تاریخ اسلام : 1

فرید احمد

محفلین
دور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے تاریخ اسلام مختصرا یہاں پیش کرنے کا ارادہ ہے، آج پہلی قسط پیش ہے، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے ! ناظم صاحب کی توجہ چاہوں گا ! دعا کریں۔

خلافت ابو بکر
دارالسلطنت : مدینہ منورہ
ولادت ابوبکر رضی اللہ 574
وفات : 22مادی الاولی 13 ہجری ، 23 اگسٹ ، 634ء۔
عمر : 63 برس ۔
ابتداء خلافت : 13 ربیع الاول ، 11 ہجری، 9 جون، 632 ء ۔
مدت خلافت : دو سال 3 ماہ،
اہم واقعات :11 ہجری میں قبائل میں شورش ، اسامہ بن زید کے رومیوں کے خلاف لشکر کشی،
12 ہجری میں فتنہ ارتداد کا استیصال ، مسیلمہ کذاب کا قتل ، عراق پر فوج کشی، فتوحات کاظمہ، ندار ، ولحہ، انبار ، کرخ،
12- 13 ہجری : میں قرآن کریم کی تدوین ، منکرین زکوۃ کی تادیب ،
13 ہجری میں شام پر فوج کشی ، محاصرہ دمشق ۔
 
ماشاءللہ بہت ہی خوب سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے فرید اور میری بھرپور توجہ ہے آپ پر اور آپ کی پوسٹ پر۔

تاریخوں کے ساتھ کیوں نہ مختصراً کچھ واقعات بھی درج کرتے چلیں۔ میں بھی اس میں آپ کا ہاتھ بٹاتا جاؤں گا۔
 
جواب

اچھا سلسلہ ہے لیکن جناب یہ تو صرف چیدہ چیدہ معلومات ہیں۔ میرے خیال میں مکمل تاریخ اسلام سے آج تک ہمارے دور کے نوجوان ناواقف ہیں۔یعنی خلافت راشدہ کے بعد کیا ہوا۔ کس طرح خلافت شہنشاہیت میں تبدیل ہوئی۔ اس کے متعلق آپ اگر معلومات دیں سکیں تو اچھا ہے۔ لیکن ایک بات ہے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے جن لوگوں نے اس تاریخ کو سچائی کی آنکھ سے دیکھا ان پر کفر کے فتوے تک لگ گئے۔ مولانا موودوی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نجانے کیوں ہمارے مولوی حضرات (خلافت و ملوکیت) کو ایک لغو کتاب سمجھتے ہیں۔
 

فرید احمد

محفلین
نظر انصاف

تاریخ کا بے لاگ تبصرہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے سبق ملتا ہے، اور مستقبل کی روشنی نصیب ہوتی ہے، لین جب یہ تبصرہ آزاد خیالی کے بھینٹ چڑھ جائے اور بنیاد کھودنے کا کام کرے تو “ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے “ کے مترادف ہوتا ہے، مولانا مودودی صاحب کا موضوع تاریخ ہر گز نہ تھا، تبلیغ دین تھا ، تاریخ نویس واقعات لکھ کر بس کرتا ہے ، تبصرہ نہیں کرتا ، اور عقل مند اس سے درس حاصل کرتا ہے، کرداروں کی ذاتیات میں اتر کر اس میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ مولانا مودودی صاحب کے تبصرہ جات سے لوگوں کا اعتماد صحابہ سے متزلزل ہوتا ہے اور اگر اس واسطہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو ، جو بعد کے زمانہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان واحد کڑی اور لنک ہے تو پورے دین کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی کے اسٹول پر جاکر کسی صحابی کی سیرت پر لکھی کتاب مانگی جاتی ہے تو تیوری چڑھ جاتی ہے ۔
میرا مقصود کسی کی دلازاری نہیں فقط ایک مثال پیش کرنا ہے، کہ کونسی چیز کیا نقصان کرتی ہے ۔اگر کسی کی دل آزاری ہو تو پیشگی معافی چاہتا ہوں ۔ آج کل بازار بہت گرم ہے ۔ کہیں ڈنمارک کی بجائے میں نشانہ پر نہ آجاؤں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فرید اور وہاب۔ آپ بے خطر ہو کر یہاں تاریخی حقائق بیان کریں۔ یہاں کوئی فتوے نہیں لگا رہا۔ ہم سب کو اپنی تاریخ کے حقائق کا صحیح علم ہونا چاہیے۔ تاریخ محض حکمرانوں کے تواریخ پیدائش اور اعدادوشمار اکٹھے کرنے کا نام نہیں ہے۔۔ یہ معاشروں، گروہوں، ملکوں میں تہذیب و تمدن اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے مطالعے کا نام ہے۔ جو تاریخ دان یا تاریخ کا طالب علم کسی فرقے یا گروہ سے خائف ہونے کی بنا پر یا کسی اور مفاد کی وجہ سے تاریخی حقائق سے پردہ پوشی کرتا ہے، وہ تاریخ سے بد دیانتی برتتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نظر انصاف

