بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا، صدر نے آرڈیننس جاری کر دیا

جاسم محمد

محفلین
خدارا! اتنا ماضی میں بھی نہ جائیے! بہت کچھ سامنے آگیا تو نری شرمندگی ہی شرمندگی ہوگی
ماضی سب ہی کا داغدار ہے۔ اس لئے آج نواز شریف لاکھ کہتا رہے کہ میں اب عسکری سے جمہوری ہو گیا ہوں ، زرداری لاکھ کہے میں اب کرپٹ نہیں رہا، کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
کیا انصاف کا معیار عالمی ہے یا اسے بھی الگ الگ معاشرہ کے حساب سے سیٹ کرنا پڑے گا؟ اسرائیلی پارلیمان ایک قانون پاس کرتی ہے کہ مشرقی یروشلم میں جن یہودی گھروں پر عربوں کا قبضہ ہے وہ اسے کلیم کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی عدالتیں پارلیمانی بالا دستی پر چلتے ہوئے عربوں کو ان گھروں سے نکالنا شروع کر دیتی ہے جن کے اپنے گھروں پر یہود نے مغربی یروشلم میں قبضے کر رکھے ہیں۔ اور جن کی وجہ سے ان عربوں کو یہودیوں کے گھروں پر قبضے کرنے پڑے۔

یوں اسرائیلی عدالتیں اپنی طرف سے قانون پر چل رہی ہیں۔ آپ جیسے جمہوری انقلابیوں کی پارلیمانی دستی پوری ہو رہی ہے۔ مگر ان فلسطینی عربوں کیساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ اور پورا یوروشلم اس وقت آگ میں جل رہا ہے۔
اسرائیلی معاشرے نے فیصلہ اپنے معاشرے کے مفاد کے پیشِ نظر کرنا ہے اور عرب معاشرے نے اپنے مفادات کے پیشِ نظر، کرنا پھر بھی معاشرے نے ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت وہاں پیس ڈیل ممکن نہیں بنا سکتی جب تک کہ اس پہ ان دونوں معاشروں کو اعتماد نہ ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ ڈیل کا حال ہمارے سامنے ہے۔ بالکل اسی طرح جب تک پارلیمنٹ کے تمام سٹیک ہولڈرز یا کم از کم اکثریت ایک فیصلے پر راضی نہیں ہو جاتے آپ زبردستی اسے امپلیمنٹ کر کے متوقع نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ اگر اپنے ہی دلائل کا تنقیدی جائزہ لے لیا کریں تو بات بالکل واضح ہو جائے۔
عین وہی کنفلکٹ آف انٹرسٹس کا مسئلہ وہاں ہے۔ اسرائیل تحریکِ انصاف کی طرح باقی سٹیک ہولڈرز کو پسِ پشت ڈال کر اپنے مفاد کے پیشِ نظر فیصلے کرنے میں مگن ہے اور اُس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل تحریکِ انصاف کی طرح باقی سٹیک ہولڈرز کو پسِ پشت ڈال کر اپنے مفاد کے پیشِ نظر فیصلے کرنے میں مگن ہے اور اُس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے قانون سازی کیا اکیلے تحریک انصاف کا مفاد تھا؟ کیا پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں نہیں چاہتی تھی کہ ملک اس گرے لسٹ سے نکلے؟ اگر ایسا ہی تھا تو حکومت کو بلیک میل کئے بغیر وہ اس قانون سازی کا حصہ بنتے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور حکومت کو دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلوا کر یہ بلز منظور کروانے پڑے۔
3 FATF-related bills passed in joint session marred by opposition protests - Pakistan - DAWN.COM

آپ پاکستان کو بہت آئیڈیلی دیکھتے ہیں۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ پڑنے کا فائدہ ہوتا تو وہ خود اس کی حمایت کرتے۔ اسی طرح الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں سے بھی اپوزیشن جماعتیں کاغذی ووٹوں والی دھاندلی نہیں کر پائیں گی۔ اسلئے اس کی مخالف کر رہی ہیں۔
یہاں اگر کوئی کانفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو وہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ہے۔ کیونکہ ان کو یہی کرپٹ بوسیدہ نظام سوٹ کرتا ہے۔
آپ ہی بتا دیں کہ دوسری آئینی ترمیم، ۱۸ ویں ترمیم، جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن والی ترمیم سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا؟
 

