بے پر کی

رانا

محفلین
ارے سعود بھائی! یہ تو خود آپ کے اپنے الفاظ میں ہوئے "کام چلاؤُ" جوابات۔۔۔ یا بالفاظ دیگر "ٹرخاؤُ" جوابات۔ مگر ؎ سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات۔۔۔
چشمِ تصور سے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آپ سچ لکھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں تو۔۔۔
بھرم کھل جائے، ظالم! تیرے قامت کی درازی کا​
اگر اس طرّۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے​
اور آپ کے جوابات کچھ یوں ہوں گے۔۔۔

س: آپ بوڑھے تو نہیں لگتے، آپ کی عمر کیا ہے؟
ج: اگر سائل کا تعلق صنفِ کرخت سے ہے تو جواب بھی متشابہ ہوتا ہے یعنی "آپ کیا محکمۂ مردم شماری سے تعلق رکھتے ہیں یا پولیس میں ہیں کہ اس قدر ذاتی سوالات کرنے کی جرات کر رہے ہیں؟ آپ اپنی تاریخ پیدائش یاد رکھیے اور صرف اس قدر ہی جانا کیجیے جتنا اور جیسا ہم بتاتے ہیں۔ یہ کن سوئیاں لیتے پھرنا اچھی عادت نہیں۔ اور ہاں آپ کے لیے ہمارا نیک مشورہ یہ ہے کہ دماغ کے نہ سہی لیکن کسی نظر کے ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کیجیے۔"
اور اگر صنفِ نازک یہ سوال کرے تو۔۔۔ کافی دیر تو ہمارے دندانِ مبارک روزنِ لب سے باہر جھانکتے رہتے ہیں اور جب باچھیں بند ہوتیں اور آنکھیں کھُل پاتی ہیں تو ہم تمام جہان کی شگفتگی اپنے لہجے میں سمو کر دھیمے سے عرض کرتے ہیں۔۔۔ "ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ سے کس نے کہا کہ ہم بوڑھے ہیں۔۔۔ شاید آپ بھی اردو محفل پر ہمارے انکسار کو حقیقت پر محمول فرما گئی ہیں۔۔۔ بخدا ایسا ہر گز نہیں۔۔۔ ایسی ہی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے تو ہم نے اپنی تصویر لگا رکھی ہے کہ کہیں آپ فی الواقعہ ایسا نہ سمجھنے لگیں کہ ہم معاذ اللہ بوڑھے ہیں۔ ابھی تو خیر سے ہماری مسیں ہی بھیگی ہیں اور عمرِ عزیز کی 25 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھیں۔ آپ بتائیے آپ کے برس کی ہیں؟ گو کہ سوال کی شیرینی سے تو 20 سے اوپر کی نہیں لگتیں۔"

س: آپ ہر خاتون کو اپیا یا بٹیا کیوں کہتے ہیں؟
ج: اس سوال کے جواب کا تعلق دراصل سائل کے اور ہمارے تعلق کی گہرائی و مضبوطی سے ہے۔
اگر کوئی محرمِ راز مرد دوست یہ سوال کرے تو ہمارا جوب ہوتا ہے۔۔۔ "ارے صاحب! آپ تو سب جانتے ہی ہیں، کیوں شرمندہ کرنے کی ناکام کوششیں کر کے خود شرمندہ ہوتے ہیں؟ ایسے زبانی کلامی اپیا، بٹیا کہہ دینے سے کوئی فی الواقع اپیا بٹیا بن تھوڑا ہی جاتی ہیں۔ ہم قبل ازیں آپ پر واضح کر چکے ہیں کہ یہ انتہائی مجرب اور زود اثر نسخہ ہے۔۔۔ دنیا بھر کی خواتین یوں ہی تو بیک وقت ہمارے یاہو، ایم ایس این اور سکائپ میسنجرز کے دوستوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوئیں۔"
اگر کوئی با تکلف یا نیا شناسا مرد یہ سوال کرے تو ہمارا نپا تلا جواب ہوتا ہے کہ "کیا کیجیے۔۔۔ کچھ طبع ہی ایسی سادہ پائی ہے کہ اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یوں بھی زمانۂ طالب علمی سے ہی ہم اس قدر شرمیلے واقع ہوئے ہیں کہ صنفِ نازک سے بات کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور بے دھیانی میں منہ سے باجی یا آپا ہی نکل جاتا تھا، اب وہی عادت پختہ گئی ہے۔"
اور اگر خوش قسمتی سے کوئی لڑکی یہ سوال کر دے تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے دام میں آئے بغیر اس کا نکل جانا نا ممکن ہے کہ ہم ہر سوال کرنے والی لڑکی کو یہی جواب دیتے ہیں کہ "ایک کے سوا باقی تمام کو ہم اپیا اور بٹیا ہی سمجھتے ہیں۔" اس کے بعد دوسرا سوال 99 اعشاریہ 99 فیصد اس واحد خوش قسمت کے متعلق ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں؟ اور اس کے جواب میں ہم اپنے انداز کو حتی الوسع معصومانہ بناتے ہوئے چچا کا یہ شعر حقِ بھتیجگی وصول کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ داغ دیتے ہیں کہ گو تاریخ میں محفوظ نہیں لیکن بہرحال انھوں نے وصیت میں یہ شعر ہمیں ہی ہبہ کیا تھا:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے​
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا​