farid rasheed kavi نے کہا:
تاریخ کا بے لاگ تبصرہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے سبق ملتا ہے، اور مستقبل کی روشنی نصیب ہوتی ہے، لین جب یہ تبصرہ آزاد خیالی کے بھینٹ چڑھ جائے اور بنیاد کھودنے کا کام کرے تو “ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے “ کے مترادف ہوتا ہے، مولانا مودودی صاحب کا موضوع تاریخ ہر گز نہ تھا، تبلیغ دین تھا ، تاریخ نویس واقعات لکھ کر بس کرتا ہے ، تبصرہ نہیں کرتا ، اور عقل مند اس سے درس حاصل کرتا ہے، کرداروں کی ذاتیات میں اتر کر اس میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ مولانا مودودی صاحب کے تبصرہ جات سے لوگوں کا اعتماد صحابہ سے متزلزل ہوتا ہے اور اگر اس واسطہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو ، جو بعد کے زمانہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان واحد کڑی اور لنک ہے تو پورے دین کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی کے اسٹول پر جاکر کسی صحابی کی سیرت پر لکھی کتاب مانگی جاتی ہے تو تیوری چڑھ جاتی ہے ۔
میرا مقصود کسی کی دلازاری نہیں فقط ایک مثال پیش کرنا ہے، کہ کونسی چیز کیا نقصان کرتی ہے ۔اگر کسی کی دل آزاری ہو تو پیشگی معافی چاہتا ہوں ۔ آج کل بازار بہت گرم ہے ۔ کہیں ڈنمارک کی بجائے میں نشانہ پر نہ آجاؤں۔

میں نے یہ کتاب کچھ عرصہ قبل ہی ملت ڈاٹ کام پر پڑھی ہے۔

میری ناقض رائے میں، مولانا مودودی کا مقصد تاریخ ہی ہے اور وہ اُن عوامل کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے کہ خلافت کس طرح سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی۔

اس سے قبل، میں اس کتاب کا جواب بھی پڑھ چکی ہوں جو کہ تقی عثمانی صاحب نے دیا تھا۔

دونوں بہت اچھی کتب ہیں اور تاریخ کا اُن سے بہت اندازہ ہوتا ہے۔

میرے خیال میں، ہر کسی کو اُس وقت کے دور پر اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق ہے۔ لہذا، اُس وقت کے حالات کی کوئی واحد آفیشل تاریخ نہیں ہو سکتی، بلکہ ہمیں اس اختلاف کو برداشت کرنا ہو گا۔
 
جواب

فرید صاحب دراصل میں جماعت کا بندہ نہیں لیکن موودوی صاحب کو بڑی گہرائی سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اگر آپ انھیں صرف تبلیغ دین سے متعلق سمجھتے ہیں تو شاید اقبال اور علامہ مشرقی سے بڑے تبلیغی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ دراصل یہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صدیوں کی منجمد سوچ کو توڑنے کی کوشش کی۔ اور اجتہاد پر زور دیا۔ اور میرے خیال میں یہی تین لوگ تھے جو بڑھتی ہوئی مادی دنیا میں روح اور مادے دونوں کا امتزاج چاہتے تھے۔ اقبال نے فلسفے کا سہارا لیا تو علامہ مشرقی اور مودودی نے ادبی نثر کا سہارا لے کر یہ کوشش کی۔ اور خاص بات یہ ہے کہ تینوں پر کفر کے فتوے لگے ۔ کیوں کہ بقول شاعر (کہ ان کی سوچ ہم سے مختلف تھی) جہاں تک تاریخ کی بات ہے امیر علی کی سپرٹ آف اسلام جو کہ ایک تاریخ دان کی کتاب ہے بھی تعصبات سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اور اُس میں کئی جگہوں پر آپ کو سنی مسلک کے خلاف تعصب کی جھلک ضرور محسوس ہوگی۔ جب کہ میرے خیال میں مولانا نے حد درجہ اس سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن خیر ہر شخص کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے آپ جو سوچتے ہیں شاید وہی سہی ہو۔
 
بہت عمدہ گفتگو جاری ہے اور یقیناً اس بحث سے ہمیں کافی کچھ جاننے کا موقع ملے گا۔ میں نے علامہ مودودی کی خلافت و ملوکیت تو نہیں پڑھی مگر اس کے جواب میں لکھی ہوئی ایک اور کتاب پڑھی ہے جو کہ بہت معلومات افزا تھی اب پاکستان جا کر خلافت و ملوکیت خریدوں گا اور پھر ہم سب مل کر تاریخ میں جھانکتے ہیں۔ ایک بات میں بتاتا چلوں کہ آپ بے فکر ہو کر پوسٹ کریں کم از کم میں کسی پوسٹ کو مقفل نہیں کروں گا مگر بات حوالوں اور دلیلوں سے ہونی چاہیئے اور اس کا خیال رکھیں کہ کسی کا بھی نطریہ واقعتا تاریخ ہو یہ ضروری نہیں ہے ۔ تو آئیں ہم لوگ اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں۔
 