حسرت جاوید

محفلین
اگر ایسا ہی تھا تو حکومت کو بلیک میل کئے بغیر وہ اس قانون سازی کا حصہ بنتے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور حکومت کو دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلوا کر یہ بلز منظور کروانے پڑے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بل میں اپوزیشن کو کیا تحفظات تھے، مجھے وہ کہانی دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ان کے تحفظات دور کرنے کی بجائے اسے بھی حب الوطنی سے زبردستی نتھی کر کے 'باشعور' عوام کے سامنے وہی پرانا کرپٹ اپوزیشن کا نعرہ استعمال کرنے کو زیادہ ترجیح دی۔ بات کو پاکستان معاشرے سے یروشلم کا چکر لگوا کر ایف اے ٹی ایف کے گرد گھما کر صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
یورپی معاشرے بھی کبھی پاکستان تھے، ایسا نہیں ہوا کہ کوئی فردِ واحد آیا اور دنیا بدل گئی، چرچ نے اپنے اختیارات خود بخود جمہور کے حوالے کر دیے اور وہ سوسائٹی خود بخود کرپشن فری سوسائٹی ہو گئی۔ کرپشن اس وقت بھی عروج پر تھی جب امریکہ ابھی آزاد بھی نہ ہوا تھا۔ وقت لگتا ہے چیزوں کو سیٹ ہونے میں، یہ نہیں ہوتا کہ عمران خان آیا، اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے اور معاشرہ ٹھیک ہو گیا۔ معاشرتی تبدیلیاں وقت لیتی ہیں اور ان کے لیے سب سے اہم چیز ون مین شو نہیں بلکہ درست سمت کا تعین ہے اور ہمیں ہمیشہ صبر سے کام لیتے ہوئے درست سمت کی نشاندہی کرنی ہے اور درست سمت ہمیشہ معاشرے کے اندر سے نکلتی ہے، اس پر زبردستی مسلط نہیں کی جاتی۔ ون مین شو کے ذریعے زبردستی مسلط کر کے مشرقی پاکستان کا حال دیکھ لیا ہم نے۔ آپ جاری رکھیں اپنے فرائض منصبی لیکن ہمیں قائل کرنے کے لیے کم از کم ایسے دلائل دیں جو واقعی دل کو لگیں نہ کہ وہی بات دہراتے رہیں جس میں تحریکِ انصاف کا سوشل میڈیا ونگ صبح شام مصروفِ عمل ہے۔
میری ذاتی رائے میں اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو کسی حد تک با اختیار بنانا ایک بہت زبردست کام ہے اور یہ کام تو پہلے دن سے ہونا چاہیے تھا۔ زبردستی وفاق کو مضبوط بنا کر، اتھارٹیٹو رول دے کر کیا حاصل؟ یہی تو بنیادی وجہ ہے پاکستان کے بننے کی۔ وفاق کی مضبوطی کا نعرہ تو نہرو کا بھی تھی تو قائد کو کیوں قبول نہ تھا؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بل میں اپوزیشن کو کیا تحفظات تھے، مجھے وہ کہانی دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ان کے تحفظات دور کرنے کی بجائے اسے بھی حب الوطنی سے زبردستی نتھی کر کے 'باشعور' عوام کے سامنے وہی پرانا کرپٹ اپوزیشن کا نعرہ استعمال کرنے کو زیادہ ترجیح دی۔
اپوزیشن کو کونسے تحفظات تھے جو ایف اے ٹی ایف بل میں حمایت کیلئے حکومت سے نیب قوانین میں تبدیلی مانگ لی؟
image.png

