صفحہ 129
مساجد:۔
بروالہ سیدان کے پورے قصبے میں جگہ جگہ مساجد بنی ہوئی تھیں۔اکثر مساجد پر چھت اور گنبد موجود تھا۔امام مقرر تھا اور اخراجات اہل محلہ مل کر برساشت کرتے تھے۔مساجد کی تعمیر بھی محلہ کی آبادی نے مل کر کی تھی مساجد کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: جامع مسجد: یہ مسجد شہر کے درمیان بنی ہوئی تھی۔اس کے شمال اور مغرب میں قصائیوں کے گھرانے آباد تھے۔مشرق اور جنوب میں سادات کے خاندان آباد تھے۔ مسجد کی کرسی ارد گرد کی آبادی سے اس قدر اونچی تھی کہ اس کے بیرونی دروازے تک پہنچنے کے لئے بارہ سیڑھیاں چڑھنی پڑھتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ مسجد کے مشرقی حصّہ کے نیچے ڈاٹ لگاکر سرنگ نما راستہ بنایا گیا تھا جو پندرہ گز لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔اور اونچا اتنا تھا کہ ایک گھوڑسوار آسانی کے ساتھ اس میں سے گزر سکتاتھا۔اس ڈاٹ کے اوپر ایک کمرہ بناہوا تھا جس میں امام صاحب کی نشست گاہ تھی۔ اور ڈاٹ کے نیچے کا راستہ قصبہ کی آبادی کی آمدورفت کے کام آتا تھا۔مسجد کافی وسیع تھی اور کئ سو سال پرانی تھی۔تمام قصبہ نے مل کر بنائی تھی اور اس کی دیکھ بھال میں بھی تمام قصبہ حصہ دار تھا۔
2:کالاپانہ کی بڑی مسجد: یہ مسجد کالاپانہ کے قریباً درمیان میں واقع تھی۔دو سو سال قبل تمام اہل محلہ نے مل کر شاملات دیہہ میں تعمیر کی تھی۔مسجد کے شمال میں قائم خانی راجپوت،مغرب میں قاضی اور جنوب اور مشرق میں سادات کے گھرانے آباد تھے۔
3: کالاپانہ کی چھوٹی مسجد: سید حسن علی مرحوم کے خاندان کے مختلف گھرانوں کے مکانات،حویلیاں،کوٹھیاں اور مویشی خانے وغیرہ ایک بہت بڑی وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ان تمام عمارات کے درمیان میں ایک کھلی جگہ پر سید حسن علی مرحوم نے چاردیواری بنواکر مسجد بنوادی تھی تاکہ نماز باجماعت کا اہتمام ہوسکے۔یہ مسجد صرف اس چار دیواری پر ہی مشتمل تھی۔کوئی چھت یا گنبد موجود نہیں تھا۔ لیکن باقاعدہ امام مقرر تھا اور نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔
4: اکرم ٹھلہ کی مسجد: یہ گوراپانہ کی پہلی مسجد تھی۔کافی پرانی تھی اور چاروں جانب سید آباد تھے۔
اہم مقامات
بروالہ سیدان کے اہم مقامات اور تاریخی جگہوں کے ذکر میں سب سے پہلے مسجد کا ذکر کیا جائے گا۔اس کے بعد مزارات کا،پھر تاریخی اہمیت کے مقامات کا اور آخر میں رفاہ عامہ اور انتظامی اداروں کا۔مساجد:۔
بروالہ سیدان کے پورے قصبے میں جگہ جگہ مساجد بنی ہوئی تھیں۔اکثر مساجد پر چھت اور گنبد موجود تھا۔امام مقرر تھا اور اخراجات اہل محلہ مل کر برساشت کرتے تھے۔مساجد کی تعمیر بھی محلہ کی آبادی نے مل کر کی تھی مساجد کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: جامع مسجد: یہ مسجد شہر کے درمیان بنی ہوئی تھی۔اس کے شمال اور مغرب میں قصائیوں کے گھرانے آباد تھے۔مشرق اور جنوب میں سادات کے خاندان آباد تھے۔ مسجد کی کرسی ارد گرد کی آبادی سے اس قدر اونچی تھی کہ اس کے بیرونی دروازے تک پہنچنے کے لئے بارہ سیڑھیاں چڑھنی پڑھتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ مسجد کے مشرقی حصّہ کے نیچے ڈاٹ لگاکر سرنگ نما راستہ بنایا گیا تھا جو پندرہ گز لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔اور اونچا اتنا تھا کہ ایک گھوڑسوار آسانی کے ساتھ اس میں سے گزر سکتاتھا۔اس ڈاٹ کے اوپر ایک کمرہ بناہوا تھا جس میں امام صاحب کی نشست گاہ تھی۔ اور ڈاٹ کے نیچے کا راستہ قصبہ کی آبادی کی آمدورفت کے کام آتا تھا۔مسجد کافی وسیع تھی اور کئ سو سال پرانی تھی۔تمام قصبہ نے مل کر بنائی تھی اور اس کی دیکھ بھال میں بھی تمام قصبہ حصہ دار تھا۔
2:کالاپانہ کی بڑی مسجد: یہ مسجد کالاپانہ کے قریباً درمیان میں واقع تھی۔دو سو سال قبل تمام اہل محلہ نے مل کر شاملات دیہہ میں تعمیر کی تھی۔مسجد کے شمال میں قائم خانی راجپوت،مغرب میں قاضی اور جنوب اور مشرق میں سادات کے گھرانے آباد تھے۔
3: کالاپانہ کی چھوٹی مسجد: سید حسن علی مرحوم کے خاندان کے مختلف گھرانوں کے مکانات،حویلیاں،کوٹھیاں اور مویشی خانے وغیرہ ایک بہت بڑی وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ان تمام عمارات کے درمیان میں ایک کھلی جگہ پر سید حسن علی مرحوم نے چاردیواری بنواکر مسجد بنوادی تھی تاکہ نماز باجماعت کا اہتمام ہوسکے۔یہ مسجد صرف اس چار دیواری پر ہی مشتمل تھی۔کوئی چھت یا گنبد موجود نہیں تھا۔ لیکن باقاعدہ امام مقرر تھا اور نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔
4: اکرم ٹھلہ کی مسجد: یہ گوراپانہ کی پہلی مسجد تھی۔کافی پرانی تھی اور چاروں جانب سید آباد تھے۔