س: کیا اس دنیا میں کوئی ایسی بھی خاتون ہیں جو آپ کے رابطے میں ہوں اور آپ نے انھیں اپیا یا بٹیا نہ کہا ہو۔ مطلب یہ کہ اپنے لئے کچھ چھوڑا بھی ہے؟
ج: آپ کے سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ خواتین میں سے ایسی کوئی نہیں جنہیں ہم نے سچے دل سے اپیا یا بٹیا نہ کہا ہو۔۔۔ ہاں! دوشیزگان کی بات کیجیے تو ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔۔۔ کہ یہ لاحقے و سابقے تو محض روابط استوار کرنے کا بہانہ ہیں۔ جوں ہی عمر و صورت کا راز آشکار ہوا، "بلا تفریق قوم و ملت، رنگ و نسل، شاہ و گدا، عاقل و بالغ" انھیں "احباب" میں شامل کرنے سے پیشتر ہی ان سابقات و لاحقات کی واہی تباہی سے دامن کشی اختیار کر لیتے ہیں۔

س: آپ کبھی سوتے بھی ہیں؟ یا آپ کتنی دیر سوتے ہیں؟
ج: اس سوال کا جواب بھی اصناف کے اعتبار سے تقسیم ہو کر ہی رہا۔
اول تو ہم مرد حشرات کو اس کا جواب دینا اپنی شان کے خلاف جانتے ہیں لیکن اگر کوئی ہاتھ دھو کر بلکہ نہا کر پیچھے پڑ ہی جائے تو اس کے لیے ہمارا نفاست بھرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے سونے جاگنے کے اوقات سے آپ کو کیا لینا دینا؟ شعرا نے بھی کیا خوب اشعار کہہ رکھے ہیں ہماری کمک کے طور پر، مثلاً
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو​
اور آہ ہ ہ۔۔۔ اگر کوئی لڑکی بالی یہ سوال پوچھ بیٹھے تو اوّلاً تو ہم تمنّا کا دوسرا قدم تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں اور اس میں غالب ایسے دانشور کی ناکامی کے بعد ہمیں بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے مگر ہم منہ کی کھانا، منہ پر کھانے سے بدرجہا بہتر گردانتے ہوئے جواباً عرض کرتے ہیں کہ جب سے آپ سے تعلق استوار ہوا ہے نیند کی دیوی روٹھ سی گئی ہے۔۔۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس دیوی کے چرن چھُوئے بغیر آپ سے بالمشافہ و بالمعانقہ ملاقات کے سامان میسر نہیں۔ چچا نے ایک اور شعر اپنی ناپید وصیت میں ہمیں عطیہ کیا تھا:
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ​
جب آنکھ کھُل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا​

س: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ (خاص کر بہنیں)
ج: بھائی تو ہم پانچ ہیں ماشاء اللہ اور الحمد للہ بہن ایک بھی نہیں۔۔۔ مالک نے اس پابندی سے آزاد ہی رکھا اور جب خالقِ جہان نے نہ چاہا کہ ہماری کوئی بہن ہوتی تو ہم خود بنا کر شرک کے مرتکب کیونکر ہو سکتے ہیں۔
لاجواب فاتح بھائی۔ کیا کہنے۔ زبردست۔ :best:
عینی بہنا سے اتفاق کروں گا کہ شاعری کے ساتھ ایسے مضامین بھی ہوتے رہنے چاہئے ساتھ ساتھ۔ بلکہ روٹین بنالیں کہ ہر دو غزلوں کے بعد ایک نثر ۔ لطف آگیا پڑھ کر۔:hatoff:
 

