تبدیلی یا نظر کا دھوکا؟

کیا پاکستانی معاشرہ حقیقی معنوں میں بدل چکا ہے؟ یا یہ تبدیلی محض نظر کا دھوکا ہے؟


  • Total voters
    11

فرقان احمد

محفلین
میں پاکستان میں ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ تبدیلی آرہی ہے۔ مقام بدل رہے ہیں، جگہ بدل رہی ہے۔رویّے بدل رہے ہیں، انسانی رشتے بدل رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ تبدیل ہورہے ہیں۔ ترجیحات پہلے جیسی نہیں رہیں۔پسند نا پسند کچھ کی کچھ ہو گئی ہے اور قدم پہلے جدھر اٹھتے تھے، اٹھنے بند ہوگئے ہیں۔معیشت اور معاشرت کے ڈھب بدل چلے ہیں۔ پھر یہ کہ زندگی کا ایک جیسا روّیہ ، ایک جیسا چلن نہیں رہا۔ کہیں مزاجوں میں شدّت آرہی ہے تو کہیں قدامت کا رنگ گہرا ہوا جاتا ہے۔

اس اکھاڑ پچھاڑ کے بھی دو رُخ ہیں۔ ایک جانب خوش حالی اپنے جلوے دکھا رہی ہے، کبھی دولت کی فراوانی دیکھنے میں آتی ہے، پہلے جہاں اسٹور کھلا کرتے تھے اب وہاں سپر اسٹور کھل رہے ہیں، پہلے جہاں لوگ خریدا ہوا سودا ایک تھیلے میں لے جایا کرتے تھے اب اسی سودے سے پہلے ٹرالی بھرتے ہیں اور پھر کار کی ڈگّی۔ دکانوں میں ولایتی ما ل ابلاپڑتا ہے۔ مال بھی ایسا کہ ضرورت نہ ہو پھر بھی خریدنے کو جی چاہے ۔چین کی مصنوعات سے لوگوں کے گھر بھر گئے ہیں۔ ایک جھونپڑی دیکھی جس کے اوپر ڈش انٹینا لگا تھا۔ ایک اورخستہ حال مکان میں بڑی الماری جیسا ریفریجریٹر دیکھا۔ پوچھا کہ کہاں سے آیا۔ پتہ چلا کہ علاقے کے ایک مالدار شخص کے بچّے اسے پھینک کر نیا ریفریجریٹر لے آئے ہیں۔

ذرا دھیان سے دیکھیں تو یہ خوش حالی ظاہری لگتی ہے۔ اسے دیکھ کر کسی نے کہا کہ اگر ملک میں بددیانتی او رکرپشن ختم ہوجائے تو اس سپر مارکیٹ میں خاک اڑے گی۔ یہ ساری خرید و فروخت ہوا ہوجائے گی اور لوگ ایک بار پھروہی تھیلا بھر شاپنگ کرنے لگیں گے۔

رضا علی عابدی کا مکمل کالم یہاں پڑھیں
 
آخری تدوین:
دراصل تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور یہ ہر معاشرے کا لازمی جزوہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
چاہے وہ طرزِ معاشرت ہو، یا رویے ہوں۔ تفصیلی جائزہ لینے بیٹھیں تو بہت سی تبدیلیاں مثبت اور بہت سی منفی نظر آئیں گی۔ بلکہ بہت سی تبدیلیاں ایسی ہوں گی، جو کسی کی نظر میں مثبت اور کسی کی نظر میں منفی ہو گیں۔
ایک چھوٹی سی تازہ مثال شادی کارڈ کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب تک خود دولہا یا دولہا کے خونی رشتہ دار شادی کارڈ دینے نہ آئیں، دعوت تسلیم نہیں کی جاتی تھی۔ اور اب تو کارڈ پہنچے یا نہ پہنچے، فون بھی کافی ہو جاتا ہے۔

جہاں تک پول کے سوال کا تعلق ہے، تو میری رائے میں تو یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے۔ کہ تبدیلی آنا بالکل فطری عمل ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور یہ ہر معاشرے کا لازمی جزوہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
چاہے وہ طرزِ معاشرت ہو، یا رویے ہوں۔ تفصیلی جائزہ لینے بیٹھیں تو بہت سی تبدیلیاں مثبت اور بہت سی منفی نظر آئیں گی۔ بلکہ بہت سی تبدیلیاں ایسی ہوں گی، جو کسی کی نظر میں مثت اور کسی کی نظر میں منفی ہو گی۔
ایک چھوٹی سی تازہ مثال شادی کارڈ کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب تک خود دولہا یا دولہا کے خونی رشتہ دار شادی کارڈ دینے نہ آئیں، دعوت تسلیم نہیں کی جاتی تھی۔ اور اب تو کارڈ پہنچے یا نہ پہنچے، فون بھی کافی ہو جاتا ہے۔