ایک سوال

محترم دوستو پہلے تو اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ کیا ہمارے صحابہ کرام انسان تھے یا پیغمبر کیا وہ پیغمبروں کی طرح غلطی کے حوالے سے معصوم تھے ان سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی تھی۔ یا وہ عام انسان تھے جو کہ غلطی کر سکتے تھے۔ یہاں میں واضح کرتا چلوں کی اس غلطی کی نوعیت مذہبی نہیں تھی۔ کیونکہ ان کی تربیت کا خاصہ تھا کہ وہ لوگ کسی قسم کی مذہبی غلطی کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن جہاں تک بات ہے سیاست کی تو ہمارے صحابہ کرام سے سیاسی حوالے سے بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ جس میں پہلا نام تو حضرت عثمان رضی تعالی عنہ کا آتا ہے۔ جن کو حضرت عمر رضی تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ کبھی اعلی حکومتی عہدوں پر اپنے خاندان کے لوگوں کو نہیں رکھنا۔ لیکن حضرت عثمان اس غلطی کے مرتکب ہوئے جس کا نتیجہ ان کے خلاف بغاوت کی صورت میں نکلا۔ اور اس طرح اسی حوالے سے ان کی شہادت کے بعد امت مسملہ آپس کی خانہ جنگی میں گرفتار ہوئی۔ جنگ جمل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس سے آگے کیا ہوا اس پر مزید بحث ہوگی۔ لیکن پلیز پلیز اس تاریخ کو آپ لوگ سیاسی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ مذہبی حوالے سے نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تاریخ لکھنے کے بجائے تاریخ بنانا سیکھو۔
ملک کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کرو
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
 
جواب

محترم آپ بجا فرماتے ہیں لیکن شاید آپ نے یہ نہیں سنا کہ ہر بڑی قوم اپنی تاریخ سے سبق حاصل کر کے اپنے مستقبل کی راہیں روشن کر تی ہے۔
 

F@rzana

محفلین
؛

آپ صاحبان کی گفتگو کا سلسلہ دلچسپ پے، تعمیری اور تنقید سے مستقبل کی بہتری وابستہ ہوتی ہے، اسے جاری رکھئے اور الجھنے کے بجائے ذہنی گتھیاں کھولنے کی جانب توجہ مبذول کی جائے تو زیادہ بہتر رہے گا، اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی کافی الجھنیں ہیں، لیکن ہمارے مذہبی عقائد کی بناء پر بعض اوقات ذہن کو تالا لگانا پڑ جاتا ہے جو کہ قطعی صحت مندانہ رویہ نہیں ہے،حضرت عثمان اگر قرآن پاک کا وہ نسخہ جو حضرت حفصہ کے پاس محفوظ تھا منگا کر اس کی نقلیں تمام مسلمان ممالک میں نہ بھجواتے اور بقیہ نسخوں کو تلف نہیں کرواتے تو آج قرآن پاک بھی رومیوں اور عیسائیوں کی کتاب جیسا ہوتا،انھوں نے شہید ہونا قبول کیا لیکن مسلمانوں کا خون بہانے سے گریز کیا، حالانکہ ہمارے نبی صلعم کا ارشاد تھا کہ عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا، لوگوں نے یہ بات بھلادی، جبکہ حضرت عثمان باغیوں کے مطالبے کو مان کر جان بھی بچا سکتے تھے، اس کی وجہ ان کی بزدلی نہیں بلکہ نبی صلعم کی رضا پر چلنا تھا، ایسے حقائق اور تاریخ کا پرچار نیکی بھی ہے اوربصیرت افروز بھی،
صرف ایک گزارش ہے کہ ایسے موضوعات پر شامل کی گئی آراء کے لیئے علیحدہ سیکشن ہو، ابھی تو پہلا صفحہ لکھا گیا ہے اور پیغامات نے جگہ گھیر لی، مبارکباد مصنف کو پیش کرتی ہوں۔
 
میں وہاب کی بات سے متفق ہوں کہ صحابہ بے حد مقدس ہستیاں ہونے کے باوجود عن الخطا بہرحال نہیں تھے یہ درجہ انبیاکرام کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی صحابی کا کوئی فیصلہ غلط ہوا ہو تو اسے صرف ایک خطا کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے نہ کہ صرف اسی ایک نقطہ کو ہی تھام لیا جائے۔ ہم عام زندگی میں بھی کسی شخص کی ساری زندگی کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں نہ کہ ایک دو فیصلوں سے کسی کے متعلق فیصلہ کر لیتے ہیں۔ میرا خیال تمام قاری سمجھ بوجھ رکھنے والے اور ذی شعور ہیں اس لیئے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور ہوا بھی تو اسے سنبھال لیں گے۔ کوشش اچھے اور مثبت پہلو دیکھنے کی طرف ہونی چاہیئے۔
 
