تاریخ بروالہ سیدان صفحہ 263 تا 269

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 263
سید بندہ علی
(شجرہ صفحہ 252 پر ہے)
سید بندہ علی سادات بروالہ کے ان بزرگوں میں سے ہیں۔جو نہ صرف صاحب علم وفضل تھے بلکہ صاحب تصانیف بھی تھے۔مگر ان کی زندگی کے حالات کا علم ان کے اخلاف سے نہیں ہوسکا ہے۔بلکہ ان کے اخلاف کو تو شائد یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے کوئی بزرگ ایسے علمی مرتبہ کے حامل تھے کہ ان کی تصانیف بھی موجود ہیں۔راقم کو بھی اچانک ہی ان کے کارناموں کا پتہ چل گیا۔بروالہ سے متعلق زیر نظر کتاب کی ترتیب کے سلسلہ میں سالہا سال لائبرریوں کے چکر لگانے پڑے ہیں اسی دوران ایک دن پنجاب پبلک لائبریری میں ایک قدیم کتاب انتظام ڈاک کے موضوع پر سامنے آئی۔اس کے مصنف کے نام کے ساتھ نقوی برالوی کی نسبتیں پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔کتاب کو ذرا تفصیل سے دیکھا تو پتہ چلا کہ مصنف کی تین کتابیں مزید چھپ چکی تھی۔ان کے اشتہار اس کتاب کے آخر میں موجود تھے۔ان میں سے لائبریری میں صرف ایک کتاب اور موجود تھی۔ باقی دو کتابیں دیکھنے کے لئے دستیاب نہیں ہوسکیں۔
سید بندہ علی کی تاریخ پیدائش تعلیم وغیرہ کے بارے میں معلومات مہیّا نہیں ہوتی ہیں۔البتہ ان کی جو کتابیں لائبریری میں موجود ہیں ان کے آغاز میں سبب تالیف کے ضمن میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی چند فقرے لکھے ہیں۔ان سے ان کے تھوڑے بہت حالات معلوم ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک کتاب میں انہوں نے لکھا ہے "مجرم بجرائم خفی و حبلی بندہ علی خلف جناب فیڈ مآب سید اشرف عزت علی مرحوم برالوی ثم پانی پتی حال آباد پٹیالہ سابق ملازم محکمہ حفظان صحت ارباب فضل و کمالات کی خدمات بابرکت میں اس کتاب کا سبب تالیف یوں گزارش کرتا ہے کہ جب 1932 بکرمی مطابق 1875 میں نارنول علاقہ سرکار پٹیالہ دام اقبالہ میں شفاخانہ کھلا اور وہاں رہنے کے باعث عمائد شہر سے میرا میل جول پیدا ہوا"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سید بندہ علی بروالہ سے نکل کر پہلے پانی پت گئے تھے۔وہاں کافی دنوں مقیم رہے کہ اس کا ذکر اپنے حالات میں کرتے ہیں۔اس کے بعد انہیں ریاست پٹیالہ کے محکمہ حفظان صحت میں ملازمت مل گئ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ علم طب بھی حاصل کیا تھا۔اور 1875 میں نارنول کے شفاخانہ میں متعین تھے آگے چل کر وہ کتاب کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں"مگر کچھ عرصہ بعد کانوڈ اور ایک ماہ بعد پٹیالہ شہر کی تبدیلی ہوگئ اور یہاں آکر کاروبار کا یہ زور ہوا کہ برسوں وقت پر کھانا اور نیند بھر کر سونو کبھی شاذ ہی میسر ہوگا"۔اسی سلسلہ بیان کو جاری رکھتے ہوئے آگے جاکر لکھتے ہیں یہاں تک کہ ترک روزگار کیا۔گویا اس کتاب کی تکمیل محکمہ حفظان صحت کی ملازمت ختم ہوجانے کے بعد ہوئی اور اس کا تکمیل کے وقت وہ پٹیالہ شہر میں آباد تھے۔اس کتاب کے آخر میں قطعئہ تاریخ سے اس کی طباعت کا سال 1887 برآمد ہوتا ہے۔اس کتاب کا نام "علاج المیات والحادثات" ہے۔
