ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
عرفان صدیقی
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کاناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں
اور جو پل پہ کھڑے لوگ ہیں اخبار سے ہیں
گلزار
ہے یہی شیوا اہل محبت کا قمرہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
عرفان صدیقی
یوں مسکرا کے حال ہمارا نہ پو چھیےہے یہی شیوا اہل محبت کا قمر
غم بہت سہتے ہیں اظہار نہی کرتے
یہ بھی آداب ہمارے ہیں، تمہیں کیا معلوم۔۔؟وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
عبد الحمید عدم
یہ بھی آداب ہمارے ہیں، تمہیں کیا معلوم۔۔؟
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہیں، تمہیں کیا معلوم۔۔؟
ایک تم ہو کہ سمجھتے نہیں اپنا ہم کو،
اور ہم ہیں کہ تمہارے ہیں، تمہیں کیا معلوم۔۔؟
میم ہے آخر میں
ہ ۔۔۔ ہےمجھے یاد ہے ابھی تک ترے جور کا فسانہ
جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ
یوں تو میرے خلوص کی قیمت بھی کم نہ تھی
بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فا تح عالمیوں تو میرے خلوص کی قیمت بھی کم نہ تھی
کچھ کم شناس لوگ تھے دولت پہ مرگئے
یوں تو ہر شخص بڑے احترام سے ملایقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فا تح عالم
جہادِزندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اک سترنگی خوشبو اوڑھ کے نکلے تویوں تو ہر شخص بڑے احترام سے ملا
مگر جو بھی ملا وہ اپنے ہی کام سے ملا.
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں۔۔اک سترنگی خوشبو اوڑھ کے نکلے تو
اس بے رنگ اداس ہوا پر برسے رنگ
گ
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہوگردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں۔۔
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر، دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں۔