غسل خانے میں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرم پانی کی گھنڈی گھماتے ہی استقبالیہ سرد چھینٹوں نے گویا یخ بستہ کھوپڑی کو تڑخنے پر مجبور کر دیا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کی پپڑیاں غسل خانے میں بکھرنے کی دیر تھی کہ طائر تخیل نے قفس سے آزادی پاتے ہی ماضی میں بیس برس کی اڑان بھر لی۔ اس طائر تخیل نے حالت پرواز میں ہی نیچے جھانک کر دیکھا تو چہار سو کہرے کی چادر تنی ہوئی تھی۔ سطح پرواز کچھ نیچے کرنے پر موسم سرما کی صبح کی دھند میں لپٹے ہوئے مناظر قدرے صاف نظر آنے لگے۔ جا بجا دھوئیں کے مرغوالے اٹھتے نظر آئے جن میں سے کچھ کے مخرج مٹی کے چولہے تھے تو کچھ کا دہانہ الاؤ تاپتے لوگوں کے دائرے میں گھری سلگتی راکھ کی ڈھیر۔ یہ کوئی گاؤں تھا جس کے اطراف دارز قامت درختوں کے جھنڈ، نالیوں کے غلیظ پانی سے بھرا تالاب، شبنم سے بھیگی ٹھٹری ساکت و صامت کھڑی گنے کی فصلیں، خالی میدان، لہسن، دھنیا، پالک، مولی اور آلو کی کیاریاں اور کچھ فصلوں سے عاری کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ایک پگڈنڈی پر کوئی اپنے کندھوں پر ہل رکھے بیلوں کی جوڑی کے ساتھ کھیتوں کی جانب رواں تھا۔ بیلوں کے چلنے سے ان کے گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز صبح کے سکوت کو مرتعش کر رہی تھی۔ گاؤں کو قرب و جوار سے جوڑنے والی پتلی سی پگڈنڈی نما سڑک پر مخالف سمت سے آتی ہوئی بیل گاڑی کو راستہ دینے کے لئے بیلوں کی جوڑی متصل کھیت میں کیا اتری، قریب ہی کوئی کھنکھارتے ہوئے اپنا لوٹا سنبھال کر سبزے کی آڑ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید فصلوں کو روندنے کی پاداش میں ہل لے کر جا رہے کسان کو کسی سمت سے آتی ہوئی گالیاں بھی سنائی دی تھیں لیکن اس نے پلٹ کر جواب دینے کے بجائے اپنا راستہ ناپنے کو ترجیح دی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے بیلوں کے گلے میں بندھے جھنجھنوں اور بیل گاڑی کی چرمراہٹ دونوں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔
طائر تخیل نے کچھ اور فاصلہ طے کیا تو دیکھا کہ گاؤں کے ایک گوشے میں ایک کنواں ہے جس کی طرف ایک چھوٹا سا بچہ رسے کا گچھا کندھوں پر لٹکائے اور ہاتھوں میں لوٹا لئے بڑھا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک مرد پیر ہاتھوں میں بالٹی لٹکائے آتا نظر آیا۔ طائر تخیل کو یہ منظر کچھ دلچسپ سا لگا تو اس نے کنوئیں کے پاس موجود ببول کے پیڑ کی شاخ پر ٹھہرنے کا قصد کیا۔ ابھی پر پھرپھرا کر گردن جھٹک کر شاخ پر پنجوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے توازن بنانے کی کوشش جاری تھی کہ دیکھا تو مرد پیر نے رسی کا ایک سرا بالٹی سے باندھ کر ایک پاؤں کنوئیں کی جگت اور دوسرا پاؤں کنوئیں کے کھلے منہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لکڑی پر جمائے جھکا ڈول کھینچے کی کوشش کر رہا تھا۔ چار پانچ قد آدم گہرائی میں موجود دھرتی کی چھاتی سے نکلے پانی سے بھری بالٹی کی سطح پر یخ سرد موسم میں بھی بھاپ اڑتی نظر آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اس بوڑھے سے چپک کر کھڑا ہو گیا اور پھر ایک ایک لوٹا کر کے پانی دونوں جسموں کو بیک وقت بھگونے لگا۔ بچے نے پوچھا کہ دادا آپ خواہ کتنی ہی سردی ہو، برسات ہو یا گرمی ہو صبح نہاتے ضرور ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھے نے جواب دیا، بیٹا! جانے کتنے برس ہو گئے ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے بغیر نہائے ناشتہ کیا ہو، موسم خواہ کیسا بھی ہو۔
