تاریخ بروالہ سیدان 129 تا 135

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 129

اہم مقامات​
بروالہ سیدان کے اہم مقامات اور تاریخی جگہوں کے ذکر میں سب سے پہلے مسجد کا ذکر کیا جائے گا۔اس کے بعد مزارات کا،پھر تاریخی اہمیت کے مقامات کا اور آخر میں رفاہ عامہ اور انتظامی اداروں کا۔
مساجد:۔
بروالہ سیدان کے پورے قصبے میں جگہ جگہ مساجد بنی ہوئی تھیں۔اکثر مساجد پر چھت اور گنبد موجود تھا۔امام مقرر تھا اور اخراجات اہل محلہ مل کر برساشت کرتے تھے۔مساجد کی تعمیر بھی محلہ کی آبادی نے مل کر کی تھی مساجد کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1: جامع مسجد: یہ مسجد شہر کے درمیان بنی ہوئی تھی۔اس کے شمال اور مغرب میں قصائیوں کے گھرانے آباد تھے۔مشرق اور جنوب میں سادات کے خاندان آباد تھے۔ مسجد کی کرسی ارد گرد کی آبادی سے اس قدر اونچی تھی کہ اس کے بیرونی دروازے تک پہنچنے کے لئے بارہ سیڑھیاں چڑھنی پڑھتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ مسجد کے مشرقی حصّہ کے نیچے ڈاٹ لگاکر سرنگ نما راستہ بنایا گیا تھا جو پندرہ گز لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔اور اونچا اتنا تھا کہ ایک گھوڑسوار آسانی کے ساتھ اس میں سے گزر سکتاتھا۔اس ڈاٹ کے اوپر ایک کمرہ بناہوا تھا جس میں امام صاحب کی نشست گاہ تھی۔ اور ڈاٹ کے نیچے کا راستہ قصبہ کی آبادی کی آمدورفت کے کام آتا تھا۔مسجد کافی وسیع تھی اور کئ سو سال پرانی تھی۔تمام قصبہ نے مل کر بنائی تھی اور اس کی دیکھ بھال میں بھی تمام قصبہ حصہ دار تھا۔

2:کالاپانہ کی بڑی مسجد: یہ مسجد کالاپانہ کے قریباً درمیان میں واقع تھی۔دو سو سال قبل تمام اہل محلہ نے مل کر شاملات دیہہ میں تعمیر کی تھی۔مسجد کے شمال میں قائم خانی راجپوت،مغرب میں قاضی اور جنوب اور مشرق میں سادات کے گھرانے آباد تھے۔

3: کالاپانہ کی چھوٹی مسجد: سید حسن علی مرحوم کے خاندان کے مختلف گھرانوں کے مکانات،حویلیاں،کوٹھیاں اور مویشی خانے وغیرہ ایک بہت بڑی وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ان تمام عمارات کے درمیان میں ایک کھلی جگہ پر سید حسن علی مرحوم نے چاردیواری بنواکر مسجد بنوادی تھی تاکہ نماز باجماعت کا اہتمام ہوسکے۔یہ مسجد صرف اس چار دیواری پر ہی مشتمل تھی۔کوئی چھت یا گنبد موجود نہیں تھا۔ لیکن باقاعدہ امام مقرر تھا اور نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔

4: اکرم ٹھلہ کی مسجد: یہ گوراپانہ کی پہلی مسجد تھی۔کافی پرانی تھی اور چاروں جانب سید آباد تھے۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 130

5: دینا ٹھلہ کی مسجد: یہ گوراپانہ کی دوسری مسجد تھی۔یہ بھی پرانی مساجد میں سے تھی اور اس کے ارد گرد بھی سیدوں کی آبادی تھی۔

6: اسماعیل پانہ کی مسجد: یہ کافی پرانی اور تاریخی مسجد تھی۔ارد گرد سید آباد تھے۔اسے پیپل والی مسجد بھی کہا جاتاتھا۔

7:مسجد سید جیون شاہ: یہ مسجد بھی اسماعیل پانہ میں تھی۔اس محلہ کی پہلی مسجد کی طرح کافی پرانی تھی اور اس کے ارد گرد بھی سادات کے گھرانے آباد تھے۔اسے جال والی مسجد بھی کہا جاتاتھا۔

