صفحہ 263
سید بندہ علی
(شجرہ صفحہ 252 پر ہے)
سید بندہ علی سادات بروالہ کے ان بزرگوں میں سے ہیں۔جو نہ صرف صاحب علم وفضل تھے بلکہ صاحب تصانیف بھی تھے۔مگر ان کی زندگی کے حالات کا علم ان کے اخلاف سے نہیں ہوسکا ہے۔بلکہ ان کے اخلاف کو تو شائد یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے کوئی بزرگ ایسے علمی مرتبہ کے حامل تھے کہ ان کی تصانیف بھی موجود ہیں۔راقم کو بھی اچانک ہی ان کے کارناموں کا پتہ چل گیا۔بروالہ سے متعلق زیر نظر کتاب کی ترتیب کے سلسلہ میں سالہا سال لائبرریوں کے چکر لگانے پڑے ہیں اسی دوران ایک دن پنجاب پبلک لائبریری میں ایک قدیم کتاب انتظام ڈاک کے موضوع پر سامنے آئی۔اس کے مصنف کے نام کے ساتھ نقوی برالوی کی نسبتیں پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔کتاب کو ذرا تفصیل سے دیکھا تو پتہ چلا کہ مصنف کی تین کتابیں مزید چھپ چکی تھی۔ان کے اشتہار اس کتاب کے آخر میں موجود تھے۔ان میں سے لائبریری میں صرف ایک کتاب اور موجود تھی۔ باقی دو کتابیں دیکھنے کے لئے دستیاب نہیں ہوسکیں۔
سید بندہ علی کی تاریخ پیدائش تعلیم وغیرہ کے بارے میں معلومات مہیّا نہیں ہوتی ہیں۔البتہ ان کی جو کتابیں لائبریری میں موجود ہیں ان کے آغاز میں سبب تالیف کے ضمن میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی چند فقرے لکھے ہیں۔ان سے ان کے تھوڑے بہت حالات معلوم ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک کتاب میں انہوں نے لکھا ہے "مجرم بجرائم خفی و حبلی بندہ علی خلف جناب فیڈ مآب سید اشرف عزت علی مرحوم برالوی ثم پانی پتی حال آباد پٹیالہ سابق ملازم محکمہ حفظان صحت ارباب فضل و کمالات کی خدمات بابرکت میں اس کتاب کا سبب تالیف یوں گزارش کرتا ہے کہ جب 1932 بکرمی مطابق 1875 میں نارنول علاقہ سرکار پٹیالہ دام اقبالہ میں شفاخانہ کھلا اور وہاں رہنے کے باعث عمائد شہر سے میرا میل جول پیدا ہوا"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سید بندہ علی بروالہ سے نکل کر پہلے پانی پت گئے تھے۔وہاں کافی دنوں مقیم رہے کہ اس کا ذکر اپنے حالات میں کرتے ہیں۔اس کے بعد انہیں ریاست پٹیالہ کے محکمہ حفظان صحت میں ملازمت مل گئ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ علم طب بھی حاصل کیا تھا۔اور 1875 میں نارنول کے شفاخانہ میں متعین تھے آگے چل کر وہ کتاب کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں"مگر کچھ عرصہ بعد کانوڈ اور ایک ماہ بعد پٹیالہ شہر کی تبدیلی ہوگئ اور یہاں آکر کاروبار کا یہ زور ہوا کہ برسوں وقت پر کھانا اور نیند بھر کر سونو کبھی شاذ ہی میسر ہوگا"۔اسی سلسلہ بیان کو جاری رکھتے ہوئے آگے جاکر لکھتے ہیں یہاں تک کہ ترک روزگار کیا۔گویا اس کتاب کی تکمیل محکمہ حفظان صحت کی ملازمت ختم ہوجانے کے بعد ہوئی اور اس کا تکمیل کے وقت وہ پٹیالہ شہر میں آباد تھے۔اس کتاب کے آخر میں قطعئہ تاریخ سے اس کی طباعت کا سال 1887 برآمد ہوتا ہے۔اس کتاب کا نام "علاج المیات والحادثات" ہے۔
دوسری کتاب "تاریخ انتظام ڈاک خانہ زمانہ سابق وحال" کے نام سے 1893 میں چھپی ہے۔اور مصنف کا نام اس طرح لکھا ہے"مورخ سید بندہ علی مختار عام عدالت ریاست پٹیالہ" کتاب کے آغاز میں انہوں نے اپنا نام اس طرح لکھا ہے "خاکسار بندہ علی خلف جناب سید عزت علی صاحب مرحوم نقوی بروالوی مقیم کاکڑہ علاقہ پٹیالہ"اس کا مطلب ہے ان دنوں پٹیالہ شہر کے بجائے دوسرے مقام "کاکڑہ
میں رہائش پزیر ہوگئے تھے اور شائد وکالت کرتے تھے۔"مختار عام" کا لفظ اس زمانہ میں غالباً وکیل کے لئے ہی استعمال ہوتا تھا۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے اپنا نام