رانا

محفلین
ہم چھوٹے نہیں تھے۔۔۔ بڑے ہو گئے تھے۔ اتنے بڑے کہ امی جان نماز کے بعد دعائیں مانگتی تھیں تو ان کے ہاتھوں کے پیالے میں کنکر پتھر، کپڑے کی کترنیں یا جو کچھ بھی آس پاس موجود ہو وہ رکھنا چھوڑ چکے تھے۔ پھر بات بھی تو زیادہ پرانی نہیں، یہی سن 1991 کی ہی تو بات ہے جب راجیو گاندھی کی موت واقع ہوئی تھی۔ گاؤں میں بجلی بھی کتنی آتی ہے بھلا، کبھی گھنٹے دو گھنٹے کے لیے آ جاتی تو مٹی کے چراغ اور لالٹین کی روشنی کو منہ چڑا دیتی۔ ننہال ہی کیا آس پاس کے کئی گاؤں کا اکلوتا دلارا بلیک اینڈ وہائٹ ٹیلی ویژن جو گاؤں کے رئیس جن کا نام بھی رئیسں ہی تھا، کی دالان میں تپائی پر رکھ دیا جاتا، اوپر سے ایک عدد رومال بھی ڈال دیا جاتا کہ گرد و غبار سے بچے اور شان و شوکت میں اضافہ ہو۔ پھر اس برآمدے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک مرد و زن سمیت سارا عالم جمع ہوتا۔ قومی ٹیلی ویژن چینل دور درشن کے لائحہ عمل میں ان دنوں شاید راجیو گاندھی کی آخری رسومات کی جھلملاتی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دکھانے کے سوا اور کچھ ہوتا ہی نہیں تھا یا پھر خبریں ہوتی تھیں لیکن ان میں بھی راجیو گاندھی کے حادثے کی جھلکیاں ہی دکھائی جاتی تھیں۔ جتنی دیر بجلی رہتی، سارا گاؤں سوگوار رہتا۔ اور لوگ سوگوار ہونے کو بار بار ایک ہی منظر دیکھنے کھنچے چلے آتے۔ اور پھر وہ منظر جب چتا کو آگ لگانے کے دوران اچانک ٹی وی کا پردہ بجھ جاتا اور بے اختیار بھیڑ میں اوہوووووووو کی بھنبھناہٹ گونج اٹھتی پھر صاحب ٹی وی کا اعلان کہ اب بجلی چلی گئی ہے، آپ لوگ گھر جائیں کیوں کہ رات سے پہلے بجلی دوبارہ نہیں آنے والی۔ لوگ اترے ہوئے منہ کے ساتھ اپنے اپنے گھروں یا پھر کھیتوں کھلیانوں اور باغوں کی جانب نکل جاتے تو کچھ قریب کی پان کی دوکان پر ڈیرہ جما لیتے۔ ہمارے کانوں کو ایک اور آواز یاد آ رہی ہے جو انھیں دنوں گونجی تھی۔ ویسی ہی معمول کی بھیڑ تھی، وہی آخری رسومات کے مناظر دہرائے جا رہے تھے اور دوپہر یا سہ پہر کے درمیان کا کوئی وقت تھا۔ بھیڑ میں پیچھے کی طرف سے چرچراہٹ کی سماعت خراش آواز اٹھی تھی اور ساتھ ہی ایک زور دار چیخ۔۔۔ پھر مختلف آوازوں کا ملا جلا شور۔۔۔ رونے چلانے کی آوازیں۔ برامدے کی آخری سرے پر رکھی چوبی چوکی اپنے اوپر لوگوں کی بھیڑ کا وزن سنبھال نہ سکی تھی اور ایک کراہ کے ساتھ اس کی کمر ٹوٹ گئی تھی جس کی زد میں ایک بچی کی ٹانگ آ گئی تھی۔ لوگ بھاگے بھاگے قریبی قصبے کی طرف گئے تھے اور پاؤں پر پلاسٹر چڑھوا کر لوٹے تھے۔ اس روز پورا گاؤں بہت زیادہ سوگوار تھا۔۔۔ بہت ہی زیادہ سوگوار۔۔۔ اتنا سوگوار کہ اگلے کئی دنوں تک کوئی ٹی وی دیکھنے بھی نہیں آتا تھا۔

اس بار کے انتخابات میں کانگریس پارٹی کے پاس ووٹ بٹورنے کے لیے راجیو گاندھی کے سانحے کا رونا رونے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ خیر انھیں اس سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ الیکشن کے دنوں میں بچوں کی بہار ہوتی ہے کیوں کہ ان کو طرح طرح کے بلے اور سیفٹی پن جو ملتے رہتے ہیں۔ چھت پر لاؤڈ اسپیکر باندھے جیپیں گاؤں گاؤں چیختی پھرتیں اور اس میں بیٹھے کارکنان پیچھے دوڑتے بچوں پر کاغذ کے بلّے، چھوٹے بڑے اشتہارات، جھنڈے اور کبھی کبھار لوہے سے بنے بلے اچھال دیتے اور پھر بچے اس پر ٹوٹ پڑتے۔ کھینچا تانی میں پھٹنے سے بچ جانے والے مال غنیمت پر بچے فخر کیا کرتے کہ ہمارے پاس تو اتنے سارے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اکثر سبکی محسوس ہوتی کیوں کہ ایسی مال غنیمت سے ہم اکثر محروم اور غریب ہی رہ جاتے تھے۔۔۔ جارحانہ انداز میں سب کو دھکیل کر خزانے لوٹنے کی ہمت جو ہم میں نہیں ہوتی تھی۔ وہ شاید کوئی خوبصورت دن تھا جب ایک بڑا سا پوسٹر صحیح سلامت ہمارے ہاتھ بھی لگ گیا۔ وہ بھی ایسے کہ اس کو پھینکا نہیں گیا تھا بلکہ ایک ایک کر کے بچوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اور آس پاس کی دیواروں پر چپکایا بھی گیا تھا۔ کافی بڑا سا اشتہار تھا جس میں پس منظر میں ترنگے کے ساتھ راجیو گاندھی کی بڑی سی تصویر تھی۔ گوشوں میں کانگریس پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھ کا پنجہ اور علاقائی امید وار کی چھوٹی سی تصویر دائروں میں چھپے ہوئے تھے اور اس کے مرکزی حصے میں یہ شعر لکھا تھا:

کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

سہہ پہر کو اسکول کی چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے ایک ہاتھ میں ٹاٹ سے بنا بستہ کندھے پر لٹکا ہوا تھا جس میں اردو کی ابتدائی کتاب ہمارا قاعدہ اور عربی کی ابتدائی کتاب یسرنا القرآن رکھے ہوئے تھے۔ اسی بستے میں لکڑی کی تختی، ایک عدد دوات جو انجکشن کی شیشی پر مشتمل تھی، تختی لیپنے کے لیے چکنی مٹی کی ایک ڈلی جو تختی لیپنے کی وجہ سے ایک طرف سے گھس چکی تھی جیسے کسی تیز دھار چاقو سے کاٹ دی گئی ہو اور تختی کے دوسری جانب ٹاٹ کا وہ ٹکڑا تھا جو اسکول میں بیٹھنے کے لیے ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔ عموماً بستہ انگلیوں میں پھنسا کر کندھے پر ٹانگے ہوئے انگلیوں کے پور سرخ ہو کر دکھنے لگتے تھے اور بار بار ہاتھ بدلنا پڑتا تھا۔ لیکن وہ تو دن ہی کچھ اور تھا، ایک عجیب سی سرشاری تھی دل و دماغ پر ایک ہاتھ میں ایک بڑا سا پوسٹر جو تھا۔۔۔ اتنا سنبھال کر اسے اٹھا رکھا تھا کہ اس میں شکن نہ آ جائے۔ اس سرشاری کی کیفیت کو یاد کرتے ہیں تو دوسری دفعہ ویسی کیفیت تب یاد آتی ہے جب کئی برسوں کے بعد پہلی دفعہ ماموں جان کے ذاتی موٹر سائیکل پر بیٹھے تھے اور چاہ کر بھی اپنی مسکان کو ہونٹوں میں سمیٹنے سے قاصر تھے۔ اس روز ہمیں اپنے ننہال نہیں جانا تھا بلکہ امی جان کے ننہال جانا تھا کیوں کہ امی جان وہیں تھیں۔ یہ دونوں گاؤں اسکول کے دو مخالف سمتوں میں واقع تھے یعنی آج اس راستے پر نہیں جانا تھا جہاں روز شام ڈھلے بوڑھے بنیا نانا اپنی بھینسوں کے لیے گھاس چھیلا کرتے تھے اور اسکول سے آتی بچوں کی بھیڑ کو دیکھ کر کھرپا الگ رکھ دیتے اور بچوں کو پاس بٹھا کر دلچسپ اسباق سکھایا کرتے تھے۔

گھر پہونچ کر بستہ رکھا، سبھی کو راجیو گاندھی کا اشتہار دکھایا پھر اسے احتیاط سے کوٹھلے کے اوپر رکھ کر کھانا کھایا اور چھت پر امی جان کے پاس چلے گئے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی اور بڑی ہی خوشگوار سہہ پہر ہوا کرتی تھی۔ امی وہاں نانی جان کے ساتھ بیٹھی رضائی میں ٹانکے لگا رہی تھیں، آتی سردیوں کی تیاریاں جو کرنی تھیں۔ دو روز قبل ہی دھنیا گھر آیا تھا اور روئی دھن کر نئی نئی رضائیاں بھر گیا تھا اور کچھ پرانی رضائیوں کی چپٹی ہو چلی روئی کو بھی دھنتے ہوئے نئی روئی کے ساتھ ملا لیا گیا تھا۔ روئی کے ریزے ہوا کی دوش پر گھر میں جا بجا اڑتے پھر رہے تھے۔ ان دنوں سہہ پہر کے وقت دھوپ سینکنا بہت اچھا لگتا تھا لیکن ہمیں تو دھوپ سے زیادہ شہتوت کے پیڑ پر چڑھ کر میٹھے میٹھے سرخ و سیاہ شہتوت کھانے اور اسٹاپو کھیلنے میں دلچسپی ہوتی تھی۔ ویسے اسٹاپو کھیلنے کا بھی ہمارا منفرد انداز تھا۔ ہم نے امی جان کے پاس چھت پر اپنی کتاب یسرنا القرآن کھول کر رکھ دی تھی اور اس روز کے سبق کا تھوڑا سا حصہ یاد کر کے دوڑے دوڑے نیچے آتے اور اپنی باری پر زمین پر بنائے گئے خانوں میں ایک ٹانگ پر کودتے ہوئے وہی فقرے دہرا رہے ہوتے تھے۔۔۔ ۔ کبھی "مجنون وازدجر" تو کبھی "قال سلام قالوا سلاما" کی گردان کرتے ہوئے۔ دن بتدریج چھوٹے ہونے لگے تھے کب عصر کا وقت ہوا اور کب غروب آفتاب کی سرخی افق پر دور دور تک پھیل جاتی پتا ہی نہ چلتا۔ ہم نیچے کھیل رہے تھے، ہماری باری ختم ہوئی تو اگلا فقرہ یاد کرنے اوپر چھت پر دوڑے گئے۔ وہاں پہونچے تو پایا کہ امی جان اور نانی جان عصر کی نماز پڑھ رہی ہیں۔ مصلیٰ ایک ہی تھا اس لیے اس کو لمبائی کے بجائے چوڑائی کی طرف سے بچھا رکھا تھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس طرح تو سجدہ کرتے ہوئے امی جان اور نانی جان کی ناک اور پیشانی مصلے کے بجائے کھلی چھت پر چھو جائے گی۔ ہم فوراً دوڑے دوڑے نیچے گئے، کوٹھلے سے وہ اشتہار اتارا اور اسے لے کر بھاگتے ہوئے چھت پر گئے اور مصلے کے آگے سجدے کی جگہ پر اس کو بچھا دیا۔ اس وقت ہم خود پر نازاں تھے کہ آج ایک چیز حاصل ہوئی جو ہمیں اتنی عزیز تھی اور آج ہی اس کا ایک نیک استعمال کرنے کا موقع نصیب ہوا۔

