تاتاریوں کو شکست

تیرھویں صدی عیسوی ایشیا کے بڑے حصے کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً بڑی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں کا زمانہ تھا۔ اسی صدی میں تاتاریوں کا سیل منگولیا کے سنسان صحرائی علاقے سے نکلا، جس نے چنگیز خاں کی سرکردگی میں ان تمام خطوں پر قتل و غارت کی بجلیاں گرادیں،جنہیں آج چینی ترکسان، روسی ترکستان،افغانستان، ایران، عراق، جنوبی اور مشرقی ایشیائے کو چک اور شام کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے سات صدیوں میں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے جو بڑے بڑے مرکز بنائے تھے۔ وہ بہت سے انہیں علاقوں میں واقع تھے۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، کتب خانے تباہ ہوگئے، دولت لٹ گئی،باشندے موت کے گھاٹ اتارے گئے، تاتاری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھے اور موت و ہلاکت پھیلاتے ہوئے بحیرہ روم کے کناروں تک پہنچ گئے۔ کوئی بھی اس تیز و تند سیل کو روک نہ سکا۔ شام کو پامال کرچکنے کے بعد اس سیل کا رخ مصر کی طرف پھر گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ اب یہ سیل شمالی افریقا میں سے ہوتا ہوا شاید اوقیانوس کے کناروں تک جا پہنچے گا۔مصر کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ ایوبیوں کی فرمانروائی ختم ہوچکی تھی اور وہ جنگجو سردار برسراقتدار ہوگئے تھے، جنہیں بحر مملوک کہتے ہیں۔ ان میں تفرقہ پڑا ہوا تھا اور ان کے پاس اتنی فوج بھی نہ تھی جو تاتاریوں کے مقابلے پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ لیکن جب قدرت کو کوئی کام لینا منظور ہوتا ہے تو اس کے لیے موزوں آدمی پیدا کردیتی ہے۔ انہی دنوں بحری مملوکوں میں سے سیف الدین قطر نے "الملک المظفر" کا لقب اختیار کرکے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔چنگیز کے پوتے ہلاکو نے قطر کو پیغام بھیجا کہ فوراً اطاعت اختیار کرلو، ورنہ پچھتائو گے۔ آنسو بہانے والوں پر ہم نے کبھی رحم نہیں کیا۔ آہ و فریاد سے ہمارے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ تم بھاگ کر جہاں جائو گے ہم تمہارے پیچھے پہنچیں گے اور کوئی سرزمین تمہیں پناہ نہ دے سکے گی۔قطر نے فیصلہ کرلیا کہ وہ تاتاریوں سے لڑے گا، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ اس نے پیغام لانے والوں کو قتل کرادیا، تاکہ صلح کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ پھر جتنی فوج فراہم کرسکا، اسے لے کر شام کی طرف روانہ ہوگیا، تاکہ دشمنوں کو اپنی مملکت سے باہر روکے، اس کا غلام رکن الدین بیبرس ہراول کا کماندار تھا۔ شمالی فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر 6 سمتبر 126ء کو فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ تاتاریوں کی فوج بہت زیادہ تھی اور منگولیا سے شام تک وہ برابر فتح و ظفر کے پھریرے اڑاتے چلے آرہے تھے۔ قطر کو پورا احساس تھا کہ مقابلہ آسان نہیں۔ اس نے ایک نیک دل مسلمان کی طرح رو رو کر بارگاہ الہٰی میں دعائیں مانگیں اور اپنے تمام سالاروں اور فیقوں سے بھی کہہ دیا کہ اس مقام پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ رکن الدین بیبرس بڑی مردانگی سے لڑا، پھر قطر نے ایک زبردست حملہ کیا جس میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود موت کے منہ میں پہنچ گیا۔ عین اس حالت میں ایک سپاہی نے اپنا گھوڑا پیش کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تاتاریوں کا سالار اعظم مارا گیا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، باقی بہت بڑی تعداد میں تہ تیغ ہوئے۔ اس شکست نے تاتاریوں کے دل میں اتنا ہراس پیدا کردیا کہ وہ دمشق اور دوسرے شہروں سے بھی نکل گئے۔عین جالوت کی لڑائی اس لحاظ سے تاریخ میں بے حد اہم ہے کہ تیس برس کی مسلسل فتوحات کے بعد تاتاریوں کی یہ پہلی شکست تھی۔ اس کے سیل کا رخ عین جالوت سے پلٹا اور شام و فلسطین کے علاوہ مصر، شمالی افریقا اور مغربی یورپ بھی ان کی ترکتاز سے محفوظ ہوگئے اور تاتاریوں کو پھر کبھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔
ربط
http://www.vshineworld.com/urdu/library/worldhistories/7/34/
 
