سید زبیر
محفلین
حجاب دور تمہارا شباب کر دے گا
یہ وہ نشاء ہے تمہیں بے حجاب کردے گا
میرا خیال مجھے کامیاب کر دے گا
خدا اِسی کو زلیخا کا خواب کر دے گا
مری دعا کو خدا مستجاب کر دے گا
ترا غرور مجھے کامیاب کر دے گا
یہ داغ کہاۓ ہیں جس کے فراغ میں ہم نے
وہ اک نظر میں انہیں آفتاب کر دے گا
کیا ہے جس کے لڑکپن نے دل مرا ٹکڑے
کلیجہ خون اب اس کا شباب کر دے گا
سنی نہیں یہ مثل گھر کا بھیدی لنکا ڈہاۓ
تجھے تو دل کی خبر اضطراب کر دے گا
نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا
کسی کے ہجر میں اس درد سے دعا مانگی
ندائیں آئیں خدا کامیاب کردے گا
غم فراق میں گریہ کو شغل سمجھا تھا
خبر نہ تھی مری مٹی خراب کر دے گا
کسے خبر تھی ترے ظلم کے لیے اللہ
مجھی کو روز ازل انتخاب کر دے گا
اٹھا نہ فتنۂ محشر کو چال سے ناداں
تیرے شہید کا بے لطف خواب کر دے گا
وہ گالیاں ہمیں دیں اور ہم دعائیں دیں
خجل انہیں یہ ہمارا جواب کر دے گا
جواب صاف نہ دے مجھکو یہ وہ آفت ہے
مرے سکون کو بھی اضطراب کر دے گا
کہیں چھپاۓ سے چھپتا ہے لعل گدڑی میں
فروغ حسن تجھے بے نقاب کر دے گا
تیری نگاہ سے بڑھ کر ہے چرخ کی گردش
مجھے تباہ یہ خانہ خراب کر دے گا
ڈبوئیگی مجھے یہ چشم تر محبت میں
خراب کام مر ا اضطراب کر دے گا
رقیب نام نہ لے عشق کا جتا دینا
یہ شعلہ وہ ہے جلا کر کباب کر دے گا
وفا تو خاک کرے گا مرا عدو تم سے
وفا کے نام کی مٹی خراب کر دے گا
عجیب شخص ہے پیرمغاں سے مل زاہد
نشے میں چور تجھے بے شراب کر دے گا
بہلائی اپنی ہے سب کی بہلائی میں بیخود
کبھی ہمیں بھی خدا کامیاب کر دے گا
بیخود بدایونی