اس روز ہمیں ڈانٹ پڑی تھی۔۔۔ "ہت ترے بورہا کے" امی جان نے ایسے ہی کچھ الفاظ دہرائے تھے نماز کے بعد۔ لوگ اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے ہماری مثالیں دیا کرتے تھے انھیں بچوں کے درمیان ایسی پھٹکار سن کر ہمیں عجیب سی سبکی محسوس ہوئی تھی۔ ہم روئے بھی تھے کیوں کہ اتنی سی بات ہمارے ذہن میں کیوں نہ آئی کہ تصویر کو سجدہ نہیں کرتے۔ امی جان نے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ بچھانا ہی تھا تو اشتہار الٹ کر اس کا سادہ حصہ اوپر کر کے بچھا دیتے۔ لیکن اس وقت تو ہمارے ذہن میں بس یہ خیال تھا کہ امی جان اور نانی جان کی پیشانی اور ناک کھلی چھت پر نہ پڑے خواہ اس کے لیے ہمیں اپنا عزیز سرمایا کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔ ہمیں تو توقع تھی کہ اس کام کو سراہا جائے گا اور امی جان نماز کے فوراً بعد اپنے بیٹے کا سر اپنی گود میں رکھ لیں گی اور نانی جان ہمارے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر کر کہیں گی "تھم جا بچہ تھم جا" یوں ہمیں دنیا میں ہی جنت مل جائے گی۔ :) :) :)
بہت ہی عمدہ منظر کشی کی ہے سعود بھائی آپ نے۔ اتنی روانگی اور بے ساختگی سے لکھا ہے کہ پڑھتے ہوئے ہمیں ایسا لگا کہ ہم خود اس سارے منظر نامے میں موجود ہیں اور ہمارے سامنے سب واقعات ہورہے ہیں۔ بہت ہی عمدہ تحریر۔:great:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
لاجواب عائشہ بہنا۔ کمال کا لکھا ہے۔:zabardast1:
میرے اتنے سنجیدہ مشورے کا ٹانکا آپ نے کہاں جا لگایا۔:)



چلیں یہ نہیں پوچھتے بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ اس طریقے کو اپناتے ہوئے لائن میں پہلے سے کھڑے لوگوں کے ہاتھوں کتنی بار درگت بنی؟:)
ہماری ایک بار انٹر بورڈ آفس میں یہی حرکت کرتے ہوئے درگت بن چکی ہے۔:laughing:
ہی ہی ہی
بس آپ کا یہ جملہ پڑھا بھیا اور فورا سے مجھے یاد آگیا اور پھر ہاتھوں میں خارش ہونے لگی :rollingonthefloor:

میں تو معصوم ہوں بھیا یا تو لمبی لمبی قطاروں میں فیس جمع کروائی ہے یا فرینڈز نے کروائی ہے اب بی ایس میں تو زیادہ تر کوئی فرینڈ ہی کروا دیتی ہے اس لیے کوئی ٹینشن ہی نہیں :p
اوئی آپ بھی بھیا :rollingonthefloor:
 

