گل زیب انجم
محفلین
یعنی ساڈی بےبسی نوں شیشہ دسدے او. ہا ہا ...رات ایک غزل سر زد ہو گئی ہے۔ ملاحظہ کریںِ
یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا
پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا
وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا
یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا
ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا
یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
٭٭٭
ایک اور مزے کا شعر سن لیجئے، جس میں ردیف تھوڑی سی بدل دی ہے۔
سب لوگ کیا کرتے ہیں بس ’لو‘ کی ’افیریں ‘ (Love Affairs)
ہے عشق جو، کرنے کا جگر کیوں نہیں آتا؟
احباب سے تنقید کی درخواست ہے، محض تحسین کی نہیں
بہت خوب بہت پیاری غزل ہے جناب عزت مآب.
باقی کام کوئی اُستاد ہی کرے گا.