تاشقند میں مولانا جامی کا چھ سو سالہ جشن

حسان خان

لائبریرین
ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ۲۸ نومبر ۲۰۱۴ء کو مشرق زمین کے معروف و خوش کلام شاعر و مصنف مولانا نورالدین عبدالرحمٰن جامی کے چھ سو سالہ جشن کی مناسبت سے ایک ادبی و ثقافتی محفل منعقد ہوئی۔ جمہوریۂ ازبکستان کے بین الاقوامی ثقافتی مرکز کے اساسی ایوان میں برپا ہونے والی اس محفل میں اہلِ علم و ادب، شاعروں، نویسندوں، استادوں اور طالب علموں، اور ازبکستان میں مقیم تاجکستانی سفارت کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس باشکوہ مجلس کے شرکاء نے تمدنِ انسانی کے خزینے میں اضافہ کرنے والے اور یادگار کے طور پر نیک نام چھوڑنے والے اس زبردست ادیب و عالم کی شائستہ خدمات کو بہت اہم بتلایا۔ عالمی ثقافت کی غنی سازی میں اور (اُن کے تربیتی و اخلاقی شاہکار 'بہارستان' کے حوالے سے) تربیتی مقاصد کی تشکیل میں اس نابغۂ سخن کے کردار کی بہت بلند درجے میں قدر دانی کی گئی۔ انسانِ کامل کے وصف میں اور مختلف طبقوں کے انسانوں کی منفعت کی خاطر تحریر شدہ مولانا عبدالرحمٰن جامی کی جملہ تالیفات، اور اسی طرح اعلیٰ دنیاوی اقدار - مثلاً انسان پروری، وطن دوستی، صادقانہ رفاقت، اور مختلف قوموں کے مابین ہم سازی و ہم بستگی - کی برقراری میں اس سخنور کے نقشِ شایاں کی شرح و تفسیر کی گئی۔ معاشرے کے مقدس ترین فرد 'زنِ مادر' کی فضیلت کے حامی ان شاعر کے آثارِ منظوم مندرجہ ذیل مصرعوں کے ہمراہ موردِ ستائش قرار پائے:
سر ز مادر مکش که تاجِ شرف
گردی از راهِ مادران باشد
خاک شو زیرِ پای او که بهشت
در قدمگاهِ مادران باشد

مکاتب کے بچوں نے مولانا عبدالرحمٰن جامی کی گوناگوں نوعی اور مضامین سے پُر تصنیفات اور اُن کی گراں قدر تالیفات میں سے چند حصوں کی قرائت کی۔ ازبکستان کی معروف و ممتاز فارسی گو گلوکاراؤں منیرہ محمد اور گل چہرہ بقا نے اپنے دلنشین سرودوں سے محفل کو خاص شکوہ و رنگ بخشا۔
اسی طرح، مولانا عبدالرحمٰن جامی کے چھ سو سالہ جشن کی مناسبت سے رواں سال ازبکستان میں 'رسالۂ عروض' اور 'عبدالرحمٰن جامی‌نینگ ایجاد عالمی' نامی کتابیں فارسی اور ازبکی زبانوں میں نشر ہوئیں، جن میں شاعروں، مصنفوں اور دیگر اہلِ علم و ثقافت کے مقالات جمع کیے گئے ہیں۔
ازبکستان میں تاجکستان کے سفیر مظفر حُسین نے دو برادر اقوام تاجکوں اور ازبکوں کے درمیان روایتی اور دوستانہ روابط کی برقراری میں اس گوہرشناس ادیب کے عالی کردار کی بھی بڑی قدر دانی کی۔ تاجکستان کے اعلیٰ حکام کی جانب سے مولانا عبدالرحمٰن جامی کی قدردانی پر بات کرتے ہوئے اُنہوں نے خصوصی طور پر تاجکستان کے صدر کی طرف سے ۲۰۱۴ء کے سالِ عبدالرحمٰن جامی کے طور پر اعلان کیے جانے کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی ملک میں اور ملک سے باہر اس سلسلے میں برپا کی جانے والی مختلف محافل اور کوششوں کا تاکیداً ذکر کیا۔ انہوں نے اس طرح کی مشترک علمی و ادبی محفلوں کو زمانے کے تقاضوں کا جوابدہ نام دیا۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ یہ ثقافتی نشستیں دو ہم جوار ملکوں کے لوگوں کو نزدیک کرتی ہیں اور ساتھ ہی دوجانبہ دوستانہ تعلقات کی استواری و ترویج کے راستے میں پُل کے طور پر خدمات انجام دیتی ہیں۔

(منبع: تاجک اخبار 'خاور')
خبر کی تاریخ: ۲/۱۲/۲۰۱۴
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
حضرت مولانا جامی رح کا نام ہم پاکستانیوں کےلئےاجنبی نہیں اور علمی طبقوںمیں خصوصاًنعت کے حوالے سے کافی معروف ہے۔ (اعظم چشتی مرحوم نے اپنی نعتوں میں ان کا بے شمار کلام استعمال کیا ہے)
کیا ازبکستان میں پاکستانی سفیر محترم اور سفارت خانے کی جانب سے بھی اس جشن میں کوئی دلچسپی دکھائی گئی؟
 