دوسری کتاب "تاریخ انتظام ڈاک خانہ زمانہ سابق وحال" کے نام سے 1893 میں چھپی ہے۔اور مصنف کا نام اس طرح لکھا ہے"مورخ سید بندہ علی مختار عام عدالت ریاست پٹیالہ" کتاب کے آغاز میں انہوں نے اپنا نام اس طرح لکھا ہے "خاکسار بندہ علی خلف جناب سید عزت علی صاحب مرحوم نقوی بروالوی مقیم کاکڑہ علاقہ پٹیالہ"اس کا مطلب ہے ان دنوں پٹیالہ شہر کے بجائے دوسرے مقام "کاکڑہ
میں رہائش پزیر ہوگئے تھے اور شائد وکالت کرتے تھے۔"مختار عام" کا لفظ اس زمانہ میں غالباً وکیل کے لئے ہی استعمال ہوتا تھا۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے اپنا نام
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 264
جس طرح لکھا ہے اس سے ایک اور بات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے "خادم الاطباوالمورخین سید بندہ علی نقوی بروالی سابق ملازم محکمہ ڈکٹری وسرشتہ تعلیم حال ممتاز عدالتہاری ریاست پٹیالہ مقیم کاکڑہ" گویا محکمہ حفظان صحت کی ملازمت کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ محکمہ تعلیم میں بھی اسی ریاست میں بھی ملازمت کی۔اس کے ساتھ ہی وکالت کا امتحان پاس کرلیا ہوگا اور ملازمت ترک کرکےاسی شغل کو اختیار کرلیا ہوگا۔شائد اس کے بعد ہی کسی مصلحت سے پٹیالہ کی رہائش ترک کرکے کاکڑہ منتقل ہوگئے تھے۔ان دنوں ان کی توجہ جس کام کی جانب تھی اس کا اظہار اس فقرہ سے ہوتا ہے "چونکہ میں عرصہ چند سال تاریخ ہند لکھنے کے لئے بہت سی کتب تاریخ دیکھ رہاہوں" گویا انہوں نے ریاست پٹیالہ میں اپنی زندگی کی ابتدا محکمہ صحت کی ملازمت سے کی اور آخر میں پوری توجہ تاریخ کی جانب ہوگئ اسلئے خود کو خادم المورخین لکھتے ہیں۔
ان کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صحیح علمی ذوق کے حامل وسیع المطالعہ شخص تھے۔اردو،فارسی اور انگریزی زبانوں پر انہیں عبور حاصل تھا۔اپن موضوع سے متعلق ہر ضروری اور اہم ذریعہ سے معلومات حاصل کرتے تھے اور اس کے بعد اس پر قلم اٹھاتے تھے۔چنانچہ اس کی کتابیں اپنے موضوعات پر بھپور مواد سے پر ہیں۔انہیں مضامین کی ترتیب کا خوب سلیقہ یے۔اس لئے ان کی تحریر مربوط اور مرتب ہے۔تاریخ کی کتاب میں انہوں نے جابجا اپنے ذرائع کے حوالے دینے کے ساتھ ساتھ نقشوں،خاکوں اور گوشواروں کے ذریعہ اپنی بات کی وضاحت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح طور پر ایک صاحب ہستی تھے۔
ان کی جو دو کتابیں لائبریری میں موجود ہیں ان کا مختصر تعارف یہاں کرادینا غآلباً بیجا نہیں ہوگا۔
پہلی کتاب "علاج السمیات والحادثات" ہے۔اس کا آغاز حمد سے ہوتا ہے۔اس کے بعد نعتیہ عبارت ہے۔پھر مہاراجہ پٹیالہ،ان کے وزیراعظم سید محمد حسن خان بہادر اور ریاست کے محکمہ صحت کے افسران کی تعریف بیان کی ئ ہے۔اتفاق کی بات ہے کہ یہ تمام افسر مسلمان ڈاکٹر ہیں۔اس کے بعد کتاب کے سبب تالیف بیان ہواہے۔اس کتاب میں جملہ قدیم و جدید زہروں اور ناگہانی حادثات کا علاج سلیس اردو زبان میں لکھا ہے۔