اس نے ڈائری کو وہیں سے پڑھنا شروع کردیا ہے جہاں سلسلہ منقطع ہوا تھا ، یہ جانے بغیر کہ دنیا کے عذابوں میں آگہی سب سے بڑا عذاب ہے- آگہی ایک ایسا سانپ ہے جو اپنے مالک کے گَلے میں مثلِ طوق ہے جو دوسروں کی نظر میں اسے بارعب بناتا ہے ، دیکھنے والا اسے نعمت سمجھتا اور رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے مگر یہ صرف "آگاہ" جانتا ہے کہ یہ سانپ اُسے دِن میں کِتنی بار ڈستا ہے۔ :
میری نظر میں یہ ٹکڑا اپنی انفرادی حیثیت میں ادبِ عالیہ میں شمار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے مجھے طرزِ تحریر پر تنقید کی ضرورت ہے۔۔۔۔
مجھے خوشی محسوس ہو گی اگر آپ صرف تبصرے کی بجائے اُن نکتوں پر بات بھی کِیا کریں ، جہاں آپکو کمی محسوس ہوئی۔
مریم صاحبہ، آپ کی کہانی کی صورتِ حال فی الحال یوں ہے کہ بقولِ
ادب دوست
خدا معلوم اب انجام کیا ہو
ابھی تک تو کہانی چل رہی ہے
مگر بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ داستان کچھ انوکھی نہیں۔ چونکا دینے والی نہیں۔ 'آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا' والی کیفیت نہیں۔
مگر قاری پڑھتا جاتا ہے۔ اور یہی سب سے اچھی بات ہے۔ یعنی کہانی سے ہٹ کر بھی کچھ ہے جو قابلِ دید ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ سوائے جاسوسی ادب کے۔ زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی ہے۔ ہم اس کی رمزیں پہچانتے ہیں۔ اس کی اداؤں کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں۔ اس صورت میں ادیب کا کام بہت حد تک زاویۂِ نگاہ اور اسلوبِ بیان تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
کافی دن ہوئے میں نے ہرمن ہیسے کی ایک کہانی، خدا جانے نام کیا تھا، پڑھی تھی۔ ایک بھیڑیا کڑاکے کے جاڑوں میں اپنے گروہ کے ہمراہ سائبریا کے پہاڑوں سے سالانہ نقل مکانی کو نکلتا ہے اور راہ میں دیہاتیوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ عمومی اور پست شاید کوئی واقعہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن پڑھ کے احساس ہوا کہ پہلو میں دل کٹ کر رہ گیا ہے۔ تب یقین ہوا کہ
سیفؔ اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
آپ کی تحریر کے جس اقتباس کا میں نے شروع میں حوالہ دیا ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں، سوائے طرزِ احساس اور ندرتِ تحریر کے۔ آپ کی تحریر کی خوبی یہی ہے کہ قصہ (شاید!) عام ہے اور قصہ گو خاص۔ اس خوبی کو اور چمکائیے۔ باور کیجیے کہ یہ آپ ہیں جس کے ہاتھوں میں قاری کا دل مچل رہا ہے، کہانی نہیں!