الف عین
لائبریرین
آج سے آٹھ سال پہلے کا لکھا ایک مضمون جو کل ہی رحمت صاحب سے حاصل کر سکا ہوں۔ یہ صفحہ ساز کے ورژن دو میں تھا جو محض ونڈوز 95 یا 98 میں کام کرتا ہے۔ اس لئے ان کے پاس کھول کر کاپی پیسٹ کر کےایک ٹیکسٹ فائل بنائی تھی۔ اور اپنے الف نطامی کے کنورٹر سے کنورٹ کر کے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ اس کی معلومات بہت سے لوگوں کو علم نہیں رہا ہوگا۔
///////
بیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ
اردو سافٹ ویر
ڈاکٹر رحمت یوسف زئی
پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
سنٹرل یونیور سٹی آف حیدرآباد
’ اردو کا رسم الخط بہت پیچی۔دہ ہے ‘
’ اردو کی سب سے بڑی کمزوری اس کا رسم الخط ہے ‘
اردو والے جب تک اپنا رسم الخط نہیں بدلیں گے ، ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں ہو سکتے ۔
یہ وہ جملے ہیں جو 7 4 کے بعد 0 8 تک متواتر سنے جاتے رہے ۔ خود اردو کے بعض اہم دانشوروں نے رسم الخط بدلنے کے لئے تج۔اویز پیش کیں ۔ لیکن اردو رسم الخط کے چاہنے والوں نے ایک نہ سنی ۔ کیوں کہ رسم الخط در اصل زبان کا لباس ہے اور اگر لباس بدل جائے تو اس کی شناخت ختم ہونا لازمی تھا ۔ تبدیلی کے لئے دو تجاویز تھیں ۔ ایک تو یہ کہ رومن رسم الخط اختیار کیا جائے ۔ تاکہ عالمی سطح پر ترسیل میں آسانی ہو ۔ اس تجویز کی بنیاد اس بات پر تھی کہ انگریزی حروف کے ٹائپ رائٹر ہر جگہ دستیاب تھے ۔ اس۔ رسم الخط کے ذریعے الکٹرانک میڈیا پر ٹیلی گرام ، ٹیلی پرنٹر وغیرہ کے ذریعے پیامات کو آسانی سے بھیجا جا سکتا تھا ۔
ہندوستان کے تںاظر میں دوسری تجویز یہ تھی کہ دیوناگری رسم الخط کو اختیار کرلیا جائے تاکہ ملک کے طول و عرض میں ہندی کے فروغ کے لئے جو کاوشیں ہو رہی ہیں ان سے استفادہ کر تے ہوئے اردو کی تحریروں کو بھی دوسری ہندوستانی زبان جاننے والوں تک پہنچانا ممکن ہو سکے ۔ یہ تجاویز خلوص پر مبنی ہوسکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی تھا کہ پھر زبان کی شناخت باقی نہ رہے گی اور سمندر میں قطرے کا اپنا وجود ختم ہو جائے گا ۔ چنانچہ اردو والے اپنے رسم الخط پر اڑے رہے۔ تھک ہار کر اردو ٹائپ کو فروغ دینے کی کوششیں ہوئیں۔ کافی کتابیں اسی تحریر میں شائع ہوئیں ۔ پاکستان میں بھی ٹائپ کو اپنا نے کے لئے کافی محنت کی گئی اور وہاں کے دانشوروں کی متعدد کتابیں ٹائپ میں طبع ہوئیں ۔ ٹائپ میں ایک خرابی یہ تھی کہ اس تحریر کو روانی سے پڑھنا دشوار تھا کیوں کہ اردو والوں کی آنکھیں نستعلیق کی عادی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد نے بھی الہلال کے کچھ شمارے ٹائپ میں طبع کئے ۔ منٹو کےبارے میں تو یہ سب ہی جانتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیاں راست ٹائپ رائٹر پر لکھا کرتے تھے ۔ 0 6ء سے 0 7ء تک کا بلکہ 08ء تک کا دور اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اردو ٹائپ رائٹر ہندوستان اور پاکستان میں بہت زیادہ استعمال ہونے لگے تھے اور اردو والے نہ چاہنے کے باوجود انھیں پڑھنے کے لئے مجبور تھے ۔ اور یہ عام طورپر سمجھا جانےلگا تھا کہ اب شایدنستعلیق کےلئے کوئی گنجائش نہیں رہی اورنستعلیق صرف ایک تزئینی خط کے طور پر رہ جائے گا ۔ اس ضمن میں سب سے اہم مثال ایران کی تھی جہاں نستعلیق ہی کا رواج تھا لیکن رضا شاہ پہلوی کے عہد میں ٹائپ کی سہولت سے استفادہ کرنے کی غرض سےنسخ کے ٹائپ رائٹرعام کئے گئے ۔ عرب میں چونکہ یہی رسم الخط رائج تھا اس لئے ان کو زیادہ آسانی تھی ٹائپ رائٹر بنانے والی بڑی کمپنیوں نے نسخ کے جو ٹائپ رائٹر تیار کئے تھے ان کی قیمت بھی انگریزی کےمقابلے میں بہت زیادہ نہ تھی۔ اس لئے بھی نسخ کے ٹائپ رائٹر مقبول ہوتے گئے۔جب ایران میں نسخ اختیار کر لیا گیا تو پھر وہاں نستعلیق آہستہ آہستہ داستان پارینہ بن گیا اور صرف لائیبریریوں کی زینت بنا رہا ۔ چنانچہ آج تک بھی وہاں نسخ ہی رائج ہے ۔ کہیں کہیں بڑے پوسٹروں اور بینروں پر نستعلیق نظرآجاتا ہے ۔ 1980کے آس پاس امریکہ کی مشہور کمپنی مائکرو سافٹ نے ’ ڈاس ‘ (Dos) ڈسک آپریٹنگ سسٹم پیش کیا تو کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب آگیا ۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تین چار پروگرامنگ کی اہم زبانیں رائج تھیں اور ان کو مشینی زبان میں منتقل کر نے کے لئے کمپائیلر ’ Compilers ‘ موجود تھے۔ڈاس کے مارکٹ میں آنے کے بعد Text یامتن کا کام زیادہ آسانی سے ہونے لگا ۔ پھر ورڈ اسٹار جیسے پیکیج منظر عام پرآئے اورکمپیوٹر عام زندگی میں داخل ہونے لگا۔ چھوٹے کمپیوٹر P C یعنی پرسنل کمپیوٹر اس زمانےمیں مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگے ۔ عرب ممالک کے لئے پٹرو ڈالر کی بدولت نسخ میں ڈاس تیار ہوا اور کمپیوٹر پر Text مرتب کرنے کا کام بھی کیا جانے لگا ۔ اس میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو ورڈ اسٹارکے لئے مخصوص تھا یعنی ہر تبدیلی کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ کچھ خاص ہدایات دینی پڑتی تھیں ۔نستعلیق کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہر حرف کی شکل اس کی نشست کے اعتبار سے بدل جاتی ہے ۔ اس سے سطر کی موٹائی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس لئے نستعلیق کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ کمپیوٹر کے لئے تویہ رسم الخط بالکل ہی ناقابل قبول ہے۔
آٹھویں دہائی کے آخر میں یعنی 9 7 کے لگ بھگ I B M )انٹرنیشنل بزنس مشینز( نے لیرز ٹائپ سٹنگ پرنٹر پیش کیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی طباعت کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ۔ اس طریقے میں یہ خوبی تھی کہ اس میں پلاٹر کے ذریعے گرافکس کو بھی کمپیوٹرسے کا غذ پر منتقل کرنا اور میگنٹک میڈیا جیسے ٹیپ اور فلاپی پر محفوظ کرنا ممکن ہو گیا تھا ۔
پاکستان کے ایک بہت بڑے Prestige Printers کے مالک مرزا جمیل احمد نے جب اس مشین کو دیکھا تو انھوں نے سوچا کہ نستعلیق میں طباعت کے لئے بھی اس مشین کا استعمال ممکن ہے ۔ مرزا جمیل احمد 0 8 9 1 میں سنگاپور میں منعقد ہونے والی ایک طباعت کی نمائش میں شرکت کے لئے گئے جہاں یہ مشین پیش کی گئی تھی جس میں گرافکس کے ذریعہ تیار کئے گئے نقش یا Image کو کمپیوٹر کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا تھا ۔ انھوں نے سوچا کہ اگر ایک Data Base تیار کیا جائے تو کلیدی تختے Key Board پرحروف ٹائپ کرکےمحفوظ شکلوں ( Ligatures ) میں سے متعلقہ شکل کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے اسکرین پر یا کاغذ پر مںتقل کرنا ممکن ہے ۔ اس طرح نستعلیق کو بھی کمپیوٹر پر لایا جاسکتا ہے۔ مرزا جمیل احمد جب پاکستان واپس آئے تو انھوں ںے روزنامہ جنگ کے ذمہ داروں سے بات چیت کی ۔ اس زمانے میں جنگ لندن سے بھی شائع ہو رہا تھا ۔ اور ان کے لئے لندن میں کتابت ایک اہم مسئلہ بن گئی تھی ۔ چنانچہ جنگ کے ذمہ داروں نے مرزا جمیل کے اس پراجکٹ کو Sponsor کیا ۔ ’جنگ ‘ کی مدد کی وجہ سے سرمایہ کی کوئی کمی نہ تھی اور خود جمیل صاحب بھی اس موقف میں تھے کہ کافی روپیہ خرچ کر سکیں۔ انہوں نے مشہور اور ماہر فن کاتبوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ نستعلیق میں استعمال ہونے والی مختلف اشکال ( Ligatures) تیار کریں ۔ اور پھر چھ سات مہینوں کے اندر ہی مرزا جمیل نے ایک سسٹم تیار کر لیا اور جنگ کی طباعت کمپیوٹر کے ذریعے ہونے لگی ۔ مرزا جمیل کے والد کا نام مرزا نور احمد تھا اور ان کے بزنس گروپ کا نام بھی النور تھا ۔ مرزا جمیل نے اپنے والد کے نام پر ہی اس خط کا نام نوری نستعلیق رکھا ۔ 82 ئ تک سات آٹھ ایسے پبلشنگ ادارے وجود میں آگئے جن کے ہاں نوری نستعلیق کے ذریعے کتابت کا کام ہوتا تھا ۔
ہندوستان میں 7 8 9 1 کے لگ بھگ یہاں کے ایک اخبار ہند سماچار نے بھی اس طریقہ کتابت کو اختیار کیا ۔ ان کے لئے آسانی یہ تھی کہ ان کے ہاں مونو ٹائپ سٹنگ مشین پہلے ہی سے موجود تھی اور وہ لیزر ٹائپ سے استفادہ کررہے تھے ۔ ان کو صرف اردو کے فونٹ یا حروف کی شکلیں درکار تھیں ۔ جو انھوں نے مرزا جمیل سے کسی توسط سے حاصل کر لیں اور اس طرح ہندسماچار ہندوستان کا پہلا اخبار بن گیا جہاں کمپیوٹر پر کتابت ہونے لگی ۔ نوری نستعلیق کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں طغرے کی سی خوبصورتی تھی ۔ کیوں کہ مرزا جمیل نے اس دور سے بہترین کاتبوں کو نقش سازی یا Ligature کی تیاری پر مامور کیا تھا ۔ البتہ اشکال کو Monotype والوں کی ہدایت کے مطابق اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ سطر کی موٹائی متاثر نہ ہو ۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ کمپیوٹر میں موجود اشکال ہی کے ذریعے کتابت ممکن تھی۔ اور اگر کوئی نیا لفظ یا نئی شکل آجاتی تو یہاں نسخ کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔اور پھر بعد میں اس کے Ligature تیار کر کے یاد داشت میں داخل کر لیے جاتے تھے ۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ حروف کے اختتام پر جو باریک سی نوک بن جاتی ہے اس کو بالکل اسی طرح پیش کرنا ممکن نہ تھابلکہ نوک قدرے جلی ہوجاتی تھی ۔ ویسے بھی اخبار کے لئے وقت کی قیمت ہوتی ہے ۔ صرف خوبصورتی اور نزاکتوں پر دھیان دیا جاتا تو وقت زیادہ خرچ ہونے کا امکان تھا ۔ اس لئے نوری نستعلیق میں ان نزاکتوں سے صرف نظر کیا گیا تھا ۔ ادھر حیدرآباد میں کافی عرصہ قبل یعنی سقوط حیدرآباد سے بہت پہلے نستعلیق کا کمپوزنگ نظام وجود میں آچکا تھا ۔ چنانچہ دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کی کئی کتابیں اسی نظام کو استعمال کر کے شائع کی گئیں ۔ جن کے نمونے آج بھی ملک کی کئی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن امتداد زمانہ نے کمپوزنگ نظام کے سارے ذخیرے کو اس طرح ضائع کر دیا کہ اب اس نظام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔
البتہ حیدرآباد کے ایک کاتب تھے جوریاست حیدرآباد کے سرکاری محکمہ طباعت میں کام کرتے تھے ۔ ان کا نام عبد القادرتھا ۔کہا جاتا ہے کہ وہی اس کمپوزنگ نظام کے خالق تھے ۔ انھوں نے اس نظام کے تختے بنا رکھے تھے اور ان تختوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔چونکہ انھوں نے اس پر کافی محنت کی تھی اور یہ ان کی زندگی کا حاصل تھا اس لئے انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ یہ تختے اگر کسی کے ہاتھ لگ جائیں تو پھرانھیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اس خیال کے تحت انہوں نے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ اگر کوئی ان تختوں کو دیکھنا اور حاصل کرنا چاہے تو پہلے ایک لاکھ روپیہ ادا کرے تب وہ اپنے تختے دکھائیں گے ۔ دہلی کے مشہور رسالے شمع کے مدیر یونس دہلوی نے بھی کوشش کی کہ وہ ان تختوں کو دیکھیں اور اگر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہو تو انہیں رقم بھی ادا کی جائے لیکن عبد القادر صاحب مصر رہے کہ پہلے ایک لاکھ ردپیے دیئے جائیں اور کسی کی ہمت نہ پڑی کہ صرف عبد القادر صاحب کے کہنے پر رقم دے دی جائے ۔ ںتیجہ یہ ہوا کہ وہ تختے یوں ہی پڑے رہے۔ پھر ان کا اںتقال ہو گیا اور اس کے بعد یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ تختے کہاں ہیں اور کیا ہو ئے ۔ 84۔ 3 8 9 1 ء میں حیدرآباد ہی کے ایک نوجوان جاوید نے نستعلیق طباعت کے اس پراجکٹ پر کام شروع کیا ۔ یہ ایک عجیب و غریب شخصیت تھی۔ اس کے بارے میں اردو سافٹ ویر کے انجینیر اشہر فرحان نے بتایا کہ یہ نوجوان بے حد ذہین اور خلاقانہ صلاحیتوں کا حامل تھا ۔ وہ خود کاتب تھا ، مصوری کا ذوق رکھتا تھا ۔ سنگتراشی سے دلچسپی تھی ، مولڈنگ کا بھی شوق تھا ۔ بڑی بڑی گھڑیاں اور ان کے پرزے وہ خود تیار کرتا تھا اور نہ جانے کیا کیا ۔ جاوید جب حیدرآباد کے ایک مشہور اور قدیم ادارے دائر² المعارف سے وابستہ ہوا تو اس نے وہاں کام کرنے والے کچھ قدیم لوگوں سے مدد لے کر دارالطبع اوردائر² المعارف میں شائع ہونے والی کتابوں کا تجزیہ کیا اور اپنے طور پر نستعلیق کے جوڑ تیار کئے جن کی خصوصیت یہ تھی کہ حروف کی نشست کے اعتبار سے ان میں ایک کیل کی شکل کا Locking System تھا اور وہ مقررہ نشست پر ہی فٹ ہو سکتا تھا ۔
جاویدکویہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ کام کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے ۔ لیکن وہ خود کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھا ۔ چنانچہ اس نے حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم Octal Computers سے ربط پیدا کیا جس کے کرتا دھرتا دو نوجوان ایوب اور طارق تھے ۔ یہ دونوں کمپیوٹر انجینیر تھے ۔اور ان کی فرم بزنس پروگرامنگ کا کام کرتی تھی ۔ ان کے سارے پروگرام Cobal میں لکھے جاتے تھے جو بزنس اپلیکیشن کےلئے آج بھی بہت اہم کمپیوٹر کی زبان مانی جاتی ہے۔ یہ دونوں گرافکس سے واقف ضرور تھے لیکن ان کی دلچسپی پروگرامنگ میں زیادہ تھی ۔ ان دونوں نے اشہرفرحان سے ربط پیدا کیا جو ان کے جونیر طالب علم تھے اور اس وقت انجنیرنگ کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ یہاں اشہر فرحان کے بارے میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ ان کے والد پروفیسر انور معظم عثمانیہ میں اسلامیات کے صدر شعبہ تھے اوراب وظیفہ پرسبک دوش ہو چکے ہیں ۔ اشہر فرحان کی والدہ اردو کی مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو ہیں ۔گرافکس اشہر فرحان کا پسندیدہ موضوع تھا جس سے ایوب اور طارق واقف تھے ۔ چنانچہ نستعلیق کا پراجکٹ شروع کیا گیا جس کے ایک تہائی حصہ دار اشہر فرحان تھے ۔ ایک تہائی حصہ جاوید کا اور ایک تہائی حصہ Octal Computer کا تھا ۔ اس طرح اردوایڈیٹر پر کام شروع ہوا ۔ کام کچھ آگے بڑھا لیکن پھر ایوب اور طارق کی مصروفیات بڑھتی گئیں ۔ ایوب شیر بزنس اور اسٹاک مارکٹ میں داخل ہوئے ۔ اور آج کل وہ ایک اہم شیر بروکر ہیں ۔ طارق نے یورپ کی راہ لی ۔ اوراس طرح Octal کمپیوٹرز کی فرم بند ہوگئی ۔ اور بظاہرنستعلیق کا کام ٹھپ ہو گیا ۔ جاوید بھی Octal کے بند ہونے کی وجہ سے بد دل ہو گئے ۔ اور دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ۔ لیکن فرحان نے اپنے طور پر فرصت کے اوقات میں اس کام کو جاری رکھا ۔ آہستہ آہستہ وہ کامیابی کی طرف بڑھتے رہے اور بڑی حد تک مشکلات پرقابو پا لیا ۔ لیکن پھر اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے وہ بھی زیادہ توجہ نہ دے پائے ۔ پھر ان کے ہاں خود ان کا اپنا کمپیوٹر بھی نہ تھا اس لئے اس کام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔ جاویدنے جو چارٹ تیار کئے تھے وہ انہی کے پاس محفوظ تھے ۔ جاوید حیدرآباد کے مشہور روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان صاحب مرحوم سےملے اور ان سےمدد کی درخواست کی ۔ عابد علی خان صاحب جاوید کو اپنے ساتھ دہلی لے گئے اور وسنت ساٹھے سے ملاقات کروائی جو اس وقت مرکزی وزیر تھے ۔ وسنت ساٹھے نے حکومت کی طرف سے گرانٹ دلوانے کا وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔ںتیجہ یہ ہوا کہ یہ کوش۔ش بھی بار آور ثابت نہ ہو سکی ۔
جاوید کا مکان حیدرآباد کے ایک قدیم محلے حسینی علم میں تھا ۔ وہیں حیدرآباد کے ایک ادیب ، دانشور اور محقق جناب تصدق حسین تاج رہتے تھے ۔ یہ وہی تصدق حسین تاج ہیں جنھوں نے ’ مضامین اقبال ‘ مرتب کر کے حیدرآباد سے شائع کی تھی ۔ ان کی پوتی پاکستان میں انعام علوی سے بیاہی گئی تھی ۔ انعام علوی شادی کے بعد ہنی مون پر حیدرآباد آئے ۔ ان کا قیام حسینی علم میں تھا ۔ وہ ایک بڑی گھڑی خریدنا چاہتے تھے ۔ کسی نے ان کو جاوید کے بارے میں بتایا ۔ انعام نے جاوید سے ملاقات کی ۔ جاوید نے باتوں باتوں میں نستعلیق کے پراجکٹ کے بارے میں بتایا ۔ انعام خود بھی کمپیوٹر پروگرامنگ کے ماہر تھے اور کویت میں بزنس ایپلیکشن کا کام کرتے تھے ۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پراجکٹ کافی اہم ہے ۔ انہوں نے جاوید کو معتد بہ رقم دے کر وہ چارٹ حاصل کر لئے اور پاکستان واپس ہو گئے ۔ چونکہ انعام کا میدان بزنس اپلیکشن تھا اس لئے گرافکس کا یہ کام ان سے سنبھل نہ پایا ۔ لیکن وہ برابر اس تگ و دو میں رہے کہ اس پراجکٹ کو کسی طرح آگے بڑھایا جائے ۔ اسی دوران فرحان نے BE مکمل کر لیا اور حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم IDS میں کام کرنے لگے ۔انہیں پتہ نہیں تھا کہ جاوید نے وہ چارٹ انعام کے حوالے کر دیئے ہیں۔ IDS کے مالک ارون کمارفرحان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور فرحان ان کو اپنا گرو مانتے تھے ۔ فرحان نے ارون کمار سے مشورہ کیا اور ان کی مدد حاصل کرنی چاہی لیکن ارون کمارنے صلاح دی کہ فرحان IDS کی ملازمت ترک کر کے خود اپنی ایک فرم قائم کریں اور اپنے بل بوتے پر اس پراجکٹ کو آگےبڑھائیں ۔ چنانچہ فرحان نے تیرہ ہزار روپیہ میں ایک پرانا کمپیوٹرخریدا اور کمپیوٹر کارپوریشن کے نام سے ایک فرم قائم کر کے اپنے طور پر اس کام کو آگے بڑھاتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اردوٹکسٹ ایڈیٹرکو مکمل کر لیا ۔
