فرقان احمد
محفلین
صاحب! یکم اپریل تو گزر گیا تو آپ بھی سچ جان لیجیے۔ جس لغت سے ہم نے مطالب جانے، اس کا نام ہے، لغت طلسمیات و سحور۔ ملنے کا پتہ ہے، عنقا نگر، لاشعور چوک، کوہ قافاب تو مطلب معلوم کرنا اور ضروری ہو گیا ہے.
صاحب! یکم اپریل تو گزر گیا تو آپ بھی سچ جان لیجیے۔ جس لغت سے ہم نے مطالب جانے، اس کا نام ہے، لغت طلسمیات و سحور۔ ملنے کا پتہ ہے، عنقا نگر، لاشعور چوک، کوہ قافاب تو مطلب معلوم کرنا اور ضروری ہو گیا ہے.
فاتح بھائی ! یہی سوزشِ دل والی لڑی ہمیں یاد تھی لیکن کئی بار کوشش کے باوجود تلاش نہ کرپائے تھے، آج ظہیر بھائی کی یہ غزل پڑھی تو معاً اس لڑی کا خیال آیا اور ہم نے فوراً آپ کے نام دہائی دے ڈالی۔ شکر ہے کہ آپ نے خود ہی اس کا لنک دے دیا۔ظہیر بھائی، مجھے اندازہ تھا کہ یہ شاہکار آپ نے یکم اپریل کے حوالے تخلیق کیا تھا (اور سرگوشی میں اپنا یہی اندازہ لکھ بھی دیا تھا) ویسے یہ غزل پڑھ کے میرے ذہن میں یہ دو لڑیاں آئیں:
درست جواب ہے صاحب! اگرچہ ہم صبح سویرے یہ غزل دیکھتے ہی کھٹک گئے تھے لیکن ظہیر بھائی کے کلام پر ہنسنے کاخیال اب بھی ہمیں لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ہم احتراماً نہیں ہنسے۔ آئندہ بھی امید مت رکھیے۔
حضرت آپ کے ذاتی پیغام کو پڑھنے سے پہلے ہم آپ کی اس شہرہء آفاق غزل پر اپنا تبصرہ ارسال کرچکے تھے اور فاتح بھائی کو مدد کے لیے پکار چکے تھے۔ایک متجسس قاری نے کسی شاعر سے جاکر اس کے کسی شعر کا مطلب پوچھا تو شاعر نے جواب دیا : جب مین نے یہ شعر لکھا تھا تو اس کا مطلب یا مجھے معلوم تھا یا خدا کو ۔ اور اب اِس کا مطلب صرف اورصرف خدا کو معلوم ہے ۔
میں اس "غزل" کے بارے میں یہ کہوں گا کہ جب میں نے لکھی تو اس کا مطلب اُس وقت بھی خدا کو معلوم تھا اور اِس وقت بھی صرف وہی جانتا ہے ۔
محمد خلیل الرحمٰن بھائی آپ نے پہلا تبصرہ کرکے ہمارا مذاق "بیکار" کروادیا ۔ آپ کے ایسے معتبر تبصرے کے بعد سارے لوگ اسے سنجیدہ نظروں سے ہی دیکھنے لگے۔ کوئی بھی نہیں ہنسا ۔ یہ سب آپ کا قصور ہے ۔ اور تلافی اس کی یہی ہے کہ اب آپ جلدی سے اپنی کوئی ہنستی مسکراتی مزاحیہ نظم عنایت کریں ۔
ہا ہا ہاہا !! شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھےدرست جواب ہے صاحب! اگرچہ ہم صبح سویرے یہ غزل دیکھتے ہی کھٹک گئے تھے لیکن ظہیر بھائی کے کلام پر ہنسنے کاخیال اب بھی ہمیں لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
بہت محبت ہے آپ کی خلیل بھائی ! اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔ یہ پودا آپ کی وزل ہی سے پھوٹا ہے ۔ لیکن آپ اُس تازہ نظم والے تاوان سے ابھی چھوٹے نہیں ہیں ۔حضرت آپ کے ذاتی پیغام کو پڑھنے سے پہلے ہم آپ کی اس شہرہء آفاق غزل پر اپنا تبصرہ ارسال کرچکے تھے اور فاتح بھائی کو مدد کے لیے پکار چکے تھے۔
محبت نامہ پڑھا تو اپنے شک کو درست پایا، ہمارا مزہ دوبالا ہوگیا لیکن چونکہ دیر ہوچکی تھی لہٰذا یوں ہی چلنے دیا۔
اور یوں آپ نے ہمارا بھی پول کھول دیا۔
یہ بھی خوب کہی قبلہ ظہیر صاحب
