حسان خان
لائبریرین
ایزدِ مطلق و یکتا کو صد سپاس کہ اردو محفل پر ایسے کئی افراد موجود ہیں جو ہمارے اسلاف کی عزیز ترین تمدنی و ادبی زبان فارسی کے خوب عالم ہیں اور ادبیاتِ فارسی سے محبت کرتے ہیں۔ فارسی نہ صرف ہمارے اپنے خطے کے پیشروؤں کی تحریری زبان ہے، بلکہ یہ ہمارے تین ہمسائے ممالک ایران، افغانستان اور تاجکستان کی قومی و سرکاری زبان بھی ہے۔ اس لیےمنطقے کے ہمسایہ ممالک کو قریب لانے میں فارسی زبان اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاجکستان میں شوروی (=سوویت) پالیسیوں کی وجہ سے ۱۹۴۰ء سے فارسی زبان روسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے اور کم سے کم اگلے بیس تیس سالوں تک مزید لکھے جانے کا امکان ہے۔ تاجک فارسی کے روسی خط میں لکھے جانے کی وجہ سے وسیع فارسی دان حلقوں میں لوگ تاجک تحریریں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لہذا یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں تاکہ فارسی دان احباب تاجک نویسندوں کی تخلیقات سے بھی لطف اندوز ہو سکیںِ۔
وسطی ایشیا کے سولہویں صدی میں ایران سے کٹ جانے کے بعد وسطی ایشیائی فارسی کا ارتقاء ایرانی فارسی سے مختلف خطوط میں ہونا شروع ہو گیا تھا، لیکن شوروی دورِ حکومت کے آغاز تک وسطی ایشیاء کے فارسی گو تاجک اور ازبک تُرک مصنفین قدیم کلاسیکی فارسی ہی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔ شوروی انقلاب کے بعد ماسکو انتظامیہ نے کلاسیکی ادبی فارسی ترک کر کے شوروی تاجک قوم سازی کے منصوبے کے تحت ایک نئی 'تاجک زبان' کی تشکیل کا بیڑا اٹھایا۔ اس نئی تاجک زبان کی بنیاد بخارا اور سمرقند کے ترکی آمیز گفتاری لہجے پر رکھی گئی تھی اور اس کا نیا خط شروع میں لاطینی اور انیس سو چالیس کے بعد سے روسی تھا۔ زبان سے 'قدامت، عربیت، اور ایرانیت' کو ختم کرنا بھی شوروی لسانی پالیسی کا حصہ تھا۔ پھر اُس پر مستزاد ہزاروں کرخت روسی الفاظ کا منظم تعارف بھی محکوم زبان میں کرایا گیا۔ ماسکو کے پالیسی سازوں کی دلیل یہ تھی کہ بالشیوک خیالات گلی کے مزدوروں کی زبان ہی میں ادا کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ہزار سالہ روایت رکھنے والی قدیم و باشکوہ ادبی زبان کو ترک کر کے ایک نئی ساختہ 'عوامی' زبان کی تخلیق ضروری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی انگریزوں سے کہے کہ چونکہ انگریزی زبان عالمی زبان بنتی جا رہی ہے اور یہ دوسروں کے لیے اکثر مشکل کا سبب بنتی ہے لہذا پچھلے پانچ چھ سو سالوں سے لکھی جانے والی ذی شان انگریزی کے بجائے مشرقی لندن میں بسنے والے مہاجرین کی انگریزی استعمال کی جائے اور رسم الخط بھی تبدیل کر دیا جائے۔۔۔ شاید ہی کوئی انگریز اس پر راضی ہو، لیکن بعینیہ یہی چیز بالشیوکوں نے وسطی ایشیائی لوگوں پر زبردستی نافذ کی تھی۔
بہرحال، آزادی کے بعد چونکہ تاجکستانی دانش مندوں میں استعماری اثرات کو محو کرنے کا جذبہ حاوی تھا اس لیے اُنہوں نے اپنی زبان کو روسی آلائشوں سے پاک کرنے کا کام بھی شروع کر دیا۔ روسی الفاظ بتدریج زبان سے غائب ہوتے رہے اور اُن کی جگہ پر ایرانی اصطلاحات زبان میں شامل ہونے لگیں۔ آزادی سے پہلے تک ایران اور افغانستان کی کتابیں تاجکستان میں ممنوع تھیں، آزادی کے بعد یہ پابندی بھی ختم ہو گئی اور تاجک مصنفین کی رسائی ستر سالوں بعد ایران کے اعلیٰ پائے کے ادب تک ہوئی اور اُنہوں نے بھی شعوری اور غیر شعوری طور پر ایرانی تحریری زبان اپنانا شروع کر دی۔ اخباروں، اعلیٰ ادبی کتابوں اور نصابی کتابوں میں اب شوروی دور کی تاجک فارسی کاملاً ترک ہو چکی ہے اور اُس کی جگہ پر ایرانی ادبی زبان سے شدید متاثر زبان استعمال ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجکستان کے علمی حلقوں میں ایرانی تحریری زبان کو وقار حاصل ہے جب کہ شوروی دور کی تاجک فارسی کو وہ ناگواری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شوروی تاجک زبان و اسلوب اب بہ ندرت ہی نظر آتا ہے۔ اور عامیانہ و گفتاری زبان بھی اب بس ناولوں وغیرہ کے مکالموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیگر جگہوں پر فصیح ادبی زبان استعمال ہوتی ہے جو ایرانی اور افغان ادبی فارسی جیسی ہی ہے۔ تاجکستان کے مکاتب میں اب بچوں کو خطِ نیاگان (یعنی خطِ اجداد) کے نام سے فارسی رسم الخط بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے تاکہ طلبہ اپنا ہزار سالہ ادبی اور تمدنی ورثہ اور ایران و افغانستان میں شائع ہونے والی کتابیں آسانی سے پڑھ سکیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تاجکستان میں بھی جلد سے جلد روسی خط کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر فارسی رسم الخط ہی اپنا لیا جائے تاکہ جو تحمیلی چیز دیوارِ برلن کی طرح تاجکوں کو اپنے ہم زبان افغان اور ایرانی برادران سے دور رکھے ہوئے ہے، بالآخر تاریخ کے زُبالہ دان کا حصہ بن جائے۔
یہاں ہمارے لیے ایک سبق بھی پوشیدہ ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک تاجکستان کے لوگ اپنی زبان کے بارے میں اتنے زیادہ حساس ہیں اور اُس کو توانا رکھنے کی اتنی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ہمیں اپنی زبان کی قطعی فکر نہیں ہے اور ہر ایرے غیرے انگریزی لفظ کو اپنی زبان کی راہ دکھا رہے ہیں۔ برقی ذرائعِ ابلاغ تو دور کی بات ہے، اگر پاکستان کے اخبارات ہی کی بات کی جائے تو اُن میں ایسی انگریزی آلودہ زبان استعمال ہونے لگی ہے کہ دیکھ کر قے آنے لگتی ہے۔
تاجک، افغانی ایرانی فارسی روزمرہ بول چال میں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ بطور مثال اگر کابل کا شخص اپنے زبانچے میں تہرانی شخص سے گفتگو کرے تو دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت مشکل ہو گی۔ این تینوں ممالک کو ادبی فارسی متحد کرتی ہے۔ عربی میں بھی ایسا ہی ہے۔ ادبی زبان عرب دنیا میں ایک ہی ہے، لیکن عراق اور مراکش کے عربی زبانچے باہم ناقابلِ فہم ہیں۔
ازبک اور تاجک لوگ شوروی اتحاد کی تشکیل سے قبل صدیوں تک دو زبانوں (فارسی اور چغتائی/ازبکی ترکی) کی حامل ایک یگانہ ملّت کے طور پر ایک ساتھ رہے ہیں اس لیے دونوں ملتوں کی علاقائی ثقافت یکساں ہے اور دونوں کی زبانوں نے ایک دوسرے پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ بخارا اور سمرقند کے لوگ عموماً دونوں زبانیں جانتے تھے اس لیے صدیوں کی دولسانی ہم زیستی کے باعث وہاں کی فارسی نے بہت سی ازبکی تراکیب اور صدہا الفاظ اخذ کر لیے ہیں۔ شوروی دور کی تحریری تاجک زبان میں ازبکی سے اخذ شدہ تراکیب اور الفاظ بہت زیادہ استعمال ہوتے تھے، لیکن اب اخباروں میں شاذ و نادر ہی کوئی ازبکی کا لفظ اور ترکیب نظر آتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اب تاجک اخباروں اور کتابوں میں ایرانی زبان استعمال ہونے لگی ہے۔
