مغرب میں وفاق یا صوبے نہیں بلکہ مقامی حکومتیں سب سے زیادہ مضبوط ہیں۔ شہریوں کے تمام مسائل وہی حل کرتی ہیں۔ اس وقت ناروے کی صرف 50 لاکھ آبادی کیلئے 11 صوبے اور 356 مقامی حکومتیں یا بلدیات کام کر رہی ہیں۔ یوں شہریوں کو اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے صوبوں یا وفاق کی طرف دیکھنا نہیں پڑتا۔ مقامی حکومتوں کے الیکشن ہوتے ہیں، وہ اپنا ٹیکس خود اکٹھی کرتی ہیں اور خود خرچ کرتی ہیں۔ وفاق یا صوبے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
تو ہونا بھی ایسے ہی چاہیے، لیکن ایک طرف آپ اٹھارویں ترمیم کی مخالفت کر کے وفاق کو مکمل با اختیار بنانے کی حمایت کرتے ہیں، دوسری طرف دلائل اس کے برعکس دیتے ہیں۔ کیا اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے مزید صوبے بن جائیں گے؟ ٹیکسز کے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جائیں گے؟ مسئلہ صرف آپ کا شخصیت پرستی ہے۔ عمران خان صاحب اگر آج اٹھارہویں ترمیم کے حق میں بات کرنا شروع کر دیں آپ فوراً سے اپنا قبلہ تبدیل کرتے ہوئے اس کی حمایت شروع کر دیں گے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے لیڈر سے محبت ضرور کریں لیکن تھوڑا غور و فکر کو بھی زحمت دیں۔
اب بتائیں پاکستان کے جمہوری انقلابیوں نے 18 ویں ترمیم کے بعد کونسی توپ چلا لی؟ آمر مشرف جو مقامی حکومتوں کا موثر نظام چھوڑ کر گیا تھا اسے بھی تہس نہس کر کے دوبارہ انگریز دور کا کمشنر نظام بحال کر دیا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد وقت ہی کتنا گزرا ہے؟ کتنی حکومتیں بدل گئیں؟ محترم نظام کی تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اگر صوبوں کو با اختیار بناتی ہے تو معاملات اس سے آگے بڑھ کر کسی دن مقامی حکومتوں کو بھی پہنچ جائیں گے نہ کہ اس کے برعکس ہم ریورس سٹیپ لے کر اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے واپس سنٹرلائزیشن کے مقام پہ آ کر آمریت کو دعوت دیں جہاں ہم پچھلے ستر سال سے کھڑے ہیں۔ عمران خان صاحب کو تو ڈکٹیٹر بننے کا شوق ہے لیکن ہمیں قطعی نہیں ہے۔
مشرف جو نظام دے کر گیا تھا کیا وہ تمام جماعتوں کی متفقہ رائے سے وجود میں آیا تھا؟ کیا مشرف خود عوام کا نمائندہ تھا؟ وہ نظام چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل نہ کیا جائے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو مشرف کے نظام کے ساتھ ہوا تھا۔ یاد رکھیے کہ آپ کے بھی بغیر اتفاق رائے کے بنائے جانے والے نظام کے ساتھ بھی وہی ہونا ہے چاہے آپ آج لاکھ اس کی خوبصورتی اور تعریفوں کے پل باندھتے رہیں۔
صرف تین باتیں ہیں جو میں شروع سے بیان کر رہا ہوں اور آپ کو سمجھ نہیں آ رہیں یا آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے وہ درج ذیل ہیں۔
- کوئی بھی نظام ہمیشہ معاشرتی اتفاق رائے سے بننا چاہیے نہ کہ مسلط کیا جانا چاہیے وگرنہ وہ انتہائی ان سٹیبل ہو گا اور حکومت جاتے ہی واپس صفر ہو جانا ہے۔
- نظام کی تبدیلی میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ آج آپ نظام بنائیں اور کل ہی اس پہ تنقید شروع کر دیں کہ اس سے کیا حاصل ہوا صرف اس وجہ سے کہ وہ موجودہ مزاجِ حکومت سے میل نہیں کھاتا۔
- ہمیشہ مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا چاہیے نہ کہ وفاق کو انتہائی طاقتور بنانا چاہیے۔ وفاق کو مضبوط ترین بنانے کے دو طرفہ نقصانات ہیں ایک یہ کہ اس سے غیر جمہوری قوتیں مزید مضبوط ہوتی ہیں، دوم یہ کہ نچلے لیول پہ وفاق کے خلاف تعصب کے جذبے کو ہوا ملتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اسی طرف ایک پیش قدمی ہے اور اس سے آگے مزید اختیارات نیچے جانے چاہئیں نہ کہ اس کو ریورس کر کے پھر وہیں صفر کے مقام پہ آیا جائے۔
یہ مراسلہ کرنے کا اگرچہ کوئی فائدہ تو نہیں ہے کیونکہ آپ نے بات کو سمجھنے کی بجائے مزید دو چار لنک اور دائیں بائیں کی خبروں کا سہارا لے لینا ہے لیکن ہم اپنی طرف سے حجت تمام کر رہے ہیں۔