8: منیاروں والی مسجد: یہ مسجد شاملات دیہہ میں بنائی گئ تھی۔کئ سو سال پرانی تھی۔چونکہ منیاروں نے بنائی تھی۔اس لئے انہی کے نام سے پکاری جاتی تھی۔اس کے جنوب میں منیار،مغرب میں لوہار اور شمال اور مشرق میں ہندو آباد تھے۔

9: ڈوگروں والی مسجد: محلہ کوٹلہ میں واقع تھی۔ڈوگروں نے مل کر بنائی تھی اور ارد گرد آبادی بھی ڈوگروں کی تھی۔اس لئے ان کے نام سے موسوم تھی۔لیکن اسے کوٹلہ والی مسجد یا مسجد اعظم بھی کہا جاتا ہے۔

10: صوفیوں والی مسجد: کئ سو سال پرانی تھی۔صوفیوں کے گھرانوں نے مل کر بنائی تھی۔ارد گرد آبادی بھی ان کی ہی تھی۔اس لئے ان کے نام سے پکاری جاتی تھی۔

11: مخدوم صاحب کی مسجد: قصبہ سے باہر شمال کی جانب قریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پر مخدوم صاحب کا مزار تھا اس مزار سے ملحق یہ مسجد تھی۔اس کی چاردیواری اور فرش خستہ حالت میں تھے۔چھت بھی محفوظ نہیں تھی اور چھت والے کمرے کے دروازے پر سنگ‌مرمر کی ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر کیقباد کے نام کا کتبہ موجود تھا۔گویا یہ مسجد مغرالدین کیقباد کے زمانہ (1287ء تا 1290ء) میں تعمیر کی گئ تھی۔ اس لحاظ سے یہ برصغیر کے قدیم تاریخی مقامات میں سے تھی اس لئے یہ مسجد اور حضرت مخدوم صاحب کا مزار محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں تھا۔اور محکمہ کا بورڈ وہاں لگا ہوا تھا۔

12: داداناصر شہید کی مسجد: داداناصر شہید کے مزار سے ملحق شمال میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی تھی۔اس کی چاردیواری تھی اور چھت بھی تھی۔مزار پر رہنے والا درویش ہی اس کی دیکھ بھال کا بھی ذمہ دار ہوتاتھا۔

13:تھانہ کی مسجد: قصبہ کے تھانہ پولیس کے احاطہ مین ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔اس کی بھی صرف چاردیواری تھی اور چھت نہیں تھی۔تھانہ کے مسلمان ملازمین یہاں نماز پڑھتے تھے۔

14:ریلوے سٹیشن کی مسجد: ریلوے سٹیشن کے قریب یہ خوبصورت مسجد 1940ء کے لگ بھگ تعمیر ہوئی تھی۔اس سے قبل یہاں صرف چار دیواری تھی۔جہاں ریلوے کے کوارٹروں میں رہنے والے مسلمان ملازمین نماز پڑھتے تھے۔ایک ریلوے ملازم بابو محمد اسماعیل بحیثیت اے۔ایس۔ایم جب بروالہ کے ریلوے سٹیشن پر تعینات ہوکر آئے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ان کی لگن اور محنت سے بہت جلد اس مسجد کی عمارت مکمل ہوگئ۔جو ان کے جذبہ ایمانی کی یادگار تھی۔مسجد میں ایک بڑا کمرہ،صحن،چاردیواری اور ایک حجرہ اور مینار شامل تھا۔اس مسجد کی تعمیر میں بروالہ سیدان کے مسلمان باشندوں نے عموماً اور سید حسن علی مرحوم کے خاندان بالخصوص بہت مدد کی۔حالانکہ قحط کا زمانہ تھا۔اینٹیں اور چونا قریباً تمام کا تمام سید حسین مرحوم ابن
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 131

سید محمد حسن مرحوم نے کیا تھا۔یہ مسجد ریلوے سٹیشن کے قریب ہونے کے باعث مسافرخانہ کاکام بھی دیتی تھی۔

15: ڈھانی والی مسجد: بروالہ سیدان کے قریب ہی قصبہ سے باہر واقع تھی۔1930ء کے بعد کی تعمیر تھی۔قصبہ کے سیدوں نے مل کر بنائی تھی۔چھوٹی سی مسجد تھی۔

