فرخ منظور
لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب۔۔
پیش کرنے اور تصحیح کیلئے ممنون ہوں۔
سدا خوش رہیں جناب
بہت شکریہ مغل صاحب -
بہت شکریہ فرخ صاحب۔۔
پیش کرنے اور تصحیح کیلئے ممنون ہوں۔
سدا خوش رہیں جناب
بہت پیاری نظم ہے !
آصف صاحب تصحیح کا بہت شکریہ
ہمارے پاس لکھی اس نظم میں بھی یہی غلطیاں تھیں۔۔۔۔
[فرخ صاحب۔ کمال ہے جب میں اس پوسٹ کا جواب لکھ رہا تھا اس وقت آپ بھی شاید لکھ رہے ہوں گے کیونکہ اس وقت تک آپ کی پوسٹ نہیں دیکھی تھی۔ میں نے بھی کچھ تصحیح کی ہے اس کو بھی دیکھ لیں۔ یہ مصرعہ کچھ اس طرح ہے
آفتیں جب آنی ہوں، ٹوٹنا ستاروں کا
اور یہ غزل مرغوب ہمدانی کی نہیں مرغوب حسین طاہر صاحب کی ہے۔ میں نے اس کے بارے میں اوپر والی پوسٹ میں اس کا جواب لکھا ہے۔مرغوب ہمدانی تو نعت خوان ہیں سر جی!
شکریہ۔ ایک اور بات جو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی اور میں اوپر لکھ بھی چکا ہوں کہ یہ نظم نہیں غزل ہے اور اس طرح لکھی جائے گی۔
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
نشانوں، گلابوں وغیرہ قافیے ہیں اور "کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے" ردیف ہے۔
چونکہ یہ غزل طویل بحر میں ہے اسلیے لوگ اسے عمومی طور پر نظم ہی سمجھتے ہیں-فرحت نے اس غزل کے پانچ اشعار لکھے ہیں اور شاید پانچ ہی ہوں گے۔ لیکن طوالت کے سبب یہ پانچ بند معلوم ہوتے ہیں۔
اوہ۔۔۔۔ شکریہ آصف صاحب کہ آپ نے ایک بار پھر تصحیح فرمادی !
اس نظم میں کچھ غلطیاں تھی جن کی تصحیح کر دی ہے - اور یہ نظم محسن نقوی کی نہیں، مرغوب ہمدانی صاحب کی ہے -
شکریہ فرحت صاحبہ۔!خوبصورت غزل شیئر کرنے کا۔ یہ غزل مرغوب حسین طاہر صاحب کی ہے۔مرغوب صاحب اورئینٹل کالج میں اردو ادب کے استاد ہیں اور بڑے کمال کے شاعر ہیں لیکن افسوس ، انہوں نے ابھی تک شاعری کا کوئی مجموعہ نہیں چھپوایا۔ اس موضوع پر ان سے کئی دفعہ بات بھی ہوئی مگر وہ اس طرف آتے ہی نہیں۔ ان کی کچھ غزلیں اردو پوائنٹ کے اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ویسے یہ والی غزل اس میں نہیں ہے۔
http://www.urdupoint.com/poetry/view-poetry.php?book_id=301&author_id=208&page=1
فرحت۔ اس غزل کے کچھ مصرعوں میں کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں میں ان کی نشان دہی کر رہا ہوں آپ کی ان کی تصحیح کر دیں۔ شکریہ
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
تم ابھی نئے ہو ناں! اس لیے پریشاں ہو ، آسمان کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں ، ٹوٹنا ستاروں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
شہر کے یہ باشندے بو کے بیج نفرت کے ، انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
چھوڑ کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
اجنبی فضاؤں میں اجنبی مسافر سے ، اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دعاؤں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
خامشی مرا شیوہ گفتگو ہنر اُس کا، میری بے گناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پر جبکہ مانگنا حوالوں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
مرغوب حسین طاہر
بہت شکریہ سخنور اور آصف! میں نے پوسٹ ایڈٹ کر دی ہے۔
اصل میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک پیروڈی بہت مقبول تھی۔ جیسے 'چھٹیاں دسمبر کی دائمی سمجھ لینا۔۔۔اور جب گزر جانا ، مانگنا دعاؤں کا ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے' :ڈ اور اس پیروڈی کو دہراتے دہراتے اردو ڈیپارٹمنٹ سے کسی سٹوڈنٹ کی زبانی یہ شعر سنے تھے۔ اس لیے پتہ نہ چل سکا کہ یہ غزل ہے یا نظم ۔ غلطیوں کی بھی یہی وجہ تھی۔
واہ... فرحت اگر آپ کے پاس یہ پیروڈی ہے تو شیئر کیجئیے ناں پلیززز۔۔۔۔۔۔
تم ابھی نئے ہو ناں! اس لیے پریشاں ہو ،آسمان کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
بہت اعلیٰ انتخاب ہے (ہمیشہ کی طرح) لیکن درج بالا مصرع میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔ شاید "جانب" اور "اس" کے درمیان "تم" ہو گا:
آسمان کی جانب تم اس طرح سے مت دیکھو
سر جی۔ مصرعہ بالکل ٹھیک ہے۔ جس طرح آپ کہہ رہے ہیں اس سے مصرعہ بےوزن ہو جائے گا۔ فاعلن-مفاعیلن کے وزن پر تقطیع کر کے دیکھیں۔