تین سو سے زائد زہروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ان کے دریافت کرنے والوں کے نام سن دریافت اور ان سے متعلق حکایات بھی درج ہیں۔ہر زہر کی ایسی مقدار خوراک بھی لکھی ہے جو نقصان نہیں پہنچاتی۔ہر زہر کے تریاقوں کے نسخے لکھے ہیں۔ہر قسم کے تھرمامیٹروں کے موجدوں کے نام اور ان کی باہمی مطابقت بیان کی گئ ہے۔ سانپوں کی اقسام۔ان کے دانتوں کی وسعت و زہر کے اثرات اور ان سے بچنے کے طریقے بیان کئے ہیں۔ہر قسم کے موزی جانوروں کے زہر کا علاج،آکسیجن،ایمونیا اور کلورین وغیرہ گیس بنانے کے طریقے،وئلہ سے ہیرا بنانے کا ذکر،مچھر کے ذریعہ ملیریا کے پھیلنے کا بیان،اونٹ کی مینگنی سے آگ بنانے کا طریقہ۔قریباً تمام شرابوں کے اقسام اور ان کی مقدار خوراک،دس قسم کے حادثات کا علاج،اٹھارہ طرح سے جسم کے جلنے کا علاج،مصنوعی تنفس کا طریقہ،خالی اور بھرے گلاس یعنی پھوکی اور سینگی لگانے کا طریقہ،ڈاکٹری،یونانی اور ہندی ہرسہ قسم کے اوزان کی تطبیق، تجویز خوراک کے بارے میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے قواعد،چمچوں کے پیمانوں کی مطابقت وغیرہ کا تفصیلی بیان ہے۔کارآمد اوزاروں اور مصنوعی تنفس وغیرہ کی وضاحت تصویروں کے ذریعے کی گئ ہے۔ ہر مرض کا علاج ڈاکٹری اور یونانی طریقوں سے بتایا گیا ہے اور دونوں طرح کے نسخے ایک دوسرے کے بالمقابل لکھے ہیں۔ کتاب کے آخر میں تیس صفحات پر مشتمل فہرست مندرجات ہے۔ ان دواؤں زہروں اور تمام اشیا کے نام اردو انگریزی دونوں زبانوں میں درج ہیں۔
دوسری کتاب "انتظام ڈاک۔زمانہ سابق وحال" کے نام سے ہے۔اس کا آغاز بھی حمدوصلوٰۃ سے ہوتا ہے اس کے بعد تالیف ہے۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 265
حاجی سید امجد علی
(شجرہ صفحہ 257 پر ہے)
حافظ حاجی سید امجد علی بروالہ سیدان کے ان بزرگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے دین کی لگن و خدمت کا ذوق عطاء فرمایا تھا۔ان کی تمام عمر اسی خدمت میں بسر ہوئی۔گوراپانہ میں صرف ان کا گھرانہ صاحب علم ہونے رکھتا ہے۔ ان کے صاحبزادے،پوتے،پوتیاں اعلٰی تعلیم سے آراستہ اور باعزت مناصب پر فائز ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادےسید سجاد حسین نقوی نے ان کے حالات جس طرح لکھ کر بھیجے انہیں قریب قریب انہی کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
حافظ حاجی سید امجد علی بروالہ میں سیدان میں سید علی نواز کے گھر میں 1887 میں پیدا ہوئے۔ابتدائی مذہبی تعلیم سادات بروالہ کے مشہور استاد حافظ سید نیاز محمد سے حاصل کی اور حفظ قرآن کے ابتدائی مراحل انہیں سے طے کئے۔ حصول علم کا اس قدر شوق تھا کہ کسی علمی مرکز پر جاکر اس شوق کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ مگر والدین اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔کئ دفعہ گھر سے چپ کر حصار،ہانسی وغیرہ چلے گئے مگر واپس بلالئے جاتے تھے۔آخر والدین نے ان کے شوق کے پیش نظر اجازت دیدی تو سہارنپور جاکر مظاہرالعلوم میں داخل ہوگئے اور دینی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد ضلع سہارنپور میں ہی درس و تدریس اور تبلیغ و دین کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ اس سلسلہ میں کئ دیہات میں رہے۔وہ بڑے مقرر،مبلغ اور خوش الحان قاری تھے۔
