فہیم
لائبریرین
کہیں پڑھا تھا کہ انسان کو اپنے حال پر نظر رکھنی چاہیے۔ ماضی جو بیت گیا وہ بیت گیا اس نے اب واپس نہیں آنا تو اس کی یادوں میں گم ہوکر کیوں گھلا جائے اور مستقبل جس کا معلوم نہیں کہ اس میں کیا ہو تو اس کا سوچ کر کیوں پریشان ہوا جائے۔
حال کو دیکھو کہ اس کے ایک ایک لحمے میں تمہارے لیے کتنی مسرتیں ہیں۔
بہتیرے لوگ ایسے ہی ہیں جو حال میں مگن رہتے ہیں۔ اس کے ایک ایک پل کو بھر پور انجوائے کرتے ہیں۔ نہ ان کو گزرے ماضی کی یادیں افسردہ کرتی ہیں نہ آنے والے مستقبل کا خوف انہیں ستاتا ہے۔
یعنی کہ "ہر حال میں مست رہو" والی کہاوت ان پر فٹ بیٹھتی ہے۔
لیکن اگر ایسے میں ہی کسی غم سے سامنا ہوجائے تو؟
غم اگر نارمل حالات میں آئے تو شاید اتنا بھیانک معلوم نہیں ہوتا جتنا کہ انسان جب خوشیوں اور مسرتوں میں ڈوبا ہو اور وہی مسرتیں اچانک غم کا روپ دھار لیں۔ ایسے میں اکثر انسان کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے کہ یہ کیا ہوا بعض دفعہ اسے یقین نہیں آتا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا تو سوچا بھی نہ تھا (لیکن غلطی بھی یہی ہوتی ہے کہ ایسا سوچا کیوں نہیں تھا اگر ایسا سوچا ہوتا تو شاید اتنا غم نہ ہوتا)۔
ایسے ہی غم میں کسی مخلص دوست کا سہارا گویا تپتے ریگستان میں کسی نخلستان سا معلوم ہوتا ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ایسے دوست میسر ہوتے ہیں۔ جو انہیں اس غم کی گہرائیوں سے نہ صرف کھینچ لاتے ہیں بلکہ اس غم کی جو گرد دل و دماغ پر جم گئی ہوتی ہے اسے بھی اپنے پیار سے دھو ڈالتے ہیں۔
خوشی اور مسرت میں ڈوبے انسان کو دماغ میں یہ بات بھی روشن رکھنی چاہیے کہ " ضروری نہیں جیسا وہ چاہتا ہے ویسا ہی ہو اور جو وہ پانا چاہتا ہے وہ ضروری نہیں اسے ہی حاصل ہو"
جو ایسی سوچ رکھ کر کوئی کام کرے۔ تو کام اس کی سوچ کے مطابق نہ ہونے پر بھی وہ اس توڑ دینے والے غم سے بچا رہ سکتا ہے۔
کیونکہ وہ غم کی گہرائیوں سے نکال لینے والے دوست ہر ایک کے نہیں ہوتے۔