کاشفی
محفلین
بیوی گھر میں نہ اگر ہوتو غزل ہوتی ہے
دل میں سُسرال کا ڈر نہ ہوتو غزل ہوتی ہے
تھوڑا مسکا جو لگاؤ تو کوئی بات بنے
چاپلوسی کا ہنر ہوتو غزل ہوتی ہے
جھونپڑی نے تو بڑا ظلم کیا ہے ہم پر
تاج محل جیسا ہی گھر ہوتو غزل ہوتی ہے
یوں لگا رہتا ہے بیوی کا تو رونا دھونا
آنکھ جب میری بھی تر ہوتو غزل ہوتی ہے
مال تو سارے کا سارا ہے اُدھر کی جانب
جو اُدھر ہے وہ اِدھر ہوتو غزل ہوتی ہے
میرے گھر میں جو شجر ہے وہ ثمر دیتے نہیں
کوئی پھلدار شجر ہوتو غزل ہوتی ہے
روز دعوت ہوتو چَھپ جائیگا دیوان میرا
مُفت کا روز ڈنر ہوتو غزل ہوتی ہے
رات بھر نیند میں خراٹے بھروں کیا حاصل
صرف باتوں میں سحر ہوتو غزل ہوتی ہے
کسی بدشکل پہ میں کچھ نہیں لکھ پاتا ہوں
شکل جب مثل قمر ہوتو غزل ہوتی ہے
صرف مادہ ہو بگڑ جائیگا غزلوں کا نظام
کوئی مادہ ہوئی نر ہوتو غزل ہوتی ہے
گھر پہ بیوی پہ غزل کہنا بہت ہے مشکل
پاس محبوب کا گھر ہوتو غزل ہوتی ہے
تانکنا جھانکنا کب تک میں رہونگا سید
سامنے میرے اگر ہوتو غزل ہوتی ہے
کسی عالِم سے بھی کچھ بن نہیں پاتا سید
شعر کہنے کا ہُنر ہوتو غزل ہوتی ہے
(سیدابو بکرمالکی بھٹکلی)