برادر ریحان قریشی صاحب کی کسی "غلط فہمی" کے باعث بلکہ اس کی برکت کے وسیلے سے پتہ چلا کہ اس شاہکار نے جنم لیاہے اور اہالیان محفل کی ہم بھی سر خراشی مبتلا ہوئے سبب بتانے کی ضرورت ہی نہیں البتہ متعدد کیفیات بیک وقت طاری رہنے کا مزہ تادیر آتا رہا ۔ اگرچہ اس لطف خاص پر کما حقہ توجہ نہیں دے سکے کہ ہمشیرہ عزیزہ کراچی سے تشریف لائی ہوئی ہیں اور ان کی معیت میں ہم حرمین کے سفر میں تھے کل شب اپنے شہر ریاض واپسی ہوئی جسے اپنا لکھتے وقت ایک کیفیت کی لہریں دل سے آنکھوں تک آگئیں۔۔۔بہر حال۔
بہت ہی عمدہ!!احبابِ کرام ! ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میرے عمومی انداز سے بہت ہٹ کر ہے۔ اگرچہ غالب جیسی مشکل گوئی میرا اسلوب نہیں اور پیچیدہ خیالی سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں ۔ لیکن غالب کے اثر سے اردو کا شاید ہی کوئی شاعر بچا ہو ۔ کبھی نہ کبھی ’’ غالبیت‘‘ غالب آہی جاتی ہے ۔
( اس غزل کے مطلع میں ایطائے خفی در آیا ہے ۔ اس کے لئے اہلِ ذوق سے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ )
غزل
بنائے تشنگی بن کر حبوطِ خفتگی ہوگی
ہوائے زاشِ بے سرمہ نمودِ پیشگی ہوگی
بہارِ خندِ بے نخشاں، نفورِ دردِ خفتہ سے
مثالِ رفثِ دیدہ ور ، ردائے غم کشی ہوگی
کہیں تو برتقائے شب بساطِ نے نوائی پر
غلیطِ گمرہاں ہوگی ، مُشارِ زر گری ہوگی
زحالِ جلوہ آرائی ، قطیرِ دم سرِ بالیں
نکیرِ برق ِ خندہ سے خجل ہم بستری ہوگی
زمارِ بے نشاں ظرفِ حوادث کا عذرفہ ہے
کمیلِ طرفگاں کب تک حصارِ بے بسی ہوگی
وہی دردِ فشر پہلو ، وہی امیدِ نم چشمی
خدایا ساعتِ برناف کب تک سر خو شی ہوگی
قبیلِ مج نگارش میں قلم طرفِ ہزار آتش
اگر ہوجائے اک دن تو کفوشِ نا دری ہوگی
یہی حرفِ ژُخب آخر مطوعِ کم طبع ہوگا
غزل اک دن وہاں ہوگی جہاں دم گشتری ہوگی
ظہیر آخر ہوا قلبِ حفر آسا محن کشتہ
زمانہ کہہ رہا تھا شرطِ دُزدہ مختری ہوگی
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ یکم اپریل ۲۰۱۷
گویا یہ ایبسٹریکٹ غزل ہو گئیمعنوی طور پر کوئی حیثیت نہیں، البتہ جمالیاتی سطح
کسی صنفِ ادب یا غزل کا نام دینا ضروری نہیں۔ البتہ فن تو ہے۔گویا یہ ایبسٹریکٹ غزل ہو گئی
قسم لے لیجئے عاطف بھائی یہ مہمل گوئی کسی بھی قسم کی اغلبیت کے زیرِ اثر نہیں تھی ۔ ہمیں تو امرود دیکھے ہوئے بھی ایک زمانہ ہوگیا ۔ورنہ ہم تو اس مخمصے میں رہتے کہ یہ غالبیت کی مشکل گوئی ہے یا کسی اغلبیت کی اشکال گوئی !
بہت ہی عمدہ!!
اس غزل کی گو معنوی طور پر کوئی حیثیت نہیں، البتہ جمالیاتی سطح پر اس "فن پارے" کی حیثیت کسی نہ کسی درجے میں متعین ضرور کی جاسکتی ہے۔
ڈھیروں داد!
گویا یہ ایبسٹریکٹ غزل ہو گئی
خواہرم ، اسے سمجھنے کی قطعی کوشش نہ کیجئے ۔ ہوسکے تو فاتح بھائی کے نام میرا جوابی مراسلہ دیکھ لیجئے ۔ اور پھر ہنسنا مت بھولئے گا ۔ ویسے آپ ایک دن لیٹ ہوگئی ہیں۔ریٹنگ تب دوں گی جب سمجھ آئے گی۔
ظہیر بھائی! میں نے فاتح کے جواب میں آپ کی باتیں پڑھی ہیں اب تک ۔ غمِ روزگار میں مبتلا ہونے کا وقت ہے ۔ سو باقی پھر۔۔۔بشرطِ زندگی۔خواہرم ، اسے سمجھنے کی قطعی کوشش نہ کیجئے ۔ ہوسکے تو فاتح بھائی کے نام میرا جوابی مراسلہ دیکھ لیجئے ۔ اور پھر ہنسنا مت بھولئے گا ۔ ویسے آپ ایک دن لیٹ ہوگئی ہیں۔