پیش نوشت: یہ تحریر مبشر اکرم صاحب کے بلاگ سے حاصل کی گئی ہے اور ان کی اجازت سے پیش کی جارہی ہے۔ تحریر میں موجود پروف کی غلطیوں کی تصحیح اس اندیشے کے پیشِ نظر نہیں کی گئی کہ کہیں اس سے مصنف کے اسلوب پر زد نہ پڑے! ع ب
میں گورنمنٹ ریلوے مڈل سکول، ملکوال، میں چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا اور ہمارے ٹیچر دوست محمد صاحب تھے۔ بڑے نستعلیق آدمی تھے اور لباس کے حوالے سے بہت نفاست تھی ان میں۔ شاید اسی نفاست کا شاخسانہ تھا کہ انہوں نے کلاس میں ایک کام یہ شروع کروایا کہ ہر روز دو مختلف طلباء کو ایک ساتھ اگلے دن سکول ٹائم سے پہلے آکر سکول کےوسیع کچے صحن میں کلاس کی جگہ صاف کرنے کی روٹین میں آنے کا حکم دے ڈالا۔ میں پاکستان کے 90 فیصد طلباء کی طرح، الحمداللہ "ٹاٹئین" ہوں، لہذا یاتو پٹ سن کی بوری، یا پھر جو ذرا تونگر تھے، وہ اپنی مرضی سے ٹاٹ کا ایک ٹکڑا کٹوا کر اپنے بچوں کے حوالے کردیتے تھے کہ زمین پر بچھا کر بیٹھ جائیں انکے بچے۔ خیر میرے ساتھ میرے گروپ میں، ایک دوسرا بچہ جسکا نام "ٹیپو سلطان" تھا، کی ڈیوٹی لگ گئی۔ اگلے دن میں کوئی سات، سوا سات، بجے پہنچ گیا سکول، اور ٹیپو صاحب کوئی آٹھ بجنے سے دس منٹ پہلے پہنچےاور میں نے اس پر جب چڑھائی کی تو آگے سے چند ایک فقرات کے تبادلے کے بعد، کہ جن کا یہاں درج کرنا غیر پارلیمانی ہو گا، میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنا "میں کسی کا پنجابی نوکر، یا، بےغیرت نہیں کہ دوسروں کی جگہ صاف کرتا پھروں۔" اس دن میں نے پہلی مرتبہ شعوری طور پر جانا کہ ٹیپو سلطان کا پورا نام، ٹیپو سلطان خان تھا اور وہ اپنے خاندان کی تیسری نسل تھا جوملکوال میں سیٹلڈ تھے اور انکے دادا کو انگریزوں نے فوج میں خدمات کے عوض زمینیں الاٹ کی تھی ملکوال کے ذرعی علاقہ میں، پنجابی رہن سہن میں مجھے معلوم تھا کہ وہ پٹھان النسل ہے، مگر یہ کبھی بھی میرے لیے کوئی پرابلم نہ رہا، مگر میرے ہم عمر کلاس فیلو، ٹیپو سلطان کےلیے یہ بڑا اہم تھا کہ وہ پٹھان ہے اور بےغیرت پنجابی نہیں-
پھر 1994 میں، میں اپنی شدید غربت سی جان چھڑانے کےلیے ایم بی اے کی کوشش کر رہا تھا اور میرا ایک اور کلاس فیلو، فضلِ ربی خان، سوات کا پٹھان تھا۔ ہم اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس-تھری سے واک کرتے میلوڈی مارکیٹ میں عموما سموسہ پلیٹ کھانے جاتے تھے۔ میں، فضل اور شکیل، ہم تین کا گروپ تھا۔ ہمارے کلاس ٹیسٹ تھے ایک دن اور شکیل جو کہ کمپیوٹر میں بہت اچھا تھا (اسکا نام میں نے "تایا ونڈو" رکھا ہوا تھا)، نے امتحان کے دوران فضل ربی کو نقل دینے سے انکار کیا، اور اسکے بعد جب ہم اکٹھے واک کرتے ہوئے میلوڈی مارکیٹ جارہے تھے تو فضل نے، شکیل کو بےغیرت کہہ ڈالا کہ تم "دال خور پنجابی" ہوتے ہی بےغیرت ہو جو دوستوں کی مدد نہیں کرتے۔ اس دن مجھے معلوم پڑا کہ پنجابی بے غیرت کے ساتھ"دال خور" بھی ہوتے ہیں۔