فاتح

لائبریرین
لاجواب فاتح بھائی۔ کیا کہنے۔ زبردست۔ :best:
عینی بہنا سے اتفاق کروں گا کہ شاعری کے ساتھ ایسے مضامین بھی ہوتے رہنے چاہئے ساتھ ساتھ۔ بلکہ روٹین بنالیں کہ ہر دو غزلوں کے بعد ایک نثر ۔ لطف آگیا پڑھ کر۔:hatoff:
ہم تو لکھنے کو تیار ہیں مگر کیا کریں کہ سعود بھائی جیسا شکار کب میسر آتا ہے جو اس شرارت کو قلمزد کرنے میں ہر لمحہ خود ہمارے ساتھ موجود تھے۔۔۔ ایسے دوست قسمت سے ہی میسر آتے ہیں ورنہ کسی کے متعلق ایسا مضمون باندھ کر دیکھیں اور اس کے بعد وہ آپ کو کیسے باندھتا ہے یہ بھی دیکھیے گا۔ :rollingonthefloor:
 

رانا

محفلین
ہم تو لکھنے کو تیار ہیں مگر کیا کریں کہ سعود بھائی جیسا شکار کب میسر آتا ہے جو اس شرارت کو قلمزد کرنے میں ہر لمحہ خود ہمارے ساتھ موجود تھے۔۔۔ ایسے دوست قسمت سے ہی میسر آتے ہیں ورنہ کسی کے متعلق ایسا مضمون باندھ کر دیکھیں اور اس کے بعد وہ آپ کو کیسے باندھتا ہے یہ بھی دیکھیے گا۔ :rollingonthefloor:
ہاہاہا :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
محب بھائی ہیں نا!!! کسی دن لپیٹ دیں ان کو!!!!:laughing:
وارث بھائی پر بھی تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا تو مجھے پکا پتہ ہے آپ کو نہیں باندھیں گے کہ میں نے ان کے متعلق ڈرتے ڈرتے ایک پیرا لکھا تھا لیکن انہوں نے انجوائے کیا تھا۔:)
اور کچھ نہیں تو نبیل بھائی پر لکھ ڈالیں وہ تو آتے ہی کم کم ہیں انہیں کون سا پتہ لگنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔:laughing:
 

فلک شیر

محفلین
پر کتر کر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل​
ایسی بے پرکی اڑاتا تھا نہ صیاد کبھی​
وزیر علی صبا کے شعر پہ خواجہ حیدر علی آتش کی اصلاح................:):):)
 

بھلکڑ

لائبریرین
لو جی سارا دھاگہ پڑھنے کے بعد ہم پردار بے پرکی اُڑانے والے ہیں کہ

نیرنگ خیال بھیا نے تیسری شادی والی بات پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے!!!

:laughing:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
چلیے قصہ سناتے ہیں ہم آپ کو اپنی کام چوری کا۔۔ جی نہیں اس کے بعد ہمیں کام چور نہیں سمجھنا! ۔۔آئی سمجھی!:cautious:

شاپنگ پر جانا ہمارے لیے کبھی دلچسپی کا باعث نہیں رہا لیکن بات جب اپنے لیے کچھ خریدنے کی ہو تو جانے میں کوئی حرج بھی نہیں :happy:
ہمیشہ کی طرح آج بھی شاپنگ سے لوٹے تو تھکن سے برا حال تھا ، گھر میں داخل ہوتے ہی اماں جان کو کہنا شروع کر دیا کہ اب ہم سوئیں گے۔:yawn:چھوٹی بہنوں کو اپنی لائی ہوئی چیزیں دکھائیں تو اس دوران امی بڑے بھیا سے بات کرنے ان کے کمرے میں چلی گئیں وہاں سے ان کی جو واپسی ہوئی کہ ہماری شامت آئی ۔۔ :( بولیں چار چھٹیاں تھیں تم لوگوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ بڑے بھیا کا کمرہ صاف کر دو ، ذرا احساس نہیں ہے تم لوگوں کو ۔۔ ہم نے کہا بڑے بھیا خود یاد کروا دیتے ناں پر نہیں یہ بھی ہم ہی یاد کریں :embarrassed:، بہیترے اس دوران اپنے کیے ہوئے کام گنوائے لیکن اماں جان کوخوب غصہ آیا ہوا تھا سو شاپنگ کے دوران کھائی ہوئی چاٹ کے ساتھ ڈانٹ بھی کھا کر ہمیں تو بدہضمی کا ڈر ہونے لگا:skull:۔۔ سچی بتائیں تو ہمیں بڑا ہی رونا آیا ۔ ۔:cry:
اماں جان اس دوران نیچے گئیں تو ہمیں پھر اپنی تھکان کا شدت سے احساس ہونے لگا سو بڑے بھیا کے کمرے کی صفائی کسی اور دن پر ڈال کر ہم اٹھے اور دوڑ کر اپنے بستر میں گھس گئے۔ زیادہ تھکن میں ہمیں نیند ذرا دیر سے ہی آیا کرتی ہے تو ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ اماں جان کی آواز اپنے کمرے میں سنائی دی ہم چپکے سے لیٹے رہے :donttellanyone: نانی اماں نے ہمارے بارے میں پوچھا تو اماں جان بولیں ڈانٹ کھا کر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہوگی اب احساس ہوگیا ہوگا ناں۔۔۔افف ہم بستر میں ذرااور دبک گئے کہ کہیں اماں جان ہمارے بستر کی طرف نہ دیکھ لیں ورنہ تھوڑی اور عزت افزائی ہو جاتی:noxxx:۔۔
اب کریں تو کیا کریں اوپر سے اماں جان کو ہمارے ہی کمرے میں نماز پڑھنی تھی:worried:، ادھر اماں جان وضو کرنے واش روم میں گئیں اور ادھر ہم موقع غنیمت جان کر چپکے سے اٹھے، اپنے جوتے ہاتھوں میں پکڑے اوردبے پاؤں کمرے سے باہر دوڑ لگا دی ، دوسرے کمرے سے جا کر جھاڑو اٹھا یا اور اوپر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے بھاگ گئے:openmouthed:
بھیا ہمیں دیکھ کر خوب ہنسے کیونکہ وہ پہلے ہماری عزت افزائی سن چکے تھے ۔ قصہ مختصر ہم نیچے تشریف لائے تو مٹی میں اٹے ہوئے لیکن سرخرو تھے کہ آخر اماں جان نے ہم جو سے امید کر رہی تھیں ہم نے وہی کیا:daydreaming:۔۔۔ اور اب یہ بے پر کی ہم اماں جان کو بالکل نہیں پڑھانے والے۔۔کیوں؟۔۔۔ بس ہماری مرضی! :idontknow2:
 