16: عیدگاہ: قصبہ کے جنوب مغرب میں آبادی سے کچھ فاصلہ پر ایک وسیع چاردیواری پر مشتمل تھی۔کوئی چھت وغیرہ موجود نہیں تھی۔یہ صرف عیدین کی نماز پڑھنے کے کام آتی تھی۔ایک روایت کے مطابق اس کی تعمیر ایک چھینبے نے کرائی تھی جو لاولد تھا۔

مزارات:۔
بروالہ سیدان ایک بہت قدیم تاریخی قصبہ تھا۔اس دقدر پرانے قصبہ مین برگزیدہ ہستیوں کا قیام لازمی ہے چنانچہ اس قصبہ میں بھی زمانہ کے مختلف ادوار میں بزرگ ہستیاں موجود رہی ہیں۔ان کے مزارات قصبہ کے اطراف وجوانب میں موجود تھے۔ان مزارات کا الگ الگ ذکر درج ذیل ہے۔

1: داداناصرشہید رح: سید ناصر الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ سادات بروالہ کے ان اجداد میں سے ہیں جو سب سے پہلے اسلام کا پیغام لے کر اس علاقہ میں پہنچے۔ان کی وجہ سے ہی بروالہ سیدان میں سادات کے گھرانے آباد ہوئے۔اور اسی لئے بروالہ کے تمام سید انہیں دادا کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ان کا مزار قصبہ سے اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر جنوب کی سمت واقع ہے۔مزار کا احاطہ پختہ تھا۔احاطہ کے اندر ایک اونچے پختہ چبوترے پر دو قبروں کے تعویذ بنے ہوئے تھے۔دوسری قبر کے بارے میں روایتیں موجود تھیں کہ وہ ان کی بہن یا کسی اور خاتون عزیزہ کی قبر تھی۔مزار پر گنبد موجود نہیں تھا۔مزار سے ملحق ایک مسجد،ایک حجرہ اور ایک تالاب بھی تھا۔بروالہ میں موجود خنقاہوں میں سے صرف سید ناصر شہید رح کے درگاہ کے ساتھ وقف جائداد تھی جو چھ سو بیگھے تھی۔ اس کے علاوہ کسی درگاہ کے ساتھ کوئی وقف نہیں تھا۔سید ناصر شہید رح کی درگاہ کے نام وقف 41۔1840ء کے بندوبست کے وقت کا تھا۔1964ء میں جب راقم الحروف بروالہ سیدان گیا اور فاتحہ پڑھنے کے لئے حضرت کے مزار پر حاضر ہوا تو دیکھا کہ مسجد اور تکیہ منہدم ہوچکے یں۔مزار کے احاطہ کی دیوار شکستہ ہوگئ تھی۔مزار کا چبوترہ اور قبروں کے تعویذ بوسیدہ حالت میں تھے۔سنا ہے کہ بعد میں وہاں کے لوگوں نے اس مزار اور احاطہ کی مرمت کرادی ہے۔