جواب

محترمہ فرزانہ صاحبہ آپ کی رائے سے اتفاق ہے حضرت عثمان پر جو الزامات باغیوں نے لگائے ان میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے قران کو اپنی اصل شکل میں مرتب نہیں کیا۔ خیر یہ ان لوگوں کی جاہلیت تھی لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ حضرت عثمان کا قران کے حوالے سے کارنامہ آج تک ایک متنازعہ معاملہ رہا۔ جو کہ کافی زیادتی کی بات ہے۔ کچھ فرقے تو ان پر یہ الزام اب لگانے سے بھی نہیں چوکتے کہ انہوں نے قران کو مکمل شکل میں مرتب نہیں کیا۔ لیکن میں‌کہہ چکا ہوں کہ مذہبی، اور انتظامی حوالے سے ان صحابہ کرام کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور حضرت عثمان کا کارنامہ قران پاک کے حوالے سے کارنامہ اور احسان اتنا بڑا ہےکہ ہم مسلمان صدیوں تک ان کا یہ احسان نہیں چکا سکتے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں کارناموں کے ساتھ ساتھ ان ناکامیوں کی نشاندہی کرنی چاہیئے۔ دراصل حضرت عثمان ایک حلیم اور درگزر کرنے والی شخصیت کے مالک تھا۔ جس کا فائدہ اس کے وقت کے اسلام دشمن عناصر نے خوب اٹھایا۔ اس دور میں عبداللہ بن صبا جیسے یہودیوں نے جنم لیا۔ جس نے ایرانیوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے فتنہ و فساد مزید بڑھا۔ دوسری طرف اس دور کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ حضرت عمر کا دور فتوحات کا دور اور حضرت عثمان کا دور مسلم ملت کی خوشحالی کا دور اس لیے جب عربوں کو جنگوں سے فرصت ملی تو ان کے اپنے قبائلی تعصبات نے بھی سر اٹھایا۔ اور یہ قبائلی تعصب واقعہ کربلا کی صورت میں ہمارے سامنے ایک مکمل شکل میں ظاہر ہوا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نظر انصاف

مہوش علی نے کہا:
farid rasheed kavi نے کہا:
تاریخ کا بے لاگ تبصرہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے سبق ملتا ہے، اور مستقبل کی روشنی نصیب ہوتی ہے، لین جب یہ تبصرہ آزاد خیالی کے بھینٹ چڑھ جائے اور بنیاد کھودنے کا کام کرے تو “ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے “ کے مترادف ہوتا ہے، مولانا مودودی صاحب کا موضوع تاریخ ہر گز نہ تھا، تبلیغ دین تھا ، تاریخ نویس واقعات لکھ کر بس کرتا ہے ، تبصرہ نہیں کرتا ، اور عقل مند اس سے درس حاصل کرتا ہے، کرداروں کی ذاتیات میں اتر کر اس میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ مولانا مودودی صاحب کے تبصرہ جات سے لوگوں کا اعتماد صحابہ سے متزلزل ہوتا ہے اور اگر اس واسطہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو ، جو بعد کے زمانہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان واحد کڑی اور لنک ہے تو پورے دین کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی کے اسٹول پر جاکر کسی صحابی کی سیرت پر لکھی کتاب مانگی جاتی ہے تو تیوری چڑھ جاتی ہے ۔
میرا مقصود کسی کی دلازاری نہیں فقط ایک مثال پیش کرنا ہے، کہ کونسی چیز کیا نقصان کرتی ہے ۔اگر کسی کی دل آزاری ہو تو پیشگی معافی چاہتا ہوں ۔ آج کل بازار بہت گرم ہے ۔ کہیں ڈنمارک کی بجائے میں نشانہ پر نہ آجاؤں۔

میں نے یہ کتاب کچھ عرصہ قبل ہی ملت ڈاٹ کام پر پڑھی ہے۔

میری ناقض رائے میں، مولانا مودودی کا مقصد تاریخ ہی ہے اور وہ اُن عوامل کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے کہ خلافت کس طرح سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی۔

اس سے قبل، میں اس کتاب کا جواب بھی پڑھ چکی ہوں جو کہ تقی عثمانی صاحب نے دیا تھا۔

دونوں بہت اچھی کتب ہیں اور تاریخ کا اُن سے بہت اندازہ ہوتا ہے۔

میرے خیال میں، ہر کسی کو اُس وقت کے دور پر اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق ہے۔ لہذا، اُس وقت کے حالات کی کوئی واحد آفیشل تاریخ نہیں ہو سکتی، بلکہ ہمیں اس اختلاف کو برداشت کرنا ہو گا۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ تاریخ کا کوئی واحد آفیشل ورژن موجود نہیں ہے، بلکہ ہر کسی نے اپنے اپنے علم، وژن (اور کچھ صورتوں میں تعصب) کی بنیاد پر تاریخ لکھی ہے۔

