نظر انصاف
مہوش علی نے کہا:
farid rasheed kavi نے کہا:
تاریخ کا بے لاگ تبصرہ بڑی اچھی بات ہے، اس سے سبق ملتا ہے، اور مستقبل کی روشنی نصیب ہوتی ہے، لین جب یہ تبصرہ آزاد خیالی کے بھینٹ چڑھ جائے اور بنیاد کھودنے کا کام کرے تو “ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے “ کے مترادف ہوتا ہے، مولانا مودودی صاحب کا موضوع تاریخ ہر گز نہ تھا، تبلیغ دین تھا ، تاریخ نویس واقعات لکھ کر بس کرتا ہے ، تبصرہ نہیں کرتا ، اور عقل مند اس سے درس حاصل کرتا ہے، کرداروں کی ذاتیات میں اتر کر اس میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ مولانا مودودی صاحب کے تبصرہ جات سے لوگوں کا اعتماد صحابہ سے متزلزل ہوتا ہے اور اگر اس واسطہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو ، جو بعد کے زمانہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان واحد کڑی اور لنک ہے تو پورے دین کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی کے اسٹول پر جاکر کسی صحابی کی سیرت پر لکھی کتاب مانگی جاتی ہے تو تیوری چڑھ جاتی ہے ۔
میرا مقصود کسی کی دلازاری نہیں فقط ایک مثال پیش کرنا ہے، کہ کونسی چیز کیا نقصان کرتی ہے ۔اگر کسی کی دل آزاری ہو تو پیشگی معافی چاہتا ہوں ۔ آج کل بازار بہت گرم ہے ۔ کہیں ڈنمارک کی بجائے میں نشانہ پر نہ آجاؤں۔
میں نے یہ کتاب کچھ عرصہ قبل ہی ملت ڈاٹ کام پر پڑھی ہے۔
میری ناقض رائے میں، مولانا مودودی کا مقصد تاریخ ہی ہے اور وہ اُن عوامل کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے کہ خلافت کس طرح سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی۔
اس سے قبل، میں اس کتاب کا جواب بھی پڑھ چکی ہوں جو کہ تقی عثمانی صاحب نے دیا تھا۔
دونوں بہت اچھی کتب ہیں اور تاریخ کا اُن سے بہت اندازہ ہوتا ہے۔
میرے خیال میں، ہر کسی کو اُس وقت کے دور پر اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق ہے۔ لہذا، اُس وقت کے حالات کی کوئ
ی واحد آفیشل تاریخ نہیں ہو سکتی، بلکہ ہمیں اس اختلاف کو برداشت کرنا ہو گا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ تاریخ کا کوئی واحد آفیشل ورژن موجود نہیں ہے، بلکہ ہر کسی نے اپنے اپنے علم، وژن (اور کچھ صورتوں میں تعصب) کی بنیاد پر تاریخ لکھی ہے۔
بہت اہم بات ہے کہ تاریخ کے طالب علم کے طور پر کھلے دل کے ساتھ Compartive Study کی جائے اور پھر حق کو سمجھا جائے۔ یہ مشکل راستہ تو ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس سے بہت اچھا ہے کہ کسی کی آنکھیں بند کر کے اندھی تقلید کی جائے۔
مولانا مودودی کا بھی یہی نظریہ تھا، اور اس بنیاد پر مرحوم نے اس کتاب کو لکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُن سے کسی جگہ پر کوئی غلطی ہوئی ہو، مگر میں اُن کے نیک جذبہ اور نیت پر کوئی شک نہیں کر سکتی۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
درحقیقت، مجھے اس موضوع پر بہت دلچسپی رہی ہے اور بہت عرصہ سے ہے اور اسی وجہ سے اس موضوع پر بہت سی اردو اور انگلش کتب کا مطالعہ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اگر آپ لوگوں میں سے کوئی واقعی نیک نیتی کے ساتھ تاریخ کے اس دور کو سمجھنا چاہتا ہے تو ذیل کو کتب کا Comparitive مطالعہ کریں۔ اس کے بعد یقیناً آپ اس قابل ہوں گے کہ حالات کو اس کی بالکل صحیح سیاق و سباق میں سمجھ سکیں۔
پہلی کتاب:
براۃ عثمان
http://www.kr-hcy.com/zip/Barat-e-Usman-(r.a).zip
فائر فاکس میں کچھ بیماری کی وجہ سے یہ لنک پورا نہیں آ رہا ہے اور آخر کا کچھ حصہ کٹ جاتا ہے۔ آپ اسے خود سے ایڈریس باکس پر لکھیں تو یہ لنک بالکل صحیح کام کرے گا۔
سائز 5 میگا بائیٹ
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں حضرت عثمان پر ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے (خصوصی طور پر ان اعتراضات کا جو کہ مودودی صاحب نے حضرت عثمان پر کیے تھے)
اس کتاب کے لکھنے والے مولانا کا تعلق سپاہ صحابہ سے ہے۔
یہاں پر بہت سے احباب ایسے ہیں جو سپاہ صحابہ کو پسند نہیں فرماتے اور انہیں اعتراض ہے کہ سپاہ صحابہ تنظیم کا نام یہاں لیا جائے۔
مجبوری یہ ہے کہ فریقِ مخالف کے بیانات کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، ورنہ انسان کبھی بھی انصاف نہیں کر پاتا۔
لہذا، انصاف کے نام پر آپ حضرات کی خدمت میں یہ کتاب پیش کر رہی ہوں۔
دوسری کتاب:
خلافت و ملوکیت پر اعتراض کا تجزیہ از مولانا مودودی
فی الحال یہ لنک کام نہیں کر رہا، مگر جلد ہی یہ کتاب پھر سے آنلائن پڑھی جا سکے گی۔
تیسری کتاب:
تاریخِ طبری سے سن 35 کے مکمل اور تفصیلی حالات
پی ڈی ایف فائل
سائز 0٫5 MB
سن 35 میں جناب عثمان کے خلاف شورشوں کا آغاز ہوا اور آپ کی شہادت پر اس کا انجام ہوا۔ اور تاریخ طبری میں یہ واقعات بہت ہی تفصیل اور ترتیب کے ساتھ موجود ہیں۔ اور انہیں پڑھنے کے بعد بہت سی چیزیں واضح ہوں گی۔
میرے نزدیک امام طبری نے بہت ہی صحیح طریقے سے ان واقعات کو بیان فرمایا ہے اور ان کی مدد سے صورتحال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس آرٹیکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کو لکھنے والے ایک اہل تشیع حضرت ہیں جنہوں نے تاریخ طبری کے ساتھ ساتھ اپنی طرف سے حاشیوں کا اضافہ بھی کر لیا ہے۔ چنانچہ منفی پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ کشمکش آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ فریقِ مخالف کے دلائل سننے کا موقع بھی ملتا ہے۔
بذاتِ خود، چونکہ یہ آرٹیکل 90 فیصد تاریخ طبری پر مشتمل ہے، اس لیے اس کی اہمیت میرے لیے بہت اہم ہے اور حالات بہت صاف ہو کر میرے سامنے کھڑے ہو گئے۔
آخر میں ایک نصیحت۔ فرقہ پرستی ایک لعنت ہے، جس نے اس امت کو تاریکیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمارے مطالعہ کا مقصد صرف اور صرف اس فرقہ پرستی سے نجات حاصل کرنا، اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
اس مقصد کو کبھی بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے گا، ورنہ ہر مثبت چیز کا اثر بھی منفی ہو گا، اور علم فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچائے گا۔