2: حضرت مخدوم صاحب رح: ان بزرگ کا نام شیخ محمد اسحاق رح بیان کیا جاتا ہے۔لیکن یہ یقینی نہیں ہے کیونکہ یہ کافی پرانے زمانہ کے بزرگ تھے۔ان کا مزار قصبہ کے شمال کی جانب آبادی سے قریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پر تھا۔مزار کا احاطہ پختہ تھا۔اس کے اندر مزار بھی پختہ بناہواتھا۔مگر اس پر چھت موجود نہیں تھی۔مزار کے قریب ہی مجلس خانہ،لنگر خانہ اوردیگر مکانات تھے۔جو سب خستہ اور شکستہ حالت میں تھے۔ان مکانات کے ساتھ ہی کچھ مسجدوں کے نشانات بھی تھے۔جن کی دیواریں کیقباد کی مسجد سے ملحق تھی۔ان مسجدوں کی عمارات موجود نہیں تھیں۔صرف چونے اور اینٹوں کی دیواروں کے نشانات اور محرابوں کے آثار موجود تھے۔اور اس طرح کے نشانات تعداد میں چھ سات تھے جو ساتھ ساتھ تھے۔مسجد کیقباد کی
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 132
موجودگی اور وہاں کے آثار کی قدامت سے ظاہر ہوتا تھاکہ اہل مزار بزرگ بھی کیقباد کے زمانہ کی ہی کوئی برگزیدہ ہستی تھے۔ان کے مزار پر قصبہ کے لوگ کثرت سے حاضری دیتے تھے اور مزار کی دیکھ بھال کے لئے خادم مقرر تھا۔مزار کے قریب ایک بہت بڑا تالاب تھا۔جس کے ایک جانب پختہ سیڑھیاں اور کچھ کمرے بنے ہوئے تھے۔اسے "ٹوبنا" کہا جاتاتھا۔ساتھ ہی اردگرد بڑی تعداد میں درخت بھی تھے۔جن میں سے جئ بڑے تناور تھے۔اتنی تعداد میں اور اس قدر گھنے درخت اس قصبہ میں اور آس پاس کہین موجود نہیں تھے۔ان درختوں میں مور بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔جنہیں قصبہ کے باشندے دانہ اور چوگا ڈالتے تھے۔اور کسی کو اجازت نہیں تھی کہ انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے۔
اس مزار کے شمال کی جانب آدھ فرلانگ کے فاصلہ پرایک شوالہ بناہواتھاا۔اس کے متعلق ایک روایت مشہور تھی کہ ایک دفعہ ایک ہندو بنجارہ اپنے قافلے کے ساتھ تجارت کے بیل لئے سفر کرہاتھا۔قافلہ والے اور ان کے جانوروں پیاسے تھے۔مخدوم صاحب کے مزار کے قریب پہنچے تو وہاں ایک گڑھے میں تھوڑا سا پانی نظر آیا۔بنجارے نے پانی دیکھ کر قافلہروک دیا۔اس گڑھے کے پانی سے پہلے تو قافلہ میں شامل تمام لوگوں نے اپنی پیاس بجھائی اس کے بعد تمام مویشیوں کو پانی پلایا۔قافلہ کافی بڑا تھا اس میں شامل افراد اور مویشی کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔وہ سب کے سب اس تھوڑے سے پانی سے سیراب ہوگئے اور پانی جوں کا توں باقی رہا اس بات نے اس بنجارے کے دل پر اتنا گہرا اثر کیا کہ اس نے وہیں رہ جانے کا ارادہ کرلیا۔قافلہ میں اس کا ایک بھائی بھی تھا۔وہ بھی اسکے ساتھ رہ پڑا اور قافلہ آگے چلاگیا۔ان میں سے پہلے بھائی کو کچھ دنوں خواب میں مخدوم صاحب کی زیارت ہوئی۔ وہ مسلمان ہوگیا اور مخدوم صاحب کے مزار کا مجاور بن گیا۔جس گڑھے سے اس نے پانی پیا تھا۔وہاں اس نے تالاب بنایا۔جو بعد میں ٹوبنا کہلایا۔اس تالاب کے ایک جانب اس نے پختہ تعمیرات کرائیں۔دوسرا بھائی مسلمان نہیں ہوا تھا۔اس نے تھوڑے فاصلے پر ایک شوالہ کی بنیاد رکھی۔دونوں بھائی ساری عمر وہیں رہے۔مسلمان ہوجانے والے بھائی کی قبر مخدوم صاحب کے مزار کے چبوترے کے ساتھ بنی ہوئی تھی۔ہندو کی چتا شوالے کے ساتھ تھی۔اس کی مانتا میں ہندوؤں نے بعد میں شوالہ مکمل کرلیا اور یہاں اپنی عبادت گاہ بنائی۔
مخدوم صاحب کے مزار پر ایک اور درویش بھی کافی عرصہ قیام پزیر رہے۔یہ حضرت بلھے شاہ رح کی اولاد میں سے تھے۔مخدوم صاحب کے مزار پر طویل مدت قیام کے بعد 1930ء کے قریب واپس قصور چلے گئے اور وہاں حضرت بلھے شاہ کے احاطہ میں مدفون ہیں۔
1964ء میں راقم الحروف بروالہ سیدان گیا تو دیکھا کہ حضرت مخدوم صاحب کے مزار کے احاطہ اور قبر کے تعویذ کی وہاں کے لوگوں نے مرمت کرادی تھی۔مزارپر چادر بھی پڑی تھی۔رات کو چراغ بھی جلایا جاتا تھا۔البتہ ملحقہ عمارتیں بالکل کھنڈر بن چکی تھیں۔

3: حضرت شاہ ولایت رح: اس نام سے دو مزار موجود تھے۔ایک قصبہ کے شمال میں آبادی سے بالکل متصل تھا۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 133

