جہاد کی فرضیت کے بارے میں یہ کہیں لکھا ہوا ہے کہ اس کا اعلان کون کرے گا؟ کیا حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی رائے کا ذکر کہیں کسی حدیث یا آیت میں ملتا ہے؟ اچھا کسی حدیث یا آیت سے یہ ہی بتلا دیجئے کہ ہر شخص یا ایک گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے؟ یہاں پر میں کسی شخص کی ذاتی رائے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں صرف ایک حدیث یا قرآنی آیت کا حوالہ چاہ رہا ہوں۔ اگر آپ کے علم میں ہے تو مہیا کرکے مشکور کیجئے گا۔ باقی باتیںبعد میں انشاء اللہ۔
شاید محترم خاور بھائی کے سامنے کچھ باتیں پیش نظر نہیں تھیں۔ جن کی وجہ سے ان کا ایک اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن جہاں تک جہاد کے لئے کسی سےامام یا حکمران کی اجازت کا تعلق ہے تو یہ بات جہاد کرنے میں مانع نہیں ہے۔
اگر آپ اس بات سے شک میں پڑ رہے ہیں تو میں آپ کو دور نبوی میں لئے چلتا ہوں۔ آئیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئیے چلیئے میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تعصب کی عینک اتار لیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی بات نہیں اس کے بغیر بھی آپ کو راستہ نظر آئیگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈریئے مت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آئیے۔
صلح حدیبیہ کے بعد جب کفار مکہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا مدینہ میں جانا ممنوع قرار پایا تو اس واقعے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد صحابی رسول حضرت ابو بصیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کافروں کی قید سے چھوٹ بھاگے۔ وہ سیدھے مدینہ منورہ آئے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ابھی نیا نیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار مکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی رو سے مکہ سے بھاگنے والے مسلمانوں کو واپس کرنے کے پابند تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر کو واپس کردیا۔ مکہ واپسی کے راستہ پر حضرت ابو بصیر ایک تدبیر کے ذریعے دوبارہ نکل گئے۔ لیکن اس مرتبہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے مدینہ جانے کے بجائے ساحل کا رخ کیا۔ اور وہیں رہنے لگے۔چند دن کے بعد حضرت ابوجندل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی چھوٹ بھاگے۔ انہوں نے بھی ساحلی علاقے کا رخ کیا اور حضرت ابوبصیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مل گئے۔ جب اس طرح چند اور مسلمان بھی وہاں جمع ہو گئے تو ان مسلمانوں نے مل کر کفار مکہ کے گزرنے والے تجارتی قافلوں پر ہلہ بولنا شروع کردیا۔ یعنی کہ کفار مکہ سے ان کے ظلم و ستم کا بدلہ لیناشروع کر دیا۔ یا آسان لفظوں میں کہئے کہ ان کے خلاف میدان جنگ کھول لیا۔ یا یوں کہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ہی جہاد شروع کردیا۔
اب اگر آپ کی نظر پر تعصب کی عینک نہ چڑھی ہو تو بتائے کہ کیا ایک صحابی اپنے نبی کے ہوتے ہوئے ان کی اجازت کے بغیر جہاد شروع کر سکتا ہے یا نہیں۔ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود ہیں اور ان کے قریبی علاقے میں موجود صحابہ ان کی اجازت کے بغیر ہی جہاد شروع کیئے ہوئے ہیں۔ کیا معاذاللہ صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی جو انہوں نے نبی/امام/حاکم کی اجازت لئے بغیر ہی جہاد شروع کردیا۔ اور پھر اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار ناراضگی بھی نہیں فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے ایسا کام وہ بھی میری اجازت کے بغیر ؟؟؟؟ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو سند جواز عطا کردی۔ کہ امام، خلیفہ، حاکم یا بادشاہ وقت کی اجازت جہاد کرنے کے لئے لازمی نہیں ہے۔
یہ بات تو دین کا علم جاننے والا مبتدی بھی جانتا ہے کی وہ کام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے صحابہ کو منع نہ کیا ہو اسے " تقریری حدیث" کہا جاتا ہے۔یعنی کہ اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔
اور پھر طرہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بعد میں بھی پیغام بھیج کر باقاعدہ جہاد کااجازت نامہ نہیں دیا۔ اور الحمدللہ صحابہ اسی طرح جہاد کرتے رہے۔ اور کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ حاکم کے ہوتے ہوئے اس کی اجزت کے بغیر ان کا جہاد غلط تھا۔
امید ہے کہ آپ کا یہ بچگانہ اعتراض دور ہو گیا ہوگا۔ میں تو ویسے ہی اس اعتراض کو اتنی اہمیت نہیں دے رہا تھا ہ بہت ہی گھسا پٹا اعتراض ہے۔ لیکن جب دیکھا کہ آپ کی بنیاد ہی اس بات پرکھڑی ہے تو آپ کو اس اعتراض کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں مجھے دینا پڑا۔ تاکہ یہ حجت بھی پوری ہو جائے۔
امید ہے کی آپ کے اعتراض کا جواب اتنا ہی کافی ہوگا۔ وگرنہ تابعین کرام، تبع تابعین اور دیگر اسلاف کی تاریخ سے بھی سینکڑوں مثالیں پڑی ہیں ۔ لیکن بات وہی کہ تعصب کے بغیر کسی بات کو دیکھا جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی کیا کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ ابھی گھما پھرا کر اسی بات کو دوبارہ کرنا ہے۔
کوئی بات نہیں۔ کرلیجیئے۔ لیکن اعتراض کوئی جینوئن ہونا چاہیئے۔ گھسی پٹی باتوں کا جواب دینا شاید کوئی بھی گواراہ نہیں کرتا۔
نیز اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ گھما پھر کر بات کرنا ۔۔۔ بری بات ہے۔ بقول حکیم الامت
"احکام تیرے برحق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پاژ ند"