شہزاد بھائی ۔ میں نے ہیرالڈ لیمب کی سلطان صلاح الدین ایوبی ﴿رحمتہ اللہ علیہ ﴾نامی کتاب کا اردو ترجمہ پڑھا ہے۔۔ اس میں سلطان ملک الظاہر رکن الدین المعروف بیبرس کا خاصہ تذکرہ ہے جسے لیمب نے تاریخ کا ایک عجیب و غریب کردار کہا ہے جو کبھی انتہائی متقی مسلمان نظر آیا کبھی شرابی، کہیں کہیں لیمب نے اسے مسخرے جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔۔ ویسے قاہرہ کے قہوہ خانوں میں آج تک دستان گو بیبرس کی کہانیاں بڑے مزے لے لے کر سناتے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کتاب سے بیبرس کے بارے میں اقتباسات نظر محفل کروں۔۔۔
 
شہزاد ناصر بھائی میرے خیال سے ایسا ہے کہ اس جنگ میں بیبرس نے 37 جنگوں کے فاتح قطبوغہ خان کو زندہ گرفتار کیا تھا اور اس جنگ میں ابن تیمیہ نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔قریبا 21 برس پہلے کے مطالعہ کے زور پر کہہ رہا ہوں اس وقت آتش جوان تھا یعنی فسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ مغالطے کا امکان ہوسکتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ہیرلڈ لیمب کی کتابیں دلچسپ ضرور ہیں لیکن یہ تاریخ نہیں بلکہ تاریخی فکشن ہیں اور اسی لیے ان کتابوں کو مستند حوالے کے طور پر نہیں پیش کیا جا سکتا۔
 
مملوک اور منگول افواج کا عین جالوت میں ٹکراؤ عالمی تاریخ کی اہم ترین جنگوں میں شمار ہوتا ہے — جس کا تقابل میراتھن، سلامز، لپانٹو، کالونز اور طوغ – کی جنگوں سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس جنگ نے اسلامی و مغربی تہذیب کے مستقبل کا تعین کیا۔ اگر منگول مصر فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتے، تو وہ بلاشبہ ہلاکو کی واپسی کے بعد مشرقی افریقہ میں آبنائے جبرالٹر تک پیش قدمی کرتے۔ یوں یورپ پولینڈ سے ہسپانیہ تک منگولوں کے گھیرے میں آ جاتا۔ ان حالات میں کیا یورپ میں نشاۃ ثانیہ واقع ہوتا؟ اگر ہوتا تو اس کی بنیادیں بلاشبہ کہیں زیادہ کمزور ہوتیں اور دنیا ممکنہ طور پر آج ایک کہیں مختلف مقام ہوتی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم تاریخ کہ ماہرین سے میرا ایک سوال ہے کہ عمومی طور پر مشھور ہے کہ جب سقوط بغداد ہوا تھا اس وقت مسلمان علماء کوئے کہ حلال و حرام ہونے کی بحثوں میں مصروف تھے گویا اس بات کو سقوط بغداد کا محرک اول گردانا جاتا ہے جبکہ میں نے کسی اور جگہ پڑھا تھا کہ سقوط بغداد کی اصل وجہ وقت کہ سلطان کہ مرکزی وزیر کی غداری تھی کہ جسے خود منگولوں نے بغداد پر قبضہ کہ بعد سب سے پہلے قتل کردیا تھا اب حقیقت کیا ہے ؟؟ کیا کوئی دوست مستند تاریخی حوالوں سے اس الجھن دور کرسکتا ہے ؟؟ والسلام
 