دوسرا مندر والے گنبد کے قریب سیہانی کے ساتھ تھا۔دونبوں مزار مختصر سے احاطے میں طھوٹی چاردیواری کے اندر تھے اور ان میں سے کسی پر بھی چھت نہیں تھی۔البتہ قصبہ سے متصل مزار کے ساتھ بڑا احاطہ تھا اور حجرہ موجود تھا۔احاطہ میں کچھ درخت لگے ہوئے تھے اور حجرہ میں خادم کی رہائشی تھی۔ان بزرگ کے بارے میں یہ روایت تھی کہ جس شخص کو گلے کی کوئی تکلیف ہو یا آدھے سر کا درد ہو تو وہ ایک جھاڑو اور ایک مٹھی نمک کا نزرانہ مزار پر چڑھاآئے۔اس عمل کے باعث اس کی بیماری دور ہوجاتی تھی۔1964ء میں راقم الحروف نے دیکھا کہ آبادی کے پھیل جانے کے باعث یہ مزار اب آبادی کے بیچ میں آگیا ہے مگر اس کے احاطے اور قبر کے تعویذ کی نئے سرے سے اچھی تعمیر کرکے پختہ بنایا ہواتھا۔چادر چڑھائی ہوئی تھی۔رات کو روزانہ چراغ جلایا جاتاتھا اور ایک خادم نے اس کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لی ہوئی تھی۔مجھے بتایا گیا کہ اس شخص کو حضرت شاہ ولایت رح نے خواب میں اپنے مزار کی خدمت کرنے کا حکم دیا تھا۔اس کے بعد تو ان کے عقیدت مندوں میں اس قدر اضافہ ہوا کہ باقاعدہ ان کے عرس کا اہتمام کیا جانے لگا۔عرس کے موقع پر بڑی دور سے قوالوں کو بھی بلایا جاتاتھا۔کیونکہ اب بروالہ میں تو کوئی مسلمان موجود نہیں تھا۔

4:داداناصر شہید کے بھانجے: بروالہ سیدان کے مشرق میں چار میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا ساگاؤں ڈھاڈ کے نام سے آباد تھا۔وہاں ایک بزرگ کا مزار موجود تھا۔جس کا احاطہ پختہ تھا اور احاطہ کے اندر ایک چبوترہ پر قبر کا پختہ تعویذ بنا ہوا تھا۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ مزار سید ناصرالدین شہید کے بھانجے کا ہے جو تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں اس علاقہ میں ان کے ساتھ رہے تھے۔

5: شیخ فاضل دانا: یہ مزار قصبہ کے مغرب میں آبادی سے کچھ فاصلہ پر پرانے قبرستان کے بیچ میں تھا۔احاطہ کی چار دیواریں بنی ہوئی تھی اور چاردیواری کے ایک جانب چبوترے پر مزار کا تعویذ تھا۔چھت موجود نہیں تھی۔

6: نوگزا پیر: شیخ فاضل دانا کے مزار کے احاطہ کے اندر اس مزار سے چار گز کے فاصلہ پر ایک اور مزار بنا ہوا تھا۔قبر کا تعویذ پختہ تھا۔اور اس کی شکل ویسی ہی طویل تھی جو ایسے مزارات کی اکثر مقامات پر ہے۔مزار پر چھت موجود نہیں تھی۔

7: گاما شہید رح: سیہانی کے کنارے پر پختہ احاطے کے اندر مزار تھا۔مگر قبر کا تعویذ کچا تھا۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ سید ناصرالدین شہید رح کے ہمراہیوں میں سے تھے۔

8: تراب شہید رح: اس نام کے بھی دو مزار موجود تھے۔ایک مزار تو گاما شہید کے مزار سے متصل سیہانی کے کنارے پر تھا۔اس کا احاطہ پختہ تھا اور قبر کا تعویز بھی پختہ تھا۔چھت موجود نہیں تھی۔ ان کے بارے میں بھی روایت تھی کہ حضرت سید ناصرالدین شہید رح کے ساتھیوں میں سے تھے۔ان کے مزار کے قریب ایک کنوئیں بنی ہوئی تھی۔ایک روایت کے مطابق 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اہل بروالہ نے تلاشی کے خوف سے اپنا اسلحہ اس کنوئیں میں ڈال کر مٹی سے بند کردیا تھا۔ بعد میں یہ ہمیشہ کے لئے بے کاقر ہوگئ۔البتہ اس کی تعمیر باقی تھی۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 134

تراب شہید رح کے نام سے دوسرا مزار قصبہ کے شمال مغرب میں دولت پور جانے والی سڑک کے کنارے تھا۔قصبہ سے اس کا فاصلہ چھ فرلانگ تھا۔اس کے احاطے کی چاردیواری قد آدم تھی اور دروازہ جنوب میں تھا۔قبر کا تعویذ پختہ تھا اور چھت موجود نہیں تھی۔چاردیواری کے گرد قبرستان تھا۔
9: حضرت شیر علی شاہ: قصبہ کے شمال میں ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر چھوٹی سی پختہ چاردیواری کے اندر مزار تھا۔قبر کا تعویذ پختہ بناہوا تھا۔مگر چھت موجود نہیں تھی۔

10: حضرت شاہ مست پیر: قصبہ کے شمال مغرب میں دولت پور جانے والے راستہ پر مزار تھا۔

11: حضرت چتلا پیر: شاہ مست پیر کے اندر مزار سے متصل یہ مزار واقع تھا۔

12:سید جیون شاہ: اسماعیل پانہ کی جال والی مسجد کے احاطہ کے اندر کا پختہ تعویذ موجود تھا۔اس لئے یہ مسجد سید جیون شاہ کی مسجد بھی کہلاتی ہے۔مشہور تھا کہ ان کےمزار کی خدمت کے لئے ایک جن متعین ہے۔اس جن کا نام اللہ مہر مشہور تھا اور کہا جاتا تھا کہ وہ اکثر لوگوں سے ملتا ہے۔بچہ کی شکل میں نظر آتا تھا اور مسجد میں قرآن شریف پڑھنے والے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا کرتا تھا۔

تاریخی مقامات:۔
یوں تو بروالہ سیدان کا پورا قصبہ ہی تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور پرانے تاریخی آثار وہاں قدم قدم پر بکھرے ہوئے تھے مگر چند تاریخی مقامات کا یہاں خآص طور پر ذکر کرنا ضروری ہے۔

1: مسجد کیقباد: یہ مسجد حضرت مخدوم صاحب رح کے مزار سے ملحق تھی۔اب مسجد انتہائی خستہ اور شکستہ ہوچکی تھی۔تمام دیواریں گرگئ تھیں۔گنبد اور چھت بھی باقی نہیں رہی تھی صرف محراب والی دیوار سلامت تھی۔اس کے اوپر کے حصّہ میں پتھر پر کندہ ایک کتبہ لگا ہوا تھا۔جس پر کیقباد کا نام درج تھا۔ کیقباد خاندان غلاماں کا آخری بادشاہ تھا اس کا دور حکومت 1287ء تا 1290ء ہے۔اس کتبہ سے یہ ظاہر ہوتا تھاکہ یہ مسجد اس کے زمانہ میں تعمیر ہوئی تھی۔اس کتبہ کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ پیمائش میں گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔پیمائش کا معیار جمعرات کا دن تھا۔یعنی ایک جمعرات کی پیمائش دوسری جمعرات کی پیمائش سے مختلف ہوتی تھی۔ایک روایت یہ بھی تھی کہ بروالہ کے سادات نے کئ بار کوشش کی کہ اس مسجد کی چھت اور گنبد تعمیر کرکے اسے اصل حالت میں لایا جائے۔مگر جب بھی ایسی کوشش کی گئ وہ ناکام رہی۔تعمیر کے ساتھ ہی چھت گر جاتی تھی۔ اس لئے اس کوشش کو ترک کردیا گیا۔یہ مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں تھی۔اس کا اعلان ایک بورڈ کے ذریعہ کیا گیا۔جو محکمہ کی جانب سے اس مسجد کے قریب لگا ہوا تھا۔

2: کنڈ: قدیم زمانہ کا ایک کنڈ قصبہ کے شمال میں موجود تھا۔اس کی گہرائی تیس ہاتھ تھی اور سیڑھیوں کو چھوڑ کر بارہ ہاتھ چوڑا اور بارہ ہاتھ لمبا تھا۔مشرق کی جانب چوبیس عدد بہت چوڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھی جو کنڈ کی تہہ تک پہنچتی تھی بارش ہوتی تھی تو اس کا پانی اس میں بھر جاتا تھا۔جو کافی عرصہ تک باقی رہتا تھا۔مغرب کی جانب اس سے متصل ایک جوہڑ
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 135