آخری تدوین:

گل بانو

محفلین
چلیے قصہ سناتے ہیں ہم آپ کو اپنی کام چوری کا۔۔ جی نہیں اس کے بعد ہمیں کام چور نہیں سمجھنا! ۔۔آئی سمجھی!:cautious:

شاپنگ پر جانا ہمارے لیے کبھی دلچسپی کا باعث نہیں رہا لیکن بات جب اپنے لیے کچھ خریدنے کی ہو تو جانے میں کوئی حرج بھی نہیں :happy:
ہمیشہ کی طرح آج بھی شاپنگ سے لوٹے تو تھکن سے برا حال تھا ، گھر میں داخل ہوتے ہی اماں جان کو کہنا شروع کر دیا کہ اب ہم سوئیں گے۔:yawn:چھوٹی بہنوں کو اپنی لائی ہوئی چیزیں دکھائیں تو اس دوران امی بڑے بھیا سے بات کرنے ان کے کمرے میں چلی گئیں وہاں سے ان کی جو واپسی ہوئی کہ ہماری شامت آئی ۔۔ :( بولیں چار چھٹیاں تھیں تم لوگوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ بڑے بھیا کا کمرہ صاف کر دو ، ذرا احساس نہیں ہے تم لوگوں کو ۔۔ ہم نے کہا بڑے بھیا خود یاد کروا دیتے ناں پر نہیں یہ بھی ہم ہی یاد کریں :embarrassed:، بہیترے اس دوران اپنے کیے ہوئے کام گنوائے لیکن اماں جان کوخوب غصہ آیا ہوا تھا سو شاپنگ کے دوران کھائی ہوئی چاٹ کے ساتھ ڈانٹ بھی کھا کر ہمیں تو بدہضمی کا ڈر ہونے لگا:skull:۔۔ سچی بتائیں تو ہمیں بڑا ہی رونا آیا ۔ ۔:cry:
اماں جان اس دوران نیچے گئیں تو ہمیں پھر اپنی تھکان کا شدت سے احساس ہونے لگا سو بڑے بھیا کے کمرے کی صفائی کسی اور دن پر ڈال کر ہم اٹھے اور دوڑ کر اپنے بستر میں گھس گئے۔ زیادہ تھکن میں ہمیں نیند ذرا دیر سے ہی آیا کرتی ہے تو ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ اماں جان کی آواز اپنے کمرے میں سنائی دی ہم چپکے سے لیٹے رہے :donttellanyone: نانی اماں نے ہمارے بارے میں پوچھا تو اماں جان بولیں ڈانٹ کھا کر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہوگی اب احساس ہوگیا ہوگا ناں۔۔۔ افف ہم بستر میں ذرااور دبک گئے کہ کہیں اماں جان ہمارے بستر کی طرف نہ دیکھ لیں ورنہ تھوڑی اور عزت افزائی ہو جاتی:noxxx:۔۔
اب کریں تو کیا کریں اوپر سے اماں جان کو ہمارے ہی کمرے میں نماز پڑھنی تھی:worried:، ادھر اماں جان وضو کرنے واش روم میں گئیں اور ادھر ہم موقع غنیمت جان کر چپکے سے اٹھے، اپنے جوتے ہاتھوں میں پکڑے اوردبے پاؤں کمرے سے باہر دوڑ لگا دی ، دوسرے کمرے سے جا کر جھاڑو اٹھا یا اور اوپر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے بھاگ گئے:openmouthed:
بھیا ہمیں دیکھ کر خوب ہنسے کیونکہ وہ پہلے ہماری عزت افزائی سن چکے تھے ۔ قصہ مختصر ہم نیچے تشریف لائے تو مٹی میں اٹے ہوئے لیکن سرخرو تھے کہ آخر اماں جان نے ہم جو سے امید کر رہی تھیں ہم نے وہی کیا
:daydreaming:۔۔۔ اور اب یہ بے پر کی ہم اماں جان کو بالکل نہیں پڑھانے والے۔۔کیوں؟۔۔۔ بس ہماری مرضی! :idontknow2:
واہ واہ بہت خوب اب پتا چلی حقیقت :tongue: ویسے ہم نے کب آپ کو کام چور کہا ؟ :)
 