السلام علیکم تاریک کہ ماہرین سے میرا ایکس وال ہے کہ عمومی طور پر مشھور ہے کہ جب سقوط بغداد ہوا تھا اس وقت مسلمان علماء کوئے کہ حلال و حرام ہونے کی بحثوں میں مصروف تھے گویا اس بات کو سقوط بغداد کا محرک اول گردانا جاتا ہے جبکہ میں نے کسی اور جگہ پڑھا تھا کہ سقوط بغداد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وقت کہ سلطان کہ مرکزی وزیر کی غداری تھی کہ جسے خود منگولوں نے بغداد پر قبضہ کہ بعد سب سے پہلے قتل کردیا تھا اب حقیقت کیا ہے ؟؟ کیا کوئی دوست مستند تاریخی حوالوں سے اس الجھن دور کرسکتا ہے ؟؟ والسلام
سرخ خط کشیدہ میں نے تاریخ اسلام میں پڑھا ہے
دوسری وجہ کے بارے میں کچھ کچھ یاد پڑتا ہے مگر صحیح یاد نہیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم تاریخ کہ ماہرین سے میرا ایک سوال ہے کہ عمومی طور پر مشھور ہے کہ جب سقوط بغداد ہوا تھا اس وقت مسلمان علماء کوئے کہ حلال و حرام ہونے کی بحثوں میں مصروف تھے گویا اس بات کو سقوط بغداد کا محرک اول گردانا جاتا ہے جبکہ میں نے کسی اور جگہ پڑھا تھا کہ سقوط بغداد کی اصل وجہ وقت کہ سلطان کہ مرکزی وزیر کی غداری تھی کہ جسے خود منگولوں نے بغداد پر قبضہ کہ بعد سب سے پہلے قتل کردیا تھا اب حقیقت کیا ہے ؟؟ کیا کوئی دوست مستند تاریخی حوالوں سے اس الجھن دور کرسکتا ہے ؟؟ والسلام

دونوں باتیں درست ہیں۔ علماء کے مباحثے والی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قوم کی ذہنی پستی اور گراوٹ کا کیا عالم تھا اور نام نہاد علماء اس میں کیا کردار ادا کر رہے تھے۔ آج کے دور کے علماء اس میں بخوبی آئینہ دیکھ سکتے ہیں۔
جب کوئی قوم اندرونی طور پر کمزور اور کھوکھلی ہو جاتی ہے تو پھر اس کی مکمل تباہی کا ویسا ہی بہانہ بنتا ہے جیسا کہ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے وزیر اعظم ابن علقمی کی صورت میں بنا تھا۔ روایت یہ ہے کہ ابن علقمی شیعہ تھا اور ایران میں عباسیوں کی کسی فوجی مہم کے دوران شیعوں پر آنے والے تباہی کا بدلہ لینا چاپتا تھا اور اسی وجہ سے اس نے ہلاکو خان کو بغداد پر حملے کی دعوت دی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ سقوط بغداد کی راہ مزید ہموار کرنے کے لیے ابن علقمی نے عباسیوں کی فوج کو بھی منتشر اور غیر مسلح کروا دیا۔ شاید ابن علقمی کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ تاتاریوں کی شکل میں کیسا عذاب نازل ہوگا۔ یہ بھی روایت ہے کہ سقوط بغداد کے کچھ ہی دنوں کے بعد خود ابن علقمی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ واللہ اعلم۔
بالا کی کچھ تفصیل میاں محمد افضل کی کتاب سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک میں پڑھی جا سکتی ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت شکریہ نبیل بھائی ، تو یعنی دونوں باتیں اپنے اپنے تناظر میں درست ہیں ۔ اور علماء کہ بحث مباحثوں سے قوم کا ذہنی اور فکری انتشار مراد ہے جبکہ حکمرانوں کی غداری اس وقت کے اسلامی معاشرے کی مجموعی طور پر آئنہ دار ہے ۔۔والسلام
 