یہاں بخارا کی فارسی پر ازبکی ترکی کے اثرات کی مثال دیتا چلوں۔۔۔ ادبی فارسی میں ایک اسم کے دوسرے اسم سے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے اضافت کا استعمال ہوتا ہے مثلا کتابِ احمد۔۔۔ لیکن بخارا کی ازبکی زدہ گفتاری فارسی میں ازبکی ترکی کے زیرِ اثر 'احمدہ کتابش' استعمال ہوتا ہے۔ یہ ترکیب ہو بہو ترکی ترکیب 'احمدنینگ کتابی' کا لفظی ترجمہ ہے۔ اسی طرح اور دیگر دلچسپ مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پس نوشت: ۱۹۹۲ء میں تصویب ہونے والے قانونِ زبان کے تحت تاجکستان کی حکومت ملک میں بتدریج عربی-فارسی خط رائج کرنے کی پابند ہے۔ لیکن اس حکم کا حال ہنوز ویسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں ۱۹۷۳ء کے آئین میں موجود سرکاری طور پر اردو کے نفاذ کے حکم کا حال ہے۔
وسطی ایشیا کے سولہویں صدی میں ایران سے کٹ جانے کے بعد وسطی ایشیائی فارسی کا ارتقاء ایرانی فارسی سے مختلف خطوط میں ہونا شروع ہو گیا تھا، لیکن شوروی دورِ حکومت کے آغاز تک وسطی ایشیاء کے فارسی گو تاجک اور ازبک تُرک مصنفین قدیم کلاسیکی فارسی ہی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔ شوروی انقلاب کے بعد ماسکو انتظامیہ نے کلاسیکی ادبی فارسی ترک کر کے شوروی تاجک قوم سازی کے منصوبے کے تحت ایک نئی 'تاجک زبان' کی تشکیل کا بیڑا اٹھایا۔ اس نئی تاجک زبان کی بنیاد بخارا اور سمرقند کے ترکی آمیز گفتاری لہجے پر رکھی گئی تھی اور اس کا نیا خط شروع میں لاطینی اور انیس سو چالیس کے بعد سے روسی تھا۔ زبان سے 'قدامت، عربیت، اور ایرانیت' کو ختم کرنا بھی شوروی لسانی پالیسی کا حصہ تھا۔ پھر اُس پر مستزاد ہزاروں کرخت روسی الفاظ کا منظم تعارف بھی محکوم زبان میں کرایا گیا۔ ماسکو کے پالیسی سازوں کی دلیل یہ تھی کہ بالشیوک خیالات گلی کے مزدوروں کی زبان ہی میں ادا کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ہزار سالہ روایت رکھنے والی قدیم و باشکوہ ادبی زبان کو ترک کر کے ایک نئی ساختہ 'عوامی' زبان کی تخلیق ضروری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی انگریزوں سے کہے کہ چونکہ انگریزی زبان عالمی زبان بنتی جا رہی ہے اور یہ دوسروں کے لیے اکثر مشکل کا سبب بنتی ہے لہذا پچھلے پانچ چھ سو سالوں سے لکھی جانے والی ذی شان انگریزی کے بجائے مشرقی لندن میں بسنے والے مہاجرین کی انگریزی استعمال کی جائے اور رسم الخط بھی تبدیل کر دیا جائے۔۔۔ شاید ہی کوئی انگریز اس پر راضی ہو، لیکن بعینیہ یہی چیز بالشیوکوں نے وسطی ایشیائی لوگوں پر زبردستی نافذ کی تھی۔
بہرحال، آزادی کے بعد چونکہ تاجکستانی دانش مندوں میں استعماری اثرات کو محو کرنے کا جذبہ حاوی تھا اس لیے اُنہوں نے اپنی زبان کو روسی آلائشوں سے پاک کرنے کا کام بھی شروع کر دیا۔ روسی الفاظ بتدریج زبان سے غائب ہوتے رہے اور اُن کی جگہ پر ایرانی اصطلاحات زبان میں شامل ہونے لگیں۔ آزادی سے پہلے تک ایران اور افغانستان کی کتابیں تاجکستان میں ممنوع تھیں، آزادی کے بعد یہ پابندی بھی ختم ہو گئی اور تاجک مصنفین کی رسائی ستر سالوں بعد ایران کے اعلیٰ پائے کے ادب تک ہوئی اور اُنہوں نے بھی شعوری اور غیر شعوری طور پر ایرانی تحریری زبان اپنانا شروع کر دی۔ اخباروں، اعلیٰ ادبی کتابوں اور نصابی کتابوں میں اب شوروی دور کی تاجک فارسی کاملاً ترک ہو چکی ہے اور اُس کی جگہ پر ایرانی ادبی زبان سے شدید متاثر زبان استعمال ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجکستان کے علمی حلقوں میں ایرانی تحریری زبان کو وقار حاصل ہے جب کہ شوروی دور کی تاجک فارسی کو وہ ناگواری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شوروی تاجک زبان و اسلوب اب بہ ندرت ہی نظر آتا ہے۔ اور عامیانہ و گفتاری زبان بھی اب بس ناولوں وغیرہ کے مکالموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیگر جگہوں پر فصیح ادبی زبان استعمال ہوتی ہے جو ایرانی اور افغان ادبی فارسی جیسی ہی ہے۔ تاجکستان کے مکاتب میں اب بچوں کو خطِ نیاگان (یعنی خطِ اجداد) کے نام سے فارسی رسم الخط بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے تاکہ طلبہ اپنا ہزار سالہ ادبی اور تمدنی ورثہ اور ایران و افغانستان میں شائع ہونے والی کتابیں آسانی سے پڑھ سکیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تاجکستان میں بھی جلد سے جلد روسی خط کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر فارسی رسم الخط ہی اپنا لیا جائے تاکہ جو تحمیلی چیز دیوارِ برلن کی طرح تاجکوں کو اپنے ہم زبان افغان اور ایرانی برادران سے دور رکھے ہوئے ہے، بالآخر تاریخ کے زُبالہ دان کا حصہ بن جائے۔
یہاں ہمارے لیے ایک سبق بھی پوشیدہ ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک تاجکستان کے لوگ اپنی زبان کے بارے میں اتنے زیادہ حساس ہیں اور اُس کو توانا رکھنے کی اتنی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ہمیں اپنی زبان کی قطعی فکر نہیں ہے اور ہر ایرے غیرے انگریزی لفظ کو اپنی زبان کی راہ دکھا رہے ہیں۔ برقی ذرائعِ ابلاغ تو دور کی بات ہے، اگر پاکستان کے اخبارات ہی کی بات کی جائے تو اُن میں ایسی انگریزی آلودہ زبان استعمال ہونے لگی ہے کہ دیکھ کر قے آنے لگتی ہے۔
تاجک، افغانی ایرانی فارسی روزمرہ بول چال میں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ بطور مثال اگر کابل کا شخص اپنے زبانچے میں تہرانی شخص سے گفتگو کرے تو دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت مشکل ہو گی۔ این تینوں ممالک کو ادبی فارسی متحد کرتی ہے۔ عربی میں بھی ایسا ہی ہے۔ ادبی زبان عرب دنیا میں ایک ہی ہے، لیکن عراق اور مراکش کے عربی زبانچے باہم ناقابلِ فہم ہیں۔
ازبک اور تاجک لوگ شوروی اتحاد کی تشکیل سے قبل صدیوں تک دو زبانوں (فارسی اور چغتائی/ازبکی ترکی) کی حامل ایک یگانہ ملّت کے طور پر ایک ساتھ رہے ہیں اس لیے دونوں ملتوں کی علاقائی ثقافت یکساں ہے اور دونوں کی زبانوں نے ایک دوسرے پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ بخارا اور سمرقند کے لوگ عموماً دونوں زبانیں جانتے تھے اس لیے صدیوں کی دولسانی ہم زیستی کے باعث وہاں کی فارسی نے بہت سی ازبکی تراکیب اور صدہا الفاظ اخذ کر لیے ہیں۔ شوروی دور کی تحریری تاجک زبان میں ازبکی سے اخذ شدہ تراکیب اور الفاظ بہت زیادہ استعمال ہوتے تھے، لیکن اب اخباروں میں شاذ و نادر ہی کوئی ازبکی کا لفظ اور ترکیب نظر آتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اب تاجک اخباروں اور کتابوں میں ایرانی زبان استعمال ہونے لگی ہے۔
یہاں بخارا کی فارسی پر ازبکی ترکی کے اثرات کی مثال دیتا چلوں۔۔۔ ادبی فارسی میں ایک اسم کے دوسرے اسم سے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے اضافت کا استعمال ہوتا ہے مثلا کتابِ احمد۔۔۔ لیکن بخارا کی ازبکی زدہ گفتاری فارسی میں ازبکی ترکی کے زیرِ اثر 'احمدہ کتابش' استعمال ہوتا ہے۔ یہ ترکیب ہو بہو ترکی ترکیب 'احمدنینگ کتابی' کا لفظی ترجمہ ہے۔ اسی طرح اور دیگر دلچسپ مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پس نوشت: ۱۹۹۲ء میں تصویب ہونے والے قانونِ زبان کے تحت تاجکستان کی حکومت ملک میں بتدریج عربی-فارسی خط رائج کرنے کی پابند ہے۔ لیکن اس حکم کا حال ہنوز ویسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں ۱۹۷۳ء کے آئین میں موجود سرکاری طور پر اردو کے نفاذ کے حکم کا حال ہے۔
آخری تدوین: