واہ بہت زبردست ! آج پھر میرے کسی فرینڈ نے یہ نظم فیس بُک پر شیر کی اور شاعر کے نام کی جگہ ( نامعلوم ) لکھا ۔ میرے ذہن کے کینوس پر ایک دم سے آپ کی نظم پوری آب و تاب کے ساتھ ہویدا ہوگئی ! دوبارہ پڑھ کر پہلے سے زیادہ لطف آیا !
بہت شکریہ ممنون ہوں
اس نظم کی کافی کانٹ چھانٹ کی تھی میں نے پچھلے سال.
کبھی تم نے یہ سوچا ہے
کہ بہنوں کی ادائیں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
یہ خود بھوکی بھی رہتی ہیں
یہ خود پیاسی بھی رہتی ہیں
جھلستی دھوپ میں پریاں
یہ چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی تم نے یہ سوچا ہے
تمھاری عزتوں کیچادروں کی
جان سے بڑھ کر حفاظت کرتی رہتی ہیں
تمھاری غیرتوں کے نام پر قربان ہوتی ہیں
یہ اپنی خواہشوں کے بھی
گلے تک گھونٹ دیتی ہیں
یہ پھولوں سے کہیں نازک
تمھارا مان ہوتی ہیں
کبھی تم نے یہ سوچاہے ؟
تمھارے غم میں اکثر ہی
یہ اٹھ اٹھ کر جو راتوں کو
یونہی تنہا سی بے آواز روتی ہیں !
تمھارے حصے کے سب درد
اپنی قسمتوں میں لکھے جانے کی
دعائیں رب سے کرتی ہیں!
یہ اپنے حصے کی خوشیاں
بھی تم پر وار دیتی ہیں
کبھی تم نے یہ سوچا ہے
یہ کیونکر ایسا کرتی ہیں؟
ارے کیونکہ
یہ ماں کا روپ ہوتی ہیں
یہ ماؤں جیسی ہوتی ہیں
رہی فیس بک کی بات تو وہاں پر یہ نظم لوگ اپنی سمجھ کر بھی لگا دیتے ہیں ہاہاہا