سید امجد علی،حصار شہر کے مشہور بزرگ حضور صاحب مظفر علی شاہ کے مرید تھے اور ان کے نہایت عقیدت مند تھے۔ تحریک خلافت کے زمانہ میں یو۔پی میں مقیم تھے۔ اس تحریک میں جوش وخروش سے حصّہ لیا اور اس بناء پر کچھ عرصہ جیل میں بھی رہے۔مجلس احرار سے بھی وابستہ رہے اور سید عطااللہ شاہ بخاری سے ان کے خاص مراسم تھے۔احرار کے جلسوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے اور تقاریر کیا کرتے تھے۔
1930 میں وہ یو۔پی سے پنجاب آگئے اور اوکاڑہ کو اپنا مرکز بنایا۔یہاں امامت ،تدریس اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس علاقہ میں ان کے شاگردوں کی تعداد ان گنت ہے۔1945 میں ملٹری فارم ہیڈکوارٹر اوکاڑہ میں بطور خطیب ملازمت اختیار کی اور آخر عمر تک یہی مقیم رہے۔یہاں انہوں نے دین کی بہت خدمت کی۔ملٹری فارم کے بیس دیہات کے ائمہ ان سے رہنمائی حاصٌ کرتے تھے۔یہاں فلاحی تنظیموں کی سرپرستی کرتے تھے اور اس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچا۔
بہت ملنسار،خوش اخلاق اور غیر متعصب ہستی تھے۔ روشن خیال تھے اسلئے اپنی اولاد کو انگریزی تعلیم دلائی۔ان کے دو صاحبزادے پنسلین فیکٹری داؤد خیل میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں۔ دو پوتے میجر خالد جاوید اور کیپٹین طارق محمود پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور تین پوتیاں ایم۔اے۔ایم۔ایس۔سی تک تعلیم یافتہ ہیں۔
سید امجد علی نے 1964 میں اوکاڑہ میں انتقال کیا اور ملٹری فارم ہیڈ کوارٹر کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 266
(شجرہ صفحہ 259پر ہے)
سادات بروالہ کے تمام گھرانوں کے افراد میں اس وقت جو سب سے بزرگ قابل احترام شخصیت موجود ہے وہ سید محمد شفیع نقوی صاحب ہیں۔ان کی بزرگی کا سبب صرف یہ نہیں کہ وہ عمر میں سب سے بڑے تھے۔بلکہ بزرگی کا اصل سبب ان کا علم،دانش،تجربہ،عبادت،تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس خوبی اور احتیاط سے بسر کی ہے کہ ان کی پوری زندگی سے واقف لوگوں کی نظر میں انہیں ایک بہت قابل احترام مرتبہ حاصل ہوگیا ہے۔
سید محمد شفیع نقوی گوراپانہ کے ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے۔اپنے زمانہ کے رواج میںاور مہیا سہولتوں کے مطابق تعلیم حاصل کی۔طبیعت کا میلا تعلیم و تعلیم کی جانب تھا۔ اس لئے تدریس کا شغل اختیار کیا۔ اس میدان میں اپنی محنت،ذہانت،لگن اور جذبہ کے بل پر ایسا نام پیدا کیا کہ سارے علاقہ کے اساتذہ کے لئے ایک مثال بن گئے۔ ان کے تدریسی طریقہ اور جذبہ کو ہر سطح پر سراہا جاتا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک وہ ضلع حصار کے مختلف سکولوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس طرح اس ضلع سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ان کے شاگردوں کی تعداد ان گنت ہے جن کا تعلق ہر مذہب و ملت سے ہے۔ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے بھی انہوں نے کئ سکولوں میں لمبے عرصہ تک ذمہ داری ،راکی بروالہ سیدان کا سکول بھی ان سکوں میں شامل تھا۔وہ جہاں بھی رہے استاد کی حیثیت سے انتہائی عزت و احترام کی دولت سمیٹی اور علم کے خزانے تقسیم کئے اور ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے اپنی انتظامی قابلیت کو بھی ہر چھوٹے بڑے سے تسلیم کرایا۔
وہ لقنبے قد،شگفتہ چہرے اور پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ تمام عمر ایک ہی لباس زیب تن کیا۔سفید شلوار،سفید قمیض،زری والے کلّے پر سفید پگڑی اور سیاہ گرگابی جوتے پہنے اپنے مسکراتے چہرے کےساتھ وہ جس طرف سے بھی گزرجاتے تھے۔لوگ ان کے احترام یں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ان کا احترام لوگوں کے دلوں میں موجود تھا۔ علم کے ساتھ ان کی گہری وابستگی نے انہیں یہ قابل رشک مقام عطا کردیا تھا۔
سادات بروالہ کے بزرگوں کی نسل کے افراد توان کے ہم مکتب اور ہم درس رہے تھے مگر اس کے بعد کی تین چار نسلوں میں سے جس شخص نے بھی چار حروف پڑھنے سیکھے ہیں،اس میں ان کی کوششوں کا حصّہ ضرور شامل رہا ہے ۔ اس طرح بروالہ سیدان کا پورا قصبہ ان کے شاگردوں سے بھرا ہوا تھا۔اور اس میں ہر قوم وملت کے لوگ شامل تھے۔ان کے شاگردوں میں سے اس علاقہ کے بہت سے لوگ بلند مراتب تک پہنچے ہیں۔ ہندوستان کے صوبہ ہریانہ کا موجودہ وزیراعلٰی دیوی لال بھی ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔سادات بروالہ کے لئے بھی ان کی بڑی خواہش رہی کہ یہاں کے نوجوان علم حاصل کرے تاکہ ان کے لئے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کےراستے کھل سکے۔مگر ان کوششوں کو کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔اس قصبہ کے سادات کو علم کی اصل اہمیت اور ضرورت کا پورا احساس اب تک بھی پیدا نہیں ہوسکا ہے۔
سید محمد شفیع نقوی کی ذات سادات بروالہ کے گھرانوں کے لئے صرف اسلئے اہمیت نہیں رکھتی تھی وہ ایک اچھے استاد تھے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ان کی رہناموئی اور مدد کرتے تھے۔ بلکہ اکثر گھرانوں میں ان کے علم،تجربہ اور بصیرت کی بنا پر ان کی اصابت رائے پر بڑا بھروسہ کیا جاتا تھا۔چنانچہ گھریلو اور خاندانی معمولات میں بھی ان سے مشورہ اور رہنمائی حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔اس طرح بہت سے گھرانوں کے لئے وہ اپنے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 267
گھر کے ایک صئب الرائے کی حیثیت رکھتے تھے۔اور یہ بات ان کے احترام دائرہ بہت زیادہ وسیع کئے ہوئے تھی۔
