیں امریکہ کے ذہنی غلام ہمارے حکمران بھی برابر کے شریک ہیں جو نہ اچھی حکومت دے سکے اور نہ ہی قوم کو قومی وحدت میں پرو سکے بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا چکے ہیں۔
دو ممالک کے درمیان تعلیمی ، فنی ، سائنسی ، ثقافتی اور دیگر امور میں باہمی تعاون کوئی انہونی بات نہیں بلکہ اس سے عالمی امور کو سمجھنے میں زیادہ بہتر حالات پیدا ہوتے ہیں ۔ دونوں حکومتیں کسی نظام الاوقات اور اپنے قومی مفادات کے تحت تعاون و دوستی کی حدود اور تعلیمی ضروریات کا تعین کرتی ہیں لیکن یہاں ان باتوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ چند علاقوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے تا کہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ سٹریٹجک مفادات حاصل کئے جا سکیں۔ ریڈیو کی نشریات کا دائرہ بھی چند مخصوص علاقوں پر خصوصی طور پر بڑھایا جاتا ہے تا کہ پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔ حکومت وقت جو اپنا تحفظ نہیں کر سکتی وہ پاکستان کے مفادات کے لئے کیوں کر اپنے دماغ کو تکلیف دے گی؟۔ یہی امریکہ کو مطلوب ہے اور اسے مل بھی رہا ہے۔
 

دوست

محفلین
نہیں جی یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ امریکیوں کو اب مارکیٹنگ کی افادیت کی سمجھ آ گئی ہے۔ جتنے فنڈ وہ خرچ کر رہے ہیں اس سے زیادہ اشتہارات پر لگا رہے ہیں، تاکہ پاکستانیوں کو "پتا" رہے کہ کون یہ سب کر رہا ہے۔
 
Top