عینی شاہ

محفلین
چلیے قصہ سناتے ہیں ہم آپ کو اپنی کام چوری کا۔۔ جی نہیں اس کے بعد ہمیں کام چور نہیں سمجھنا! ۔۔آئی سمجھی!:cautious:

شاپنگ پر جانا ہمارے لیے کبھی دلچسپی کا باعث نہیں رہا لیکن بات جب اپنے لیے کچھ خریدنے کی ہو تو جانے میں کوئی حرج بھی نہیں :happy:
ہمیشہ کی طرح آج بھی شاپنگ سے لوٹے تو تھکن سے برا حال تھا ، گھر میں داخل ہوتے ہی اماں جان کو کہنا شروع کر دیا کہ اب ہم سوئیں گے۔:yawn:چھوٹی بہنوں کو اپنی لائی ہوئی چیزیں دکھائیں تو اس دوران امی بڑے بھیا سے بات کرنے ان کے کمرے میں چلی گئیں وہاں سے ان کی جو واپسی ہوئی کہ ہماری شامت آئی ۔۔ :( بولیں چار چھٹیاں تھیں تم لوگوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ بڑے بھیا کا کمرہ صاف کر دو ، ذرا احساس نہیں ہے تم لوگوں کو ۔۔ ہم نے کہا بڑے بھیا خود یاد کروا دیتے ناں پر نہیں یہ بھی ہم ہی یاد کریں :embarrassed:، بہیترے اس دوران اپنے کیے ہوئے کام گنوائے لیکن اماں جان کوخوب غصہ آیا ہوا تھا سو شاپنگ کے دوران کھائی ہوئی چاٹ کے ساتھ ڈانٹ بھی کھا کر ہمیں تو بدہضمی کا ڈر ہونے لگا:skull:۔۔ سچی بتائیں تو ہمیں بڑا ہی رونا آیا ۔ ۔:cry:
اماں جان اس دوران نیچے گئیں تو ہمیں پھر اپنی تھکان کا شدت سے احساس ہونے لگا سو بڑے بھیا کے کمرے کی صفائی کسی اور دن پر ڈال کر ہم اٹھے اور دوڑ کر اپنے بستر میں گھس گئے۔ زیادہ تھکن میں ہمیں نیند ذرا دیر سے ہی آیا کرتی ہے تو ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ اماں جان کی آواز اپنے کمرے میں سنائی دی ہم چپکے سے لیٹے رہے :donttellanyone: نانی اماں نے ہمارے بارے میں پوچھا تو اماں جان بولیں ڈانٹ کھا کر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہوگی اب احساس ہوگیا ہوگا ناں۔۔۔ افف ہم بستر میں ذرااور دبک گئے کہ کہیں اماں جان ہمارے بستر کی طرف نہ دیکھ لیں ورنہ تھوڑی اور عزت افزائی ہو جاتی:noxxx:۔۔
اب کریں تو کیا کریں اوپر سے اماں جان کو ہمارے ہی کمرے میں نماز پڑھنی تھی:worried:، ادھر اماں جان وضو کرنے واش روم میں گئیں اور ادھر ہم موقع غنیمت جان کر چپکے سے اٹھے، اپنے جوتے ہاتھوں میں پکڑے اوردبے پاؤں کمرے سے باہر دوڑ لگا دی ، دوسرے کمرے سے جا کر جھاڑو اٹھا یا اور اوپر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے بھاگ گئے:openmouthed:
بھیا ہمیں دیکھ کر خوب ہنسے کیونکہ وہ پہلے ہماری عزت افزائی سن چکے تھے ۔ قصہ مختصر ہم نیچے تشریف لائے تو مٹی میں اٹے ہوئے لیکن سرخرو تھے کہ آخر اماں جان نے ہم جو سے امید کر رہی تھیں ہم نے وہی کیا:daydreaming:۔۔۔ اور اب یہ بے پر کی ہم اماں جان کو بالکل نہیں پڑھانے والے۔۔کیوں؟۔۔۔ بس ہماری مرضی! :idontknow2:
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:واووووو عائشہ کو بھی ڈانٹ پڑی مزے مزے :dancing::dancing::dancing:ویسے بہت اچھا لکھا تم نے گڈ(y)(y)
 
Top