آپ نے تو سب کو ایک ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ہر معاشرے میں اچھی بری امثال موجود ہوتی ہیں۔ یہ تو ہم پہ ہیں کہ ہم کس کی تقلید کرتے ہیں۔
خوداحتسابی کا موقع ملنا اور اس عمل سے گزر جانا بہت مختلف اعمال ہیں۔ میں کسی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ خود احتسابی کو اپنائے۔ بس تلقین کی جا سکتی ہے (وہ بھی ایک خاص حد تک) اور دعا بھی کہ مولیٰ اسے ایسا موقع فراہم فرمائے۔ موقع مل جانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے۔ جب خود احتسابی کا موقع ملے، تو بندہ امتحان میں آتا ہے۔ اس پہ عمل کر گیا، تو بیڑا پار، رہ گیا؛ تو ڈوب گیا۔ فرعون کو بھی ملا؛ آزمائش میں آیا، پر فیل ہو گیا۔ پھر رب کا عذاب آن پہنچا، خدا کو مان گیا، پر تب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔ ۔آزمائش ہو چکی تھی، نعمت کو رائیگاں کر چکا تھا وہ۔ سو مارا گیا۔آپ نے معاشرے والوں کی برائی کا ذکر کر دیا، لیکن سب لوگ ایسے تھوڑی ہوتے ہیں۔ نیکی میں یقین رکھنے والوں کو، اور اس کی چاہ والوں کو یہ ضرور ملتی ہے۔
آپ عینیت پسندی سے اس کو دیکھ رہے۔۔ اور میں عملیت کا طرفدار ہوں۔
درست، تو کیا ہمیں اسی راہ پہ چلتے رہنا چاہیے؟ ہمارے idols جیسے ہوتے ہیں، ویسا ہی ہم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ خود کو کھنگالنے، پرکھنے کا وقت۔
بئی سطر پر یہ بات دھر دینا جس قدر آسان ہے عمل کی منزل اس سے اتنی ہی دور۔۔۔ گویا کہ
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیابان مجھ سے
یہاں تھوڑا سا اختلاف کروں گا۔ دین تحقیق سے نہیں روکتا۔ یہ تو تحقیق کی طرف بلاتا ہے، دیکھنے کی، پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہاں، جب پرکھ لو، حق آن پہنچے تو پھر اس سے منہ مت پھیرو۔
انسان اکثر باتیں موازنہ سے سیکھتا ہے۔ اسی لیے ہر چیز کے standards ڈیفائن کرتا ہے۔ جیسے، لمبائی کا standard ڈیفائن ہے۔ تو دین کی بہت سی باتوں کو سمجھنے کے لیے موازنہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں تا حیات سائنس اور تحقیق سے منسلک رہا۔ "اللہ اکبر" کی بہت سی سمجھ اس دن آئی، جب کالج میں زمین کا قطر اور کمیت معلوم کرنا سیکھے۔ تو موازنہ کے لیے کسی standard کی ضرورت ہوتی ہے اور standard کے لیے تحقیق! یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ لوگوں پر خدا کا انعام ہوتا ہے، وہ یقین کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ان پر خدا اپنے آپ کو اور ہی رستوں سے وا کرتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ گنتی والے ہوتے ہیں؛ بہت ہی rare. آج کل میرا پورا وطن "یقین" سے بھرا ہے، سب مسلمان ہیں؛ لیکن تحقیق کوئی نہیں کرتا۔ "اللہ اکبر" پہ یقین ہے، معانی جانتے ہیں؛ لیکن پھر بھی لا علم! آخر کیوں؟ (شاید تحقیق کی کمی؟)
مجھے حیرت ہے کہ آپ بھی تحقیق اور شک کے مابین سرحد کا ادراک نہ کرسکے۔ میرے مراسلے کو شک کے پس منظر سے پڑھیے نہ کہ تحقیق کے پس منظر سے
درست! لیکن ایسا نصاب جس میں ان سب باتوں کی تلقین ہو، وہ بھی تو ہمارے ہاں ندارد!