ادھر انعام علوی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اس پراجکٹ کو آگے بڑھائیں۔ جب انھیں یہ محسوس ہوا کہ انھیں مدد درکارہے تو انھوں نے جاویدکو پاکستان بلایا ۔جاوید پاکستان گئے لیکن وہ کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھے اس لئے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی ۔ جاوید حیدرآباد واپس آگئے ۔ اور یہاں ان کی ملاقات جب اشہرفرحان سے ہوئی تو فرحان نے بتایا کہ وہ اس پروجکٹ کا ابتدائی کام مکمل کر چکے ہیں ۔ اور ٹکسٹ ایڈیٹر تیار ہو چکا ہے ۔ پھر فرحان نے اپنے کمپیوٹر پرجاوید کو نستعلیق میں کمپوز کر کے اسکرین پر اس کا نمونہ بھی دکھایا ۔ جاوید نے بتایا کہ اس نے اپنے چارٹ انعام علوی کو فروخت کر دیئے تھے ۔ بہر حال جاوید نے پھرانعام علوی سے ربط قائم کیا اور انھیں حیدرآباد آنے کی دعوت دی ۔ انعام حیدرآباد آئے ۔ فرحان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ انعام کے ہاں بھی پیسے کی کمی نہ تھی۔ ان کے ہاں پاکستان میں پلاٹر ، اسکینر وغیرہ سب کچھ موجود تھا ۔ انعام نےفرحان سے خواہش کی کہ وہ ان کے ساتھ پاکستان چلیں اور وہیں اپنا کام مکمل کریں ۔ فرحان پاکستان گئے ، وہاں کام کیا ۔چند ہی مہینوں میں یہ کام پورا ہو گیا ۔ پھرفرحان ہندوستان واپس آگئے ۔ طے یہ پایا کہ پاکستان میں اس کی مارکٹنگ انعام کے ذمے ہوگی اور ہندوستان میں فرحان یہ کام سنبھالیں گے ۔ فرحان نے جولائی 8 8 ء میں اردو کا پہلا سافٹ ویر پیش کیا ۔ یہ سافٹ ویر DOS پرمنحصرتھا۔ جس کا افتتاح جناب عابد علی خان کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔ اور جناب عابد علی خان نے اپنی افتتاحی تقریر میں اعلان کیا کہ 5 1 اگست 8 8 ء میں اردو سے اخبار سیاست کمپیوٹر پر نکلے گا ۔ جس محفل میں یہ سافٹ ویر پیش کیا گیا اس میں حیدرآباد کے کئی اہم کاتب اور کمپیوٹر سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب موجود تھے ۔ کسی نے پسند کیا ، کسی نے اعتراض کیا ، کسی نے خامیوں کی نشاندہی کی بہر حال ’سیاست ‘ میں اس نظام پر پہلی مرتبہ کام شروع ہوا۔ ابتدا میں چند سطروں پر مشتمل خبریں اور چھوٹے آرٹیکل کمپیوٹر کتابت کے ذریعے شائع ہوئے ۔ 5 1 اگست 8 8 ئ سے دو کالم کی کتابت ہونے لگی اور آہستہ آہستہ ایک دو ماہ میں پورا اخبار کمپیوٹر پر شائع ہونے لگا ۔ اس نظام کا نام UCS یعنی اردو کمپیوٹر سسٹم رکھا گیا ۔
اشہر فرحان نے ایک شخصی ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ اس سارے کام کا سہرا جاوید کے سر جاتا ہے جس نے نستعلیق کے جوڑ تیارکرنےکا بنیادی کام کیا پھرفرحان اور جاوید نے مل کر ان جوڑوں کے گروپ بنائے ۔ مختلف سائزوں کے اعتبار سے الگ الگ گروپ بنائے گئے اورنظام یوں تیار ہوا کہ مخصوص حالتوں میں کچھ خاص قسم کے جوڑ ہی اس طرح استعمال کیے جائیں تاکہ نستعلیق کی خوبصورتی متاثر نہ ہونے پائے ۔ اس نظام میں ہر حرف اور اس کے جزو کا نشست کے اعتبار سے علٰحدہ جوڑ تھا اور حروف اس طرح پیوست ہوتے تھے کہ درمیان میں کسی طرح کا نشان نہ رہے ۔ ابتدا میں جاوید نے اس طریقے کو استعمال کر کے 150 جوڑ تیار کئے تھے ۔ جب فرحان نے ان جوڑوں کو کمپیوٹر یاد داشت میں شامل کیا تو مزید جوڑ تیار ہوئے اور ان کی تعداد 211 ہو گئی ۔ پھر جہاں جہاں کمی یا خامی محسوس کی گئی وہاں نئے جوڑ تیار کر کے انھیں بھی شامل کیا جاتا رہا ۔ اور اب یہ تعداد 585 تک پہنچ چکی ہے ۔ فرحان نے مختلف قسم کے ان جوڑوں کو 9 خاندانوں میں تقسیم کیا اور چار ہزار سے زیادہ قاعدے یا Rules بنائے ۔ Ligature یا اشکال پر محیط نظام میں اور اس Character base یا حروف پر محیط نظام میں فرق یہ ہے کہ اس میں ایم ایس ورڈ کی طرح ہر بارنئی فائل تیار ہوتی ہے جب کہ اشکالی نظام میں پہلے سے موجود شکلوں پر ہی انحصارکرناپڑتا ہے ۔ اس نئے نظام میں کسی بھی نئے لفظ کو بڑی آسانی سے کمپوز کرنا اور سطر کی حد میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے ۔
ابتدا میں جب فرحان نے کام شروع کیا تو ان کے ذہن میں پلاٹر کی ٹکنک تھی ۔ لیکن اگر اس پر کام کیا جاتا تو وہ بہت صبر آزما ہوتا ۔ اوروقت بھی زیادہ خرچ ہوتا ۔ پلاٹر کے ذریعے اگر اخبار کے ایک صفحے کی کتابت کی جاتی تو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ سکتا تھا ۔ اور پھر اس پروگرام کو محفوظ رکھنے کے لئے کئی فلاپیاں Floppies درکار ہو سکتی تھیں ۔ جب کہ UCS یعنی اردو کمپوزنگ سسٹم میں جو طریقہ اختیار کیا گیا اس میں جگہ اور یاد داشت بھی کم درکار تھی اور نستعلیق کے دائروں اور نوک کی خوبصورتی بھی موجود تھی ۔ اس لئے یہ خط دوسرے Fonts کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب ہے ۔ جو Font یوسی ایس میں استعمال کیے گئے ان کو ابتدا میں کوئی نام نہیں دیا گیا بلکہ 01 ، 02 ، 03 کی فائل بنادی گئی ۔ بعد میں مختلف فونٹ کے لئے مختلف نام دیئے گئے ۔ نستعلیق کے لئے عابد کا نام دیا گیا جو روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان کے نام پر تھا ۔ فرحان نے جوڑوں کے لئے جو اصول تیار کیئے وہ سارے پروگرام کے تابع تھے اورپروگرام اس طرح تیار کیا گیا کہ اصولوں کے ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کر کے خودبخود مخصوص قسم کا جوڑ استعمال ہوتا ہے ۔ اس ابتدائی سافٹ ویر UCS کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے یکے بعد دیگرے دو ورژن پیش کئے گئے ۔ ’ سیاست ‘ کے بعد روزنامہ منصف اور پھررہنمائے دکن اور دوسرے اخبارات نے بھی اس طریقہ کتابت کو اپنایا ۔ اورحیدرآباد سے نکلنے والے تمام اہم اخبارات کے علاوہ بمبئی کے انقلاب ، اردو ٹائمز اور بنگلور کے سالار نے بھی اسی طریقے پر کتابت شروع کر دی ۔
فرحان کے مطابق ان سے ایک غلطی ہوئی ۔وہ یہ کہ انھوں نے اپنے سسٹم کو شروع میں Desk top آپریٹرزسے دور رکھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سسٹم کے گاہک اخبارات تھے اور ان کی ضروریات کو مد نظر رکھنا ضروری تھا ۔ لیکن جب چھوٹے کمپیوٹر عام ہوئے اورفرحان کا تیار کردہ سسٹم ایک فلاپی پر محفوظ کرنے کے قابل ہوا تو Desk top آپریٹروں کی ایک بڑی تعداد تیار ہو گئی جس نے اس نظام کے ذریعے کتابوں کی کتابت کا کام شروع کیا اور یوں روزگار کے حصول کا ایک نیا ذریعہ وجود میں آیا۔ Microsoft نے DOS کے بعد ونڈو کا نظام تیار کیا اور Windows .1 بازار میں آیا تو فرحان نے اپنے سسٹم کو ونڈو پرمںتقل کیا ۔ لیکن ونڈو کا پہلا ورژن فرحان کی ضرورتوں کے مطابق نہ تھا اسلئے کام آگے نہ بڑھ سکا ۔ جب Window 3.1 متعارف کیا کیا تو یہ نظام فرحان کے لئے زیادہ کار آمد تھا ۔ چنانچہ Window 3.1 کو استعمال کر کے فرحان نے Page Composer یا صفحہ ساز تیار کیا ۔ یہ ورژن محدود تعداد میں فروخت ہوئے اور خامیوں کی وجہ سے زیادہ مقبول نہ ہو سکے ۔ پاکستان میں انعام علوی نے اس صفحہ ساز کو گلوبل کے نام سے جاری کیا پھر کسی وجہ سے فرحان اور انعام کے درمیان ربط ٹوٹ گیا اور گلوبل کا کام وہیں تک محدود رہا۔ جب مائکرو سافٹ نے Windows 95 جاری کیا تو یہ نظام فرحان کی ضرورتوں کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ فرحان نے پیج کمپوزر یا صفحہ ساز کا نیا ورژن مارکٹ میں پیش کیا جو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے ۔ Windows پر محیط اس نظام یا اس جیسے دوسرے سسٹم تک رسائی ہر ایک کے لئے ممکن نہ تھی کیوں کہ ان میں ایک خاص قسم کا لاکنگ سسٹم شامل کر دیا گیا تھا تاکہ اس کی نقل یا کاپی کرنا ممکن نہ ہو سکے ۔ جس کمپیوٹر کے لئے اس نظام کو خریدا جاتا ہے اس کے ساتھ ایک لاک Dongal بھی ہوتا ہے ۔ چونکہ پیج کمپوزر ،کاتب ، شاہکار، گلوبل وغیرہ تجارتی بنیادوں پر کام کر رہے تھے اس لئے یہ اقدام ضروری بھی تھا ۔ تبھی فرحان نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ۔ انھوں نے ایک محدود نظام تیار کیا اسے مفت تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح جس کسی کے پاس کمپیوٹر ہو اور اس پر Windows 95 موجود ہو وہ اس نظام کو بغیر کسی ادائی کے حاصل کر کے استعمال کر سکتا ہے ۔ انہوں نے اس محدودنظام کو Share ware کا نام دیا اور اسے انٹر نٹ پر پیش کر دیا جہاں سے دنیا بھر میں کوئی بھی اس نظام کو اپنے کمپیوٹرمیں شامل کر سکتا ہے یا پھر فرحان سے راست ربط پیدا کر کے مفت حاصل کر سکتا ہے ۔ اس کے پیچھے فرحان کی ایک دلچسپ منطق ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح ایک تخلیقی کام پرسب کا حق ہوتا ہے بالکل اسی طرح سافٹ ویر پر بھی سب کا حق ہونا چاہیے ۔ یہ نظریہ دراصل کمیپوٹر پروگرامنگ کے باوا آدم Dollbute کا ہے جس نے یہ تحریک چلائی تھی کہ کمپیوٹر پروگرامنگ بھی ایک تخلیقی کام ہے اور اس تک رسائی کا حق ہر ایک کو ہونا چاہیے ۔
سچ بات تو یہ ہے کہ فرحان نے جو کام کیا ، وہ اگر کسی اور زبان کے لئے کیا گیا ہوگا تو اس کے لئے دولت کے انبار لگ گئے ہوتے ۔ لیکن ان کے پیش نظر دولت کا حصول نہ تھا ۔ بلکہ وہ عوامی سطح پر اپنے سسٹم کو پہنچانا چاہتے تھے ۔ البتہ صفحہ ساز یا Page Compuser کا جو تجارتی ورژن ہے اور زیادہ سہولتوں کا حامل ہے اس کی قیمت غالبا چودہ ہزار روپیہ رکھی گئی ہے ۔
94-95ء میں کچھ اورپیکیج منظر عام پرآئے ۔ ’کاتب ‘نام کا پیکیج پاکستان میں تیار کیا گیا یہ بھی Charecter base ہے ۔ اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہ مل سکیں لیکن جس نہج سے یہ پروگرام کام کرتا ہے اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ انعام علوی ہی کےپروگرام پر انحصار کرتا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ’ کاتب ‘ کی بھی مفت تقسیم عمل میں آرہی ہے ۔ ’ شاہکار ‘ کے نام سے پیش کیا جانے والا سافٹ ویر بھی نوری نستعلیق ہی کی ایک شکل ہے ۔ اور یہ بھی Ligature base ہے یعنی اشکال پر انحصار کرتا ہے ۔
تین چار سال قبل میں نے فرحان سے کی بورڈ کے ضمن میں گفتگوکی تھی اور یہ تجویز رکھی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں رائج نسخ اور ںستعلیق کے پروگراموں میں استعمال کئے جانے والے کی بورڈ یا کلیدی تختہ کو ایک اسٹینڈرڈ پر لانے کےلئے کوشش کی جائے بالکل ویسے ہی جیسے انگریزی کا کلیدی تختہ ہر جگہ ایک ہی ہے چاہے وہ کسی کمپنی کا تیار کردہ ہو ۔ یہی طریقہ نسخ اور نستعلیق کے لئے بھی رائج کرنا چاہیے ۔ مگر Window 95 میں موجود سہولت کی وجہ سے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہر استعمال کرنے والا اپنی پسند اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنا کی بورڈ ترتیب دے لے اور کسی بھی حرف کے لئے اپنے حساب سے کسی Key کو نامزد کر لے ۔ ہندوستان ہی میں ایک اور اہم Package منظر عام پر آیا جس کا نام ان پیج ہے ۔ یہ پیکیج دہلی کے وہ نوجوانوں آر پی سنگھ اور وجئے کرشن گپتا نے اپنے اردو جاننے والے دوستوں کی مدد سے تیار کیا ۔ یہ دونوں خود اردو سے واقف نہیں لیکن کمپیوٹر پر مہارت اور اردو سے ذاتی دلچسپی نے انھیں اس پیکیج کی تیاری کی طرف متوجہ کیا ۔ Inpage میں وہی ٹکنک استعمال کی گئی ہے جو نوری نستعلیق کی بنیاد ہے یعنی اشکال پرمنبی نظام ۔ اس نظام پر 93 ہی میں کام شروع ہو چکا تھا جب Window3.1 کا دور دورہ تھا ۔ لیکن Window 95 کے آنے کے بعد ہی 95 میں اس نظام کومارکٹ میں پیش کیا گیا ۔ اشکال یا Ligature پر مبنی اس نظام میں اب تک اٹھارہ ہزار اشکال شامل کی گئیں ہیں اور تقریباً ہر ممکنہ لفظ کی شکل اس نظام میں موجود ہے ۔ تازہ ترین اطلاع کے بموجب اب اس میں بائیس ہزار اشکال موجود ہیں ۔ اس نظام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اردو کے ساتھ عربی ، فارسی ، کشمیری ، سندھی ، ہزارگی اورخوردش فیچر بھی شامل ہیں اورساتھ ہی ساتھ دوسری کسی بھی ہندوستانی یا بیرونی زبان کا خط اس میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کے لئے اس زبان کے فونٹ حاصل کر کے کمپیوٹر میں داخل کرنے ہونگے ۔ اورجو فونٹ ونڈوز کی لائبریری میں موجودہیں ان کو راست حاصل کر کے اردو کے ساتھ بیک وقت استعمال کرنا ممکن ہے ۔ ان پیج کے پہلے ورژن 1.1 میں کچھ خامیاں تھیں جو نئے ورژن میں دور کر لی گئی ہیں ۔کورل ڈرا کی سہولت بھی اس کا ایک جزو ہے اس لئے اس پیکیج کےذریعہ تزئین کا کام بھی بڑی خوبصورتی سے کیا جا سکتا ہے ۔اس میں ریاضی کی مختلف علامات کے لئے ایک ایکویشن ایڈیٹر بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ریاضی پر مبنی متن کا کام بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں اس میں (Color Seperation) کا کام بھی ممکن ہو گیا ۔ یعنی رنگوں کو علیحدہ کر کے کلر آفسٹ کا کام بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ان پیج میں ایک اہم سہولت یہ بھی ہے کہ لفظ کو آگے پیچھے یا اوپر نیچے ہٹایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے تحریر میں کتابت کا حسن پیدا ہو جاتا ہے ۔
اس پیکیج میں بھی تجارتی بنیادوں پر تحفظ کے لئے Dongle کا لاک موجود ہے اس لئے اس کو کاپی کرنا یا نقل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان پیج کا پرانا ورژن 1.1 اب بغیر لاک کے بھی استعمال ہو رہا ہے ۔ اور لوگ اس کی نقلیں حاصل کر رہے ہیں ۔
انٹر نیٹ کے عام ہوجانے سے ترسیل کی دنیا میں بڑی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ E mail اب عام ہو گیا ہے اور سستا بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے اردو کو ایک خطرہ بھی در پیش تھا ۔ وہ یہ ہے کہ E mail پر جو پیغام بھیجے جاتے ہیں وہ رومن اردو میں ہوتے ہیں ۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کرحیدرآباد کے اخبار سیاست نے اردو میں E mail کا نظام روشناس کرایا ہے ۔ یعنی اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ اپنا پیغام اردو رسم الخط میں E mail کر سکیں ۔ اس میں البتہ ایک لزوم یہ ہے کہ پیغام بھیجنے والے اور پیغام وصول کرنے والے کمپیوٹر پر اردو کا ٹکسٹ ایڈیٹر ہونا ضروری ہے ۔ اردو کمپوزنگ یا کتابت کے ان کمپیوٹر پر مبنی نظاموں کی وجہ سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کاتبوں کی روزی روٹی پر اثر پڑا ہوگا ۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے ۔ کاتب اور خصوصاً ایک فن کار کاتب کی ضرورت تو ہر زمانے میں رہے گی ۔ بڑے بیز ، سائن بورڈ اور اس طرح کے دوسرے کاموں کے لئے تو کمپیوٹرفی الحال کار آمد نہیں ہے ۔ تزئینی خط میں نئی نئی اختراعات کے مواقع اب بھی ہیں ۔ اور اگر کاتب ہاتھ سے کتابت کرنے کی بجائے کمپیوٹر سے کتابت کرنے لگے تو شاید وہ کاتب نہ کہلائے بلکہ اسے ڈسک ٹاپ آپریٹر کہا جائے لیکن روزگار تو یہاں بھی ہے ۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آج سے بیس سال پہلےکتابت کے جو مسائل تھے اور اردو کے مصنف کو جن دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا تھا وہ اب باقی نہیں رہے ۔ اب تو یہ معاملہ ہے کہ پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب کی کمپوزنگ دو تین دن میں کر لی جا سکتی ہے بلکہ اگر دو تین کمپیوٹر پر کام ہو تو ایک ہی دن کافی ہے ۔
ایک الزام کمپوٹر پر یہ بھی ہے کہ یہ غلطیاں بہت کرتا ہے ۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ۔ جب کبھی کوئی غلطی نظر آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹر کی غلطی ہے ۔ اور یہ صورت حال ہر جگہ ہے ۔ اگر میٹرک یا انٹر میڈیٹ کے نتائج میں غلطی پکڑی جائے تو الزام کمپیوٹر کے سر جاتا ہے جب کہ ٹائپ میں کی گئی غلطی کو ہم ٹائپ رائٹر کی غلطی نہیں کہتے ۔ ٹائپسٹ کی غلطی کہتے ہیں ۔ ایسی ہی صورت کمپیوٹر کی بھی ہے ۔ در اصل غلطی کمپیوٹر کی نہیں ہوتی ۔ یا تو آپریٹر غلطی کرتا ہے یا پھر پروگرام میں ہی کسی طرح کی خامی ہوتی ہے البتہ ایک دشواری یہ ضرور پیش آتی ہے کہ جب متن کو ایڈٹ کیا جائے یا اس میں رد و اضافہ کیا جائے تو اس عمل کے بعد کے سارے متن پر اثر پڑتا ہے اور سارا متن اسی حساب سے آگے یا پیچھے ہوجاتا ہے ۔ تصحیح کرنے والا سوچتا ہے کہ جو کچھ اس نے تصحیح کی تھی وہ تو ٹھیک کرلی گئی لہذا کام مکمل ہے ۔ لیکن کبھی کبھی سطر کے آخیر میں آنے کی وجہ سے نام یا اضافت سے بنی ہوئی تراکیب کا آدھا حصہ دوسری سطر میں چلا جاتا ہے اور اگر ایک بار پھر نظر ثانی کر لی جائے تو یہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہتا ۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب اخبارات ، کتابیں رسالے سبھی کچھ کمپیوٹر کے ذریعے اشاعت پذیر ہو رہے ہیں ۔ اور اب کسی کو یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اس رسم الخط کو بدل دینا چاہئے کمپیوٹر کی وجہ سے اردو کی بقا کی نئی راہیں ںکل آئی ہیں ۔ اب یہ زبان عالمی سطح پر الکٹرونک میڈیا کے توسط سے گھرگھرپہنچ رہی ہے ۔ کیا یہ اکیسویں صدی کے اردو والوں کے لئے بیسویں صدی کا ایک سب سے بڑا اور اہم تحفہ نہیں ! ooOoo
///////
بیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ
اردو سافٹ ویر
ڈاکٹر رحمت یوسف زئی
پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
سنٹرل یونیور سٹی آف حیدرآباد
’ اردو کا رسم الخط بہت پیچی۔دہ ہے ‘
’ اردو کی سب سے بڑی کمزوری اس کا رسم الخط ہے ‘
اردو والے جب تک اپنا رسم الخط نہیں بدلیں گے ، ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں ہو سکتے ۔
یہ وہ جملے ہیں جو 7 4 کے بعد 0 8 تک متواتر سنے جاتے رہے ۔ خود اردو کے بعض اہم دانشوروں نے رسم الخط بدلنے کے لئے تج۔اویز پیش کیں ۔ لیکن اردو رسم الخط کے چاہنے والوں نے ایک نہ سنی ۔ کیوں کہ رسم الخط در اصل زبان کا لباس ہے اور اگر لباس بدل جائے تو اس کی شناخت ختم ہونا لازمی تھا ۔ تبدیلی کے لئے دو تجاویز تھیں ۔ ایک تو یہ کہ رومن رسم الخط اختیار کیا جائے ۔ تاکہ عالمی سطح پر ترسیل میں آسانی ہو ۔ اس تجویز کی بنیاد اس بات پر تھی کہ انگریزی حروف کے ٹائپ رائٹر ہر جگہ دستیاب تھے ۔ اس۔ رسم الخط کے ذریعے الکٹرانک میڈیا پر ٹیلی گرام ، ٹیلی پرنٹر وغیرہ کے ذریعے پیامات کو آسانی سے بھیجا جا سکتا تھا ۔
ہندوستان کے تںاظر میں دوسری تجویز یہ تھی کہ دیوناگری رسم الخط کو اختیار کرلیا جائے تاکہ ملک کے طول و عرض میں ہندی کے فروغ کے لئے جو کاوشیں ہو رہی ہیں ان سے استفادہ کر تے ہوئے اردو کی تحریروں کو بھی دوسری ہندوستانی زبان جاننے والوں تک پہنچانا ممکن ہو سکے ۔ یہ تجاویز خلوص پر مبنی ہوسکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی تھا کہ پھر زبان کی شناخت باقی نہ رہے گی اور سمندر میں قطرے کا اپنا وجود ختم ہو جائے گا ۔ چنانچہ اردو والے اپنے رسم الخط پر اڑے رہے۔ تھک ہار کر اردو ٹائپ کو فروغ دینے کی کوششیں ہوئیں۔ کافی کتابیں اسی تحریر میں شائع ہوئیں ۔ پاکستان میں بھی ٹائپ کو اپنا نے کے لئے کافی محنت کی گئی اور وہاں کے دانشوروں کی متعدد کتابیں ٹائپ میں طبع ہوئیں ۔ ٹائپ میں ایک خرابی یہ تھی کہ اس تحریر کو روانی سے پڑھنا دشوار تھا کیوں کہ اردو والوں کی آنکھیں نستعلیق کی عادی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد نے بھی الہلال کے کچھ شمارے ٹائپ میں طبع کئے ۔ منٹو کےبارے میں تو یہ سب ہی جانتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیاں راست ٹائپ رائٹر پر لکھا کرتے تھے ۔ 0 6ء سے 0 7ء تک کا بلکہ 08ء تک کا دور اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اردو ٹائپ رائٹر ہندوستان اور پاکستان میں بہت زیادہ استعمال ہونے لگے تھے اور اردو والے نہ چاہنے کے باوجود انھیں پڑھنے کے لئے مجبور تھے ۔ اور یہ عام طورپر سمجھا جانےلگا تھا کہ اب شایدنستعلیق کےلئے کوئی گنجائش نہیں رہی اورنستعلیق صرف ایک تزئینی خط کے طور پر رہ جائے گا ۔ اس ضمن میں سب سے اہم مثال ایران کی تھی جہاں نستعلیق ہی کا رواج تھا لیکن رضا شاہ پہلوی کے عہد میں ٹائپ کی سہولت سے استفادہ کرنے کی غرض سےنسخ کے ٹائپ رائٹرعام کئے گئے ۔ عرب میں چونکہ یہی رسم الخط رائج تھا اس لئے ان کو زیادہ آسانی تھی ٹائپ رائٹر بنانے والی بڑی کمپنیوں نے نسخ کے جو ٹائپ رائٹر تیار کئے تھے ان کی قیمت بھی انگریزی کےمقابلے میں بہت زیادہ نہ تھی۔ اس لئے بھی نسخ کے ٹائپ رائٹر مقبول ہوتے گئے۔جب ایران میں نسخ اختیار کر لیا گیا تو پھر وہاں نستعلیق آہستہ آہستہ داستان پارینہ بن گیا اور صرف لائیبریریوں کی زینت بنا رہا ۔ چنانچہ آج تک بھی وہاں نسخ ہی رائج ہے ۔ کہیں کہیں بڑے پوسٹروں اور بینروں پر نستعلیق نظرآجاتا ہے ۔ 1980کے آس پاس امریکہ کی مشہور کمپنی مائکرو سافٹ نے ’ ڈاس ‘ (Dos) ڈسک آپریٹنگ سسٹم پیش کیا تو کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب آگیا ۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تین چار پروگرامنگ کی اہم زبانیں رائج تھیں اور ان کو مشینی زبان میں منتقل کر نے کے لئے کمپائیلر ’ Compilers ‘ موجود تھے۔ڈاس کے مارکٹ میں آنے کے بعد Text یامتن کا کام زیادہ آسانی سے ہونے لگا ۔ پھر ورڈ اسٹار جیسے پیکیج منظر عام پرآئے اورکمپیوٹر عام زندگی میں داخل ہونے لگا۔ چھوٹے کمپیوٹر P C یعنی پرسنل کمپیوٹر اس زمانےمیں مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگے ۔ عرب ممالک کے لئے پٹرو ڈالر کی بدولت نسخ میں ڈاس تیار ہوا اور کمپیوٹر پر Text مرتب کرنے کا کام بھی کیا جانے لگا ۔ اس میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو ورڈ اسٹارکے لئے مخصوص تھا یعنی ہر تبدیلی کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ کچھ خاص ہدایات دینی پڑتی تھیں ۔نستعلیق کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہر حرف کی شکل اس کی نشست کے اعتبار سے بدل جاتی ہے ۔ اس سے سطر کی موٹائی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس لئے نستعلیق کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ کمپیوٹر کے لئے تویہ رسم الخط بالکل ہی ناقابل قبول ہے۔
آٹھویں دہائی کے آخر میں یعنی 9 7 کے لگ بھگ I B M )انٹرنیشنل بزنس مشینز( نے لیرز ٹائپ سٹنگ پرنٹر پیش کیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی طباعت کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ۔ اس طریقے میں یہ خوبی تھی کہ اس میں پلاٹر کے ذریعے گرافکس کو بھی کمپیوٹرسے کا غذ پر منتقل کرنا اور میگنٹک میڈیا جیسے ٹیپ اور فلاپی پر محفوظ کرنا ممکن ہو گیا تھا ۔
پاکستان کے ایک بہت بڑے Prestige Printers کے مالک مرزا جمیل احمد نے جب اس مشین کو دیکھا تو انھوں نے سوچا کہ نستعلیق میں طباعت کے لئے بھی اس مشین کا استعمال ممکن ہے ۔ مرزا جمیل احمد 0 8 9 1 میں سنگاپور میں منعقد ہونے والی ایک طباعت کی نمائش میں شرکت کے لئے گئے جہاں یہ مشین پیش کی گئی تھی جس میں گرافکس کے ذریعہ تیار کئے گئے نقش یا Image کو کمپیوٹر کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا تھا ۔ انھوں نے سوچا کہ اگر ایک Data Base تیار کیا جائے تو کلیدی تختے Key Board پرحروف ٹائپ کرکےمحفوظ شکلوں ( Ligatures ) میں سے متعلقہ شکل کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے اسکرین پر یا کاغذ پر مںتقل کرنا ممکن ہے ۔ اس طرح نستعلیق کو بھی کمپیوٹر پر لایا جاسکتا ہے۔ مرزا جمیل احمد جب پاکستان واپس آئے تو انھوں ںے روزنامہ جنگ کے ذمہ داروں سے بات چیت کی ۔ اس زمانے میں جنگ لندن سے بھی شائع ہو رہا تھا ۔ اور ان کے لئے لندن میں کتابت ایک اہم مسئلہ بن گئی تھی ۔ چنانچہ جنگ کے ذمہ داروں نے مرزا جمیل کے اس پراجکٹ کو Sponsor کیا ۔ ’جنگ ‘ کی مدد کی وجہ سے سرمایہ کی کوئی کمی نہ تھی اور خود جمیل صاحب بھی اس موقف میں تھے کہ کافی روپیہ خرچ کر سکیں۔ انہوں نے مشہور اور ماہر فن کاتبوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ نستعلیق میں استعمال ہونے والی مختلف اشکال ( Ligatures) تیار کریں ۔ اور پھر چھ سات مہینوں کے اندر ہی مرزا جمیل نے ایک سسٹم تیار کر لیا اور جنگ کی طباعت کمپیوٹر کے ذریعے ہونے لگی ۔ مرزا جمیل کے والد کا نام مرزا نور احمد تھا اور ان کے بزنس گروپ کا نام بھی النور تھا ۔ مرزا جمیل نے اپنے والد کے نام پر ہی اس خط کا نام نوری نستعلیق رکھا ۔ 82 ئ تک سات آٹھ ایسے پبلشنگ ادارے وجود میں آگئے جن کے ہاں نوری نستعلیق کے ذریعے کتابت کا کام ہوتا تھا ۔