3 FATF-related bills passed in joint session marred by opposition protests - Pakistan - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
یورپی معاشرے بھی کبھی پاکستان تھے، ایسا نہیں ہوا کہ نیوٹن آیا اور دنیا بدل گئی، چرچ نے اپنے اختیارات خود بخود جمہور کے حوالے کر دیے اور وہ سوسائٹی خود بخود کرپشن فری سوسائٹی ہو گئی۔ کرپشن اس وقت بھی عروج پر تھی جب امریکہ ابھی آزاد بھی نہ ہوا تھا۔ وقت لگتا ہے چیزوں کو سیٹ ہونے میں، یہ نہیں ہوتا کہ عمران خان آیا، اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے اور معاشرہ ٹھیک ہو گیا۔ معاشرتی تبدیلیاں وقت لیتی ہیں اور ان کے لیے سب سے اہم چیز ون مین شو نہیں بلکہ درست سمت ہے اور ہمیں ہمیشہ صبر سے کام لیتے ہوئے درست سمت کی نشاندہی کرنی ہے اور درست سمت ہمیشہ معاشرے کے اندر سے نکلتی ہے، اس پر زبردستی مسلط نہیں کی جاتی۔ ون مین شو کے ذریعے زبردستی مسلط کر کے مشرقی پاکستان کا حال دیکھ لیا نا؟
آئین و قانون ہر شہری پر زور زبردستی ہی مسلط کیا جاتا ہے۔ ادھر ناروے میں ٹیکس چوری، آمدن چھپانا، یا ٹیکس دیر سے جمع کروانا سخت ترین جرم ہے۔ اور ادھر پاکستان میں تین بار کا وزیر اعظم نیب سے کہتا ہے کہ اگر میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا؟ د و سال بعد ملک کا چیف جسٹس بننے والا جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں کہتا ہے کہ ایف بی آر کو میری بیگم کے اثاثے چیک کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ سابق جرنیل عاصم باجوہ اپنے خاندان کے بیرون ملک اثاثے سامنے آنے پر حکومتی عہدہ چھوڑ دیتا ہے پر اپنے ان اثاثوں کی منی ٹریل جمع کروا کر سرخرو ہونا پسند نہیں کرتا۔
آپ کس صاف ستھرے اور مہذب یورپی معاشرہ کو پاکستان جیسے کرپٹ اور مافیا معاشرہ سے ملا رہے ہیں؟ جہاں ہر طاقتور خود کو آئین و قانون سے بالا سمجھتا ہے۔
 

حسرت جاوید

محفلین
آئین و قانون ہر شہری پر زور زبردستی ہی مسلط کیا جاتا ہے۔ ادھر ناروے میں ٹیکس چوری، آمدن چھپانا، یا ٹیکس دیر سے جمع کروانا سخت ترین جرم ہے۔ اور ادھر پاکستان میں تین بار کا وزیر اعظم نیب سے کہتا ہے کہ اگر میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا؟ د و سال بعد ملک کا چیف جسٹس بننے والا جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں کہتا ہے کہ ایف بی آر کو میری بیگم کے اثاثے چیک کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ سابق جرنیل عاصم باجوہ اپنے خاندان کے بیرون ملک اثاثے سامنے آنے پر حکومتی عہدہ چھوڑ دیتا ہے پر اپنے ان اثاثوں کی منی ٹریل جمع کروا کر سرخرو ہونا پسند نہیں کرتا۔
آپ کس صاف ستھرے اور مہذب یورپی معاشرہ کو پاکستان جیسے کرپٹ اور مافیا معاشرہ سے ملا رہے ہیں؟ جہاں ہر طاقتور خود کو آئین و قانون سے بالا سمجھتا ہے۔
قانون پر بلا تفریق عمل در آمد ایگزیٹیو پاور ہے جو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی ذمہ داری ہے۔ قانون بنانا لیجسلیٹو پاور ہے جو پارلیمنٹ کی ذمہ داری اور حق ہے اور وہی معاشرے کی نمائندہ ہے۔ بس اتنا سا فرق ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو با اختیار بنانا ایک بہت زبردست کام ہے اور یہ کام تو پہلے دن سے ہونا چاہیے تھا۔ زبردستی وفاق کو مضبوط بنا کر، اتھارٹیٹو رول دے کر کیا حاصل؟ یہی تو بنیادی وجہ ہے پاکستان کے بننے کی۔ وفاق کی مضبوطی کا نعرہ تو نہرو کا بھی تھی تو قائد کو کیوں قبول نہ تھا؟
مغرب میں وفاق یا صوبے نہیں بلکہ مقامی حکومتیں سب سے زیادہ مضبوط ہیں۔ شہریوں کے تمام مسائل وہی حل کرتی ہیں۔ اس وقت ناروے کی صرف 50 لاکھ آبادی کیلئے 11 صوبے اور 356 مقامی حکومتیں یا بلدیات کام کر رہی ہیں۔ یوں شہریوں کو اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے صوبوں یا وفاق کی طرف دیکھنا نہیں پڑتا۔ مقامی حکومتوں کے الیکشن ہوتے ہیں، وہ اپنا ٹیکس خود اکٹھی کرتی ہیں اور خود خرچ کرتی ہیں۔ وفاق یا صوبے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
image.png