کہاں نہیں پڑھایا گیا کہ سچ بولو، دھوکہ مت دو، جھوٹ نہ بولو؟ میرا ایک دوست ہے، ایک دفعہ ملا تو بہت پریشان! بڑی مشکل میں تھا۔ گھر پر بجلی کے کنکشن کا دوسرا میٹر لگوانا تھا۔ شاید یہ چیز پاکستان میں غیر قانونی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے گھر والے اصرار کر رہے تھے۔ گرمی میں ایک اے-سی سے بات نہ بنتی تھی اور بل بھی دشمنِ جاں تھا۔ واپڈا میں بہت نزدیکی دوست تھے، اچھے عہدوں پر۔ گھر والے اسے کہہ رہے تھے کہ انھیں بولو اور لگوا دو۔ اس خدا کے ولی نے اپنے گھر والوں کو ناراض کر لیا۔ وجہ: آپ لوگوں کی درخواست واپڈا کے دفتر میں لائن میں لگی ہو گی۔ میں اپنے دوستوں کو بول کر اس لائن کے ساتھ tempering نہیں کر سکتا۔ یہ اوروں کی حق تلفی ہو گی۔ میں اس کا یہ رویہ دیکھ کے حیران رہ گیا۔ وہ خود بھی پریشاں رہا، کیوں کہ کوئی اس کی بات سمجھ نہ رہا تھا۔۔۔ اور گھر والے بھی درد میں۔ لیکن وہ ان سب لوگوں کا درد بھی جانتا تھا، جو اس کی اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھنے والے تھے۔ یہی رب پہ یقین کی نشانی ہے۔ بنا دیکھے یقین! اور جن پر یہ یقین حقیقی معنوں میں وا ہو گیا، وہ ایسے ہی معصوم اور حساس ہو جاتے ہیں۔بیڑا پار ہو جاتا ہے ان کا۔ تو کچھ روز گھر والے نہ بولے اس سے، لیکن رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو گیا۔ ایسے حساس لوگ بھی تو معاشرے میں ہیں نا۔ تو جیسے میں نے کہا، بات تو role model کی ہے، آپ زندگی میں کیا تلاش کرتے ہیں۔ جو ڈھونڈیں گے، وہی ملے گا۔
کتابوں میں جو لکھا ہے وہ موتی پروئے ہیں۔ پر عملی درس نہ ہو تو یہ ساری سونے کے پانی سے لکھنے کی باتیں بھی حروف سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اور یہ بات درست ہے کہ ہم کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اسلام آباد والے گھر میں سوئی گیس نہیں لگی ہوئی کیوں کہ میں رشوت دینے اور سفارش کرانے دونوں کے حق میں نہیں۔
صراطِ مستقیم پر چلنا کٹھن، اور جو چل پڑا، انھی مشکلات کی وجہ سے وہ باعرفان اور بلند درجہ ٹھہرا۔ تکلیف میں سکوں پا گیا، کانٹے بھی پھول ہو گئے اس کے لیے۔
کہنے اور چلنے میں فرق ہے۔ میں ان کتابی باتوں سے نکلنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی آدرشیت کے یقین کو زمینی حقائق کی عینک سے دیکھیں، پھر سوچیں کہ کہاں کیا غلط ہے۔
ہم معلومات کے دور میں زندہ ہیں۔ اچھی بری معلومات ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ کامیاب وہی جو اچھی معلومات ڈھونڈے اور انھیں اپنا لے۔ اچھائی کی تلاش کا خیال خدا کا انعام ہے۔وہی ہے جو اس نفسا نفسی کے عالم میں، ہمیں سیدھی راہ پہ چلنے کی جستجو دے۔ اس کے لیے ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ورنہ، آپ نے زمانے کی جو تصویر کھینچی، ہر کوئی اسی پہ چل نکلے اور اچھائی کا تصور ہی ختم ہو جائے۔
بئی اچھی باتوں کے لیے کتابیں بہت ہیں۔ بھری پڑی ہیں اچھی باتوں سے۔ مسئلہ تو ان کو عملی شکل میں لانا ہے۔ میں صرف اور صرف عملی صورت پر یقین رکھتا ہوں۔ کتابی باتوں سے میری کبھی بھی نہیں بنی۔
اکثر بچوں کا پہلا ہیرو کون ہوتا ہے؟ ان کے ڈیڈی! وہ اپنے والد صاحب کو observe کرتے اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اس لیے، ہم میں اکثر خصائل وہی ہوتے ہیں، جو ہمارے والدین میں ہوتے ہیں۔ تو کوئی اپنی ماں جی پہ جاتا ہے، اور کوئی بابا پہ۔ تو مجھے بتائیے، کیا ایک گھر کا سربراہ، اپنی بیوی کے ساتھ مل کر ایک خاندان نہیں بدل سکتا؟ آپ نے بھی تو کہا کہ اپنے بیوی بچوں کی تربیت کرو۔۔۔ ۔تو میرا یہ بھی خیا ل ہے کہ بہت سی باتوں کے لیے بیوی بچوں کو "تربیت" نہیں دینا پڑتی۔ یہ لوگ خود ہی آپ کو observe کر کے کافی کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ پہلا قدم ایک اچھا role model بننا ہے۔۔۔ ۔اور وہ خود احتسابی سے ہی بنا جا سکتا ہے۔ خود احتسابی بندہ کیسے کرے؟ کیسے خود کو پرکھے؟ تو اس کے لیے ملک کا قانون ہے، اپنا ضمیرہے، عقل اور شعور جو رب نے انسان کو دیا، وہ بھی ہے۔ ہزاروں اور طرح کے standards ہیں، جو آپ کو صحیح غلط کا بتا سکتے ہیں۔ بس ارادہ کیجیے، انشاءاللہ رب خود ہماری انگلی تھامے گا۔
معاشرہ اور وقت بہت بڑے استاد ہیں۔ بچے وہ بھی پل جاتے ہیں جن کے ماں باپ نہیں ہوتے۔ پختگی ان کی سوچ میں بھی حد سے سوا ہوتی ہے۔ لیکن مجموعی تبدیلی نسلوں کا عمل ہے۔ لمحوں کا نہیں۔
اتنی انکساری کا اظہار کر کے شرمندہ سا کر دیتے ہیں آپ۔ آپ کی تحاریر میں ایک انرجی ہوتی ہے، آپ کے اندر اک طوفان سا محسوس ہوتاہے۔ آپ نے اسے vent out کرنے کے لیے جو قلم کا راستہ چن رکھا ہے، یہ مثالی ہے۔ اپنے علم اور تجربے کو اسی طرح قلم کے ذریعہ ہم سے شئیر کرتے رہیے، ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے یہ۔ خدا آپ کو اور آپ کی تحاریر کو ہمیشہ ہمارے لیےنیک تمناؤں کا محرک بنائے رکھے (آمین)۔
آپ کی محبت اور ذرہ نوازی ہے۔ وگرنہ من آنم کہ من دانم۔۔ حقیر ذات ہے اپنی اور اس سے بھی کم تر خیالات۔۔۔
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں تو پارے ہو۔۔۔
مختصر جوابات کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ کافی دنوں کے بعد آنا ہوا۔۔۔ سوچ رہا ہوں جانے سے پہلے باقی اطلاعات بھی دیکھتا جاؤں