ہندوستان میں 7 8 9 1 کے لگ بھگ یہاں کے ایک اخبار ہند سماچار نے بھی اس طریقہ کتابت کو اختیار کیا ۔ ان کے لئے آسانی یہ تھی کہ ان کے ہاں مونو ٹائپ سٹنگ مشین پہلے ہی سے موجود تھی اور وہ لیزر ٹائپ سے استفادہ کررہے تھے ۔ ان کو صرف اردو کے فونٹ یا حروف کی شکلیں درکار تھیں ۔ جو انھوں نے مرزا جمیل سے کسی توسط سے حاصل کر لیں اور اس طرح ہندسماچار ہندوستان کا پہلا اخبار بن گیا جہاں کمپیوٹر پر کتابت ہونے لگی ۔ نوری نستعلیق کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں طغرے کی سی خوبصورتی تھی ۔ کیوں کہ مرزا جمیل نے اس دور سے بہترین کاتبوں کو نقش سازی یا Ligature کی تیاری پر مامور کیا تھا ۔ البتہ اشکال کو Monotype والوں کی ہدایت کے مطابق اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ سطر کی موٹائی متاثر نہ ہو ۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ کمپیوٹر میں موجود اشکال ہی کے ذریعے کتابت ممکن تھی۔ اور اگر کوئی نیا لفظ یا نئی شکل آجاتی تو یہاں نسخ کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔اور پھر بعد میں اس کے Ligature تیار کر کے یاد داشت میں داخل کر لیے جاتے تھے ۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ حروف کے اختتام پر جو باریک سی نوک بن جاتی ہے اس کو بالکل اسی طرح پیش کرنا ممکن نہ تھابلکہ نوک قدرے جلی ہوجاتی تھی ۔ ویسے بھی اخبار کے لئے وقت کی قیمت ہوتی ہے ۔ صرف خوبصورتی اور نزاکتوں پر دھیان دیا جاتا تو وقت زیادہ خرچ ہونے کا امکان تھا ۔ اس لئے نوری نستعلیق میں ان نزاکتوں سے صرف نظر کیا گیا تھا ۔ ادھر حیدرآباد میں کافی عرصہ قبل یعنی سقوط حیدرآباد سے بہت پہلے نستعلیق کا کمپوزنگ نظام وجود میں آچکا تھا ۔ چنانچہ دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کی کئی کتابیں اسی نظام کو استعمال کر کے شائع کی گئیں ۔ جن کے نمونے آج بھی ملک کی کئی لائبریریوں میں موجود ہیں لیکن امتداد زمانہ نے کمپوزنگ نظام کے سارے ذخیرے کو اس طرح ضائع کر دیا کہ اب اس نظام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔
البتہ حیدرآباد کے ایک کاتب تھے جوریاست حیدرآباد کے سرکاری محکمہ طباعت میں کام کرتے تھے ۔ ان کا نام عبد القادرتھا ۔کہا جاتا ہے کہ وہی اس کمپوزنگ نظام کے خالق تھے ۔ انھوں نے اس نظام کے تختے بنا رکھے تھے اور ان تختوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔چونکہ انھوں نے اس پر کافی محنت کی تھی اور یہ ان کی زندگی کا حاصل تھا اس لئے انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ یہ تختے اگر کسی کے ہاتھ لگ جائیں تو پھرانھیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اس خیال کے تحت انہوں نے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ اگر کوئی ان تختوں کو دیکھنا اور حاصل کرنا چاہے تو پہلے ایک لاکھ روپیہ ادا کرے تب وہ اپنے تختے دکھائیں گے ۔ دہلی کے مشہور رسالے شمع کے مدیر یونس دہلوی نے بھی کوشش کی کہ وہ ان تختوں کو دیکھیں اور اگر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہو تو انہیں رقم بھی ادا کی جائے لیکن عبد القادر صاحب مصر رہے کہ پہلے ایک لاکھ ردپیے دیئے جائیں اور کسی کی ہمت نہ پڑی کہ صرف عبد القادر صاحب کے کہنے پر رقم دے دی جائے ۔ ںتیجہ یہ ہوا کہ وہ تختے یوں ہی پڑے رہے۔ پھر ان کا اںتقال ہو گیا اور اس کے بعد یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ تختے کہاں ہیں اور کیا ہو ئے ۔ 84۔ 3 8 9 1 ء میں حیدرآباد ہی کے ایک نوجوان جاوید نے نستعلیق طباعت کے اس پراجکٹ پر کام شروع کیا ۔ یہ ایک عجیب و غریب شخصیت تھی۔ اس کے بارے میں اردو سافٹ ویر کے انجینیر اشہر فرحان نے بتایا کہ یہ نوجوان بے حد ذہین اور خلاقانہ صلاحیتوں کا حامل تھا ۔ وہ خود کاتب تھا ، مصوری کا ذوق رکھتا تھا ۔ سنگتراشی سے دلچسپی تھی ، مولڈنگ کا بھی شوق تھا ۔ بڑی بڑی گھڑیاں اور ان کے پرزے وہ خود تیار کرتا تھا اور نہ جانے کیا کیا ۔ جاوید جب حیدرآباد کے ایک مشہور اور قدیم ادارے دائر² المعارف سے وابستہ ہوا تو اس نے وہاں کام کرنے والے کچھ قدیم لوگوں سے مدد لے کر دارالطبع اوردائر² المعارف میں شائع ہونے والی کتابوں کا تجزیہ کیا اور اپنے طور پر نستعلیق کے جوڑ تیار کئے جن کی خصوصیت یہ تھی کہ حروف کی نشست کے اعتبار سے ان میں ایک کیل کی شکل کا Locking System تھا اور وہ مقررہ نشست پر ہی فٹ ہو سکتا تھا ۔
جاویدکویہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ کام کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے ۔ لیکن وہ خود کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھا ۔ چنانچہ اس نے حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم Octal Computers سے ربط پیدا کیا جس کے کرتا دھرتا دو نوجوان ایوب اور طارق تھے ۔ یہ دونوں کمپیوٹر انجینیر تھے ۔اور ان کی فرم بزنس پروگرامنگ کا کام کرتی تھی ۔ ان کے سارے پروگرام Cobal میں لکھے جاتے تھے جو بزنس اپلیکیشن کےلئے آج بھی بہت اہم کمپیوٹر کی زبان مانی جاتی ہے۔ یہ دونوں گرافکس سے واقف ضرور تھے لیکن ان کی دلچسپی پروگرامنگ میں زیادہ تھی ۔ ان دونوں نے اشہرفرحان سے ربط پیدا کیا جو ان کے جونیر طالب علم تھے اور اس وقت انجنیرنگ کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ یہاں اشہر فرحان کے بارے میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ ان کے والد پروفیسر انور معظم عثمانیہ میں اسلامیات کے صدر شعبہ تھے اوراب وظیفہ پرسبک دوش ہو چکے ہیں ۔ اشہر فرحان کی والدہ اردو کی مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو ہیں ۔گرافکس اشہر فرحان کا پسندیدہ موضوع تھا جس سے ایوب اور طارق واقف تھے ۔ چنانچہ نستعلیق کا پراجکٹ شروع کیا گیا جس کے ایک تہائی حصہ دار اشہر فرحان تھے ۔ ایک تہائی حصہ جاوید کا اور ایک تہائی حصہ Octal Computer کا تھا ۔ اس طرح اردوایڈیٹر پر کام شروع ہوا ۔ کام کچھ آگے بڑھا لیکن پھر ایوب اور طارق کی مصروفیات بڑھتی گئیں ۔ ایوب شیر بزنس اور اسٹاک مارکٹ میں داخل ہوئے ۔ اور آج کل وہ ایک اہم شیر بروکر ہیں ۔ طارق نے یورپ کی راہ لی ۔ اوراس طرح Octal کمپیوٹرز کی فرم بند ہوگئی ۔ اور بظاہرنستعلیق کا کام ٹھپ ہو گیا ۔ جاوید بھی Octal کے بند ہونے کی وجہ سے بد دل ہو گئے ۔ اور دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ۔ لیکن فرحان نے اپنے طور پر فرصت کے اوقات میں اس کام کو جاری رکھا ۔ آہستہ آہستہ وہ کامیابی کی طرف بڑھتے رہے اور بڑی حد تک مشکلات پرقابو پا لیا ۔ لیکن پھر اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے وہ بھی زیادہ توجہ نہ دے پائے ۔ پھر ان کے ہاں خود ان کا اپنا کمپیوٹر بھی نہ تھا اس لئے اس کام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔ جاویدنے جو چارٹ تیار کئے تھے وہ انہی کے پاس محفوظ تھے ۔ جاوید حیدرآباد کے مشہور روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان صاحب مرحوم سےملے اور ان سےمدد کی درخواست کی ۔ عابد علی خان صاحب جاوید کو اپنے ساتھ دہلی لے گئے اور وسنت ساٹھے سے ملاقات کروائی جو اس وقت مرکزی وزیر تھے ۔ وسنت ساٹھے نے حکومت کی طرف سے گرانٹ دلوانے کا وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔ںتیجہ یہ ہوا کہ یہ کوش۔ش بھی بار آور ثابت نہ ہو سکی ۔
جاوید کا مکان حیدرآباد کے ایک قدیم محلے حسینی علم میں تھا ۔ وہیں حیدرآباد کے ایک ادیب ، دانشور اور محقق جناب تصدق حسین تاج رہتے تھے ۔ یہ وہی تصدق حسین تاج ہیں جنھوں نے ’ مضامین اقبال ‘ مرتب کر کے حیدرآباد سے شائع کی تھی ۔ ان کی پوتی پاکستان میں انعام علوی سے بیاہی گئی تھی ۔ انعام علوی شادی کے بعد ہنی مون پر حیدرآباد آئے ۔ ان کا قیام حسینی علم میں تھا ۔ وہ ایک بڑی گھڑی خریدنا چاہتے تھے ۔ کسی نے ان کو جاوید کے بارے میں بتایا ۔ انعام نے جاوید سے ملاقات کی ۔ جاوید نے باتوں باتوں میں نستعلیق کے پراجکٹ کے بارے میں بتایا ۔ انعام خود بھی کمپیوٹر پروگرامنگ کے ماہر تھے اور کویت میں بزنس ایپلیکشن کا کام کرتے تھے ۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پراجکٹ کافی اہم ہے ۔ انہوں نے جاوید کو معتد بہ رقم دے کر وہ چارٹ حاصل کر لئے اور پاکستان واپس ہو گئے ۔ چونکہ انعام کا میدان بزنس اپلیکشن تھا اس لئے گرافکس کا یہ کام ان سے سنبھل نہ پایا ۔ لیکن وہ برابر اس تگ و دو میں رہے کہ اس پراجکٹ کو کسی طرح آگے بڑھایا جائے ۔ اسی دوران فرحان نے BE مکمل کر لیا اور حیدرآباد کی ایک کمپیوٹر فرم IDS میں کام کرنے لگے ۔انہیں پتہ نہیں تھا کہ جاوید نے وہ چارٹ انعام کے حوالے کر دیئے ہیں۔ IDS کے مالک ارون کمارفرحان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور فرحان ان کو اپنا گرو مانتے تھے ۔ فرحان نے ارون کمار سے مشورہ کیا اور ان کی مدد حاصل کرنی چاہی لیکن ارون کمارنے صلاح دی کہ فرحان IDS کی ملازمت ترک کر کے خود اپنی ایک فرم قائم کریں اور اپنے بل بوتے پر اس پراجکٹ کو آگےبڑھائیں ۔ چنانچہ فرحان نے تیرہ ہزار روپیہ میں ایک پرانا کمپیوٹرخریدا اور کمپیوٹر کارپوریشن کے نام سے ایک فرم قائم کر کے اپنے طور پر اس کام کو آگے بڑھاتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اردوٹکسٹ ایڈیٹرکو مکمل کر لیا ۔
