پیر سیّد نصیر الدّین نصیر گیلانی گولڑوی کو اپنا بھائی قرار دینے والی بےنظیر بھٹو نومبر 2007 میں آٹھ برس بعد اسلام آباد آئیں تو سب سے پہلے گولڑہ شریف حاضری دینے جا پہنچیں ..!!
بھائی سے ملاقات تو نہ ھو پائی لیکن دیگر پیر صاحبان اور سجادگان نے والہانہ استقبال کیا .. آستانہِ مہرِ علی کے در و دیوار سے محبّت و اپنائیت کا اظہار کرتی محترمہ جانے کیوں ایسا محسوس کروا رہی تھیں جیسے یہ آخری سلام ھو
اور پھر 27 دسمبر کی خون آلود شام آئی اور دُخترِ مشرق رخصت ھوئیں .. اپنے ہی پنڈی کی سڑکوں پہ بہن کا خون بہا تو بھائی کا دل بھی جیسے خون رو رہا تھا
اب دل گرفتہ شاہ نصیر جذبات کا اظہار کرنے بیٹھے تو بہن بھائی کے رشتے کو اَمر کر دیا اِسے مرثیہ کہیں یا نوحہ .. لیکن درد میں ڈوبے یہ الفاظ سُخن وری کا کمال تھے! سوئم کے روز لیاقت باغ جائے شہادت پر کھڑے نصیر الدّین، پیر آف گولڑہ شریف نہیں ایک مظلومہ کے بھائی بن کر بول رھے تھے
تنگ نظر اور متعصّب مُلاؤں نے اعتراض کیا تو شاہ نصیر سینہ تان کر بولے "میں بادشاہوں، درباریوں اور مولویوں کے قصیدے نہیں لکھتا .. ہاں اپنی مظلوم بہن کا مرثیہ ضرور لکھا"
یہ تختِ فاخرہ پر تاجدار بیٹھے ہیں
کہ تِیرِ وقت کی زد میں شکار بیٹھے ہیں
قُبائے صبر کئے تار تار بیٹھے ہیں
یہ کس کی یاد میں سب سوگوار بیٹھے ہیں؟
اُجڑ گیا ھے یہ کس بد نصیب کا گُلشن؟
یہ کس کے سوگ میں لوگ اشکبار بیٹھے ہیں؟
وہ آصفہ ھو، بلاول ھو یا کہ بختاور
نڈھال غم سے بہ گردِ مزار بیٹھے ہیں
ترے جیالے تری راہ میں بےنظیر اب بھی
لئے ھوئے دلِ اُمّید وار بیٹھے ہیں
نہ بھول پائیں گے تا زندگی خدا شاہد
وہ تیرے ساتھ جو لمحے گزار بیٹھے ہیں
تُو آج اپنے جیالوں کو دیکھ تو آ کر
سہے ھوئے ستمِ روزگار بیٹھے ہیں
وہ توڑ سکتے نہیں اب کسی بھی صورت میں
جو عہد تجھ سے کئے اُستوار بیٹھے ہیں
یہ کم ھے کیا کہ تیرے بعد بھی یہ دیوانے
لئے سَروں میں وفا کا خمار بیٹھے ہیں
تسلّیاں اِنہیں دینے کو آئے گا اب کون؟
ترے غریب سرِ رہ گزار بیٹھے ہیں
جنہیں گُماں تھا کہ دے موت تجھ کو شائد مات
وہ بازی جیت کے بھی آج ہار بیٹھے ہیں
تُو مر گئی مگر اب بھی دِلوں میں زندہ ھے
کِئے ھوئے پہ عدو شرمسار بیٹھے ہیں
یہ غم کوئی ترے بچوں سے پوچھے جو تجھ کو
خود اپنے ہاتھوں لحد میں اُتار بیٹھے ہیں
دراز عُمر ھو آفاق میں بلاول کی
جو اپنے نانا کی اک یادگار بیٹھے ہیں
ھے خانوادہِ بھٹو کو تیرے عزم پہ ناز
جو لُٹ چکے ہیں مگر با وقار بیٹھے ہیں
ہوا کی شہ پہ جو اونچا اُڑے ترے دشمن
تھمی ہوا تو وہ مثلِ غبار بیٹھے ہیں
تمام شہر ھے خاموش، بند ہیں بازار
اُداس تیرے عقیدت گزار بیٹھے ہیں
نکل کے ان کو دِکھا دے ذرا جھلک اپنی
تری لحد پہ ترے جانثار بیٹھے ہیں
ترے سوا انہیں آ کر اُٹھائے کون کہ جو
لگائے دل سے غمِ روزگار بیٹھے ہیں
تُو وہ خطیبہ، خطابت کو ناز ھے جس پر
تری ہی یاد میں سب دِل فگار بیٹھے ہیں
تُو اپنی ذات میں وہ "بے نظیر" بن کے اُٹھی
کہ تیرے رُعب سے فتنے ہزار بیٹھے ہیں
تُو ایک چاند کہ جو تیرگی کے حلقے میں
تُو ایک گُل کہ تیرے گِرد خار بیٹھے ہیں
تُو ایک حور شمائل، تُو وہ حیا پیکر
کہ لوگ سَر تری سیرت پہ وار بیٹھے ہیں
بلاول، آصفہ، بختاور اور زرداری
لِئے ھوئے عَلمِ ذوالفقار بیٹھے ہیں
ھے آرزو کہ تری مغفرت ھو اور ہمیں
عطا ھو صبر جو غم سے دوچار بیٹھے ہیں
ملے گی تجھ کو شفاعت شفیعِ محشر کی
پئے دُعا صُلحائے کبار بیٹھے ہیں
نصیرؔ اُن سا زیاں کار کوئی کیا ھو گا؟
جو آپ اپنے مسیحا کو مار بیٹھے ہیں
سید محسن رضا