البتہ تاریخ اسلام میں اجتماعی طور پر کم از کم ایک مرتبہ (مواخات کے موقع پر) مسلمان مردوں نے بھی تقریباً ایسا ہی کیا تھا اور اپنی ایک بیوی اپنے منہ بولے بھائیوں کو ”بخش“ دی تھیں۔
یہ نامناسب سادعویٰ ہے کہ انصار نے اجتماعی طورپر اپنی بیویاں اپنے منہ بولے بھائیوں کو "بخش"دی تھیں۔
ایک دوانصاری صحابیوں کے بارے میں ضرورایساملتاہے کہ انہوں نے اس طرح کی پیشکش اپنے مہاجربھائی کو کی تھی کہ ان کے پاس دوبیویاں ہیں تو وہ اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں عدت کے بعد وہ ان سے شادی کرلیں۔
یہ دعوی جہاں تاریخی طورپر غلط ہے کہ کسی بھی سیرت کی کتاب میں یہ بیان نہیں کیاگیاکہ اجتماعی طورپر ایساہواتھابالخصوص مستند اورقابل اعتماد قدیم سیرت کی کتابوں میں۔
وہیں یہ دعوی منطقی اعتبار سے بھی قابل قبول نہیں ہے۔
اولااس دعوے کے تحت ہمیں یہ مانناپڑے گاکہ تمام انصاری صحابی ایک سے زائد بیویوں کے شوہر تھے جس کی دلیل چاہئے!
ثانیایہ بھی مانناپڑے گاکہ مہاجرحضرات میں سے بیشتر نے اپنی بیویوں کو مکہ میں ہی چھوڑدیاتھاجوکہ سراسر غلط ہے۔ تقریباتمام ہی مہاجرحضرات نے اپنی بیوی اوربال بچوں کے ساتھ ہی ہجرت کی تھی اورجن کے بال بچے اوربیویاں رہ گئی تھیں انہوں نے بھی رفتہ رفہت ان کو مدینہ بلالیاتھا۔ جس کو سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔
ثالثااسلامی معاشرے میں اس طرح کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی کہ جان ومال کے ساتھ بیویوں میں بھی ایثارپسندی سے کام لیاجائے کیونکہ بیویوں کو قران نے لباس کہاہے ایسالباس جو آپ کے ہرراز سے واقف ہے اوراپنےرازکودوسرے کے حوالہ کرنا بہت بہترعمل نہیں ہے۔جن صحابی حضرات نے ایساکیاتھاان کا خلوص کسی بھی شک سے ماوراء اوربلند ہے اوران کے خلوص کی جتنی قدرکی جائے کم ہے لیکن یہ بات واضح رہے کہ یہ ایک استثنائی عمل تھانہ اس کی حضور پاک نے حوصلہ افزائی کی اورنہ ہی دیگر صحابہ کرام نے اس طرزعمل کو اپنایااورنہ ہی اسلامی معاشرہ میں کسی دور میں اس کو رواج پذیر کیاگیا۔
رابعایوسف ثانی صاحب عرب اوربرصغیر ہند وپاک کے مختلف تہذیب وکلچر سے شاید واقف نہیں ہیں۔ فقہ میں ایک اصل عرف اورمعاشرے کے رواج کابھی ہے۔برصغیر ہندوپاک کی عورتیں عموماشوہرکی بڑی سے بڑی زیادتی برداشت کرلیتی ہیں لیکن سوکن برداشت کرناان کیلئے مشکل ہے۔ عرب ورلڈ کی خواتین عمومی طورپر شوہر کی زیادتی کو برداشت نہیں کرتیں اورفوراقاضی تک معاملہ لے جاکر اپناحق حاصل کرتی ہیں۔ سوکن سے ان کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی۔ان سب کے علاوہ دیکھاجائےتوقرآن میں نکاح ثانی کے ساتھ عدل کی قید اورشرط بھی ہے ظاہری طورپر توہرشخص اس کا دعویدار نظرآئے گاکہ وہ عدل کی شرط کو پوراکرسکتاہے لیکن اس کا اصل مقام تب آتاہے جب آپ غصے میں ہوں اورہرطرح کی قدرت رکھتے ہوں اورسامنے والاآپ کے رحم وکرم کا محتاج ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی بیوی رکھنے والے شوہر حضرات اپنی بیویویوں کے ساتھ کیسی کیسی زیادتی نہیں کرتے۔
مسئلہ کا حل کیاہے
خامساہمارے معاشرے میں ایک مرد کی دوبیویوں کے بجائے زیادہ توجہ اس امر پر دینے کی ضرورت ہے کہ اگرکسی کسی کی بیوی دس پندرہ سال کی ازدواجی زندگی کے بعد انتقال کرگئی توایک شریف آدمی کے لئے معاشرے میں دوسراشادی کرنابہت بڑاعیب سمجھاجاتاہے۔اور وہ بے چارہ تنہازندگی گزارنے پر مجبورہوجاتاہے۔اسی طرح اگرکوئی شخص ادھیڑ عمر ہے اوراس کے کچھ بچے ہیں اوربیوی مرگئی تواب یہ لازم سمجھ لیاجاتاہے کہ پوری زندگی تنہاگزارے اوربچوں کاخیال رکھے۔
اس طرح اگرکسی عورت کا شوہر انتقال کرگیاتواس کیلئے نکاح ثانی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔اوراگرکچھ بچے وغیرہ بھی ہوگئے اوربچے دس پندرہ سال کی عمر کے ہیں تواس کی شادی معاشرے میں بہت بڑاعیب سمجھی جاتی ہے۔
ان حالات میں زیادہ توجہ اس بات پر اگردیاجائے کہ جن عورتوں کے شوہر نہیں ہیں اورجن مردوں کی بیویاں انتقال کرچکی ہیں ان کیلئے نکاح آسان ہواوران کی شادی ایک عیب نہیں بلکہ فطری ضرورت سمجھاجائے تومیرے خیال سے معاشرے ایک بڑامسئلہ حل ہوجائے گابغیراس کے ایک بیوی کو سوکن برداشت کرناپڑے۔والسلام