تھا جو ڈگی کہلاتا تھا۔درمیان میں ایک گھڑونچی بنی ہوئی تھی۔اس کے ذریعہ ڈگی کا پانی کنڈ میں آتا رہتا تھا۔یہ کنڈ چھوٹی اینٹوں کی بہت پختہ اور خوبصورت تعمیر تھی۔ایک روایت کے مطابق تقسیم برصغیر سے ساڑھے تین سو سال قبل بنایا گیا تھا۔بعد مین ایک مہاجن صاحب رام عرف صاحبو نے اس کی مرمت کرائی تھی۔

3: اکبری دور کا کنواں: یہ قدیم زمانہ کا بنا ہوا تھاجو قصبہ سےباہر شمال مغرب کی سمت مین تھا۔اب غیر آباد تھااور استعمال نہیں ہوتا تھا۔اس کے اندر ایک پتھر لگا ہوا تھاجس کے کتبہ پر جلالالدین محمد اکبر کا نام موجود تھا۔اس لے کہا جاتاتھاکہ یہ کنواں اس زمانہ کی تعمیر تھا جب اکبر ولی عہدی میں ہریانہ کا صوبیدار تھا۔ایک روایت کے مطابق اس کنویں کے قریب کسی زمانہ میں ایک بستی بھی آباد تھی۔اس کا نام بستی داراشکوہ تھا۔اس کا ذکر مفتی غلام سرور1 لاہوری نے بھی کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اس بستی میں مہاجن اور برہمن قوم کے لوگ آباد تھے۔مگر بعد میں یہ بستی ناپید ہوگئ۔

4: کالے اور سفید گنبد: قصبہ کے ارد گرد کچھ گنبد بنے ہوئے تھے۔یہ بڑی مختصر سی جگہ پر بنائے گئے تھے۔ان کے نیچے دو تین آدمی ہی آسکتے تھے۔گنبد کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی اور تعمیر یا احاطہ وغیرہ بھی نہیں تھا۔ان میں سے کچھ کالے رنگ کے تھے اور کچھ سفید تھے۔ اور اپنے رنگ سے ہی پکارے جاتے تھے۔ان کے بارے میں طرح طرح کی روایتیں مشہور تھیں۔مگر یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کب بنائے گئے تھے۔ اور کس مقصد سے بنائے گئے تھے۔ دوتین گنبد ایسے تھے جن کے ارد گرد قبرستان موجود تھا۔

5: ایک تاریخی تحریر: گوراپانہ کی اکرم ٹھلہ کی مسجد کی دیوار پر ایک قدیم تحریر موجود تھی اس کے بارے میں روایت تھی کہ افغانستان کے ایک شہزادے کی لکھی ہوئی تھی یہ شہزادہ ہندوستان میں اپنے ملک کا سفیر تھا۔اسے سیاحت کا بھی شوق تھا۔سیاحت کے دوران ہی وہ بروالہ سیدان بھی پہنچا اور چند دن اس مسجد میں قیام کیا تھا۔اپنے قیام کے یادگار کے طور پر اس نے یہ تحریر لکھی تھی۔اس میں اس نے اپنا نام "سالار"لکھا تھا۔یہ تحریر تقسیم ملک تک اس مسجد کی دیوار پر موجود تھی۔

6: سلطان غیاث‌الدین: بلبن کے زمانہ کی ایک تختی کا ذکر پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب میں موجود ہے۔یہ ہسٹاریکل سوسائٹی موجودہ صدی کے شروع میں پنجاب کے گورنر کی سرپرستی میں قائم ہوئی تھی۔اس کے اجلاسوں میں بڑے ٹھوس تحقیقی مقالات پڑھے جاتے تھے جو سوسائٹی کے جرنل میں شائع میں ہوتے تھے۔ان مقالات کے انتخاب پر مشتمل بعد میں تین جلدیں شائع کی گئ تھی۔ان میں سے جلد اول کے ایک مقالہ میں اس تختی کا ذکت ہے2۔ مگر بروالہ کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1: مفتی غلام سرور لاہوری۔تاریخ مخزن پنجاب۔نولکشور،لکھنو 1877ءص 63
2:
R.B.Whitehead I.C.S.,."An inscription of the Reign of Ghiat::-ud-Din Balban". Selection from the Journal of the Panjab Historical Society, Lahore 1982,V-I, P.61
 
Top