بہت اہم بات ہے کہ تاریخ کے طالب علم کے طور پر کھلے دل کے ساتھ Compartive Study کی جائے اور پھر حق کو سمجھا جائے۔ یہ مشکل راستہ تو ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس سے بہت اچھا ہے کہ کسی کی آنکھیں بند کر کے اندھی تقلید کی جائے۔

مولانا مودودی کا بھی یہی نظریہ تھا، اور اس بنیاد پر مرحوم نے اس کتاب کو لکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُن سے کسی جگہ پر کوئی غلطی ہوئی ہو، مگر میں اُن کے نیک جذبہ اور نیت پر کوئی شک نہیں کر سکتی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

درحقیقت، مجھے اس موضوع پر بہت دلچسپی رہی ہے اور بہت عرصہ سے ہے اور اسی وجہ سے اس موضوع پر بہت سی اردو اور انگلش کتب کا مطالعہ کرنے کی بھی کوشش کی۔

اگر آپ لوگوں میں سے کوئی واقعی نیک نیتی کے ساتھ تاریخ کے اس دور کو سمجھنا چاہتا ہے تو ذیل کو کتب کا Comparitive مطالعہ کریں۔ اس کے بعد یقیناً آپ اس قابل ہوں گے کہ حالات کو اس کی بالکل صحیح سیاق و سباق میں سمجھ سکیں۔


پہلی کتاب:

براۃ عثمان

http://www.kr-hcy.com/zip/Barat-e-Usman-(r.a).zip

فائر فاکس میں کچھ بیماری کی وجہ سے یہ لنک پورا نہیں آ رہا ہے اور آخر کا کچھ حصہ کٹ جاتا ہے۔ آپ اسے خود سے ایڈریس باکس پر لکھیں تو یہ لنک بالکل صحیح کام کرے گا۔
سائز 5 میگا بائیٹ
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں حضرت عثمان پر ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے (خصوصی طور پر ان اعتراضات کا جو کہ مودودی صاحب نے حضرت عثمان پر کیے تھے)

اس کتاب کے لکھنے والے مولانا کا تعلق سپاہ صحابہ سے ہے۔

یہاں پر بہت سے احباب ایسے ہیں جو سپاہ صحابہ کو پسند نہیں فرماتے اور انہیں اعتراض ہے کہ سپاہ صحابہ تنظیم کا نام یہاں لیا جائے۔

مجبوری یہ ہے کہ فریقِ مخالف کے بیانات کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، ورنہ انسان کبھی بھی انصاف نہیں کر پاتا۔

لہذا، انصاف کے نام پر آپ حضرات کی خدمت میں یہ کتاب پیش کر رہی ہوں۔


دوسری کتاب:

خلافت و ملوکیت پر اعتراض کا تجزیہ از مولانا مودودی
فی الحال یہ لنک کام نہیں کر رہا، مگر جلد ہی یہ کتاب پھر سے آنلائن پڑھی جا سکے گی۔


تیسری کتاب:

تاریخِ طبری سے سن 35 کے مکمل اور تفصیلی حالات
پی ڈی ایف فائل
سائز 0٫5 MB

سن 35 میں جناب عثمان کے خلاف شورشوں کا آغاز ہوا اور آپ کی شہادت پر اس کا انجام ہوا۔ اور تاریخ طبری میں یہ واقعات بہت ہی تفصیل اور ترتیب کے ساتھ موجود ہیں۔ اور انہیں پڑھنے کے بعد بہت سی چیزیں واضح ہوں گی۔

میرے نزدیک امام طبری نے بہت ہی صحیح طریقے سے ان واقعات کو بیان فرمایا ہے اور ان کی مدد سے صورتحال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس آرٹیکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کو لکھنے والے ایک اہل تشیع حضرت ہیں جنہوں نے تاریخ طبری کے ساتھ ساتھ اپنی طرف سے حاشیوں کا اضافہ بھی کر لیا ہے۔ چنانچہ منفی پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ کشمکش آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ فریقِ مخالف کے دلائل سننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

بذاتِ خود، چونکہ یہ آرٹیکل 90 فیصد تاریخ طبری پر مشتمل ہے، اس لیے اس کی اہمیت میرے لیے بہت اہم ہے اور حالات بہت صاف ہو کر میرے سامنے کھڑے ہو گئے۔


آخر میں ایک نصیحت۔ فرقہ پرستی ایک لعنت ہے، جس نے اس امت کو تاریکیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمارے مطالعہ کا مقصد صرف اور صرف اس فرقہ پرستی سے نجات حاصل کرنا، اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔

اس مقصد کو کبھی بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے گا، ورنہ ہر مثبت چیز کا اثر بھی منفی ہو گا، اور علم فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچائے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جواب

وہاب اعجاز خان نے کہا:
محترمہ فرزانہ صاحبہ آپ کی رائے سے اتفاق ہے حضرت عثمان پر جو الزامات باغیوں نے لگائے ان میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے قران کو اپنی اصل شکل میں مرتب نہیں کیا۔ خیر یہ ان لوگوں کی جاہلیت تھی لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ حضرت عثمان کا قران کے حوالے سے کارنامہ آج تک ایک متنازعہ معاملہ رہا۔ جو کہ کافی زیادتی کی بات ہے۔ کچھ فرقے تو ان پر یہ الزام اب لگانے سے بھی نہیں چوکتے کہ انہوں نے قران کو مکمل شکل میں مرتب نہیں کیا۔ لیکن میں‌کہہ چکا ہوں کہ مذہبی، اور انتظامی حوالے سے ان صحابہ کرام کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور حضرت عثمان کا کارنامہ قران پاک کے حوالے سے کارنامہ اور احسان اتنا بڑا ہےکہ ہم مسلمان صدیوں تک ان کا یہ احسان نہیں چکا سکتے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں کارناموں کے ساتھ ساتھ ان ناکامیوں کی نشاندہی کرنی چاہیئے۔ دراصل حضرت عثمان ایک حلیم اور درگزر کرنے والی شخصیت کے مالک تھا۔ جس کا فائدہ اس کے وقت کے اسلام دشمن عناصر نے خوب اٹھایا۔ اس دور میں عبداللہ بن صبا جیسے یہودیوں نے جنم لیا۔ جس نے ایرانیوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے فتنہ و فساد مزید بڑھا۔ دوسری طرف اس دور کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ حضرت عمر کا دور فتوحات کا دور اور حضرت عثمان کا دور مسلم ملت کی خوشحالی کا دور اس لیے جب عربوں کو جنگوں سے فرصت ملی تو ان کے اپنے قبائلی تعصبات نے بھی سر اٹھایا۔ اور یہ قبائلی تعصب واقعہ کربلا کی صورت میں ہمارے سامنے ایک مکمل شکل میں ظاہر ہوا۔

محترم وہاب بھائی،

ماشاء اللہ وہاب بھائی، آپ کا مطالعہ واقعی بہت زیادہ ہے۔ اسی لگن سے آپ لگے رہیں اور اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔

صرف ایک گذارش ہے کہ اس دورِ فتن کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امویوں اور عباسیوں نے اس زمانے کے بہت سے ہنگاموں کو اہل تشیع کے نام کر دیا ہے اور اہل تشیع نے بہت سی چیزیں ان اموی اور عباسی خلفاء کے لیے ناجائز گھڑ لی ہیں۔

عبداللہ ابن سبا پر بہت زیادہ ریسرچ کرنے کے بعد میں ششدر رہ گئی۔ اللہ ہماری امت کو اس سب سے بڑے فتنے، یعنی تعصب سے پاک رکھے۔

سب سے پہلے جس چیز نے عبداللہ ابن سبا کے کردار پر میری توجہ کھینچی، وہ ڈاکٹر طہ حسین کا یہ بیان تھا:

ڈاکٹر طہ حسین از مصر نے کہا:
ڈاکٹر طہ حسین حنفی جو کہ مصر کے مشہور عالم ہیں ، اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "الفتنہ الکبریٰ" میں تحریر فرماتے ہیں:
"ابن سبا بالکل فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اور جب فرقہ شیعہ اور دیگر فرقوں میں جھگڑے چل رہے تھے تو اُس وقت اسے جنم دیا گیا۔ شیعوں کے دشمنوں کا مقصد یہ تھا کہ شیعوں کے اصول مذہب میں یہودی عنصر کو شامل کر دیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی چالبازی اور مکر و فریب کی صورتیں تھیں۔ محض شیعوں کو زچ کرنے کے لیے امویوں اور عباسیوں کے دورِ حکومت میں اہل تشیع کے دشمنوں نے عبداللہ ابن سبا کے معاملے میں بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا۔ اس کے فرضی حالات بہت بڑھا چڑھا کے بیان کیے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ تھا کہ حضرت عثمان (ر) اور اُن کے عمال حکومت کی طرف جن خرابیوں کی نسبت دی جاتی ہے اور ناپسندیدہ باتیں جو اُن کے متعلق مشہور ہیں، کو سن کر لوگ شک و شبہ میں پڑ جائیں۔ دوسرا فائدہ یہ کہ علی اور ان کے شیعہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہوں۔
نہ معلوم شیعوں کے دشمنوں نے شیعوں پر کتنے الزامات لگائے اور نہ جانے شیعوں نے کتنی غلط باتیں اپنے دشمنوں کی طرف حضرت عثمان وغیرہ کے معاملے میں منسوب کیں۔