تیرھویں صدی عیسوی ایشیا کے بڑے حصے کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً بڑی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں کا زمانہ تھا۔ اسی صدی میں تاتاریوں کا سیل منگولیا کے سنسان صحرائی علاقے سے نکلا، جس نے چنگیز خاں کی سرکردگی میں ان تمام خطوں پر قتل و غارت کی بجلیاں گرادیں،جنہیں آج چینی ترکسان، روسی ترکستان،افغانستان، ایران، عراق، جنوبی اور مشرقی ایشیائے کو چک اور شام کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے سات صدیوں میں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے جو بڑے بڑے مرکز بنائے تھے۔ وہ بہت سے انہیں علاقوں میں واقع تھے۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، کتب خانے تباہ ہوگئے، دولت لٹ گئی،باشندے موت کے گھاٹ اتارے گئے، تاتاری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھے اور موت و ہلاکت پھیلاتے ہوئے بحیرہ روم کے کناروں تک پہنچ گئے۔ کوئی بھی اس تیز و تند سیل کو روک نہ سکا۔ شام کو پامال کرچکنے کے بعد اس سیل کا رخ مصر کی طرف پھر گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ اب یہ سیل شمالی افریقا میں سے ہوتا ہوا شاید اوقیانوس کے کناروں تک جا پہنچے گا۔مصر کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ ایوبیوں کی فرمانروائی ختم ہوچکی تھی اور وہ جنگجو سردار برسراقتدار ہوگئے تھے، جنہیں بحر مملوک کہتے ہیں۔ ان میں تفرقہ پڑا ہوا تھا اور ان کے پاس اتنی فوج بھی نہ تھی جو تاتاریوں کے مقابلے پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ لیکن جب قدرت کو کوئی کام لینا منظور ہوتا ہے تو اس کے لیے موزوں آدمی پیدا کردیتی ہے۔ انہی دنوں بحری مملوکوں میں سے سیف الدین قطر نے "الملک المظفر" کا لقب اختیار کرکے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔چنگیز کے پوتے ہلاکو نے قطر کو پیغام بھیجا کہ فوراً اطاعت اختیار کرلو، ورنہ پچھتائو گے۔ آنسو بہانے والوں پر ہم نے کبھی رحم نہیں کیا۔ آہ و فریاد سے ہمارے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ تم بھاگ کر جہاں جائو گے ہم تمہارے پیچھے پہنچیں گے اور کوئی سرزمین تمہیں پناہ نہ دے سکے گی۔قطر نے فیصلہ کرلیا کہ وہ تاتاریوں سے لڑے گا، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ اس نے پیغام لانے والوں کو قتل کرادیا، تاکہ صلح کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ پھر جتنی فوج فراہم کرسکا، اسے لے کر شام کی طرف روانہ ہوگیا، تاکہ دشمنوں کو اپنی مملکت سے باہر روکے، اس کا غلام رکن الدین بیبرس ہراول کا کماندار تھا۔ شمالی فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر 6 سمتبر 126ء کو فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ تاتاریوں کی فوج بہت زیادہ تھی اور منگولیا سے شام تک وہ برابر فتح و ظفر کے پھریرے اڑاتے چلے آرہے تھے۔ قطر کو پورا احساس تھا کہ مقابلہ آسان نہیں۔ اس نے ایک نیک دل مسلمان کی طرح رو رو کر بارگاہ الہٰی میں دعائیں مانگیں اور اپنے تمام سالاروں اور فیقوں سے بھی کہہ دیا کہ اس مقام پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ رکن الدین بیبرس بڑی مردانگی سے لڑا، پھر قطر نے ایک زبردست حملہ کیا جس میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود موت کے منہ میں پہنچ گیا۔ عین اس حالت میں ایک سپاہی نے اپنا گھوڑا پیش کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تاتاریوں کا سالار اعظم مارا گیا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، باقی بہت بڑی تعداد میں تہ تیغ ہوئے۔ اس شکست نے تاتاریوں کے دل میں اتنا ہراس پیدا کردیا کہ وہ دمشق اور دوسرے شہروں سے بھی نکل گئے۔عین جالوت کی لڑائی اس لحاظ سے تاریخ میں بے حد اہم ہے کہ تیس برس کی مسلسل فتوحات کے بعد تاتاریوں کی یہ پہلی شکست تھی۔ اس کے سیل کا رخ عین جالوت سے پلٹا اور شام و فلسطین کے علاوہ مصر، شمالی افریقا اور مغربی یورپ بھی ان کی ترکتاز سے محفوظ ہوگئے اور تاتاریوں کو پھر کبھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔
ربط
http://www.vshineworld.com/urdu/library/worldhistories/7/34/

سر جی تصحیح کر لیجے ایک تو یہ نام قطز ہے قطر نہیں دوسرے یہ کہ سیف الدین قطز کےعین جالوت کے معرکے میں قتل کی روایت کچھ کمزور ہے یہ غالبا اس کے بعد کی بات ہے
 

