تازہ ترین

الف عین

لائبریرین
رات ایک غزل سر زد ہو گئی ہے۔ ملاحظہ کریںِ

یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا

پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
٭٭٭​

ایک اور مزے کا شعر سن لیجئے، جس میں ردیف تھوڑی سی بدل دی ہے۔

سب لوگ کیا کرتے ہیں بس ’لو‘ کی ’افیریں ‘ (Love Affairs)
ہے عشق جو، کرنے کا جگر کیوں نہیں آتا؟

احباب سے تنقید کی درخواست ہے، محض تحسین کی نہیں
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
رات ایک غزل سر زد ہو گئی ہے۔ ملاحظہ کریںِ

یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا

پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
٭٭٭​

ایک اور مزے کا شعر سن لیجئے، جس میں ردیف تھوڑی سی بدل دی ہے۔

سب لوگ کیا کرتے ہیں بس ’لو‘ کی ’افیریں ‘ (Love Affairs)
ہے عشق جو، کرنے کا جگر کیوں نہیں آتا؟

احباب سے تنقید کی درخواست ہے، محض تحسین کی نہیں
 
مدیر کی آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بہت خوبصورت
پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

بہت دعائیں
 

ابن رضا

لائبریرین
استاد محترم ماشاءاللہ بہت لاجواب اشعار ہیں. تنقید و تحسین کی ہم میں تاب نہیں.

کچھ فی البدیہہ اشعار ہمارے یہاں چل رہے سیاسی تناظر میں سرزد ہو گٰئے ہیں

وہ شخص وزارت سے اتر کیوں نہیں جاتا
رسیا‌ وہ حکومت کا ، گھر کیوں نہیں جاتا

دیکھی نہ سنی اتنی ملامت کبھی لوگو
غیرت ہے اگر اس میں تو مر کیوں نہیں جاتا

جو دھاندلی سے بن بیٹھا ہے اس ملک کا راجہ
جمہور کے غصے سے وہ ڈر کیوں نہیں جاتا

جاتے ہوے خالی تھے سکندر کے بھی گر ہاتھ
دوزخ یہ ترے پیٹ کا بھر کیوں نہیں جاتا

جو تیس برس سے ہے یہاں کرسی سے چپکا
وہ تیس دنوں کے لیے گھر کیوں نہیں جاتا

 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
شاندار :) :)

پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا


کمال ہے استاد محترم :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا

-----------


سبحان اللہ۔

آپ سے غزل کہلوانے کے لئے تو پورا مشاعرہ ترتیب دیا گیا تھا۔ غزل بھی آخر وارد ہو ہی گئی۔

بہت اچھی غزل ہے، اگر ہم کسی قابل ہوتے تو اس غزل پر آپ کو داد دیتے۔

اس غزل کو "آغاز" بنا کر اگر تسلسل سے آٹھ دس غزلیں ہو جائیں تو لطف آ جائے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
استاد محترم ماشاءاللہ بہت لاجواب اشعار ہیں. تنقید و تحسین کی ہم میں تاب نہیں.

کچھ فی البدیہہ اشعار ہمارے یہاں چل رہے سیاسی تناظر میں سرزد ہو گٰئے ہیں

وہ شخص وزارت سے اتر کیوں نہیں جاتا
رسیا‌ وہ حکومت کا ، گھر کیوں نہیں جاتا

دیکھی نہ سنی اتنی ملامت کبھی لوگو
غیرت ہے اگر اس میں تو مر کیوں نہیں جاتا

جو دھاندلی سے بن بیٹھا ہے اس ملک کا راجہ
جمہور کے غصے سے وہ ڈر کیوں نہیں جاتا

جاتے ہوے خالی تھے سکندر کے بھی گر ہاتھ
دوزخ یہ ترے پیٹ کا بھر کیوں نہیں جاتا

جو تیس برس سے ہے یہاں کرسی سے چپکا
وہ تیس دنوں کے لیے گھر کیوں نہیں جاتا


بہت خوب ابن رضا بھائی ۔ :)

اسے اسلام آباد بھجوا دیجے اور "شیخ رشید" صاحب سے فرمائش کریں کہ وہ دھرنے میں پڑھ کر سنائیں۔ :) :)
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب ابن رضا بھائی ۔ :)