حوالہ: الفتنہ الکبریٰ، جلد 1، صفحہ 132، طبع مصر

ڈاکٹر طہ حسین کے بیان کے بعد میں نے اس مسئلے پر اور بہت تحقیق کی اور جو نتائج سامنے آئے، وہ بہت ہی مایوس کن تھے۔ یقین کیجئے، ڈاکٹر طہ حسین کا بیان بہت ہی بڑا سچ ہے اور شہادتِ جنابِ عثمان میں ایسے کسی عبداللہ ابن سبا یا سبائیوں کا کردار ایک ہزار فیصد صرف اور صرف دیو مالائی قصہ ہے۔

[نوٹ: میں عبداللہ ابن سبا کے اپنے وجود کو دیو مالائی نہیں کہہ رہی، بلکہ حقیقت میں اس نام کا ایک شخص علی ابن ابی طالب کے دورِ خلافت میں گذرا ہے (یعنی شہادتِ حضرت عثمان کے کئی سالوں بعد)۔ مگر اس شخص یا اس کے پیروکار (جو سبائین کے نام سے مشہور ہیں)ّ ان کے متعلق تمام وہ بیانات کہ انہوں نے جناب عثمان ابن عفان کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا یا انہیں سازش کر کے قتل وغیرہ کیا۔۔۔ یہ سب دیو مالائی کہانیاں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

یہ صرف اور صرف اسلام دشمن عناصر ہیں جو کہ عبداللہ ابن سبا کے نام پر فرقہ واریت کو فروغ دے کر وحدتِ امت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بیماری کا آغاز امویوں اور عباسیوں کا دورِ حکومت ہے۔
 
جواب

محترمہ میں‌کسی فرقے کے خلاف نہیں اور نہ کسی کو بھی کافر سمجھتا ہوں۔ دراصل فرقہ بندی کا سب سے بڑا حوالہ علاقائی ہے۔ جس میں ایرانیت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ شیعہ فرقے کے ذریعے ایرانی جو کہ اپنے سے بہت کمزور طاقت یعنی عربوں کےہاتھوں شکست کھا چکے تھے۔ یہاں انھیں امید کی ایک کرن نظر آئی۔کہ وہ پھر اپنی پرانی ساخت بحال کر سکیں۔ حضرت عمر کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ میرے خیال میں یہ سارا جھگڑا یہاں عرب اور عجم کے درمیان چشمک کی وجہ سے پیش آیا۔ اور شیعہ فرقے کی مقبولیت عجم میں مقبولیت کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ عبداللہ بن سبا نے ایسا نہ کیا ہو۔ لیکن صدیوں کی ایرانی تہذیب نے عرب تہذیب کے خلاف ایک بہت بڑا ردعمل شیعہ فرقے کی صورت میں‌ ظاہر کیا۔ میں دارصل یہاں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ کون حق پر تھا اور کون حق پر نہیں‌ تھا۔ یہ سب اللہ ہی جانتا ہے۔ اور اس پر بات کرنا ہی مجھے ہمیشہ سے فضول محسوس ہوتا ہے۔ پلیز آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ اس موضوع سے اجتناب کریں۔ یہاں ہم نے تاریخی حقائق پر بات کرنی ہے نہ کہ کسی فرقے کو صحیح یا غلط ثابت کرنا ہے۔ دراصل یہاں ایک یہ بات بھی ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ تہذیبی قدریں کسی بھی مذہب پر بہت گہرائی سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ خود ہندوستان کی مثال لے لیجیے یہاں کی تہذیب نے سنیوں اور شیعہ فرقوں پر کیسا گہرا اثر چھوڑا۔ یہاں کے عقائد پر یہاں کی تہذیب کتنی اثر انداز ہوئی۔ یہ آپ دونوں فرقوں میں موجود توہمات کو دیکھ ہی معلوم کر سکتے ہیں۔
 