حسیب

محفلین
قاہرہ کا قہر از معظم جاوید بخاری

یہ کتاب رکن الدین بیبرس کے بارے میں حکایت کی شکل میں لکھی گئی ہے
 
عین جالوت"۔۔ اسلامی تاریخ کا اہم موڑ
By Br. Muhammad El-Halaby ترجمہ ہمت علی
ساتویں ھجری میں تاتاریوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کی سرزمین پر عظیم جارحیت کا ارتکاب کیا اور نتیجتاً مسلمانوں کا خلیفہہلاک ہوگیا اوردارلحکومت بغداد سمیت مسلمانوں کی تین چوتھائی سرزمین تاتاریوں کے قبضہ میں اگئیں۔ اس دور میں مسلمانوں کا ایک عظیم راہنما ابھرا۔ وہ اپنے دین اسلام پر اور اس بات پر کہ وہ مسلمان عوام کا خادم ہے نازاں تھا۔ اس نے اپنے وقت کی ایک فصیلہ کن جنگ لڑی اور مسلم عوام کی راہنمائی کی جبکہمسلمان اپنی مرکزیت کھو چکے تھے۔ یہ راہنما " فاتح سلطان " محمود سیف الدینقطز ہے اور جس جنگ میں اسنے فتح پائی وہ "عین جالوت" کے نام سے مشھور ہے۔​
تاتاری جارحیت اورقبضہ۔
تاتاری 656 ھجری کے اخیر میں مسلمان کی سرزمین پر وارد ہوئے- جب مسلمانوں کے خلیفہ ابو احمدالمطعشم باللہ نے اپنی افواج جارحیت روکنے کے لیے تیار کرنی شروع کیں تو اسکے وزیر "العلقمی" نے دھوکے سے خلیفہ کو باور کرایا کہ جارح سے صلح ممکن ہے اور افواج کی تیاری ممکنہ صلح کا ناممکن بنادے گی۔ علقمی جو کہ ایک غیر عرب شیعہ تھا نے تاتاریوں سے خفیہ خط و کتابت شروع کی اور تاتاریوں سے وعدہ کیا کہ حملے کی صورت میں کوئی مزاحمت نہ کی جائے گی اگر حملہ کی کامیابی کی صورت میں علقمی کو خلیفہ بنانے کی یقین دھانی کی جائے اور اس کے بعد بغداد ایک شیعہ ریاست میں تبدیل ہوجائے۔​
جب العلقمی نے خلیفیۃ المسلمین کے دھوکہ دیا اور اس کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہتاتاریوں سے صلح کا معاہدہ ہونے والا ہے تو المعطشم اپنے وزیروں کے ساتھ اور دیگر راہنماوں کے ساتھ تاتاریوں کے راہنما سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ تاتاریوں نے سب کو قتل کردیا اور نہایت کمینہ انداز میں مسلمانوں کی عزت کو پامال کیا۔​
غدار العلقمی بھی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا اور اپنے خواب پورے کرنے میں ناکام رہا۔ تاتاریوں نے جو کہجانتے تھے کہ یہ شخص غدار ہے اور کیونکر تاتاریوں کے ساتھ مخلص ہوسکتا ہے العلقمی کو بھی قتل کردیا۔​
سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کو شکست در شکست کا سامنا کرناپڑا۔ تاتاریوں نے سارے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد شام کی سرزمیں پر جارحیت کا ارتکاب کیا (شام سے مراد موجودہ شام، اردن، فلسطین، لبنان کا پورا علاقہ اورمصر و عراق کاکچھ علاقہ ہے)اور یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا کیونکہ اس علاقے کے لوگوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔​
دمشق کے سقوط کے بعد تاتار مصر اور مراکش کی طرف بڑھے جو کہ برسرِزمینمسلمانوں کے اخری مضبوط گڑھ رہ گئے تھے اور اگر یہ بھی مقبوضہ ہوجاتے تو تمام مسلم امہ تباہ ہوجاتی۔​
روایتی طور پر تاتار کماندار "کتابغا" نے ایک دھمکی امیز خط امیر مصر کو روانہ کیا۔ اس میں کچھ اس طرح سے لکھا " ہم نے زمین کو تاراج کردیا، بچوں کو یتیماور لوگوں کو سزا دی اور قتل کردیا، ان کے سرداروں کی عزتوں کو خاک میں ملادیا۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہم سے بھاگ سکتے ہو؟ کچھ ہی دیر بعد تھمیں معلوم ہوجائے گا کہ کیا تھماری طرف ارہا ہے۔۔۔۔۔"​
اس خط میں موجود زبان وبیا ن کی غلطیوں کے باوجود اس خط نے مسلمانوں پر گہرا اثر ڈالا کیونکہ ان کے ایمان بہت کمزور تھے اور وہ اخلاقی طور پر اچھی حالت میں نہیں تھے۔​
ہمارے امیر قطز جو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیماتسے روشناس تھے اور اسلامی طریق سے ان کی پرورش ہوئی تھی نے دوسرے حکمران کے برخلاف جواب دیا۔ انھوں نے تاتاریوں کے وفد کوقتل کردیا اور ان کی لاشیں اپنے دارلحکومت میں لٹکادیں جس کی وجہ سے ان کی افواج اور عوام کے حوصلے بلند ہوگئے اور دوسری طرف دشمنوں اوردشمنوں کے جاسوسوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ قطز کا یہ اندازاس شاعرانہ انداز فکر کا اظہار تھا۔​
" تلوار کتابوں سے زیادہ طاقت اظہار رکھتی ہے،اسکی تیز دھار کی گہرائی بچوں کے کھیل سےتمیز کرسکتی ہے"​
جب قطز کا جواب تاتاریوں تکان کے جاسوسوں کے ذریعے پہنچا تو تاتاریوں کو معلوم پڑا کہ مصر میں انہیں ایک مختلف قسم کے راہ نما سے سامنا ہےجیسا انہیں پہلے کوئی نہیں ٹکرایا۔​
اگر انھوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا ہمارے فاتح سردار قطز نے ہارون الرشید کے جواب جو اس نے رومن سردار "نکفور" کو اور "المتعصم" کا جواب جو گورنر "اموریہ" کو دیا تھا کی مثال کی پیروی کی ہے۔ جس کے بعد دشمن جارحیت کے ارتکاب سے باز رہا تھا۔​
جنگ کی تیاریاں
قطز صرف جواب دے کر بھول نہیں گیا بلکہ اس کو اندازہ تھا کہ اس قسم کے واضح جواب کے بعد کس قسم کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ لہذا اس نے تیاریاں شروع کردیں۔​
اسنے اپنے عوام کو ایمان، اتحاد جیسے ہتھیاروں سے مزیں کیا قبل اسکے کہ فولاد کے ہتھیاروں سے مسلح کیاجائے۔ اتحاد حاصل کرنے کے لیے اس نے منتشر مسلمان سرداروں کی طرف اپنے امیر مملکت جیسے کہ "بابیرس البندکاری" روانہ کیے۔ امیر مملکت "بابیرس- ممتاز" کے لقب سے جاناجاتا تھا۔ اس نے منتشر سرداروں سے کہا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجائیں تاکہ اپنے مشترکہ دشمن کو شکست دے سکیں۔ دشمن وہ جو کہ تھادشمن اسلام۔​
قطز علماء اسلام کی اھمیت سے بھی بخوبی واقف تھا اور ان کے عوام میں اثرات سے بھی اگاہ تھا۔ اس نے علما سے مدد کی درخواست کی اور ان سے کہا کہ فتح کے لیے دعا کریں اور عوام سے کہا کہ اپنے دین کی سرفرازی کے لیے ثابت قدم رہیں۔ اسنے علما اسلام میں سے اپنے قریبی اور اہم وزیرمنتخب کیے۔​
سب سے اہم عالم جنھوں نے سلطان کی مدد کی وہ " سلطان العلماء" العز بن ابدیس سلام تھے۔ سلطان قطز نےبن ابدیس سلام سے فتویٰ طلب کیا کہ وہ عوام پر مزید جنگی ٹیکس عائد کرسکے تاکہ مزید ہتھیار حاصل ہوسکے۔ دیانت دار عالم نے سلطان پر یہ واضح کردیا کہ حکومت کوئی نیا ٹیکس عوام پرنہیں عائد کرسکتی جب تک کہ گورنر و وزرا اپنی ذاتی دولت اور ان کے تمام رشتہ دار اپنی تمام دولت خرچ نہ کرڈالیں۔ العز نے ان غلام سرداروں کو بھی فروخت کرنے کو کہا کو کہ حکومت کے اہم عہدہ دار تھے مگر قانونی طور پر اپنے مالکان سے ازاد شدہ نہ تھے اور افواج میں طاقت حاصل کرچکے تھے۔​
مطلوبہ رقم عوام پر کسی قسم کے نئے ٹیکس عائد کیے بغیر پوری ہوگئی۔ عوام جو کہ اس سارے سلسلے کو اپنی انکھوں سے دیکھ رہے تھے اپنے حکمرانوں کے نافذکردہاسلامی قوانین کے وفادار ہوگئے جیسا کہ انھیںمخلص اسلامی علما کرام نے بتایا۔ مخلص علما نے عوام کو عفلت کی نیند سے جگایا اور انھین قانونی حکمران سے وفاداری اور جہاد کی اھیمت کا احساس دلایا۔ اور اللہ کی راہ میں قربانیوں کی ترغیب دی اور دشمن سے لڑنے کی راہ دکھائی تاکہ خلق خداکو ظلم سے نجات ملے اور اللہ کے ماننے والوںکی نصرت ہو۔​
 
