بیٹیاں
افضل رحمان " نئی دنیا "
انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے کہ بیٹے اس وقت تک بیٹے رہتے ہیں جب تک ان کی شادیاں نہیں ہو جاتیں جبکہ بیٹیاں، ماں باپ کے آخری دم تک بیٹیاں ہی رہتی ہیں۔ اگرچہ پرانے وقتوں میں یہ محاورہ ہمارے کلچر میں درست نہیں بیٹھتا تھا اور اکثر جوائنٹ فیملی سسٹم میں بیٹے شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی بیٹے بنے رہتے ہیں لیکن اب ہمارے ہاں تیزی سے اثر پذیر ہونے والی غیر ملکی ثقافتی اقدار کی وجہ سے یہ محاورہ درست ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ثقافتی تبدیلی سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ مائیں متاثر ہوتی ہیں۔
ماں کا رشتہ ہمارے ہاں بیٹے کے ساتھ اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر کلچرز میں کم ہی اس کی مثال ملتی ہے۔ بھارت کی صورتحال ہم سے ملتی جلتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے صدیوں تک مسلمان اور ہندو اکٹھے رہتے رہے ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان الگ قوم نہیں۔ اس قسم کی ثقافتی مماثلتوں کے بارے میں اشفاق احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ پیڑ تو الگ الگ ہوتے ہیں مگر شاخیں ایک دوسرے کے اندر جھول جاتی ہیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی ہمارے ہاں ماں اور بیٹے کے خصوصی تعلق کی۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی صورتحال یہ ہے کہ بیٹے کے لیے ماں کا انتظار‘ جب تک کہ وہ گھر واپس نہ آ جائے‘ ختم نہیں ہوتا۔
پنجابی زبان کے معروف بھارتی شاعر شیو کمار بٹالوی کا شعر ہے۔
قبراں اُڈیکدیاں
جیویں پتراں نوں ماواں
یعنی قبر جس طرح اپنے مہمان کی اس وقت تک منتظر رہتی ہے جب تک وہ مہمان آ نہ جائے اس کی مماثلت شاعر نے مائوں کے بیٹوں کے لیے انتظار کے ساتھ اس انداز میں پیدا کی ہے کہ ماں کا بیٹے کے لیے انتظار تو اصل انتظار معلوم ہوتا ہے جبکہ قبر کا اپنے مہمان کے لیے انتظار اس کی نقل دکھائی دیتا ہے حالانکہ اٹل حقیقت قبر کا اپنے مہمان کے لیے انتظار ہی ہے۔ تاہم ماں کا انتظار بھی ختم ہونے والی شے نہیں ہے۔ پھر جب بیٹے کی شادی ہو جاتی ہے اور چند برسوں بعد وہ کسی نہ کسی بہانے الگ گھر میں شفٹ ہو جاتا ہے تو مائوں کا انتظار اور بھی طویل ہو جاتا ہے۔
اب ہمارے معاشرے میں بہت سے بیٹے ایسے ہیں جن کی مائیں اس طویل انتظار کا شکار ہو چکی ہیں لیکن بیٹوں کو ان کی بیگمات اور ان کی اولاد‘ ایسے الجھائو میں ڈال دیتے ہیں کہ اس کم بخت کو ماں بیٹے کے رشتے کی ہوش نہیں رہتی۔
بیٹیوں کا معاملہ مختلف ہے۔ کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو تو لوگ دل رکھنے کو کہتے ہیں کہ بیٹی تو نعمت ہوتی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ دل رکھنے کو کہی جانے والی یہ بات سو فیصد حقیقت پر مبنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کے دل میں عجیب گنجائش پیدا کر رکھی ہے۔ شادی کے بعد اپنے گھر میں بال بچوں کی محبت، سسرال کا دبائو، شوہر کے ناز نخرے‘ سب برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت نہ صرف موجود رہتی ہے بلکہ پہلے سے بھی پختہ تر ہوتی جاتی ہے۔کاش پروردگار نے بیٹوں کو بھی ایسے دل دیے ہوتے جیسے بیٹیوں کو دیے ہیں۔
قرآن پاک میں اولاد عطا کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا جو فرمان ہے‘ اس میں پہلے بیٹیوں کا ذکر ہے۔ فرمایا: ہم جس کو چاہتے ہیں بیٹیاں ہی دیتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں بیٹے ہی دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں بیٹے اور بیٹیاں دیتے ہیں...
اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اولاد میں اولیت تو اسی خاندان کو ہے جس کے صرف بیٹیاں ہی ہوں‘ اس کے بعد جہاں صرف بیٹے ہی ہوں اور بیٹے اور بیٹی دونوں‘ جس کی تمنا اکثر کی جاتی ہے اس کا نمبر تیسرا بنتا ہے۔
بیٹی کا دل کس قدر محبت بھرا ہوتا ہے اس کا اندازہ ایسے واقعات سے کریں کہ باپ نے بیٹی کو بیچ دیا مگر وقت آنے پر
بیٹی نے پھر بھی باپ کو معاف کر دیا۔ اسی طرح بھائی نے غصے میں آکر ٹانگ توڑ دی مگر لنگڑا کے چلنے کے باوجود بھائی کی محبت دل ہی میں رہی۔ بیٹی کے طور پر اللہ ہمیں جو نعمت عطا کرتا ہے اس کی ہمارے ہاں جو بے قدری ہوتی ہے‘ وہ ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔پیدا ہوتے ہی وہ عمومی مایوسی کا سبب بنتی ہے۔ اس کے بعد اس کو مسلسل امتیازی سلوک کا نشانہ اس حد تک بنایا جاتا ہے کہ وہ اس سلوک کی عادی ہو جاتی ہے۔ ماں جب کٹورے میں زیادہ بوٹیوں والا سالن ڈالتی ہے تو بیٹی خود ہی آواز دیتی ہے۔ ''بھائی آئو ماں نے تمہارے لیے سالن ڈال دیا ہے‘‘۔ کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کو جو سالن ملنا ہے وہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس سلوک کے باوجود گھر میں باپ اگر بیٹے کو کوئی کام کہے تو اسے یاد نہیں رہتا اور بیٹی کو کوئی کام کہے تو اس کو بھولتا نہیں۔ دیہات میں تو بیٹیوں کی قرآن سے شادی اور ونی کرنے وغیرہ کی باتیں عام ہیں۔ غیرت کی خاطر قتل بھی ہوتی رہتی ہیں مگر شہروں کے تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی بیٹیوں کے ساتھ ایک خاص انداز میں امتیازی سلوک ہی ہوتا ہے۔ فیشن سا تو بن گیا ہے کہ محفلوں میں لوگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ بیٹے اور بیٹی کو ایک جیسا سمجھتے ہیں‘ مگر وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں۔
جن ماں باپ کو اللہ تعالیٰ نے محض ایک بیٹی ہی دے رکھی ہو‘ وہ اس بیٹی کے ناز نخرے بھی بہت اٹھاتے ہیں‘ مگر دل کے کسی کونے میں یہ خواہش ضرور دبی ہوتی ہے کہ اگر اللہ نے ایک ہی اولاد دینی تھی تو پھر بیٹا ہی کیوں نہ دے دیا۔
بیٹی کی صحیح قدر وہی پہچان سکتا ہے جس کا دل پروردگار ایمان کے نور سے روشن کر دے۔ہمارے ہاں بھلے کوئی مذہبی گھرانا ہو یا جدید تہذیب کا رسیا گھرانا، کوئی کٹر مُلا ہو یا کوئی بے دین قسم کا دنیا دار شخص ان سب کے ہاں اکثر صورتوں میں بیٹیوں کی ناقدری ہی ہوتی ہے۔ اب ہم ایمان کا نور کہاں تلاش کریں۔مادی اقدار نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کو جکڑ رکھا ہے۔ کسی کا مذہبی ہونا یا جدید تہذیب کا نمائندہ ہونا محض ایک پہچان رہ گئی ہے‘ وگرنہ عمل میں سبھی ایک سے معلوم ہوتے ہیں۔
ان حالات میں بیٹیوں پر مسلسل ظلم ہوتا رہے گا اور وہ بیچاری سہتی بھی رہیں گے اور بددعا بھی نہیں دیں گی۔یہ جو خواتین کو Empower کرنے کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں باہر نکلی ہوئی ہیں‘ یہ ایسا پیغام دیتی ہیں جس کی ہماری ثقافتی اقدار سے مطابقت بہت کم ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ این جی اوز ہماری بچیوں کو مغربی دنیا کی آزاد خیال بچیاں بنانا چاہتی ہیں‘ لہٰذا اس طرح اپنی بیٹیوں کو اور بھی دبا کر رکھنے کے لیے ان کو ایک اور دلیل مل جاتی ہے۔
بیٹیاں بددعائیں تو نہیں دیتیں‘ مگر اللہ ہم سب کو ان کی آہ سے محفوظ رکھے۔