سید حسن علی کے خاندان کے گھرانوں کے ساتھ ان کے روابط خصوصی طور پر بہت گہرے تھے اور ان میں مدد العمر کوئی فرق نہیں آیا۔ اس خاندان کی بزرگ نسل کے تمام افراد ان کے ہم مکتب اور ہم درس رہے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ ان کے برادرانہ دوستی اور بے تکلفی کے تعلقات قائم تھے۔ بعد کی نسل کا ہر فرد ان کا شاگرد رہا تھا اور ان کا احترام کرتا تھا۔ مگر سید ممتاز حسن کے گھرانے کے ساتھ ان کے تعلقات کو قرب اور یگانگت کی جو خصوصیت ہمیشہ حاصل رہی وہ اور کسی کے ساتھ نہیں تھی۔ سید ممتاز حسن مرحوم کے ساتھ انہیں قلبی انس تھا اور اس کی بنیاد علم کے ساتھ دونوں گہری لگن اور دلی وابستگی تھی۔سید ممتاز حسن بہت وسیع المطالعہ ہستی تھے۔مطالعہ کے شوق نے انہیں ایک بہت وسیع اور قیمتی ذاتی لائبریری کا ملک بنادیا تھا۔ ملک کے چوٹی کے قریباً تمام ادبی اور مزہبی رسائل ان کے پاس آتے تھے۔ سید محمد شفیع نقوی کو بھی اللہ تعالٰی نے علم کی سچی لگن اور مطالعہ کا بے انتہا شوق عطا کیا تھا چنانچہ مذاق اور میلان کے اس اشتراک نے ان کے درمیان گہرا اور سچا قلبی تعلق پیدا کردیا تھا۔ایک طویل عرصہ تک معمول رہا کہ سید محمد شفیع نقوی شام کا وقت سید ممتاز حسن کی کوٹھی پر ان کے ساتھ گزارتے تھے اور اس معمول میں ناغہ کبھی ہوجاتا تو دونوں کو بہت گراں گزرتا تھا۔ اس کی وجہ شائد یہ بھی ہو کہ علمی موضوعات پر گفتگو کرنے کے لئے انہیں ایک دوسرے کے سوا اور کون میسر آتا ہوگا۔ سادات بروالہ کا تعلق تو علم کے ساتھ کبھی واجبی سا بھی نہیں رہا تھا۔
اس قلبی تعلق کو ایک نئ جہت اس وقت حاصل ہوئی جب سید ممتاز حسن کی شادی سیدہ کرم دولت سے ہوگئ۔ سیدہ کرم دولت وہ خاتون ہیں جنہوں نے سادات بروالہ لی لڑکیوں کے لئے علم کا وہ دروازہ کھولا جو ایک طویل مدت سے ان کے سامنے بڑی مضبوطی سے بند رکھا گیا تھا اپنے اس مقصد کے لئے انہیں سید محمد شفیع سے بہت مدد ملی کیونکہ ان کا تعلق تدریس کے شغل سے تھا۔ انہوں نے ایک بڑے مشفق بھائی کی طرح اس کام میں سیدہ کرم دولت کی ہرممکن مدد کی۔اس کا نتیجہ تھا کہ اس گھرانے میں سید محمد شفیع کو گھر کے ایک بزرگ فرد کی حیثیت حاصل ہوگئ۔ سیدہ کرم دولت انہیں "بھائی شفیع" کہتی تھی اور ان کے بچے انہیں ماموں کہتے تھے۔
سید محمد شفیع علم کی لگن اور مطالعہ کے شوق کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور فلاحی کاموں میں حصّہ لینے کی بڑی لگن رکھتے تھے۔ نوجوانی کے زمانہ میں یہ حال تھا کہ جہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی وہ فوراً اس کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔کہیں دور دراز کے مقام سے بھی انہیں اطلاع ملتی کہ کوئی کام کیا جارہا ہے تو اس کے لئے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرتے تھے۔انہی دنوں کوذکر ہے کہ خواجہ حصن نظامی نے تبلیغی کیمپ لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔طریقہ یہ تھا کہ مختلف شہروقں میں بزرگ اولیاء کے عرس منعقد ہوتے تھے اور وہاں دور دور سے لاکھوں لوگ جمع ہوتے تھے تو خواجہ حسن نظامی وہاں کیمپ قائم کرکے اپنی تصانیف اور دیگر دینی کتابوں کی تقسیم کراتے تھے اور تبلیغ کاکام انجام دیتے تھے۔ ان کیمپوں میں کام کرنے کےلئے انہیں رضاکاروں کی ضرورت ہوتی تھی جس کے لئے وہ اخبار میں اعلان کرتے تھے۔سی اعلان کو پڑھ کر سید محمد شفیع نے بھی اپنی خدمات پیش کردیں۔ اور دور دراز کے مقامات پر جاکر وہ ان تبلیغی کیمپوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔بعد میں بھی بہت عرصہ تک ان کا یہ معمول رہا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے لئے جب اسکول بند ہوجاتے تھے اور انہیں وقت ملا تھا تو وہ اس قسم کی رضاکارنہاور فلاح و بہبود کی خدمات انجام دینے کا کوئی ذریعہ نکال لیا کرتے تھے۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 268