ادھر انعام علوی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اس پراجکٹ کو آگے بڑھائیں۔ جب انھیں یہ محسوس ہوا کہ انھیں مدد درکارہے تو انھوں نے جاویدکو پاکستان بلایا ۔جاوید پاکستان گئے لیکن وہ کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف نہ تھے اس لئے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی ۔ جاوید حیدرآباد واپس آگئے ۔ اور یہاں ان کی ملاقات جب اشہرفرحان سے ہوئی تو فرحان نے بتایا کہ وہ اس پروجکٹ کا ابتدائی کام مکمل کر چکے ہیں ۔ اور ٹکسٹ ایڈیٹر تیار ہو چکا ہے ۔ پھر فرحان نے اپنے کمپیوٹر پرجاوید کو نستعلیق میں کمپوز کر کے اسکرین پر اس کا نمونہ بھی دکھایا ۔ جاوید نے بتایا کہ اس نے اپنے چارٹ انعام علوی کو فروخت کر دیئے تھے ۔ بہر حال جاوید نے پھرانعام علوی سے ربط قائم کیا اور انھیں حیدرآباد آنے کی دعوت دی ۔ انعام حیدرآباد آئے ۔ فرحان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ انعام کے ہاں بھی پیسے کی کمی نہ تھی۔ ان کے ہاں پاکستان میں پلاٹر ، اسکینر وغیرہ سب کچھ موجود تھا ۔ انعام نےفرحان سے خواہش کی کہ وہ ان کے ساتھ پاکستان چلیں اور وہیں اپنا کام مکمل کریں ۔ فرحان پاکستان گئے ، وہاں کام کیا ۔چند ہی مہینوں میں یہ کام پورا ہو گیا ۔ پھرفرحان ہندوستان واپس آگئے ۔ طے یہ پایا کہ پاکستان میں اس کی مارکٹنگ انعام کے ذمے ہوگی اور ہندوستان میں فرحان یہ کام سنبھالیں گے ۔ فرحان نے جولائی 8 8 ء میں اردو کا پہلا سافٹ ویر پیش کیا ۔ یہ سافٹ ویر DOS پرمنحصرتھا۔ جس کا افتتاح جناب عابد علی خان کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔ اور جناب عابد علی خان نے اپنی افتتاحی تقریر میں اعلان کیا کہ 5 1 اگست 8 8 ء میں اردو سے اخبار سیاست کمپیوٹر پر نکلے گا ۔ جس محفل میں یہ سافٹ ویر پیش کیا گیا اس میں حیدرآباد کے کئی اہم کاتب اور کمپیوٹر سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب موجود تھے ۔ کسی نے پسند کیا ، کسی نے اعتراض کیا ، کسی نے خامیوں کی نشاندہی کی بہر حال ’سیاست ‘ میں اس نظام پر پہلی مرتبہ کام شروع ہوا۔ ابتدا میں چند سطروں پر مشتمل خبریں اور چھوٹے آرٹیکل کمپیوٹر کتابت کے ذریعے شائع ہوئے ۔ 5 1 اگست 8 8 ئ سے دو کالم کی کتابت ہونے لگی اور آہستہ آہستہ ایک دو ماہ میں پورا اخبار کمپیوٹر پر شائع ہونے لگا ۔ اس نظام کا نام UCS یعنی اردو کمپیوٹر سسٹم رکھا گیا ۔
اشہر فرحان نے ایک شخصی ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ اس سارے کام کا سہرا جاوید کے سر جاتا ہے جس نے نستعلیق کے جوڑ تیارکرنےکا بنیادی کام کیا پھرفرحان اور جاوید نے مل کر ان جوڑوں کے گروپ بنائے ۔ مختلف سائزوں کے اعتبار سے الگ الگ گروپ بنائے گئے اورنظام یوں تیار ہوا کہ مخصوص حالتوں میں کچھ خاص قسم کے جوڑ ہی اس طرح استعمال کیے جائیں تاکہ نستعلیق کی خوبصورتی متاثر نہ ہونے پائے ۔ اس نظام میں ہر حرف اور اس کے جزو کا نشست کے اعتبار سے علٰحدہ جوڑ تھا اور حروف اس طرح پیوست ہوتے تھے کہ درمیان میں کسی طرح کا نشان نہ رہے ۔ ابتدا میں جاوید نے اس طریقے کو استعمال کر کے 150 جوڑ تیار کئے تھے ۔ جب فرحان نے ان جوڑوں کو کمپیوٹر یاد داشت میں شامل کیا تو مزید جوڑ تیار ہوئے اور ان کی تعداد 211 ہو گئی ۔ پھر جہاں جہاں کمی یا خامی محسوس کی گئی وہاں نئے جوڑ تیار کر کے انھیں بھی شامل کیا جاتا رہا ۔ اور اب یہ تعداد 585 تک پہنچ چکی ہے ۔ فرحان نے مختلف قسم کے ان جوڑوں کو 9 خاندانوں میں تقسیم کیا اور چار ہزار سے زیادہ قاعدے یا Rules بنائے ۔ Ligature یا اشکال پر محیط نظام میں اور اس Character base یا حروف پر محیط نظام میں فرق یہ ہے کہ اس میں ایم ایس ورڈ کی طرح ہر بارنئی فائل تیار ہوتی ہے جب کہ اشکالی نظام میں پہلے سے موجود شکلوں پر ہی انحصارکرناپڑتا ہے ۔ اس نئے نظام میں کسی بھی نئے لفظ کو بڑی آسانی سے کمپوز کرنا اور سطر کی حد میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے ۔
ابتدا میں جب فرحان نے کام شروع کیا تو ان کے ذہن میں پلاٹر کی ٹکنک تھی ۔ لیکن اگر اس پر کام کیا جاتا تو وہ بہت صبر آزما ہوتا ۔ اوروقت بھی زیادہ خرچ ہوتا ۔ پلاٹر کے ذریعے اگر اخبار کے ایک صفحے کی کتابت کی جاتی تو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ سکتا تھا ۔ اور پھر اس پروگرام کو محفوظ رکھنے کے لئے کئی فلاپیاں Floppies درکار ہو سکتی تھیں ۔ جب کہ UCS یعنی اردو کمپوزنگ سسٹم میں جو طریقہ اختیار کیا گیا اس میں جگہ اور یاد داشت بھی کم درکار تھی اور نستعلیق کے دائروں اور نوک کی خوبصورتی بھی موجود تھی ۔ اس لئے یہ خط دوسرے Fonts کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب ہے ۔ جو Font یوسی ایس میں استعمال کیے گئے ان کو ابتدا میں کوئی نام نہیں دیا گیا بلکہ 01 ، 02 ، 03 کی فائل بنادی گئی ۔ بعد میں مختلف فونٹ کے لئے مختلف نام دیئے گئے ۔ نستعلیق کے لئے عابد کا نام دیا گیا جو روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر عابد علی خان کے نام پر تھا ۔ فرحان نے جوڑوں کے لئے جو اصول تیار کیئے وہ سارے پروگرام کے تابع تھے اورپروگرام اس طرح تیار کیا گیا کہ اصولوں کے ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کر کے خودبخود مخصوص قسم کا جوڑ استعمال ہوتا ہے ۔ اس ابتدائی سافٹ ویر UCS کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے یکے بعد دیگرے دو ورژن پیش کئے گئے ۔ ’ سیاست ‘ کے بعد روزنامہ منصف اور پھررہنمائے دکن اور دوسرے اخبارات نے بھی اس طریقہ کتابت کو اپنایا ۔ اورحیدرآباد سے نکلنے والے تمام اہم اخبارات کے علاوہ بمبئی کے انقلاب ، اردو ٹائمز اور بنگلور کے سالار نے بھی اسی طریقے پر کتابت شروع کر دی ۔
فرحان کے مطابق ان سے ایک غلطی ہوئی ۔وہ یہ کہ انھوں نے اپنے سسٹم کو شروع میں Desk top آپریٹرزسے دور رکھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سسٹم کے گاہک اخبارات تھے اور ان کی ضروریات کو مد نظر رکھنا ضروری تھا ۔ لیکن جب چھوٹے کمپیوٹر عام ہوئے اورفرحان کا تیار کردہ سسٹم ایک فلاپی پر محفوظ کرنے کے قابل ہوا تو Desk top آپریٹروں کی ایک بڑی تعداد تیار ہو گئی جس نے اس نظام کے ذریعے کتابوں کی کتابت کا کام شروع کیا اور یوں روزگار کے حصول کا ایک نیا ذریعہ وجود میں آیا۔ Microsoft نے DOS کے بعد ونڈو کا نظام تیار کیا اور Windows .1 بازار میں آیا تو فرحان نے اپنے سسٹم کو ونڈو پرمںتقل کیا ۔ لیکن ونڈو کا پہلا ورژن فرحان کی ضرورتوں کے مطابق نہ تھا اسلئے کام آگے نہ بڑھ سکا ۔ جب Window 3.1 متعارف کیا کیا تو یہ نظام فرحان کے لئے زیادہ کار آمد تھا ۔ چنانچہ Window 3.1 کو استعمال کر کے فرحان نے Page Composer یا صفحہ ساز تیار کیا ۔ یہ ورژن محدود تعداد میں فروخت ہوئے اور خامیوں کی وجہ سے زیادہ مقبول نہ ہو سکے ۔ پاکستان میں انعام علوی نے اس صفحہ ساز کو گلوبل کے نام سے جاری کیا پھر کسی وجہ سے فرحان اور انعام کے درمیان ربط ٹوٹ گیا اور گلوبل کا کام وہیں تک محدود رہا۔ جب مائکرو سافٹ نے Windows 95 جاری کیا تو یہ نظام فرحان کی ضرورتوں کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ فرحان نے پیج کمپوزر یا صفحہ ساز کا نیا ورژن مارکٹ میں پیش کیا جو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے ۔ Windows پر محیط اس نظام یا اس جیسے دوسرے سسٹم تک رسائی ہر ایک کے لئے ممکن نہ تھی کیوں کہ ان میں ایک خاص قسم کا لاکنگ سسٹم شامل کر دیا گیا تھا تاکہ اس کی نقل یا کاپی کرنا ممکن نہ ہو سکے ۔ جس کمپیوٹر کے لئے اس نظام کو خریدا جاتا ہے اس کے ساتھ ایک لاک Dongal بھی ہوتا ہے ۔ چونکہ پیج کمپوزر ،کاتب ، شاہکار، گلوبل وغیرہ تجارتی بنیادوں پر کام کر رہے تھے اس لئے یہ اقدام ضروری بھی تھا ۔ تبھی فرحان نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ۔ انھوں نے ایک محدود نظام تیار کیا اسے مفت تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح جس کسی کے پاس کمپیوٹر ہو اور اس پر Windows 95 موجود ہو وہ اس نظام کو بغیر کسی ادائی کے حاصل کر کے استعمال کر سکتا ہے ۔ انہوں نے اس محدودنظام کو Share ware کا نام دیا اور اسے انٹر نٹ پر پیش کر دیا جہاں سے دنیا بھر میں کوئی بھی اس نظام کو اپنے کمپیوٹرمیں شامل کر سکتا ہے یا پھر فرحان سے راست ربط پیدا کر کے مفت حاصل کر سکتا ہے ۔ اس کے پیچھے فرحان کی ایک دلچسپ منطق ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح ایک تخلیقی کام پرسب کا حق ہوتا ہے بالکل اسی طرح سافٹ ویر پر بھی سب کا حق ہونا چاہیے ۔ یہ نظریہ دراصل کمیپوٹر پروگرامنگ کے باوا آدم Dollbute کا ہے جس نے یہ تحریک چلائی تھی کہ کمپیوٹر پروگرامنگ بھی ایک تخلیقی کام ہے اور اس تک رسائی کا حق ہر ایک کو ہونا چاہیے ۔
