سید شہزاد ناصر
محفلین
تیرھویں صدی عیسوی ایشیا کے بڑے حصے کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً بڑی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں کا زمانہ تھا۔ اسی صدی میں تاتاریوں کا سیل منگولیا کے سنسان صحرائی علاقے سے نکلا، جس نے چنگیز خاں کی سرکردگی میں ان تمام خطوں پر قتل و غارت کی بجلیاں گرادیں،جنہیں آج چینی ترکسان، روسی ترکستان،افغانستان، ایران، عراق، جنوبی اور مشرقی ایشیائے کو چک اور شام کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے سات صدیوں میں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے جو بڑے بڑے مرکز بنائے تھے۔ وہ بہت سے انہیں علاقوں میں واقع تھے۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، کتب خانے تباہ ہوگئے، دولت لٹ گئی،باشندے موت کے گھاٹ اتارے گئے، تاتاری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھے اور موت و ہلاکت پھیلاتے ہوئے بحیرہ روم کے کناروں تک پہنچ گئے۔ کوئی بھی اس تیز و تند سیل کو روک نہ سکا۔ شام کو پامال کرچکنے کے بعد اس سیل کا رخ مصر کی طرف پھر گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ اب یہ سیل شمالی افریقا میں سے ہوتا ہوا شاید اوقیانوس کے کناروں تک جا پہنچے گا۔مصر کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ ایوبیوں کی فرمانروائی ختم ہوچکی تھی اور وہ جنگجو سردار برسراقتدار ہوگئے تھے، جنہیں بحر مملوک کہتے ہیں۔ ان میں تفرقہ پڑا ہوا تھا اور ان کے پاس اتنی فوج بھی نہ تھی جو تاتاریوں کے مقابلے پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ لیکن جب قدرت کو کوئی کام لینا منظور ہوتا ہے تو اس کے لیے موزوں آدمی پیدا کردیتی ہے۔ انہی دنوں بحری مملوکوں میں سے سیف الدین قطر نے "الملک المظفر" کا لقب اختیار کرکے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔چنگیز کے پوتے ہلاکو نے قطر کو پیغام بھیجا کہ فوراً اطاعت اختیار کرلو، ورنہ پچھتائو گے۔ آنسو بہانے والوں پر ہم نے کبھی رحم نہیں کیا۔ آہ و فریاد سے ہمارے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ تم بھاگ کر جہاں جائو گے ہم تمہارے پیچھے پہنچیں گے اور کوئی سرزمین تمہیں پناہ نہ دے سکے گی۔قطر نے فیصلہ کرلیا کہ وہ تاتاریوں سے لڑے گا، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ اس نے پیغام لانے والوں کو قتل کرادیا، تاکہ صلح کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ پھر جتنی فوج فراہم کرسکا، اسے لے کر شام کی طرف روانہ ہوگیا، تاکہ دشمنوں کو اپنی مملکت سے باہر روکے، اس کا غلام رکن الدین بیبرس ہراول کا کماندار تھا۔ شمالی فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر 6 سمتبر 126ء کو فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ تاتاریوں کی فوج بہت زیادہ تھی اور منگولیا سے شام تک وہ برابر فتح و ظفر کے پھریرے اڑاتے چلے آرہے تھے۔ قطر کو پورا احساس تھا کہ مقابلہ آسان نہیں۔ اس نے ایک نیک دل مسلمان کی طرح رو رو کر بارگاہ الہٰی میں دعائیں مانگیں اور اپنے تمام سالاروں اور فیقوں سے بھی کہہ دیا کہ اس مقام پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ رکن الدین بیبرس بڑی مردانگی سے لڑا، پھر قطر نے ایک زبردست حملہ کیا جس میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود موت کے منہ میں پہنچ گیا۔ عین اس حالت میں ایک سپاہی نے اپنا گھوڑا پیش کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تاتاریوں کا سالار اعظم مارا گیا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، باقی بہت بڑی تعداد میں تہ تیغ ہوئے۔ اس شکست نے تاتاریوں کے دل میں اتنا ہراس پیدا کردیا کہ وہ دمشق اور دوسرے شہروں سے بھی نکل گئے۔عین جالوت کی لڑائی اس لحاظ سے تاریخ میں بے حد اہم ہے کہ تیس برس کی مسلسل فتوحات کے بعد تاتاریوں کی یہ پہلی شکست تھی۔ اس کے سیل کا رخ عین جالوت سے پلٹا اور شام و فلسطین کے علاوہ مصر، شمالی افریقا اور مغربی یورپ بھی ان کی ترکتاز سے محفوظ ہوگئے اور تاتاریوں کو پھر کبھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔
ربط
http://www.vshineworld.com/urdu/library/worldhistories/7/34/
ربط
http://www.vshineworld.com/urdu/library/worldhistories/7/34/