اسی سال میں، اسی فضلِ ربی کے ساتھ ایک دن اور مکالمہ ہو رہا تھا، اور ہم اسی طرح جی سکس-تھری سے میلوڈی کی طرف جا رہے تھے کہ جب اسلام آباد کالج فار بوائز کے سامنے موصوف نے نامعلوم کس بات پر یہ کہا کہ تم پنجابی ہوتے ہی بےغیرت ہو کیونکہ تم بسوں میں "عورت کے لیے جگہ نہیں چھوڑتا۔" مجھے اس بات کی شروعات تو یاد نہیں، مگر میں نے آگے سے ٹھٹھہ کیا کہ بسوں میں عورت کے لیے جگہ دینے یا نہ دینے کا غیرت سے کیا تعلق ہے؟ "بس ہے، تم ہوتے ہی بےغیرت،" آگے سے جواب آیا۔ اس سے یاری تھی، برداشت کر لیا، چپ رہا مگر یہ بات یاد رہی۔ اب بھی ہنس دیتا ہوں کہ یہ کیا بات تھی۔
پھر 2001 کے جنوری میں خیابانِ سرسید راولپنڈی سے مارگلہ ٹاؤن، اسلام آباد شفٹ ہونے کےلیے ایک پراپرٹی ڈیلر، ندیم جو کہ ہندکو بولنے والا "پشوری" تھا، کے ذریعے ایک مکان کی بات ہو رہی تھی کرائے کےلیے، تو مالک مکان ایک پشتون تھا۔ دونوں نے پشتو میں ایک لمبی بات کی اور میں بات میں تین/چار جگہ پر "دہ پنجابئے" سنا اور بعد میں، میں نے اسے پوچھا تو کچھ ٹالنے کے بعد ندیم نے بتایا کہ وہ موصوف آفریدی صاحب تھے اور انکے ہاں پشتومیں "پنجابئے" ایک گالی ہے۔ ان آفریدی صاحب نے مجھے پنجابی ہونے کی بدولت مکان نہ دیا، اسلام آباد میں، مگر جن "پشتون بھائ" کو انہوں نے مکان کرائے پر دیا، انہوں نے انکی ایک دن خوب پٹائی کی اور انکا مکان خالی کرنے سے انکار کیا۔ میں اسی گلی نمبر 24 کے ایک دوسرے مکان میں کرائے دار تھا۔ اخلا ق و عظمت کا ڈھول نہیں مارنا ادھر، مگر ان آفریدی صاحب کی جان بچانے میں، میرا بھی ہاتھ تھا، وگرنہ انکے پشتون بھائی نے شاید انکی کافی عزت کرنا تھی۔
دوستو، دنیا میں ہر جگہ پر پائے جانے والے مردانہ معاشرے میں مرد کے متشدد رویوں کو ایک قبائلی معاشرت میں غیرت کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ میں یہ رویہ اپنے محدود مطالعے میں انڈیا، بنگلہ دیشں، افغانستان، پاکستان، نیپال ، اور جزیرہ نما عرب کے معاشروں میں موجود دیکھا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ انہی سوشل ڈیولپمنٹ کے انڈیکیٹرز کے آس پاس کے دوسرے ممالک میں بھی یہی رویہ ہوگا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ میں اس میں غیرت نہیں بلکہ مرد کی ایک معاشرتی سٹرگل ہی دیکھ پایا کہ جس میں وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اسکی جسمانی برتری، بذریعہ تشدد، معاشرےکے کمزور طبقات، اور عورتوں پر قائم رہے۔ اپنے پیشہ وارانہ امور کے نمٹانے میں کئی مرتبہ نکھٹو مردوں کو کماؤ بیویوں اور بیٹیوں پر تشدد کرتے پایا اور بعض خواتین کی چند حوالوں سے مدد بھی کی۔
یہ غیرت کیا ہے، اس پر شاید کسی اور دن بات ہو گی کہ فی الحال موضوع بے غیرت پنجابی ہے۔