ابھی دوسری بالٹی بھر کر نہانے کے دوسرے دور کی شروعات ہی کی تھی کہ میلی سرخ ساڑی اور نیلے بلاؤز میں لپٹی ایک عورت کمر پر مٹی کا گھڑا ٹکائے ہوئے کنوئیں کی جگت کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ بوڑھے نے بغیر کچھ کہے بالٹی کے ہتھے سے رسہ کھول کر اس عورت کو تھمایا اور بچے کی انگلی پکڑ کر کنوئیں کی جگت سے دور جا کھڑا ہوا۔ عورت جس راستے آئی تھی، گھڑا بھر کر اسی راستے واپس چلی گئی۔ کنوئیں کی پختہ جگت کی طرف واپس آتے ہوئے بچے نے بوڑے سے سوال کیا کہ دادا جان! کوئی پانی بھرنے آتا ہے تو دوسرے لوگ کنوئیں سے دور کیوں چلے جاتے ہیں؟ عمر رسیدہ بزرگ نے جواب دیا کہ بیٹا اس گاؤں میں دو مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوا چھوت مناتے ہیں جس کا لحاظ کرتے ہوئے لوگ اس وقت جگت سے دور جا کھڑے ہوتے ہیں جب دوسرے مذہب کا کوئی پانی بھر رہا ہو۔ بچے نے پھر پوچھا کہ دادا اس گاؤں میں ایک ہی کنواں کیوں ہے؟ دو کنوئیں ہوں تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس پر بوڑھے نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ بچے نے وہ داستان سننے میں شدید دلچسپی کا اظہار کیا۔
تیسری بالٹی بھرتے ہوئے بوڑھے نے گلا کھنکھارتے ہوئے یوں داستان کی شروعات کی۔ کئی برس قبل جب تمہارے ابو چھوٹے سے تھے تب ہمارے گاؤں میں کوئی کنواں نہیں تھا۔ کئی دفعہ کنواں کھودنے کی کوشش کی گئی لیکن دو سے تین قد آدم گہرائی تک کھودنے کے باوجود پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ ہر روز اس گاؤں کی عورتیں سر پر تلے اوپر دو تین گھڑے رکھے قریب کے گاؤں کے کنوئیں سے پانی لاتی تھیں۔ یہ بات کسی طرح بلرام پور کے راجہ کے دربار تک جا پہونچی۔ رانی نے جو یہ سنا کہ ان کی رعایا میں ایک گاؤں ایسا ہے جہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو انھوں نے ٹھان لیا کہ جب تک "امرہوا" گاؤں میں پانی نہیں نکل آتا، وہ اناج کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتاریں گی۔ راجہ کے دربار میں جیسے کہرام مچ گیا، آن کی آن میں "لونیا" (کنواں کھودنے والے) دوڑائے گئے جنھوں نے گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کر کے اس گاؤں میں کنواں کھودنے کا آغاز کیا۔ ان کے ہاتھ پھاوڑے تھامے اس تیزی سے چل رہے تھے جیسے ان کی چہیتی رانی کے کھانے کی تھال مٹی کی تہوں میں کہیں اندر دفن ہے۔ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سبھی لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اس جگہ بھڑ لگا کر کھڑے ہو گئے اور کوشش کرنے لگے کے سب سے آگے وہ جا نکلیں۔ پورا دن کھدائی کرتے کرتے گذر گیا لیکن کوئی نوید ہاتھ نہ لگا کہ رانی کے "اپواس" (روزہ) کو توڑنے کا سامان ہو سکے۔ کنواں معمول کے کنؤں سے ڈیڑھ دو گنا گہرا کھودا جا چکا تھا۔ جب اندھیرا اس قدر بڑھ گیا کہ چراغ کی روشنی میں بھی کام کرنا ممکن نہ رہا اور کام کرنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے تو انھوں نے کام کو اگلی صبح روشنی ہونے تک کے لئے ملتوی کرنے کا قصد کیا اور کنوئیں سے نکلنے سے قبل بانس کا گز بھر لمبا ٹکڑا نصف لمبائی تک کوئیں کے بیچ میں دھنسا دیا۔ باہر آئے تو دیکھا کہ اکثر تماش بین مایوس ہو کر اور اندھرا پھیل جانے کے باعث اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ گاؤں کے کچھ گھروں سے کنواں کھودنے والوں کے لئے کھانا آیا جسے کھا کر وہ کنوئیں کے قریب ہی ایک جھونپڑی میں سو گئے۔
رات کے کسی پہر اچانک عجیب سی آواز سنائی دی اور ایک شور سا پھیل گیا۔ لوگ ہڑبڑا کر اٹھے تب تک کہیں سے شور اٹھا کہ کنوئیں کا سوتا پھوٹ گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گاؤں اور اطراف میں پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے گڑ لا لا کر کنوئیں میں پھنکنے لگے۔ ادھر راجا کے محل میں خبر بھجوانی بھی ضروری تھی کہ رانی نے اس خبر کے انتظار میں اناج پانی سے ناطہ توڑ رکھا تھا۔ قاصد دوڑائے گئے لیکن ان کے پہونچنے سے پہلے ہی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ہوتے ہوئے یہ خبر محل تک جا پہونچی تھی۔ ہر سو خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ اس روز سے اس کنوئیں کا نام "راجہ کا کنواں" یا "رانی کا کنواں" پڑ گیا۔ اور آج بھی اس گاؤں میں کوئی دوسرا کنواں نہیں ہے کہ اتنی گہرائی تک کھودنا آسان نہیں اور اس پر بھی یہ یقینی نہیں کہ پانی نکل ہی آئے۔
کہرا کچھ کچھ پھٹنے لگا تھا اور سورج کی شعائیں کہرے کی دبیز چادر کو بتدریج سالخوردہ کپڑے کی طرح شفاف بنا رہی تھیں۔ طائر تخیل نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور پر پھرپھرائے۔ اب دونوں غسل سے فارغ ہو چکے تھے اور سوکھے رومال اور تہبند بدن سے لپیٹ لیئے تھے، اس لئے بوڑھے نے ایک بالٹی پانی بھر کر اپنے اور پوتے کے بدن سے اتری میلی بنیان اور گیلے کپڑے سرف ڈال کر کوئیں کی پختہ جگت پر دھونے شروع کیئے۔ اس دوران بچہ اپنے دادا کے کہنے پر لوٹے سے تھوڑا تھوڑا پانی کپڑوں پر گراتا جاتا۔ تبھی اس بچے نے پوچھا کہ دادا جان یہ بلرام پور کے راجہ وہی تھے جو روزآنہ توپیں داغتے تھے؟ نانی جان بتاتی ہیں کہ ہر روز دوپہر بارہ بجے جب بلرام پور کے راجہ کے یہاں توپ داغی جاتی تھی تو سیکڑوں میل کے دائرے میں پھیلے گاؤں کے کھیتوں میں کام کر رہے مزدور دوپہر کی چھٹی کر کے کھانا کھانے گھر جاتے تھے۔ بوڑھے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گویا بچے کی معلومات کی تائید کی اور اس کے علم میں مزید اضافہ کیا کہ بیٹا توپ تو روزآنہ ٹھیک بارہ بجے ہی داغی جاتی تھی لیکن آپ کی نانی کا گاؤں بلرام پور سے اتنا دور ہے کہ وہاں تک توپ کی آواز پہونچتے پہونچتے کئی منٹ گذر چکے ہوتے تھے۔ لیکن تب کسی کے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی تو اسی کا سہارا لے کر مزدور چھٹیاں کرتے تھے اور ظہر کی اذان ہوتی تھی۔ تب گاڑی موٹروں کا اتنا شور نہیں تھا اس لئے آواز بھی کوسوں دور تک پھیلتی تھی۔
بچے نے اپنی معلومات کی تصدیق پر خوش ہوتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا کہ دادا جان! امی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو نانا کے گاؤں کے پاس جو بڑا سا تالاب ہے اس میں دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔ ان دھوبیوں کے گدھے وہیں آس پاس چر رہے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گدھا ایسا تھا جو ٹھیک چار بجے شام کو رینکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ گاؤں کے اسکول میں بلرام پور کے راجہ کی توپ سن کر دوپہر کے کھانے کی چھٹی ہوتی تھی اور اس گدھے کی آواز سن کر اسکول کی چھٹی ہوتی تھی۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے دھلے ہوئے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر پوتے کے ہاتھوں پر لٹکانا شروع کیا۔ پھر خالی بالٹی کو پانی سے بھرا، رسے کا چھلا بنا کر کندھے سے لٹکایا اور پانی بھری بالٹی لے کر دونوں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
طائر تخیل نے آن واحد میں خود کو اپنے قفس دائمی میں مقید پایا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کے ٹکڑے اب اپنی جگہ لے چکے تھے۔ شاور کی گھنڈی کو گھما کر تولیے سے بدن پونچھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ بیس برسوں اور سات سمندر پار ہزاروں میل کا فاصلہ یوں آن کی آن میں طے کر آئے۔ کتنا کچھ بدل گیا ہے! موسم سے مطلق ہمہ وقت سرد و گرم پانی موجود رہتا ہے، انگی کی ایک جنبش سے گھر روشن ہو جاتا ہے، انگلیاں پھیرنے کی دیر ہے کہ ہزاروں میل فاصلے تک پیغامات پلک جھپکتے فون اور انٹرنیٹ کی مدد سے پہونچ جاتے ہیں۔ دیوار پر، کلائی پر، میز پر، کمپیوٹر میں، فون میں غرض کہ ہر جگہ گھڑیاں ہی گھڑیاں ہیں، الارم ہی الارم ہیں۔ یہ سب کچھ ہے پر کیا اس کنوئیں کے پانی کی لذت اس ٹونٹی سے نکلتے پانی میں موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے کنوئیں سے نکلا ہوا تازہ پانی گائے کی تھن سے نکلے گرم دودھ کی طرح تازگی بھرا ہوتا تھا جبکہ یہ ٹونٹی کا پانی ڈبوں میں بند دودھ جیسا بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ ٹمٹماتے چراغ جو زمین کی گہرائی میں کنواں کھودنے والوں کی مدد کرنے سے قاصر نظر آ رہے تھے وہ رات کو نیست و نابود کرنے میں کوشاں اسٹریٹ لائٹوں سے کہیں زیادہ توانا محسوس ہوتے ہیں۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے راجہ کے کنوئیں سے راجہ کے محل تک گھنٹوں میں پہونچی وہ خبر جدید ترین وسائل پیغام رسانی کو منہ چڑاتی ہوئی لگتی ہے۔ یہ الارم گھڑیاں نہ تو راجہ کے توپ کی طرح دور رس لگتی ہیں نہ ہی اس گدھے کی طرح وقت کی پابند۔
اتنے میں میز پر رکھی الارم گھڑی نے گویا چیخ کر کہا کہ ختم کیجئے یہ بے پر کی اڑان اور ناشتہ کرکے کالج کی طرف بھاگیے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کی پروفیسر کے ساتھ میٹنگ طے ہے۔