ایچ اے خان صاحب کی پچھلی پوسٹ کا اگلا حصہ

طبل جنگ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہہ کی مدنظر رکھتے ہوئے کہ "جو لوگ اپنی زمین کے وسط میں حملہ اور کا مقابلہ کریں گے وہ بے عزت ہوں گے" قطز نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اگے بڑھ کی حملہ اور کا مقابلہ کریں۔ اس نے اپنا ایک ہراول دستہ بھی بیبرس کی قیادت میں غزہ، فلسطین کی طرف روانہ کیا جس نے تاتاریوں کی کچھ افواج کو وہاں مصروف کردیا اور ان کو شکست سے دوچار کیا۔ قطز کی مرکزی افواج قطزہی کی قیادت میں فلسطین کے ساحل کی طرف بڑھیں جہاں صلیبوں کا مضبوط گڑھ واقع تھا۔ یہاں قطز نے صلیبوں کو خبردار کیا کہ تاتاریوں سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے وہ صلیبوں کو پیس کر رکھ سکتا ہے اگر وہ غیرجانبدار نہ رہے۔ صلیبی قطز کی دھمکی کو حق جانتے ہوئے اور مسلمانوں کی طاقت دیکھتے ہوئے غیر جانبدار رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس وقت وہ تعداد میں اور طاقت میں بھی بہت کمزور تھے ۔
جب مرکزی مسلم افواج دشمن کی افواج کے نزدیک پہچیں تو قطز (اللہ اس پر اپنی رحمت کی بارش کرے) میدان جنگ خود منتخب کیا جو کہ ایک وادی میں تھا جس کو پہاڑوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے کچھ سپاہی پہاڑوں پر تعینات کیے تا کہ اگر صلیبی دھوکہ سے، یا تاتاری و غدار پیچھے کی طرف سے حملہ کریں تو دفاع کیا جاسکے۔
تاتاری ٹڈی دَل اخیر کار میدان جنگ میں پہنچ گیا جو کہ تینوں طرف سے گھرا ہوا تھا۔ معرکہ ارائی شروع ہوئی اور توازن تاتاری افواج کی طرف جھکتا نظر ایا۔ تاتاری افواج کا دایاں بازو مسلم افواج کے بائیں بازو پر غالب انا شروع ہوگیا۔ مسلمان افواج نے پسپا ہونا شروع کردیا۔ قطز ایک چٹان پر چڑھ گیا اور اپنے سر سے حفاظتی خود پھینک دیا اور پکار کر کہا " وا اسلامہ وا اسلامہ"، اپنی افواج کو لڑتے رہنے کی تاکید کی اور تلقین کی کہ اللہ کے دشمنوں سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ مایوس ہوتے ہوئے مسلم افواج کے سرداروں نے اپنے رہنما کی طرف دیکھا تو بغیر خود کے قطز دیوانہ وار تلوار چلارہا تھا اور دشمن کی صفوں کے درمیان گھس کر کشتوں کے پشتے لگارہاتھا۔ قطز کی جرات نے مسلم افواج کے سرداروں کو دم بخود کردیا جہنوں نے فوراً قطز کی پیروی کی اور مسلم افواج کا حوصلہ بحال ہوگیا۔
کچھ ہی لمحوں میں پانسہ مسلم افواج کے حق میں پلٹ گیا۔ تاتاری افواج منتشر ہوگئیں اور ان کی ایک قابل ذکر تعداد ہلاک ہوگئی یا گرفتار ہوگئی ۔ تاتاری افواج کا سردار مارا گیا اور اس کا بیٹا بھی گرفتار ہوگیا۔ تاتاری افواج کا کوئی بھی فرد قتل یا گرفتار ہونے سے نہ بچ سکا کیونکہ جو تاتاری اس میدان جنگ سے بھاگ گئے وہ شام میں مارے گئے۔
جب شاندار فتح کی خبر دمشق اور گرد ونواح پہنچی تو مسلمان خوشی سے سرشار ہوگئے اور انھوں نے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے تاتاریوں پر حملے شروع کردیے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی جو یوں کے حامی تھی اور ان کی مدد کررہے تھے
جب تاتاریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت مشرقی اسلامی سرزمیں پر کمزور ہورہی ہےا ور مسلمانوں نے اپنی قوت بحال کرلی ہے تو وہ اپنے وطن کی طرف بھاگے جس کی وجہ سے قطز اسانی سے شام کو کچھ ہی ہفتوں میں ازاد کرانے میں کامیاب رہا۔ الحمدللہ۔
قطز نے ان مسلمان سرداروں جنھوں نے تاتاریوں کے خلاف قطز کی مدد کی تھی نوازنا شروع کیا۔ اس نے کچھ ایوبی سرداروں کو ان کی سرزمیں واپس کی اور اپنی حکومت میں انھیں قابل عزت وزرا کے طور پر شامل کیا۔

