محمد یعقوب آسی
محفلین
بارِ دگر اپنی جسارتوں پر شرمندہ ہوں تاہم اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس تلخ نوائی کا مرتکب ہوا ہوں۔ درگزر فرمائیے گا۔
لگتا ہے یہ منزل نہیں، پہنچوں میں جہاں بھیپہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا
پہلے مصرع میں اگر "بھی" کی معنویت لائی جاتی تو شعر کی سطح کہیں بلند ہو جاتی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ’گریزاں رہا‘ سے آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مطلب ’گریزاں رہا ہے‘ جو Present Continuous کے باعث زیادہ معنی خیز لگا مجھے۔یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا
یہاں کچھ شتر گربہ کی سی صورت بن رہی ہے۔ یہاں ’’گریزاں رہا‘‘ کی بجائے ’’گریزاں ہے‘‘ کی معنویت درکار ہے۔
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح حسن بیان بڑھ گیا ہے۔"دن گزرے گذر" کی بندش لگتا ہے جبراً لائی گئی ہے۔ اس پر توجہ فرمائیے گا، شعر کا تخیل اور مضمون عمدہ ہے اور کہیں زیادہ حسنِ ادا کا متقاضی ہے۔
لگتا ہے یہ منزل نہیں، پہنچوں میں جہاں بھی
میں سمجھتا ہوں کہ ’گریزاں رہا‘ سے آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مطلب ’گریزاں رہا ہے‘ جو Present Continuous کے باعث زیادہ معنی خیز لگا مجھے۔
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح حسن بیان بڑھ گیا ہے۔
استاد محترم ماشاءاللہ بہت لاجواب اشعار ہیں. تنقید و تحسین کی ہم میں تاب نہیں.
کچھ فی البدیہہ اشعار ہمارے یہاں چل رہے سیاسی تناظر میں سرزد ہو گٰئے ہیں
وہ شخص وزارت سے اتر کیوں نہیں جاتا
رسیا وہ حکومت کا ، گھر کیوں نہیں جاتا
دیکھی نہ سنی اتنی ملامت کبھی لوگو
غیرت ہے اگر اس میں تو مر کیوں نہیں جاتا
جو دھاندلی سے بن بیٹھا ہے اس ملک کا راجہ
جمہور کے غصے سے وہ ڈر کیوں نہیں جاتا
جاتے ہوے خالی تھے سکندر کے بھی گر ہاتھ
دوزخ یہ ترے پیٹ کا بھر کیوں نہیں جاتا
جو تیس برس سے ہے یہاں کرسی سے چپکا
وہ تیس دنوں کے لیے گھر کیوں نہیں جاتا
سبحان اللہ۔۔۔بےحدددد عمدہ اشعار استاد محترم !یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا
وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا
یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
بابا یہ مرا حال سدهر کیوں نہیں جاتا
سودا ہے اگر عشق اتر کیوں نہیں جاتا
تنگ آ گئے محفل کے سبهی رکن بهی مجھ سے
ہر اک کی زباں پر ہے یہ مر کیوں نہیں جاتا
جتنا بهی لکهوں لگتا ہے لکها ہی نہیں کچھ
لکھ لکھ کے یہ دل میرا ہی بهر کیوں نہیں جاتا
بابا یہ سفر کیا ہے کہ مرتا ہے مسافر
بابا مرے پیروں کا سفر کیوں نہیں جاتا
دن رات جهگڑتا ہوں میں خود آپ سے اپنے
بابا میں خود اپنے سے مکر کیوں نہیں جاتا
ہمت ہے تو کر گزرئیے صاحب!
دن رات جهگڑتا ہوں میں خود آپ سے اپنےکیا کر گزرنا ہے محترم - میں سمجها نہیں -
دن رات جهگڑتا ہوں میں خود آپ سے اپنے
بابا میں خود اپنے سے مکر کیوں نہیں جاتا
اپنے آپ سے بھی کبھی کوئی مکر سکا ہے؟