جہاں تک پول کے سوال کا تعلق ہے، تو میری رائے میں تو یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے۔ کہ تبدیلی آنا بالکل فطری عمل ہے۔ :)
زبردست! تاہم، جہاں تک پول کا تعلق ہے تو وہ 'حقیقی تبدیلی' سے متعلق ہے تابش بھائی! :) اس کالم کا تھیم بھی یہی ہے کہ آیا واقعی تبدیلی آئی ہے یا یہ چکا چوند محض نظر کا دھوکا ہے۔ :)
 
زبردست! تاہم، جہاں تک پول کا تعلق ہے تو وہ 'حقیقی تبدیلی' سے متعلق ہے تابش بھائی! :) اس کالم کا تھیم بھی یہی ہے کہ آیا واقعی تبدیلی آئی ہے یا یہ چکا چوند محض نظر کا دھوکا ہے۔ :)
کالم نگار نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان کے تناظر میں بھی تبدیلی آپ کو ہر معاشرے میں نظر آئے گی۔ :)
 
جس کی ایک مثال خود کالم نگار نے اپنے کالم میں دی ہے۔
اوپر سے ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے اور وہ ہے موبائل فون۔ کل رات احباب کے ساتھ کھانے پر گئے۔ احباب پورے وقت فون پر جھکے خدا جانے کیا کرتے رہے۔ لندن تک میں جو لو گ چلتی ٹرین میں اخبار پڑھا کرتے تھے، اب موبائل فون پر جھکے رہتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی زمیں دوز ٹرینوں میں کھڑے ہوکر سفرکرنے کے دوران جتنی جگہ میں پانچ مسافر سماتے تھے، اب چار ہی سما پاتے ہیں کیونکہ چاروں اپنے اپنے ٹیلی فون پر جھکے ہوتے ہیںاور ان کے جھکے ہوئے سر ایک مسافر کی جگہ کھا جاتے ہیں۔ یہی انداز پوری دنیا اختیار کر رہی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کالم نگار نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان کے تناظر میں بھی تبدیلی آپ کو ہر معاشرے میں نظر آئے گی۔ :)
تبدیلی تو بلاشبہ فطری عمل ہے جو کہ آ کر رہتی ہے۔ تاہم، یہاں تبدیلی کے محرکات پیش نظر ہیں اور اس کالم میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا یہ تبدیلی نظر کا دھوکا ہے یا معاشرہ واقعی حقیقی معنوں میں بدل چکا ہے اور جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، وہ زمینی حقائق سے میل کھاتا بھی ہے یا نہیں۔ بہرصورت، آپ کی رائے کا احترام ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تبدیلی "چکا چوند" کو کہتے ہیں؟
آپ کس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں پہلے اُس کو تو ڈیفائن کریں۔ تبدیلی مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی۔

مثبت تبدیلی کیسے آتی ہے:
یہ مثبت عمل کی تکرار سے جنم لیتی ہے۔
 
مثبت تبدیلی کیسے آتی ہے:
یہ مثبت عمل کی تکرار سے جنم لیتی ہے۔
منفی تبدیلی کا بھی یہی طریقۂ کار ہے۔
بہت سی چیزیں جو آج سے بیس سال پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں، وہ بار بار کے ذکر سے عام ہوتی چلی گئیں۔
اور ضروری نہیں کہ بیس سال پہلے بھی سب کے لیے معیوب ہوں۔

کسی بھی عمل یا رویہ کی تکرار اسے فروغ دیتی ہے، چاہے مثبت ہو یا منفی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
منفی تبدیلی کا بھی یہی طریقۂ کار ہے۔
بہت سی چیزیں جو آج سے بیس سال پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں، وہ بار بار کے ذکر سے عام ہوتی چلی گئیں۔
اور ضروری نہیں کہ بیس سال پہلے بھی سب کے لیے معیوب ہوں۔

کسی بھی عمل یا رویہ کی تکرار اسے فروغ دیتی ہے، چاہے مثبت ہو یا منفی۔
درست ہے۔
متعلقہ:
معاشرے کا مجموعی مزاج
 

فرقان احمد

محفلین
تبدیلی کس معاشرے میں نہیں آتی ہے؟ یہ تو ایک فطری عمل ہے۔ فاضل کالم نگار تبدیلی کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید وہ حقیقی تبدیلی کو مثبت معنوں میں لے رہے ہیں اور اس ظاہری چکا چوند کو منفی معنوں میں لے رہے ہیں؛ گو کہ یہ بھی تبدیلی ہی کہلائے گی۔
 
محرکات یا عوامل کے حوالے سے الف نظامی بھائی کے دیے گئے حوالے سے محمود احمد غزنوی بھائی کی پوسٹ بہت اہم ہے۔
میرے خیال میں معاشرے کے مجموعی مزاج کی تسکیل بھی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح فرد کے مزاج کے انفرادی مزاج کی تشکیل ہوتی ہے۔ جو عوامل اس میں کارفرما ہوتے ہیں، وہی اُس میں بھی کارفرما ہیں۔مثلاّ:
1-ماں کی گود
2-والد کی شخصیت
3- گھر کا ماحول
4-تعلیم درسگاہوں کا ماحول اور ان میں دی جانے والی تربیت
5- میڈیا (بچپن سے لیکر بڑھاپے تک زیرِ مطالعہ رہنے والا لٹریچر بھی اسی میں شامل ہے)
6-ادیب ، دانشور
7-فن اور فنکار
8- مذہبی و تہذیبی اقدار(جنکی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں)
9-معاشیات
10- آزادیِ فکر و عمل کی مقدار
 
پاکستانی معاشرے میں تبدیلی سے کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔جدت اور روشن خیالی کے نعرے نے ہمارے اسلوب بدل ڈالے ہیں ۔جہاں جدید وسائل نے دنوں کا کام گھنٹوں میں کرنے کا اہم نسخہ دیا ہے تو دوسری طرف معاشرے کو کرپشن ،رشوت اور سہولت کار جسے موذی امراض میں مبتلا کیا ہے۔جدید وسائل کے حصول کی دوڈ میں ہم حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔اکثر اوقات تو ہم اتنے خود غرض اور لالچ ہوجاتے ہیں کہ اپنے اور پرائے کی پہچان کرے بغیر اپنے مقصد حاصل پورا کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
میرے خیال میں تبدیلی نہیں آئی ہے. ہم جیسے پہلے بیوقوف بنتے رہے ہیں ویسے ہی اب بھی بن رہے ہیں
ہر زمانے میں لوگوں کو گلیمر نے دھوکہ دیا ہے آج بھی دے رہا ہے
ہمیشہ لالچ کرکے نقصان اٹھایا ہے آج بھی اٹھا رہے ہیں
ہمیشہ جھوٹ، چاپلوسی اور رشوت سے کام نکلوائے جاتے تھے اب بھی یہی حال ہے
ہم پہلے بھی معاشی ترقی کو حقیقی ترقی سمجھتے تھے اب بھی سمجھ رہے ہیں
پہلے بھی اخلاقی منازل ایک گول دائرے میں طے ہوتی تھیں اور ہر نسل نئے سرے سے تجربات کرتی تھی، اب بھی یہی حال ہے
پہلے بھی سائنسی ترقی ایک کے اوپر ایک منازل طے کررہی تھی اب بھی ایسا ہی ہے
ایک بات ہوئی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں میں دھوکہ کھا کھا کر عقل بڑھ رہی ہے مگر یہ عقل حاصل کرنے کا ایک مشکل طریقہ رہا ہے.
ایک شادی کے بعد عورت کو اپنی مرضی سے بغیر ولی کی اجازت شادی کی اجازت ہوتی ہے، یہ اس لئے کہ اب پوری عقل آگئی ہوتی ہے
جب انسانی عقل حقیقی تبدیلی کے لئے تیار ہوجائے گی اور کرپٹ مافیا کے خلاف کھڑی ہوجائے گی تب حقیقی تبدیلی کا آنا بھی آسان ہوجائے گا، ورنہ یہ مداری اسی طرح اپنا کھیل دکھاتے رہیں گے.
بقول ایک بھائی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں گے
پس میری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہمارے معاشرے میں.
 
Top