مہوش اور وہاب سب سے پہلے تو میں آپ لوگوں کی اس پوسٹ پر دلچسپی کا اور گفتگو کو آگے بڑھانے کا بے حد شکرگزار ہوں۔ اب بات ہو رہی ہے امویوں اور عباسیوں کی چپقلش پر جو کہ تقریبا ہزار سال تک جاری رہی اور جس کا خاتمہ عثمانیوں کی خلافت پر ہوا کہ خلافت کی باگ دوڑ ترکوں کے ہاتھ میں آگئی اور عربوں کی حاکمانہ حیثیت ختم ہو گئی جس کے ختم کرنے میں عباسیوں کا بڑا کردار ہے۔ عام طور پر جب بھی تاریخ اسلام پر بات ہوتی ہے ہمیشہ بات امویوں سے شروع ہو کر عباسیوں پر آکر ختم ہو جاتی ہے اور شاذ و نادر ہی عثمانیوں تک پہنچتی ہے۔ عثمانیوں نے تقریباّ پانچ صدیاں خلافت کی باگ دوڑ سنبھالے رکھی اور متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے اور اسلام کو عرب و عجم کی ہزار سالہ چپقلش سے بھی کافی حد تک دور کردیا۔ عثمانیوں کا دور حکومت زیادہ تر مسلمانوں کے زوال پر مبنی ہے مگر اس میں قصور صرف عثمانیوں کا نہیں بلکہ دوسری اقوام میں بیداری اور علم میں آگے بڑھ جانا بھی ہے۔ یورپ کی بڑھتی ہوئی ترقی ، خلافت کی گرفت پوری امت مسلمہ پر کمزور پڑنا ، مسلمانوں میں نئے علوم نہ سیکھنے کی روش نے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ بجائے اس کے ہم صرف امویوں اور عباسیوں تک ہی محدود رہیں ہم بحث کے موضوعات میں دوسری خاندانوں کی حکومت کا ذکر لانے کی بھی ضرورت ہے۔ جس میں خاص طور پر میں اندلس (سپین) میں اموی حکومت کا ذکر کرنا چاہوں گا جو عباسی دور میں بھی قائم رہی اور ایک روشن مثال کی طرح قائم رہی۔
موضوعات کو ہم اس طرح بھی تقسیم کر سکتے ہیں
اموی دور
عباسی دور
عثمانی دور

ان ادوار میں مزید اس طرح تقسیم ہو سکتی ہے

1۔ خلفا کے کردار ، سیاست ، فتوحات ، اصلاحات ، کامیابیاں ، ناکامیاں
2۔ خلفا کے اہم مشاہیر بحث جن کا بے حد اثر رسوخ تھا مثلاّ برمکی خاندان
3۔تابعین اور تبع تابعین کا دور
3۔ ائمہ اربعہ کا دور اور ان کے معاصرین
3۔ عقائد کے اعتبار سے مختلف فرقوں کا ظہور (جنگِ صفین سے خوارج کا پیدا ہونا)
4۔ اہم فرقوں کے عقائد اور ان کا اثر (معتزلہ کا ظہور اور مامون کی خلافت میں اثر رسوخ)
5۔ اہم واقعات اور فرقوں کی کشمکش (خلقِ ‌قرآن کا مسئلہ اور اس کے نتیجہ میں تشدد)
6۔ مسلم سائنسدانوں اور فلسفیوں کی تاریخ
7۔ اشعرہ ، معتزلہ ، ماتریدہ اور ظاہری فرقوں کی کشمکش
8۔ اہم کتبِ احادیث اور تفسیر کی تدوین
9۔ اہم جنگیں اور ان کے نتائج(جنگ قادسیہ ، فتح قسطنطنیہ ، جنگ طرابلس)
10۔ مجتہدین، مجدد اور ان کے خدمات

کافی طویل فہرست ہے جو مرتب ہو تی جائے گی۔ اب اس جانب سفر شروع ہو گیا ہے تو جیسے جیسے موضوعات پر مواد بڑھتا جائے گا علیحدہ علیحدہ زمرے بنتے چلے جائیں گے۔
 

فرید احمد

محفلین
تاریخی حقائق سے کھلواڑ

کل میری سسٹم نے کام نہ کیا ، بات بہت آگے بڑھ گئی، ابھی تو ہم حضرت عثمان رضی اللہ اور ان کی اقربا پروری ؟ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اور ان کی ملوکیت کے بارے میں بات کر رہے تھے، کہ بات سبائیوں کے وجود کے انکار تک پہنچ گئی ۔ شیعوں کے دشمنوں نے یہ بات گھڑ لی، تو سوال یہ ہے کہ شیعہ کا وجود کب سے ہے ؟ سبا کے بعد سے یا اس کے پہلے سے ؟
مہوش صاحبہ نے طہ حسین کی بات پیش کی ہے ؟ طہ حیسن کی تاریخی حیثیت کیا ہے ؟ ان مؤرخین کے مقابلہ میں اور راویوں کے مقابل جو سبائیوں سے اور زیادہ قریب تھے ، طہ حیسن کی بات یا اس کے اور آپ کے ہمنواؤں کی بات کیا درجہ رکھتی ہے ؟
سچ ہے تعصب اندھا ہوتا ہے ۔
خیر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ کے بارے میں اب تک اس بحث میں زکر شدہ واقعات : جمع قرآن، اقربا پروری کا الزام اور امیر معاویہ کا خلافت کو ملوکیت میں بدلنا “ ان واقعات سے حوالے سے منطقی گفتگو الگ پوست میں پیش کرتا ہوں ۔
مقصد فقط یہ ہے کہ دو اور دو چار کی طرح واضح اس بات کو کس طرح ہمارے ذہن میں غلط انداز میں بٹھا کر ہمیں بدظن اور اپنے ماضی سے کاٹا جا رہا ہے ۔
 
Top