image.png

اب بتائیں پاکستان کے جمہوری انقلابیوں نے 18 ویں ترمیم کے بعد کونسی توپ چلا لی؟ آمر مشرف جو مقامی حکومتوں کا موثر نظام چھوڑ کر گیا تھا اسے بھی تہس نہس کر کے دوبارہ انگریز دور کا کمشنر نظام بحال کر دیا ہے۔
image.png

Stripped of powers, local bodies left twiddling their thumbs | The Express Tribune

کیا یہ ہے وہ بہتری کی جمہوری انقلابی سمت جو آپ کی محبوب 18 ویں ترمیم نے ملک وقوم کو دی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
قانون پر بلا تفریق عمل در آمد ایگزیٹیو پاور ہے جو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی ذمہ داری ہے۔ قانون بنانا لیجسلیٹو پاور ہے جو پارلیمنٹ کی ذمہ داری اور حق ہے اور وہی معاشرے کی نمائندہ ہے۔ بس اتنا سا فرق ہے۔
قانون پر عمل درآمد کروانا خالی حکومت کا کا م نہیں ہے، اس میں عدلیہ بھی شریک ہے۔ حکومت آپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرتے ہوئے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کردے تو عدلیہ اپنے پیٹی بند بھائی سے سوال کرنے کی بجائےالٹا حکومت کے دیوالے ہو جاتی ہے کہ ریفرنس بھیجا ہی کیوں؟
حکومت سابق جرنیل کیخلاف آئین توڑنے کا مقدمہ بنا دے اور ایک عدالت ا س پر جرنیل کو سزا بھی سنا دے۔ تو ایک اور عدالت پہلی والی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیتی ہے۔
حکومت سیاست دانوں کیخلاف کرپشن کے مصدقہ شواہد اکٹھے کر کے عدالتوں کو دے تو وہ بجائے ان کا ٹرائل کرنے کے، الٹا بیماریوں کے نام پر ان کو ملک سے ہی فرار کروا دیتی ہیں۔
میں اسی لئے آپ سے بار بار کہہ رہا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ کو آئیڈیلی مت دیکھیں۔ وہاں آوے کا آوا کرپٹ اور آئین وقانون سے بالا تر ہے۔
 

زیک

مسافر
پاکستان چھوڑ دینے والے لوگوں کو یہ "حق" بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو پاکستانی ریاست کو کسی طور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
اس معاملے میں میری رائے پہلے امریکا وغیرہ کے قانون کے حق میں تھی لیکن اب آپ سے متفق ہوں کہ ملک چھوڑ دینے والوں کی تعداد کافی ہے اور انہیں ووٹ کرنے دینے سے instability بڑھے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس معاملے میں میری رائے پہلے امریکا وغیرہ کے قانون کے حق میں تھی لیکن اب آپ سے متفق ہوں کہ ملک چھوڑ دینے والوں کی تعداد کافی ہے اور انہیں ووٹ کرنے دینے سے instability بڑھے گی۔
پاکستان میں جو غیر خواندہ لوگ ووٹ دیتے ہیں اس سے ملک اسٹیبل ہو گیا؟ اگر پڑھے لکھے بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ بطور پاکستانی شہری یہ ان کا حق ہے۔
 

زیک

مسافر
پاکستان میں جو غیر خواندہ لوگ ووٹ دیتے ہیں اس سے ملک اسٹیبل ہو گیا؟
یہ خیال کہ ان پڑھ غلط ووٹ دیتے ہیں بالکل عبث ہے۔ وہ ان پڑھ ہیں بیوقوف نہیں۔

اگر پڑھے لکھے بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ بطور پاکستانی شہری یہ ان کا حق ہے۔
کیا یہ حق صرف پڑھے لکھوں کو دیا جائے گا؟ جو بہت عرصہ سے بیرون ملک ہے اس کا پاکستان سے تعلق کافی کم ہو چکا۔ جو میری طرح پچیس سال سے باہر ہے وہ پاکستان کے عمومی حالات سے واقفیت کے باوجود کیسے صحیح ووٹ دے سکتا ہے۔ جو آپ کی طرح بچپن سے باہر رہتا ہے اس کو صحیح یا غلط ووٹ دینے سے کیا فرق پڑے گا
 

زیک

مسافر
پچھلے دو ماہ سے انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے اور مشترکہ صفحہ پلٹ دیا ہے۔ جب سے ہی کپتان کی پریشانی شروع ہوئی ہے ورنہ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان کے ساتھ نہیں تو ہماری لڑائی تو اس اسٹیبلشمنٹ سے ہے لہذا اگر آپ درست کہہ رہے ہیں تو مجھے آج سے ان معاملات میں عمران خان کا حامی سمجھیں
 

جاسم محمد

محفلین
یہ خیال کہ ان پڑھ غلط ووٹ دیتے ہیں بالکل عبث ہے۔ وہ ان پڑھ ہیں بیوقوف نہیں۔
ایک موازنہ۔ پی پی پی کے زیادہ تر ووٹر ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہیں۔ تحریک انصاف کے زیادہ تر ووٹر پڑھے لکھے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ محض اتفاق ہے؟ ووٹ کا تعلیم سے کوئی تعلق ہی نہیں؟

 

جاسم محمد

محفلین
کیا یہ حق صرف پڑھے لکھوں کو دیا جائے گا؟ جو بہت عرصہ سے بیرون ملک ہے اس کا پاکستان سے تعلق کافی کم ہو چکا۔ جو میری طرح پچیس سال سے باہر ہے وہ پاکستان کے عمومی حالات سے واقفیت کے باوجود کیسے صحیح ووٹ دے سکتا ہے۔ جو آپ کی طرح بچپن سے باہر رہتا ہے اس کو صحیح یا غلط ووٹ دینے سے کیا فرق پڑے گا
یورپ و امریکہ میں مستقل رہائش پزیر پاکستانیوں کی شہریت تبدیل ہو چکی ہے اس لئے ان کا ووٹ ویسے بھی بنتا نہیں۔ یہاں ووٹ کا حق ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دینے کا معاملہ ہے جن کے پاس صرف پاکستانی شہریت ہوتی ہے۔ جیسے عرب ممالک کے مکین وغیرہ
 

جاسم محمد

محفلین
اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان کے ساتھ نہیں تو ہماری لڑائی تو اس اسٹیبلشمنٹ سے ہے لہذا اگر آپ درست کہہ رہے ہیں تو مجھے آج سے ان معاملات میں عمران خان کا حامی سمجھیں
یعنی عمران خان یا کسی اور پاکستانی سیاست دان کی حمایت اس کی اسٹیبلشمنٹ سے “لڑائی” ہو جانے کے بعد کرنی ہے، اس سے پہلے نہیں :)
 

