بہت عمدہ تحریر، اور واقعی ایک اہم مسئلہ کے کم از کم ایک حل کی جانب راہ دِکھلاتی جو کہ ہمارے معاشرے میں ناممکنات میں تصور کیا جاتا ہے لیکن عرب ممالک میں بیواؤں کی تعداد انتہائی حد تک کم ہے کیوں کہ وہاں اس کے فوری حل کے لیے معاشرتی ضابطے پہلے سے موجود ہیں، اور اس بات کو برائی نہیں سمجھا جاتا کہ بیوہ عورت شوہر کے انتقال کے بعد پھر سے ایک نئی زندگی شروع کر سکے بلکہ اسے ایک معاشرتی فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا فوری تدارک کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں کا المیہ یہی ہے کہ ہمارا میڈیا بجائے اس طرح کے رویوں اور تعلقات کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرے وہ صرف اور صرف اس کے منفی پہلو ہی اجاگر کرتا ہے۔ ساس بہو اور نند اور بھابھی اور دو سوتنوں یا سوکنوں کے بیچ اچھے مراسم اور مثالی تعلقات بہت ہی کم دِکھائے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بلا شبہ یہی ہے کہ رشتے نہ آنے، اور بچیوں کے گھروں میں بیٹھے رہنے کے مسئلوں کا ایک انتہائی جائز اور مناسب حل موجود ہونے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں اس کا خوف اور ہراس موجود ہے اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اجتناب کی چاہے بچیاں بوڑھی ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
ایک کیس سٹڈی شئیر کرنے کو بہت جی چاہتا ہے لیکن کچھ اندیشے لاحق ہیں کہ ایسا کرنا ٹھیک ہو گا یا نہیں شئیر اس وجہ سے کہ نوجوانوں کو ایک مثبت راہ بھی دکھلائی جا سکے اور اندیشہ یہ کہ کہیں خودنمائی، دکھلاوہ یا کسی ایسے معنوں میں نہ آ جائے بات۔
اور ساتھ ہی ساتھ میرا
شمشاد بھائی سے اس تحریر کو طنزومزاح میں رکھنے پر احتجاج بھی، کہ اس کے لیے "ہمارا معاشرہ" ایک موزوں زمرہ تھا۔