شاندار فتح کی وجوہات
اگر ہم بغور دیکھیں کہ کیا وجہ رہی کہ مسلم افواج اس شاندار فتح کی حقدار ٹھیریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ وجوہا ت وہ تھی جو کبھی بھی تبدیل نہ ہوئیں نہ ہوں گیں جب سے پہلی وحی نازل ہوئی تا قیامت تک۔
پہلی شرط درست ایمان کے اور دیانت دار علما، جن کا ذکر پیچھیے کیا گیا جو اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے خوف اللہ رکھتے ہوں نہ کہ خوف حکمران ، کی پیروی ہے۔ اسطرح کے علما کی نمائندگی "سلطان العلما" العز بن ابدیس سلام (اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے) کرتے ہیں۔
دوسری اہم شرط مخلص قیادت ہے جو اللہ کے پیغام کی سربلندی کی کوششیں کرے اور اس کے دین کی حفاظت کرے صرف اللہ کے واسطے۔ اس کی نمائندگی "فاتح سلطان" قطز (اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے) کرتے ہیں۔
تیسری اہم شرط اور سب سے بڑی شرط مسلم امہ کا اتحاد ہے جو کہ توحید کے بینر تلے ہو، ایک ہی مشترکہ فکر ہو اور احساس ذمہ داری ہو قطع نظر موجود چھوٹےچھوٹے فرق کے۔
جنگ کا نتیجہ۔
جنگ کا براہ راست نتیجہ مسلمان عوام کا ظالم تاتار جارح سے ازادی تھی۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا حوصلہ بحال ہوا اور جہاد کی درست تعلیمات مسلمانوں میں پھیل گئیں اور انھیں سستی، کاہلی اور شکست خوردگی سےنجات ملی۔
اس جنگ سے قبل، کچھ راوی کہتے ہیں، تاتاری عورت مسلمانوں کے گروہ کے پاس سے گزری اور اس نے مسلمان مردوں کو حکم دیا کہ وہاں ٹھیریں تاکہ وہ ایک خنجر لے ائے جس سے کہ انھیں ذبحہ کرسکےاور مسلمان مردوں کا گروہ انتظار کرتا رہا اس عورت کے حکم کی تعمیل میں کئی گھنٹوں اور کئی دوسرے مواقع پر کئی دنوں تک یہاں تک کہ کوئی نہ کوئی وہاں پہنچا اور انھیں قتل کردیا۔ مگر اس فتح کے بعد مسلمانوں نے تاتاریوں کا شکار شروع کردیا اور انھیں قتل کرنا شروع کردیا جب بھی ان پر نظر پڑی۔
ایک اور اہم نتیجہ اس جنگ کا یہ رہاکہ ایک طاقتور اسلامی ریاست وجود میں اگئی جبکہ مسلم خلافت زوال پذیر تھی۔ یہ ریاست کئی صدیوں تک مسلمانوں کی حفاظت کرتی رہی۔
اس جنگ نے مسلمانوں کے ایک ناقابل تغیر روایت کو بھی ثابت کیا : اگر مسلمان اپنے ایمان کو پاکیزہ کریں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھی راہ کی طرف لوٹیں اور درست مسلمان قیادت کی پیروی کریں تو چاہیں وہ کتنے کمزور اور منتشر کیوں نہ ہوں اخر کار فاتح ہوں گے۔
یہ جنگ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ کفر چاہے کتنا ہی طاقتور ہی کیوں نہ ہو کافر طاقت اخر کار تباہ ہوکر رہے گی۔
یہ جنگ گمراہ مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ایک وارننگ ہے ان کا حشر بھی ان جیسے دوسرے حکمرانوں جیسا ہی ہوگا (جیسا کہ اس جنگ کے بعد گمراہ مسلمان حکمرانوں کا ہوا) جب ان کی طاقت ختم ہوگی (اور جلد ہی ہوگی انشاللہ)۔
 
Top