سچ بات تو یہ ہے کہ فرحان نے جو کام کیا ، وہ اگر کسی اور زبان کے لئے کیا گیا ہوگا تو اس کے لئے دولت کے انبار لگ گئے ہوتے ۔ لیکن ان کے پیش نظر دولت کا حصول نہ تھا ۔ بلکہ وہ عوامی سطح پر اپنے سسٹم کو پہنچانا چاہتے تھے ۔ البتہ صفحہ ساز یا Page Compuser کا جو تجارتی ورژن ہے اور زیادہ سہولتوں کا حامل ہے اس کی قیمت غالبا چودہ ہزار روپیہ رکھی گئی ہے ۔
94-95ء میں کچھ اورپیکیج منظر عام پرآئے ۔ ’کاتب ‘نام کا پیکیج پاکستان میں تیار کیا گیا یہ بھی Charecter base ہے ۔ اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہ مل سکیں لیکن جس نہج سے یہ پروگرام کام کرتا ہے اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ انعام علوی ہی کےپروگرام پر انحصار کرتا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ’ کاتب ‘ کی بھی مفت تقسیم عمل میں آرہی ہے ۔ ’ شاہکار ‘ کے نام سے پیش کیا جانے والا سافٹ ویر بھی نوری نستعلیق ہی کی ایک شکل ہے ۔ اور یہ بھی Ligature base ہے یعنی اشکال پر انحصار کرتا ہے ۔
تین چار سال قبل میں نے فرحان سے کی بورڈ کے ضمن میں گفتگوکی تھی اور یہ تجویز رکھی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں رائج نسخ اور ںستعلیق کے پروگراموں میں استعمال کئے جانے والے کی بورڈ یا کلیدی تختہ کو ایک اسٹینڈرڈ پر لانے کےلئے کوشش کی جائے بالکل ویسے ہی جیسے انگریزی کا کلیدی تختہ ہر جگہ ایک ہی ہے چاہے وہ کسی کمپنی کا تیار کردہ ہو ۔ یہی طریقہ نسخ اور نستعلیق کے لئے بھی رائج کرنا چاہیے ۔ مگر Window 95 میں موجود سہولت کی وجہ سے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہر استعمال کرنے والا اپنی پسند اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنا کی بورڈ ترتیب دے لے اور کسی بھی حرف کے لئے اپنے حساب سے کسی Key کو نامزد کر لے ۔ ہندوستان ہی میں ایک اور اہم Package منظر عام پر آیا جس کا نام ان پیج ہے ۔ یہ پیکیج دہلی کے وہ نوجوانوں آر پی سنگھ اور وجئے کرشن گپتا نے اپنے اردو جاننے والے دوستوں کی مدد سے تیار کیا ۔ یہ دونوں خود اردو سے واقف نہیں لیکن کمپیوٹر پر مہارت اور اردو سے ذاتی دلچسپی نے انھیں اس پیکیج کی تیاری کی طرف متوجہ کیا ۔ Inpage میں وہی ٹکنک استعمال کی گئی ہے جو نوری نستعلیق کی بنیاد ہے یعنی اشکال پرمنبی نظام ۔ اس نظام پر 93 ہی میں کام شروع ہو چکا تھا جب Window3.1 کا دور دورہ تھا ۔ لیکن Window 95 کے آنے کے بعد ہی 95 میں اس نظام کومارکٹ میں پیش کیا گیا ۔ اشکال یا Ligature پر مبنی اس نظام میں اب تک اٹھارہ ہزار اشکال شامل کی گئیں ہیں اور تقریباً ہر ممکنہ لفظ کی شکل اس نظام میں موجود ہے ۔ تازہ ترین اطلاع کے بموجب اب اس میں بائیس ہزار اشکال موجود ہیں ۔ اس نظام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اردو کے ساتھ عربی ، فارسی ، کشمیری ، سندھی ، ہزارگی اورخوردش فیچر بھی شامل ہیں اورساتھ ہی ساتھ دوسری کسی بھی ہندوستانی یا بیرونی زبان کا خط اس میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کے لئے اس زبان کے فونٹ حاصل کر کے کمپیوٹر میں داخل کرنے ہونگے ۔ اورجو فونٹ ونڈوز کی لائبریری میں موجودہیں ان کو راست حاصل کر کے اردو کے ساتھ بیک وقت استعمال کرنا ممکن ہے ۔ ان پیج کے پہلے ورژن 1.1 میں کچھ خامیاں تھیں جو نئے ورژن میں دور کر لی گئی ہیں ۔کورل ڈرا کی سہولت بھی اس کا ایک جزو ہے اس لئے اس پیکیج کےذریعہ تزئین کا کام بھی بڑی خوبصورتی سے کیا جا سکتا ہے ۔اس میں ریاضی کی مختلف علامات کے لئے ایک ایکویشن ایڈیٹر بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ریاضی پر مبنی متن کا کام بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں اس میں (Color Seperation) کا کام بھی ممکن ہو گیا ۔ یعنی رنگوں کو علیحدہ کر کے کلر آفسٹ کا کام بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ان پیج میں ایک اہم سہولت یہ بھی ہے کہ لفظ کو آگے پیچھے یا اوپر نیچے ہٹایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے تحریر میں کتابت کا حسن پیدا ہو جاتا ہے ۔
اس پیکیج میں بھی تجارتی بنیادوں پر تحفظ کے لئے Dongle کا لاک موجود ہے اس لئے اس کو کاپی کرنا یا نقل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان پیج کا پرانا ورژن 1.1 اب بغیر لاک کے بھی استعمال ہو رہا ہے ۔ اور لوگ اس کی نقلیں حاصل کر رہے ہیں ۔
انٹر نیٹ کے عام ہوجانے سے ترسیل کی دنیا میں بڑی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ E mail اب عام ہو گیا ہے اور سستا بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے اردو کو ایک خطرہ بھی در پیش تھا ۔ وہ یہ ہے کہ E mail پر جو پیغام بھیجے جاتے ہیں وہ رومن اردو میں ہوتے ہیں ۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کرحیدرآباد کے اخبار سیاست نے اردو میں E mail کا نظام روشناس کرایا ہے ۔ یعنی اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ اپنا پیغام اردو رسم الخط میں E mail کر سکیں ۔ اس میں البتہ ایک لزوم یہ ہے کہ پیغام بھیجنے والے اور پیغام وصول کرنے والے کمپیوٹر پر اردو کا ٹکسٹ ایڈیٹر ہونا ضروری ہے ۔ اردو کمپوزنگ یا کتابت کے ان کمپیوٹر پر مبنی نظاموں کی وجہ سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کاتبوں کی روزی روٹی پر اثر پڑا ہوگا ۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے ۔ کاتب اور خصوصاً ایک فن کار کاتب کی ضرورت تو ہر زمانے میں رہے گی ۔ بڑے بیز ، سائن بورڈ اور اس طرح کے دوسرے کاموں کے لئے تو کمپیوٹرفی الحال کار آمد نہیں ہے ۔ تزئینی خط میں نئی نئی اختراعات کے مواقع اب بھی ہیں ۔ اور اگر کاتب ہاتھ سے کتابت کرنے کی بجائے کمپیوٹر سے کتابت کرنے لگے تو شاید وہ کاتب نہ کہلائے بلکہ اسے ڈسک ٹاپ آپریٹر کہا جائے لیکن روزگار تو یہاں بھی ہے ۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آج سے بیس سال پہلےکتابت کے جو مسائل تھے اور اردو کے مصنف کو جن دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا تھا وہ اب باقی نہیں رہے ۔ اب تو یہ معاملہ ہے کہ پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب کی کمپوزنگ دو تین دن میں کر لی جا سکتی ہے بلکہ اگر دو تین کمپیوٹر پر کام ہو تو ایک ہی دن کافی ہے ۔
ایک الزام کمپوٹر پر یہ بھی ہے کہ یہ غلطیاں بہت کرتا ہے ۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ۔ جب کبھی کوئی غلطی نظر آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹر کی غلطی ہے ۔ اور یہ صورت حال ہر جگہ ہے ۔ اگر میٹرک یا انٹر میڈیٹ کے نتائج میں غلطی پکڑی جائے تو الزام کمپیوٹر کے سر جاتا ہے جب کہ ٹائپ میں کی گئی غلطی کو ہم ٹائپ رائٹر کی غلطی نہیں کہتے ۔ ٹائپسٹ کی غلطی کہتے ہیں ۔ ایسی ہی صورت کمپیوٹر کی بھی ہے ۔ در اصل غلطی کمپیوٹر کی نہیں ہوتی ۔ یا تو آپریٹر غلطی کرتا ہے یا پھر پروگرام میں ہی کسی طرح کی خامی ہوتی ہے البتہ ایک دشواری یہ ضرور پیش آتی ہے کہ جب متن کو ایڈٹ کیا جائے یا اس میں رد و اضافہ کیا جائے تو اس عمل کے بعد کے سارے متن پر اثر پڑتا ہے اور سارا متن اسی حساب سے آگے یا پیچھے ہوجاتا ہے ۔ تصحیح کرنے والا سوچتا ہے کہ جو کچھ اس نے تصحیح کی تھی وہ تو ٹھیک کرلی گئی لہذا کام مکمل ہے ۔ لیکن کبھی کبھی سطر کے آخیر میں آنے کی وجہ سے نام یا اضافت سے بنی ہوئی تراکیب کا آدھا حصہ دوسری سطر میں چلا جاتا ہے اور اگر ایک بار پھر نظر ثانی کر لی جائے تو یہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہتا ۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب اخبارات ، کتابیں رسالے سبھی کچھ کمپیوٹر کے ذریعے اشاعت پذیر ہو رہے ہیں ۔ اور اب کسی کو یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اس رسم الخط کو بدل دینا چاہئے کمپیوٹر کی وجہ سے اردو کی بقا کی نئی راہیں ںکل آئی ہیں ۔ اب یہ زبان عالمی سطح پر الکٹرونک میڈیا کے توسط سے گھرگھرپہنچ رہی ہے ۔ کیا یہ اکیسویں صدی کے اردو والوں کے لئے بیسویں صدی کا ایک سب سے بڑا اور اہم تحفہ نہیں ! ooOoo