اسے اسلام آباد بھجوا دیجے اور "شیخ رشید" صاحب سے فرمائش کریں کہ وہ دھرنے میں پڑھ کر سنائیں۔ :) :)
ہاہاہا ۔ ۔۔اسلام آباد میں تو میں موجود ہوں مگر شیخ رشید تو ہمارے گلے کا کانٹا ہے ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں وہ مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر حسبِ معمول پذیرائی کا خواہاں ہے۔ اس لیے معذرت خواہ ہوں آپ کے حکم کی تعمیل ممکن نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاہاہا ۔ ۔۔اسلام آباد میں تو میں موجود ہوں مگر شیخ رشید تو ہمارے گلے کا کانٹا ہے ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں وہ مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر حسبِ معمول پذیرائی کا خواہاں ہے۔ اس لیے معذرت خواہ ہوں آپ کے حکم کی تعمیل ممکن نہیں

بیری کے ساتھ کانٹے تو ہوتے ہی ہیں۔:) ویسے شیخ رشید کا نام اس لئے لیا کہ عوام کی تفریح ہو جائے گی۔ اگر عمران خان صاحب کو پڑھنے کا کہہ دیا تھا تو پھر کسی بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ :) :)
 
4r2uef.jpg


شوشل میڈیا کا کمال ۔۔۔ آپ کے اشعار استعمال بھی ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔
 
رات ایک غزل سر زد ہو گئی ہے۔ ملاحظہ کریںِ

یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا

پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
٭٭٭​

ایک اور مزے کا شعر سن لیجئے، جس میں ردیف تھوڑی سی بدل دی ہے۔

سب لوگ کیا کرتے ہیں بس ’لو‘ کی ’افیریں ‘ (Love Affairs)
ہے عشق جو، کرنے کا جگر کیوں نہیں آتا؟

احباب سے تنقید کی درخواست ہے، محض تحسین کی نہیں

آپ نے طلب فرمایا تو بندہ حاضر ہو گیا۔
اپنی گزارشات پیش کرنے کے لئے ذہن بنا لوں، پھر حاضر ہوتا ہوں۔
 
بادی النظر میں سارے شعر اچھے ہیں، مگر مجھے یہ جسارت کرنے کی اجازت دیجئے کہ میری تشفی نہیں ہو رہی۔
اس کی بڑی وجہ؟ کہ یہ غزل جناب اعجاز عبید کی ہے۔

شعر بہ شعر عرض کرتا ہوں۔
 
یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا
مناسب مطلع ہے، الفاظ میں وہ چستی نہیں جو مطلع کے مفہوم کا تقاضا ہے۔ سوالیہ ردیف میں انشائی انداز لانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ فاضل شاعر نے ادھر توجہ نہیں دی۔

پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا
پہلے مصرع میں اگر "بھی" کی معنویت لائی جاتی تو شعر کی سطح کہیں بلند ہو جاتی۔

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا
"دن گزرے گذر" کی بندش لگتا ہے جبراً لائی گئی ہے۔ اس پر توجہ فرمائیے گا، شعر کا تخیل اور مضمون عمدہ ہے اور کہیں زیادہ حسنِ ادا کا متقاضی ہے۔

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا
یہاں کچھ شتر گربہ کی سی صورت بن رہی ہے۔ یہاں ’’گریزاں رہا‘‘ کی بجائے ’’گریزاں ہے‘‘ کی معنویت درکار ہے۔

ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا
پہلا مصرع بہت کمزور ہے صاحب، معافی چاہتا ہوں۔ ’’آج‘‘ یہاں زائد محسوس ہو رہا ہے۔ یہاں وقت کی بجائے ہوا کی تیزی اور شدت کا مذکور ہونا چاہئے گا۔ یہ بھی ہے کہ شاخ کے ہلنے ہی سے تو پھول کا بکھر جانا لازم نہیں آتا، ہوا میں اتنی شدت تو ہو کہ وہ شاخ کو جھنجھنا ڈالے۔

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
پہلے مصرعے میں کہ ’’تاریخ لکھے گا‘‘ یعنی امید موجود ہے، تو پھر دوسرے مصرع میں سوال یا شکوہ کی گنجائش نہیں بنتی۔ دوسری بات یہ کہ اس پوری غزل کی ردیف سوالیہ ہے، سو یہاں خاص طور پر علامتِ استفہام کا اہتمام لازم نہیں۔

٭٭٭

جناب الف عین
 
آخری تدوین:
Top