حسرت جاوید

محفلین
مغرب میں وفاق یا صوبے نہیں بلکہ مقامی حکومتیں سب سے زیادہ مضبوط ہیں۔ شہریوں کے تمام مسائل وہی حل کرتی ہیں۔ اس وقت ناروے کی صرف 50 لاکھ آبادی کیلئے 11 صوبے اور 356 مقامی حکومتیں یا بلدیات کام کر رہی ہیں۔ یوں شہریوں کو اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے صوبوں یا وفاق کی طرف دیکھنا نہیں پڑتا۔ مقامی حکومتوں کے الیکشن ہوتے ہیں، وہ اپنا ٹیکس خود اکٹھی کرتی ہیں اور خود خرچ کرتی ہیں۔ وفاق یا صوبے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
تو ہونا بھی ایسے ہی چاہیے، لیکن ایک طرف آپ اٹھارویں ترمیم کی مخالفت کر کے وفاق کو مکمل با اختیار بنانے کی حمایت کرتے ہیں، دوسری طرف دلائل اس کے برعکس دیتے ہیں۔ کیا اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے مزید صوبے بن جائیں گے؟ ٹیکسز کے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جائیں گے؟ مسئلہ صرف آپ کا شخصیت پرستی ہے۔ عمران خان صاحب اگر آج اٹھارہویں ترمیم کے حق میں بات کرنا شروع کر دیں آپ فوراً سے اپنا قبلہ تبدیل کرتے ہوئے اس کی حمایت شروع کر دیں گے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے لیڈر سے محبت ضرور کریں لیکن تھوڑا غور و فکر کو بھی زحمت دیں۔
اب بتائیں پاکستان کے جمہوری انقلابیوں نے 18 ویں ترمیم کے بعد کونسی توپ چلا لی؟ آمر مشرف جو مقامی حکومتوں کا موثر نظام چھوڑ کر گیا تھا اسے بھی تہس نہس کر کے دوبارہ انگریز دور کا کمشنر نظام بحال کر دیا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد وقت ہی کتنا گزرا ہے؟ کتنی حکومتیں بدل گئیں؟ محترم نظام کی تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اگر صوبوں کو با اختیار بناتی ہے تو معاملات اس سے آگے بڑھ کر کسی دن مقامی حکومتوں کو بھی پہنچ جائیں گے نہ کہ اس کے برعکس ہم ریورس سٹیپ لے کر اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے واپس سنٹرلائزیشن کے مقام پہ آ کر آمریت کو دعوت دیں جہاں ہم پچھلے ستر سال سے کھڑے ہیں۔ عمران خان صاحب کو تو ڈکٹیٹر بننے کا شوق ہے لیکن ہمیں قطعی نہیں ہے۔
مشرف جو نظام دے کر گیا تھا کیا وہ تمام جماعتوں کی متفقہ رائے سے وجود میں آیا تھا؟ کیا مشرف خود عوام کا نمائندہ تھا؟ وہ نظام چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل نہ کیا جائے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو مشرف کے نظام کے ساتھ ہوا تھا۔ یاد رکھیے کہ آپ کے بھی بغیر اتفاق رائے کے بنائے جانے والے نظام کے ساتھ بھی وہی ہونا ہے چاہے آپ آج لاکھ اس کی خوبصورتی اور تعریفوں کے پل باندھتے رہیں۔
صرف تین باتیں ہیں جو میں شروع سے بیان کر رہا ہوں اور آپ کو سمجھ نہیں آ رہیں یا آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے وہ درج ذیل ہیں۔
  1. کوئی بھی نظام ہمیشہ معاشرتی اتفاق رائے سے بننا چاہیے نہ کہ مسلط کیا جانا چاہیے وگرنہ وہ انتہائی ان سٹیبل ہو گا اور حکومت جاتے ہی واپس صفر ہو جانا ہے۔
  2. نظام کی تبدیلی میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ آج آپ نظام بنائیں اور کل ہی اس پہ تنقید شروع کر دیں کہ اس سے کیا حاصل ہوا صرف اس وجہ سے کہ وہ موجودہ مزاجِ حکومت سے میل نہیں کھاتا۔
  3. ہمیشہ مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا چاہیے نہ کہ وفاق کو انتہائی طاقتور بنانا چاہیے۔ وفاق کو مضبوط ترین بنانے کے دو طرفہ نقصانات ہیں ایک یہ کہ اس سے غیر جمہوری قوتیں مزید مضبوط ہوتی ہیں، دوم یہ کہ نچلے لیول پہ وفاق کے خلاف تعصب کے جذبے کو ہوا ملتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اسی طرف ایک پیش قدمی ہے اور اس سے آگے مزید اختیارات نیچے جانے چاہئیں نہ کہ اس کو ریورس کر کے پھر وہیں صفر کے مقام پہ آیا جائے۔
یہ مراسلہ کرنے کا اگرچہ کوئی فائدہ تو نہیں ہے کیونکہ آپ نے بات کو سمجھنے کی بجائے مزید دو چار لنک اور دائیں بائیں کی خبروں کا سہارا لے لینا ہے لیکن ہم اپنی طرف سے حجت تمام کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو ہونا بھی ایسے ہی چاہیے، لیکن ایک طرف آپ اٹھارویں ترمیم کی مخالفت کر کے وفاق کو مکمل با اختیار بنانے کی حمایت کرتے ہیں، دوسری طرف دلائل اس کے برعکس دیتے ہیں۔ کیا اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے مزید صوبے بن جائیں گے؟ ٹیکسز کے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جائیں گے؟ مسئلہ صرف آپ کا شخصیت پرستی ہے۔ عمران خان صاحب اگر آج اٹھارہویں ترمیم کے حق میں بات کرنا شروع کر دیں آپ فوراً سے اپنا قبلہ تبدیل کرتے ہوئے اس کی حمایت شروع کر دیں گے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے لیڈر سے محبت ضرور کریں لیکن تھوڑا غور و فکر کو بھی زحمت دیں۔
آپ پوسٹ کا اصل مدعا نہیں سمجھے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے بہت سارے اختیارات صوبوں میں چلے گئے تھے۔ حالانکہ ان کو مقامی حکومتوں یا بلدیات تک جانا چاہیے تھا۔ میں مضبوط وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا حامی نہیں ہوں۔ ۱۸ ویں ترمیم کی مخالفت اس لئے کی کیونکہ اس کے بعد آمر مشرف کا چھوڑا ہوا موثر مقامی حکومتوں کا نظام (سٹی ناظم) بھی صوبائی حکومتوں نے ختم کر دیا تھا۔ میرا مدعا یہ ہے کہ وفاق کو کمزور کر کے اور صوبوں کو طاقتور بنا کر مقامی سطح پر عام شہریوں کو کیا فائدہ ہوا؟ ان کو ریلیف دینے والی مقامی حکومتیں کا حال تو ۱۸ ویں ترمیم سے قبل والی حالت سے بھی زیادہ برا ہو گیا ہے۔ ۱۸ ویں ترمیم میں مقامی حکومتوں کو طاقتور بنانا چاہیے تھا نہ کہ صوبوں کو۔ یہ تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا حال ہو گیا۔ آج بہت سے معاملات میں وزیر اعلی وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے پاس وہ اختیارات بھی ہیں جو صرف سٹی ناظم کے پاس ہونے چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اٹھارہویں ترمیم کے بعد وقت ہی کتنا گزرا ہے؟ کتنی حکومتیں بدل گئیں؟ محترم نظام کی تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اگر صوبوں کو با اختیار بناتی ہے تو معاملات اس سے آگے بڑھ کر کسی دن مقامی حکومتوں کو بھی پہنچ جائیں گے نہ کہ اس کے برعکس ہم ریورس سٹیپ لے کر اٹھارہویں ترمیم ختم کر کے واپس سنٹرلائزیشن کے مقام پہ آ کر آمریت کو دعوت دیں جہاں ہم پچھلے ستر سال سے کھڑے ہیں۔ عمران خان صاحب کو تو ڈکٹیٹر بننے کا شوق ہے لیکن ہمیں قطعی نہیں ہے۔
۱۸ ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ عمران خان نے بھی صرف چند اختیارات جیسے محکمہ خوراک صوبوں میں منتقل ہونے کا شکوہ کیا تھا کہ اس کی وجہ سے اجناس ضرور یہ کی مہنگائی کو قابو کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ باقی تحریک انصاف پوری طرح سے مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے تیار ہے۔
’پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے تمام مراحل ستمبر سے پہلے مکمل کر لیے جائیں گے‘- Geo News Urdu
 

