ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میرے عمومی انداز سے بہت ہٹ کر ہے۔ اگرچہ غالب جیسی مشکل گوئی میرا اسلوب نہیں اور پیچیدہ خیالی سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں ۔ لیکن غالب کے اثر سے اردو کا شاید ہی کوئی شاعر بچا ہو ۔ کبھی نہ کبھی ’’ غالبیت‘‘ غالب آہی جاتی ہے ۔
( اس غزل کے مطلع میں ایطائے خفی در آیا ہے ۔ اس کے لئے اہلِ ذوق سے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ )
( اس غزل کے مطلع میں ایطائے خفی در آیا ہے ۔ اس کے لئے اہلِ ذوق سے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ )
غزل
بنائے تشنگی بن کر حبوطِ خفتگی ہوگی
ہوائے زاشِ بے سرمہ نمودِ پیشگی ہوگی
بہارِ خندِ بے نخشاں، نفورِ دردِ خفتہ سے
مثالِ رفثِ دیدہ ور ، ردائے غم کشی ہوگی
کہیں تو برتقائے شب بساطِ نے نوائی پر
غلیطِ گمرہاں ہوگی ، مُشارِ زر گری ہوگی
زحالِ جلوہ آرائی ، قطیرِ دم سرِ بالیں
نکیرِ برق ِ خندہ سے خجل ہم بستری ہوگی
زمارِ بے نشاں ظرفِ حوادث کا عذرفہ ہے
کمیلِ طرفگاں کب تک حصارِ بے بسی ہوگی
وہی دردِ فشر پہلو ، وہی امیدِ نم چشمی
خدایا ساعتِ برناف کب تک سر خو شی ہوگی
قبیلِ مج نگارش میں قلم طرفِ ہزار آتش
اگر ہوجائے اک دن تو کفوشِ نا دری ہوگی
یہی حرفِ ژُخب آخر مطوعِ کم طبع ہوگا
غزل اک دن وہاں ہوگی جہاں دم گشتری ہوگی
ظہیر آخر ہوا قلبِ حفر آسا محن کشتہ
زمانہ کہہ رہا تھا شرطِ دُزدہ مختری ہوگی
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ یکم اپریل ۲۰۱۷
بنائے تشنگی بن کر حبوطِ خفتگی ہوگی
ہوائے زاشِ بے سرمہ نمودِ پیشگی ہوگی
بہارِ خندِ بے نخشاں، نفورِ دردِ خفتہ سے
مثالِ رفثِ دیدہ ور ، ردائے غم کشی ہوگی
کہیں تو برتقائے شب بساطِ نے نوائی پر
غلیطِ گمرہاں ہوگی ، مُشارِ زر گری ہوگی
زحالِ جلوہ آرائی ، قطیرِ دم سرِ بالیں
نکیرِ برق ِ خندہ سے خجل ہم بستری ہوگی
زمارِ بے نشاں ظرفِ حوادث کا عذرفہ ہے
کمیلِ طرفگاں کب تک حصارِ بے بسی ہوگی
وہی دردِ فشر پہلو ، وہی امیدِ نم چشمی
خدایا ساعتِ برناف کب تک سر خو شی ہوگی
قبیلِ مج نگارش میں قلم طرفِ ہزار آتش
اگر ہوجائے اک دن تو کفوشِ نا دری ہوگی
یہی حرفِ ژُخب آخر مطوعِ کم طبع ہوگا
غزل اک دن وہاں ہوگی جہاں دم گشتری ہوگی
ظہیر آخر ہوا قلبِ حفر آسا محن کشتہ
زمانہ کہہ رہا تھا شرطِ دُزدہ مختری ہوگی
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ یکم اپریل ۲۰۱۷
آخری تدوین: