تاریخ کی تلاش سے اقتباسات [تبصرے اور تجاویز]

نبیل

تکنیکی معاون
میں اس ڈاکٹر مبارک علی کی اس کتاب کے ٹائپ کرنے کا آغاز کرنے پر رضوان کو شاباش دیتا ہوں۔ ضروری نہیں کہ ہم ڈاکٹر مبارک علی کے نقطہ نظر سے متفق ہوں لیکن پھر بھی میرے خیال میں ان تحریروں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوں کہ ملک میں تاریخ کا وہی بلیک اینڈ وائٹ ورژن پڑھایا جائے جو حکمرانوں کو قبول ہو۔ مختلف نقطہ نظر کے حامل دوستوں کے لیے صلائے عام ہے، وہ تاریخ کا دوسرا رخ رکھنے والی تحریریں شائع کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان کے اخباروں میں ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر صفدر محمود کے درمیان ایک مباحثہ چلا تھا جس میں ڈاکٹر صفدر محمود ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ قائداعظم کبھی بھی یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے کہ پاکستان میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا ہے یا یہ کہ میری جیبوں میں کھوٹے سکے ہیں اور وہ اس سلسلے میں ڈاکٹر مبارک علی کے پیش کردہ تمام حوالوں کو حقارت سے رد بھی کرتے رہے۔

میں ذاتی طور پر ڈاکٹر مبارک علی کے پیش کردہ تاریخ کے ورژن کو مکمل طور پر صحیح نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی میرے خیال میں اس کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
کچھ دوستوں میں دھواں دھار بحث تاریخ کے حوالے سے چل رہی تھی۔ مجھے ذاتی طور پر بحثوں میں اب حصہ لینے کا شوق نہیں رہا لیکن دونوں فریقوں کو کمک بہم پہنچانے اور دلائل کو استدلالی راستے پر رکھنے کے لیے میں نے یہ جسارت کی ہے۔ رہی بات اتفاق کی تو جس کتاب سے آپ مکمل متفق ہو جائیں وہ فکر کے دروازے بند کر دیتی ہے اچھی کتاب وہی ہے جو آپ کی تلاش و جستجو کو مہمیز کرے۔ کچھ کے جواب دے اور کچھ نئے سوال اٹھائے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
رضوان،

کافی عرصہ سے اس کتاب پر کوئی کام نہیں بڑھا۔

تاریخ کو فلسفہ بنا دینا، یا کوئی نظریہ بنا دینا۔۔۔۔ صرف یہی کچھ ہمارے مورخین کی کثیر تعداد کرتی آئی ہے۔

اور اس کے نقصانات آج ہمیں صاف نظر آ سکتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو تاریخ سے افسانہ گوئی، فلسفے اور مورخین کے ذاتی نظریات کو الگ کر کے حقیقت سمجھنے کا ادراک رکھتے ہوں۔

میرے خیال میں صحیح یا غلط، مگر قوم کو اس کتاب کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ہر رنگ کو دیکھ سکے اور اپنی فکری پرواز کو بلند کر سکے۔
 
طالبان افغانستان

معلومات تو اچھی تھیں لیکن ہر جگہ پر نہیں ۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے تو افغانستان کے طالبان کا احادیث میں بھی ذکر ملتا ہے۔ اور ان کا خلافت علی منہاج النبوہ کی طرز پر شریعت نافڈ کرنے کا ذکر بھی ہے اور پھر صیہونیوں کے ہاتھوں ان کےختم ہونے کا بھی ذکر ہے اور اور خاص بات کہ میرا ایک دوست نوشہرہ میں تھا اور وہ افغانستان اوگرائی کے لئے گیا ہوا تھا اوگرائی کی رقم تقریبا چار لاکھ تھی جس سے جیب بھاری ہوگئی تھی نماز کے وقت میں پریشانی کے عالم میں مسجد کے باہر ٹہل رہے تھے کہ اگر مسجد میں نماز پڑھتا ہوں تو لوگوں کی بھاری جیب پر نظر پڑ جائے گی اور لٹ جانے کاخطرہ بھی اور نماز نہ پڑھوں تو احکام الٰہی چھوٹتا ہے اتنے میں پگڑی پہنے چند آدمیوں کی گاڑی رکی اور ایک پگڑی والے نے کہا کہ کیا بات ہے کیوں پریشان ہو تووہ یہ سمجھا کہ ایسے ہی کچھ لوگ ہیں بحر حال بادل نخواستہ اس نے کہ دیا کہ یہ معاملہ ہے تو اس پگڑی والے نے اس کو کہا کہ پیسے نکالو اور اس نے مجبورا پیسے نکال دئے کہ دوسرا چارہ نہیں تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ جا کر نماز پڑھو۔ خیر نماز پڑھی تو دل کےحال کی اللہ کو خبر تھی نکلا تو دیکھا کہ اس کے پیسے اسی گاڑی کی بانٹ پر ویسے کے ویسے رکھے ہیں اور پگڑی والے کہیں چلے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کیا ور اپنے پیسے لئے واپس آگئے۔ دوسری بات کہ یورپی ممالک عربوں ڈالر خرچ کر کے افیون اور ہیروئن کی پیداوار نہیں روک سکیں اور ان پگڑی والوں کے ایک شرعی حکم سے پورے افغانستا ن میں بیس منٹ میں اس حکم پر عمل درآمد کیا گیا۔ انہوں نے کس کو زنا کی دعوت دی، یا کس کو چوری کا کہا، یا کس کو غیر شرعی کام کرنے کی ترغیب دی۔ ان کی غلطی صرف اتنی ہی تھی کہ انہوں نے شریعت کو نافذ کیا اور وہ بھی خلافت علیٰ منہاج النبوہ طرز پر ۔جس کی مثال دیکھنے میں نہیں ملتی۔
 
ضروری گذارش

ایک بہت ہی ضروری گذارش کروں گا کہ اپنے فارغ وقت میں چاہے پانچ منٹ ہی کیوں نہ ہوں علماء کرام کے پاس جاکر ان سے شرعی احکامات کی معلومات کیا کریں تو بہت فائدہ ہوگا۔ کیوں کے اسلام ہمارے کہنے پر یا ہماری مرضی پر نہیں بلکہ دین سراسر نقل ہے اور اس نقل کو سنت کہتے ہیں اور اس کے احکامات کو شریعت جو کہ ہم اور آپ اپنی مرضی سے رائج نہیں کر سکتے اسلام میں ہر قسم کی برائی کا توڑ ہے اور گناہ کی سزا ہے ہر مسئلے کا حل ہے۔ اگر ہم اپنی مرضی سے شریعتی احکامات پر اعتراضات کریں گے تو پہلی امتوں کے راہبوں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا جو اپنی کتابوں میں پیسوں کی خاطر تبدیلی کر کے بیچتے تھے۔
 
Top