جاسم محمد

محفلین
نظام چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل نہ کیا جائے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو مشرف کے نظام کے ساتھ ہوا تھا۔ یاد رکھیے کہ آپ کے بھی بغیر اتفاق رائے کے بنائے جانے والے نظام کے ساتھ بھی وہی ہونا ہے چاہے آپ آج لاکھ اس کی خوبصورتی اور تعریفوں کے پل باندھتے رہیں۔
یہ کافی مزیدار دلیل ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ موجودہ کرپٹ نظام تمام اسٹیک ہولڈرز کی منشا سے قائم ہوا ہے۔ اور درمیان میں اکا دکا فوجی آمر آکر بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکے۔
۱۸ ویں ترمیم ۲۰۱۰ ہوئی تھی۔ اس کے بعد پانچ سال تک صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن کروانا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ وہ مشرف کا سٹی ناظم سسٹم ختم کر کے انگریز دور کا کمیشنر سسٹم بحال کر چکے تھے۔ پھر سپریم کورٹ نے اوپر سے آئینی ڈنڈا دیا تو چارو ناچار بلدیاتی انتخابات کروائے۔ البتہ تمام اختیارات بلدیاتی حکومتوں تک پھر بھی ٹرانسفر نہیں کئے۔
Delay in local government elections irks Supreme Court - Pakistan - DAWN.COM
 
Top