ہجرت کے بعد پاکستان میں آکر انہوں نے بوتے والا میں رہائش اختیار کرلی اور درس وتدریس کے بجائے تجارت کو اپنا شغل بنالیا۔بورے والا کی آغلہ منڈی میں ایک دکان حاصل کرکے زرعی اجناس کی تجارت کا آغاز کیا۔ محنت،دیانت،راست گوئی،امانت داری اور وعدہ کی پابندی کے باعث اس میدان میں بھی انہوں نے بہ جلد اپنی ساکھ پیدا کرلی اور پچیس تیس سال تک انتہائی کامیابی کے ساتھ اس شغل میں مصروف رہے لیکن قوٰی میں اضمحلال محسوس ہونے لگا اور دنیٰوی فرائض سے اللہ تعالٰی نے بہت حسن و خوبی کے ساتھ فارغ کردیا تو اس شغل کو ترک کردیا۔اللہ تعالٰی نے فضل و کرم فرمایا اور اپنی اہلیہ سمیت حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے گئے۔ وہاں سے واپس آکر دنیاوی مصروفیات سے کنارہ کش ہوگئے اور زیادہ وقت عبادت میں صرف کرنے لگے۔اللہ اللہ کرنے کے علاوہ نئ نسل کی دینی اور روحانی رہنمائی اور سرپرستی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔اور بروالہ کے کے اکثر لوگ ان سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔
اس پیرانہ سالی میں بھی ان کی صحت عمر کے لحاظ سے قابل رشک ہے۔ذہنی طور پر بالکل تاوانا ہیں اور سادات بروالہ کے مسائل پر اکثر غور و فکر فرماتے ہیں۔اب تک بھی ان کی بڑی خواہش یہی ہے کہ سادات بروالہ کے افراد کو علم کے ساتھ وابستگی پیدا ہوجائے تاکہ ان کی پسماندگی دور ہونے کی صورت پیدا ہوسکے۔ان کی خواہش ہے کہ سادات بروالہ کے جو افراد کم از کم بی۔اے تک تعلیم یافتہ ہیں۔ان سب کو اکٹھا کرکے ایک انجمن تشکیل دی جائے اور پھر یہ انجمن سادات بروالہ کی بہبود کے منصوبے بنائے اور بزرگوں کو مجبور کرکے ان منصوبوں پر عمل کرائے۔
بروالہ کی تاریخ اور سادات بروالہ کے نسب نامہ پر مشتمل زیر نظر کتاب کی ترتیب اور تکمیل میں سید محمد شفیع کا بڑا حصّہ ہے۔ان کی جانب سے ترغیب تشویق اور تقاضوں کا سلسلہ اگر برابر جاری نہ رہتا تو شائد یہ کتاب مکمل نہ ہوپاتی۔اس کتاب کو شائع شدہ صورت میں دیکھنے کی تمنا کو انہوں نے اپنی زندگی کی بڑی اہم خواہش کی صورت دیدی تھے اور انہوں نے اس کتاب کے لئے ہر وہ کوشش کی جو ان کے مقصد میں تھی۔اللہ تعالٰی ان کا سایہ نادر ہمارے سر پر سلامت رکھے۔ان کی دعائیں ہمارے لئے بڑا قیمتی سرمائہ ہیں۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 269
اسماعیل پانہ​

نسب نامے:۔

1: داود ٹھلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 271

2: بخشا ٹھلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 279

3: مکھو ٹھلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 282
 
Top