ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بد اچھا اور بدنام برا۔ بدنام سب کو نظر آتے اور اچھوں کا کوئی ذکر ہی نہیں!
اگر قرونِ اولیٰ یا اسکے بعد کے مسلمان ہی ہمارے آئیڈیل ہیں یا صاحبِ کردار ہیں تو پھر اس دور کے ادباء اور شعراء بھی صاحبِ کردار ہیں اور آئیڈیل ہیں، ابوسعید ابوالخیر، سعدی، رومی، عراقی، خسرو، عطار، جامی، بیدل کس کس کا نام لیجیے، کیا یہ کسی سے کسی بھی لحاظ میں کم ہیں؟ لیکن افسوس کہ انہیں جانتا کون ہے؟
اگر ہمارے عہد اور اس سے پہلے کے زمانے کی بات ہے، تو بتایئے کون آئیڈیل ہے یا صاحبِ کردار ہے؟ وہ سیاستدان جو ملک و وطن فروش اور اسکے غدار ہیں، یا قبا و جبہ بردار اسلام فروش مُلّے، یا راگ و رنگ و رقص و سرود کے رسیا فنکار، یا حلال و حرام کی تمیز سے پاک کھلاڑی؟ چند ایک نام چھوڑ کر کسی کا نام کوئی نہیں لے سکتا۔
جسطرح، اچھے برے لوگ، ہر کمیونٹی، ہر معاشرے، ہر فیلڈ، ہر شعبے، ہر ملک ہر شہر، ہر گلی، ہر محلے میں موجود ہیں اسی طرح شعرا و ادبا میں بھی ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہ شخص زیادہ پلید و نجس و قابلِ نفرین ہے جو فقط اپنی جان پر ظلم کرتا ہے یا وہ جو ملک و وطن و دین و مذہب فروش ہے؟ اور نسلوں کی نسلیں تباہ و برباد کر دیتا ہے؟
کوئی بھی عہد صاحبِ کردار ادبا و شعرا سے خالی نہیں ہے، اردو کی پیدائش ہی سے بات کریں تو میر، آتش، فضل الحق خیر آبادی، قاضی صدر الدین، اصغر گونڈوی، ریاض خیر آبادی، مولانا حسرت موہانی، احمد ندیم قاسمی، وغیرہم، کون ان کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا ہے؟ لیکن پھر وہی سوال انہیں جانتا کون ہے؟
کسی نے کبھی کہا تھا کہ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے جس کے آئیڈیل اس قوم کے ادیب اور شاعر نہیں رہتے کہ جو معاشرے کی آنکھ ہی نہیں اسکے دل و دماغ بھی ہوتے ہیں۔