سید بندہ علی
(شجرہ صفحہ 252 پر ہے)
سید بندہ علی سادات بروالہ کے ان بزرگوں میں سے ہیں۔جو نہ صرف صاحب علم وفضل تھے بلکہ صاحب تصانیف بھی تھے۔مگر ان کی زندگی کے حالات کا علم ان کے اخلاف سے نہیں ہوسکا ہے۔بلکہ ان کے اخلاف کو تو شائد یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے کوئی بزرگ ایسے علمی مرتبہ کے حامل تھے کہ ان کی تصانیف بھی موجود ہیں۔راقم کو بھی اچانک ہی ان کے کارناموں کا پتہ چل گیا۔بروالہ سے متعلق زیر نظر کتاب کی ترتیب کے سلسلہ میں سالہا سال لائبرریوں کے چکر لگانے پڑے ہیں اسی دوران ایک دن پنجاب پبلک لائبریری میں ایک قدیم کتاب انتظام ڈاک کے موضوع پر سامنے آئی۔اس کے مصنف کے نام کے ساتھ نقوی برالوی کی نسبتیں پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔کتاب کو ذرا تفصیل سے دیکھا تو پتہ چلا کہ مصنف کی تین کتابیں مزید چھپ چکی تھی۔ان کے اشتہار اس کتاب کے آخر میں موجود تھے۔ان میں سے لائبریری میں صرف ایک کتاب اور موجود تھی۔ باقی دو کتابیں دیکھنے کے لئے دستیاب نہیں ہوسکیں۔
سید بندہ علی کی تاریخ پیدائش تعلیم وغیرہ کے بارے میں معلومات مہیّا نہیں ہوتی ہیں۔البتہ ان کی جو کتابیں لائبریری میں موجود ہیں ان کے آغاز میں سبب تالیف کے ضمن میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی چند فقرے لکھے ہیں۔ان سے ان کے تھوڑے بہت حالات معلوم ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک کتاب میں انہوں نے لکھا ہے "مجرم بجرائم خفی و حبلی بندہ علی خلف جناب فیڈ مآب سید اشرف عزت علی مرحوم برالوی ثم پانی پتی حال آباد پٹیالہ سابق ملازم محکمہ حفظان صحت ارباب فضل و کمالات کی خدمات بابرکت میں اس کتاب کا سبب تالیف یوں گزارش کرتا ہے کہ جب 1932 بکرمی مطابق 1875 میں نارنول علاقہ سرکار پٹیالہ دام اقبالہ میں شفاخانہ کھلا اور وہاں رہنے کے باعث عمائد شہر سے میرا میل جول پیدا ہوا"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سید بندہ علی بروالہ سے نکل کر پہلے پانی پت گئے تھے۔وہاں کافی دنوں مقیم رہے کہ اس کا ذکر اپنے حالات میں کرتے ہیں۔اس کے بعد انہیں ریاست پٹیالہ کے محکمہ حفظان صحت میں ملازمت مل گئ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ علم طب بھی حاصل کیا تھا۔اور 1875 میں نارنول کے شفاخانہ میں متعین تھے آگے چل کر وہ کتاب کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں"مگر کچھ عرصہ بعد کانوڈ اور ایک ماہ بعد پٹیالہ شہر کی تبدیلی ہوگئ اور یہاں آکر کاروبار کا یہ زور ہوا کہ برسوں وقت پر کھانا اور نیند بھر کر سونو کبھی شاذ ہی میسر ہوگا"۔اسی سلسلہ بیان کو جاری رکھتے ہوئے آگے جاکر لکھتے ہیں یہاں تک کہ ترک روزگار کیا۔گویا اس کتاب کی تکمیل محکمہ حفظان صحت کی ملازمت ختم ہوجانے کے بعد ہوئی اور اس کا تکمیل کے وقت وہ پٹیالہ شہر میں آباد تھے۔اس کتاب کے آخر میں قطعئہ تاریخ سے اس کی طباعت کا سال 1887 برآمد ہوتا ہے۔اس کتاب کا نام "علاج المیات والحادثات" ہے۔
دوسری کتاب "تاریخ انتظام ڈاک خانہ زمانہ سابق وحال" کے نام سے 1893 میں چھپی ہے۔اور مصنف کا نام اس طرح لکھا ہے"مورخ سید بندہ علی مختار عام عدالت ریاست پٹیالہ" کتاب کے آغاز میں انہوں نے اپنا نام اس طرح لکھا ہے "خاکسار بندہ علی خلف جناب سید عزت علی صاحب مرحوم نقوی بروالوی مقیم کاکڑہ علاقہ پٹیالہ"اس کا مطلب ہے ان دنوں پٹیالہ شہر کے بجائے دوسرے مقام "کاکڑہ
میں رہائش پزیر ہوگئے تھے اور شائد وکالت کرتے تھے۔"مختار عام" کا لفظ اس زمانہ میں غالباً وکیل کے لئے ہی استعمال ہوتا تھا۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے اپنا نام