منقب سید

محفلین
حضرت مولانا جامی رح کا نام ہم پاکستانیوں کےلئےاجنبی نہیں اور علمی طبقوںمیں خصوصاًنعت کے حوالے سے کافی معروف ہے۔ (اعظم چشتی مرحوم نے اپنی نعتوں میں ان کا بے شمار کلام استعمال کیا ہے)
بے شک ان کا کلام انہیں بھی کھینچ لیتا ہے جنہیں فارسی نہیں آتی۔
کیا ازبکستان میں پاکستانی سفیر محترم اور سفارت خانے کی جانب سے بھی اس جشن میں کوئی دلچسپی دکھائی گئی؟
امید تو نہیں رتی بھر بھی اس بات کی۔ لیکن شاید کوئی صاحب ذوق ہوں ہمارے سفارتکار
 

منقب سید

محفلین
ایک کلام مولانا کا جو بے حد پسند ہے یہاں موضوع کی مناسبت سے پیش کر رہا ہوں۔

ز مہجوری برآمد جانِ عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز مہجوراں چرا فارغ نشینی
زخاک اے لالۂ سیراب برخیز
چو نرگس خواب چند از خواب برخیز
بروں آور سر از بردِ یمانی!
کہ روئے تست صبح زندگانی
شب اندوہ مارا روز گرداں
ز رُ ویت صبح مافیروز گرداں
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بسر پربند کافوری عمامہ
فردد آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بپا سروِ رداں را
اویم طائفی نعلینِ پاکن
شراک از رشتۂ جانہائے ماکن
جہانے دیدہ کردہ فرش راہ اند
چو فرش اقبال پابوس تو خواہند
ز حجرہ پائے در صحن حرم نہ
بفرق خاک رہ بوساں قدم نہ
بدہ دستے ز پا افتادگاں را
بکن دلداری دلدادگاں را
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
فتادۂ خشک لب برخاک راہیم
زابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے!
کہنی برحالِ لب خشکاں نگاہے

اس ہی نعت کے بارے میں پڑھا تھا شاید کہ مولانا جامی یہ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ- ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ- ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﺞ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺞ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ- ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:، ﺍﮮ ﺍﻣﯿﺮ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ- ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ- ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ- ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ عاشق رسول ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﺗﮭﮯ-ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮﻋﺸﻖ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﺍﺱ ﻗﺪﺭﻏﺎﻟﺐ ﺗﮭﺎ- ﮐﮧ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﭘﮍﮮ- ﮐچھ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﮕﺎﺭ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﻗﺎﻓﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ- ﺍﻭﺭ ﮐچھ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﺑﮭﯿﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﻮﮌ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﺎ- ﺟﺐ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﮐﻮ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﻮﺋﯽ- ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ- ﺟﺐ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﺳﻨﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﺩﻭﮌﺍﺋﮯ ﺟﻮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﻮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ-
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮ امیر مکہ کو نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺋﯽ- ﺁﭖؐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ! ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻭﺿﮯ ﭘﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐچھ اﺷﻌﺎﺭ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ- ﺟﻦ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ- ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﺍﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺒﺮ ﺍﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ- ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ-
 

تلمیذ

لائبریرین
سر ز مادر مکش که تاجِ شرف
گردی از راهِ مادران باشد
خاک شو زیرِ پای او که بهشت
در قدمگاهِ مادران باشد

سبحان اللہ!
 
ایک کلام مولانا کا جو بے حد پسند ہے یہاں موضوع کی مناسبت سے پیش کر رہا ہوں۔

ز مہجوری برآمد جانِ عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز مہجوراں چرا فارغ نشینی
زخاک اے لالۂ سیراب برخیز
چو نرگس خواب چند از خواب برخیز
بروں آور سر از بردِ یمانی!
کہ روئے تست صبح زندگانی
شب اندوہ مارا روز گرداں
ز رُ ویت صبح مافیروز گرداں
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بسر پربند کافوری عمامہ
فردد آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بپا سروِ رداں را
اویم طائفی نعلینِ پاکن
شراک از رشتۂ جانہائے ماکن
جہانے دیدہ کردہ فرش راہ اند
چو فرش اقبال پابوس تو خواہند
ز حجرہ پائے در صحن حرم نہ
بفرق خاک رہ بوساں قدم نہ
بدہ دستے ز پا افتادگاں را
بکن دلداری دلدادگاں را
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
فتادۂ خشک لب برخاک راہیم
زابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے!
کہنی برحالِ لب خشکاں نگاہے
کیا اس کلام کی آڈیو یا ویڈیو مل سکتی ہے؟ :) :)
 

تلمیذ

لائبریرین
بھائی اس کا ترجمہ بھی بتا دیں
والدہ سے رخ نہ پھیرو کیونکہ اس کی راہ کی گرد تمہارے سر کا تاجِ شرف ہے
اس کے پاؤں کے نیچے مٹی ہو جا ؤکیونکہ اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔

یہ ناقص سا ترجمہ پیش خدمت ہے، اگر کوئی غلطی ہو تو زبان دانوں سے تصحیح کی گذارش ہے۔
 
آخری تدوین:

منقب سید

محفلین
والدہ سے رخ نہ پھیرو کیونکہ اس کی راہ کی گرد تمہارے سر کا تاجِ شرف ہے
اس کی پاؤں کے نیچے مٹی ہو جا کیونکہ اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔

یہ ناقص سا ترجمہ پیش خدمت ہے، اگر کوئی غلطی ہو تو زبان دانوں سے تصحیح کی گذارش ہے۔
زبردست کلام۔ شکریہ برادر
 

حسان خان

لائبریرین
سر ز مادر مکش که تاجِ شرف
گردی از راهِ مادران باشد
خاک شو زیرِ پای او که بهشت
در قدمگاهِ مادران باشد
سبحان اللہ!
والدہ سے رخ نہ پھیرو کیونکہ اس کی راہ کی گرد تمہارے سر کا تاجِ شرف ہے
اس کے پاؤں کے نیچے مٹی ہو جا ؤکیونکہ اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔

مولانا جامی نے 'اربعین' کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا جس میں چالیس احادیثِ نبوی کا منظوم ترجمہ کیا گیا تھا۔ یہ قطعہ اُسی رسالے سے مقتبس ہے۔
آپ نے اس کا بہت عمدہ اردو ترجمہ کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضرت مولانا جامی رح کا نام ہم پاکستانیوں کےلئےاجنبی نہیں اور علمی طبقوںمیں خصوصاًنعت کے حوالے سے کافی معروف ہے۔ (اعظم چشتی مرحوم نے اپنی نعتوں میں ان کا بے شمار کلام استعمال کیا ہے)
کیا ازبکستان میں پاکستانی سفیر محترم اور سفارت خانے کی جانب سے بھی اس جشن میں کوئی دلچسپی دکھائی گئی؟

۲۶ نومبر کو دوشنبہ میں واقع دانشگاہِ ملیِ تاجکستان میں مولانا جامی کے چھ سو سالہ جشن کی مناسبت سے جو محفل منعقد ہوئی تھی، اُس میں پاکستانی سفارت کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔
13930906000022_PhotoL.jpg

13930906000026_PhotoL.jpg

13930906000023_PhotoL.jpg

13930906000025_PhotoL.jpg


ماخذ
 
ایک کلام مولانا کا جو بے حد پسند ہے یہاں موضوع کی مناسبت سے پیش کر رہا ہوں۔

ز مہجوری برآمد جانِ عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز مہجوراں چرا فارغ نشینی
زخاک اے لالۂ سیراب برخیز
چو نرگس خواب چند از خواب برخیز
بروں آور سر از بردِ یمانی!
کہ روئے تست صبح زندگانی
شب اندوہ مارا روز گرداں
ز رُ ویت صبح مافیروز گرداں
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بسر پربند کافوری عمامہ
فردد آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بپا سروِ رداں را
اویم طائفی نعلینِ پاکن
شراک از رشتۂ جانہائے ماکن
جہانے دیدہ کردہ فرش راہ اند
چو فرش اقبال پابوس تو خواہند
ز حجرہ پائے در صحن حرم نہ
بفرق خاک رہ بوساں قدم نہ
بدہ دستے ز پا افتادگاں را
بکن دلداری دلدادگاں را
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
فتادۂ خشک لب برخاک راہیم
زابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے!
کہنی برحالِ لب خشکاں نگاہے

اس ہی نعت کے بارے میں پڑھا تھا شاید کہ مولانا جامی یہ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ- ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ- ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﺞ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺞ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ- ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:، ﺍﮮ ﺍﻣﯿﺮ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ- ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ- ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ- ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ عاشق رسول ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﺗﮭﮯ-ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮﻋﺸﻖ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﺍﺱ ﻗﺪﺭﻏﺎﻟﺐ ﺗﮭﺎ- ﮐﮧ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﭘﮍﮮ- ﮐچھ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﮕﺎﺭ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﻗﺎﻓﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ- ﺍﻭﺭ ﮐچھ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﺑﮭﯿﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﻮﮌ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﺎ- ﺟﺐ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﮐﻮ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﻮﺋﯽ- ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ- ﺟﺐ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﺳﻨﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﺩﻭﮌﺍﺋﮯ ﺟﻮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﺎﻣﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﻮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ-
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮ امیر مکہ کو نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺻﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺋﯽ- ﺁﭖؐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ! ﺟﺎﻣﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻭﺿﮯ ﭘﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐچھ اﺷﻌﺎﺭ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ- ﺟﻦ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ- ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﺍﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺒﺮ ﺍﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ- ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﻣﮑﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ-

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

برائے مہربانی یہ بتلائیں کہ یہ واقعہ مولانا جامی کی کونسی کتاب میں ہے؟؟
حوالہ درکار ہے
 
Top