میں کشمیری النسل پنجابی ہوں اور پاکستان میں بسنے والی باقی تمام اقوام کی طرح مجھے بھی اپنی شناخت عزیز ہے اور اس سے پیار ہے۔ پٹھان، اور بالخصوص بلوچ و سندھی لوگ (اور اب سرائیکی بھی)، اپنی سیاست اور معاشرت میں ایک خاص رویہ رکھتے ہیں پنجاب اور پنجابیوں کی جانب اور مجھے اس بات پر کوئی معذرت نہیں کرنی کہ انکا یہ رویہ اسی "علمیت" پر مبنی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ پنجاب اور پنجابیوں کو انکے بارے میں کم علم ہونے کا طعنہ مارتے ہیں۔ باقی اقوام کا پنجاب اور پنجابیوں کو گالیوں سے نوازنا بھی دراصل انکی اپنی "علمیت" کی ہی نشانی ہے کہ جنہوں نے پنجاب کے دو اضلاع نہ دیکھےہوں، لوگوں میں گھلے ملے نہ ہوں، اپنے جیسے ہی مجبوریاں پنجاب کے عامیوں میں نہ دیکھی ہوں، اپنی ہی زندگی جیسی سختیاں پنجاب کے مزدوروں، دیہاڑی داروں، غریبوں میں نہ دیکھی ہوں، وہ بھی پنجاب کو گالی دینے کے سپیشلسٹ بنے پھرتے ہیں۔
آپ بےغیرتی کی بات کرتےہیں، پنجابی کی؟ آپ ذرا بتائیں کہ کیا آپ ایا کاٹھیا، رائے احمد خان کھرل، راجہ پورس، راجہ داسو گکھڑ، ملک خان محمد، رائے کرم چند بسائی، گرپار سنگھ ڈھلوں، منجیت سنگھ، گروپال سنگھ چوہان، دلا بھٹی، راجہ گروبندا، رشید گورمانی، بھگت سنگھ، اکبر فرزند بھٹی، رام کرپا سدھو کے ناموں سے واقف ہیں؟ اور بھی ہیں، مگر کیا آپ نے یہ نام سنے ہیں؟ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پچھلے پانچ چھ سوسالوں کے دوران مختلف غاصب حکمرانوں، کہ جن میں مغل اور انگریز بھی شامل تھے، کے خلاف شورشیں برپا کر رکھیں؟
کیا آپ جانتےہیں کہ ملکوال کے بالکل قریب بھیرہ نامی قصبہ شمال سے آنے والے افغانیوں کے خلاف مزاحمت کرتے کرتے سات مرتبہ تباہ ہوا، اور ابھی آٹھویں مرتبہ آباد ہے۔ اس علاقے میں ابھی مذاق میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ اب بھیرہ آٹھویں مرتبہ اللہ کے ہاتھوں ہی تباہ ہو گا۔ تباہ وہی شہر ہوتے ہیں کہ جن کے باسی مزاحمت کریں، لڑائی کریں، یونانی لشکریوں کے ساتھ مل کر حالیہ جلال پور شریف کے مقام پر راجہ پورس کے ہاتھوں مرنے والے غیرتمند نہیں، جاہل جنگجو تھے جو خزانے اور عورتوں کی لالچ میں کبھی سکندر مقدونوی کے ساتھ آئے تو کبھی محمود غزنوی کے ساتھ۔ کبھی نام سکندر مقدونوی کے ساتھ دینے کا دیا اور کبھی سومناتھ میں اسلام لے کر جانے کا اور راستے میں ہموار زمین پر جہاں کہیں بھی مزاحمت کا موقع ملا، پورس، داسو گکھڑ سے لیکر رشید گورمانی نے کی۔
کوئی برا نہ مانے مگر کلکتہ سے کوئٹہ تک ٹیلیگراف کی تار پہنچانے اور اسکی حفاظت کی ذمہ داری بگٹی اور مری قبائل کے سرداروں نے آٹھ، نو سو روپے کے عوض قبول کیے رکھی اور اس طرف پنجاب میں انگریز سندھ کے تالپور حکمرانوں کی مدد سے سندھ اپ-سٹریم جاسوسی کر رہے تھے، سکھ حکومت کی۔ پنجاب، جوکہ کلکتہ سے سابقہ صوبہ سرحد کے راستہ میں تھا، انگریز کے ہاتھ آنے والا سب سے آخری انتظامی یونٹ تھا جو 1849 کی چیلیانوالہ جنگ کے بعد انکے ہاتھ آیا۔ ملکوال کے قریب چیلیانوالہ میں آج بھی وہ یادگار موجود ہے جو کہ انگریزوں نے، بلاشبہ، اپنے آنر کو بہترین انداز میں دکھاتے ہوئے سکھوں اور لڑنے والے مسلمانوں کی یاد میں تعمیر کی اور انکو شاندار الفاظ میں یاد کیا۔ یہ غلامی اپنے اپنے وقت کی اشرافیہ نے ہر جگہ کی مگر بےغیرتی کا تاج باقی یار پنجاب کے سرپر ہی سجاتے ہیں۔
چار سو بیس توپوں کا سلیوٹ قبول کریں!۔
اور بھی بہت کچھ ہے، مگر اسی پر اکتفا کرونگا اور آپ سب سے گزارش کہ حوالہ جات کے لیے سلیگ ہیریسن کی "بلوچ نیشنلزم: ان افغانستانز شیڈو" کا مطالعہ کریں۔ پیٹر ہاپکرک کی بہت/بہت اعلیٰ کتاب "دی گریٹ گیم" میں بھی یہ واقعات درج ہیں، جبکہ ایلس البینیا "دی ایمپائرز آف انڈس" کا مطالعہ بھی کافی علم فراہم کرے گا۔
میرے یار صلاح الدین کھوسو نے پنجاب کو اپنے پیار میں "بے حس" کہہ ڈالا۔ میں نے شکر کیا کہ کام اب بےغیرت سے چلو کچھ کم تو ہوا، مگر بےحس بھی نہیں پنجاب کہ ناموں کی لسٹ طویل ہے جنہوں نے نہ صرف پنجاب، بلکہ پورے پاکستان میں "حساسیت کی حِس" جگائے رکھی۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو، حمید اختر، ظہیرکاشمیری، انور سجاد، مرزا اطہر بیگ، میاں افتخارالدین، طارق علی، طاہرہ مظہر، اےحمید، ظہیر بیدری، حبیب جالب، لسٹ اور بھی لمبی ہے، سارے کے سارے پنجابی ہی تھی۔ پاکستان کا سیاسی و انتظامی بولو رام کرنے والے سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان، بھٹو، ضیا، مشرف، کوئی بھی پنجابی نہ تھا۔ ضیاءالحق پشاور سے تھا۔ حمید گل، اخترعبدالرحمن، بریگیڈئیر یوسف کہ جن پر پشتونوں کا خون ہے، کوئی بھی پنجابی نہ تھا۔ بلوچستان پر تینوں آپریشن غیر پنجابی حکمرانوں نے کیے۔ باقی تمام صوبوں میں رہنے والےبڑے بڑے "قوم پرست سیاستدانوں" کی بڑی بڑی انوسٹمنٹس پنجاب میں ہیں، چاہے وہ مزاری ہوں، مگسی ہوں، رئیسانی ہوں، یا شیرپاؤ ہوں ۔
بات اور بھی لمبی کرنے کا دل تو چاہ رہا ہے، مگر پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ مگر جانے سے پہلے کہنا یہ ہے کہ کھوسو، میرے یار، تُو جسے بے حسی کہتا ہے، وہ پنجابی کی تھکن ہے۔ دیکھ نا، میں بھی تو تھکتا ہی جا رہا ہوں۔ تُو دیکھنے اور سمجھنے والا بلوچ ہے،میرے بھائی، میں اکتالیس سال کی عمر میں تھک گیا ہوں، گالیاں سن سن کر، نفرتیں سمیٹ سمیٹ کر، خاموش رہ رہ کر، اپنی عامیت کے لبادے میں حیران آنکھوں میں سوال اٹھائے پھِر پھِر کر۔ میں قسم سے تھک گیا ہوں،اور تو گلہ کرتا ہے کہ پنجاب بے حس ہے، کیوں نہ ہو کہ میں تو اکتالیس سال میں تھک گیا، پنجاب تو سکندری مقدونوی کے وقت سے لڑ تارہا ہے، تباہ ہو تارہا ہے، اپنی جانوں، جانوروں، عزتوں اور عورتوں کا خراج دیتا رہا ہے اور جس کو تُو بے حسی یا دوسرے جاہل بے غیرتی کہتے ہیں، وہ میرے نزدیک زندگی کی رو میں رہ کر زندگی کے ساتھ آگے بڑھ جانے کا نام ہے۔ وہ اس بات کو قبول کرنے کا نام ہے کہ ہر وقت تنی کمان کی طبیعت کا کیا فائدہ بلکہ مزاحمت وہاں جہاں پر ممکن ہو سکے۔ وگرنہ غیرت کے نام پر "ترقی و آسانی" تو افغانستان اور فاٹا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تجھ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا دیکھنے کے بعد، میرے بلوچ بھائی، تو ان علاقوں میں غیرت کے نام پر کبھی آباد ہونا چاہے گا، کیا کبھی بھی؟
اور تُو مجھے بھائی جان، کہ زندگی نے کبھی موقع دیا تو تیرے سگوں سے آگے ہو کر پہنچوں گا، مگر مجھے اور نہ تھکا تُو۔ پنجابی کی محبت دیکھنی ہے تو ملکوال آ، اور اپنی آنکھوں سے پشین، کوئٹہ، ژوب اور چاغی سے آنے والے بلوچوں کی دکانیں دیکھ اور یہ بھی دیکھ کہ انکی وہاں موجودگی آس پاس کے لوگوں کے لیے دلچسپی اور محبت کا باعث ہے، وہ لوگ اب آپس میں رشتے کررہےہیں، بیٹیاں اور بیٹے دے اور لے رہے ہیں اور ان میں سے کبھی بھی کسی کو لائن میں کھڑا کر کے کبھی گولیوں سے نہ مارا جائے گا، میری زندگی میں اور میرے میرے مرنے کے بعد بھی۔ بے شک لکھ کے کہیں رکھ لے۔
پنجابی سارے دودھ کے دھلے نہیں، مگر سارے کیچڑ بھی نہیں۔ ایک ہی زناٹے میں بےغیرت اور بےحس کہہ ڈالنا اندر تک چیر ڈالتا ہے، اور تھوڑا مزید تھکا دیتا ہے، اور کچھ نہیں۔ مگر شاید تھکاوٹ کے ایک شدید احساس کے بعد بے حسی ہی ہے، جو کہ مجھ سے کروڑوں عام پنجابیوں میں تو ابھی نہیں، وگرنہ یہ سوا دوہزار لفظوں کا بلاگ نہ لکھ رہا ہوتا اپنی محبت میں دوسری قوموں کی، بلکہ جوابی گالیاں نکال رہا ہوتا۔ اور پنجابی کو ذرا سا بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ گالیاں جیسی پنجابی میں، شاید ہی کسی دوسری زبان میں ہوں، مگر سچ بھی یہی کہ پنجابی، عام پنجابی، نہ تو بےغیرت ہے، نہ بےحس اور نہ ہی بےعقل کے بےغیرتی کے طعنوں پر جوابی مغلظات بولتا پھرے۔ عام طور پر وہ سر اٹھا کر اوپر دیکھتا ہے، مسکراتا ہے، سر نیچے پھینک کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے، ہاں مگر اب وہ کبھی کبھی "وڑو کھلو کے" کہنا شروع ہو گیا ہے۔
ا ور اگر مردانہ متشدد رویوں کا نام ہی غیرت ہےتو اپنے پڑھنے والوں کے لیے خبر یہ ہے کہ پنجاب میں ہی اس جاہلانہ روش کے تحت تشدد سب سے زیادہ ہے تو کیا میں دو چار کتابیں پڑھنے اور دو چار عقلمندوں کی محفل میں بیٹھنے کے بعد، اسی کو ہی غیرت جانوں؟ یہ کام مجھ سے، ایک مرتبہ پھر، کروڑوں پنجابیوں سے نہ پہلے ہوا، نہ اب ہوگا۔
میں اکتالیس سال کا ہوچکا۔ عمر کا ساٹھ فیصد گزار چکا، باقی بھی گزر جائے گا۔ عمر کے اس حصہ میں کوشش کہ اپنے حصہ کا شجر لگا ڈالوں کہ ہم سب کو مختلف ہونے کے باوجود اب ایک قوم کی طرح آگے بڑھنا ہے، اور اگر اب بھی وہی ڈھاک کے تین پات، "دہ پنجابئے" کی گالی، بےغیرتی کے طعنے، تو آپکی مرضی ہے، میری اور مجھ سے کروڑوں پنجابیوں کی جانب سے اب پھر "وڑو کھلو کے!" – مگر ایک دلی دکھ کے ساتھ۔
پسِ نوشت: ٹیپو سلطان خان، اس وقت فیصل آباد میں ایک پنجابی کی ٹیکسٹائل مل میں جی ایم ہیں، جبکہ فضلِ ربی 2002کی آخری اطلاعات تک لاہور کی ایک کیمیکل فیکٹری میں مینیجر تھا۔ میری تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ابھی تک تو فیصل آباد اور لاہور پنجاب میں ہی ہیں۔ ندیم پشوری سے ابھی بھی جگری دوستی ہے، اور وہ آفریدی صاحب اب اپنے مکان کو پشتون کرائےداروں کو نہیں دیتے۔