تحریکِ انصاف حکومت: منشور اور وعدے

جاسم محمد

محفلین
پائن "اہل ترین" جہانگیر صاب کس حیثیت میں اجلاس میں شرکت فرمائی ؟ اور پھر وزیروں سے سوال بھی کرتے رہے؟
عدالتی نااہلی کے بعد جہانگیرترین کے پاس پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہے۔ البتہ وہ پارٹی کے سرگرم رُکن ہیں اور پنجاب و وفاق میں تحریک انصاف حکومتوں کے قیام کیلئے ان کے طیارے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ایک پارٹی رُکن کی حیثیت سے وہ اپنی قیادت سے سوالات کر سکتے ہیں البتہ آپ کی مریم باجی کی طرح میٹنگز کی قیادت نہیں کر سکتے۔ دوسرا اگر آپ کا خیال ہے کہ نئے پاکستان میں طاقتور وزرا کو حکومتی سرپرستی مل جائے گی تو آج کی خبر انجوائے کریں۔
اعظم سواتی نے وفاقی وزیر کے عہدے سے استعفی دے دیا
 

جاسم محمد

محفلین
52779967_3277390588970005_7996522398348214272_n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لیں تحریک انصاف کا سب سے بڑا وعدہ پورا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بیرون ممالک سے اب تک 530 ملین روپے کی ریکوری ہو گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بی آر ٹی پشاور منصوبہ: حماقتوں اور نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت

عماد ظفر اتوار 31 مارچ 2019

23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کا افتتاح نہ ہوپایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بالآخر 23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے منصوبے کا افتتاح ایک بار پھر نہ ہونے پایا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب تحریک انصاف کی حکومت نے بی آر ٹی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مژدہ سنایا لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا۔ بی آر ٹی پشاور منصوبہ تقریباً 48 ارب روپے کے تخمینے کے ساتھ اکتوبر 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ 27 کلومیٹر لمبا ٹریک ہے اور اس پر تقریباً 220 بسوں نے روزانہ ہزاروں مسافروں کو پشاور شہر میں ان کی منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔ لیکن اکتوبر 2017 میں شروع کیا جانے والا منصوبہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تحریک انصاف جو ہمیشہ سے مسلم لیگ نواز کے انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے منصوبوں بالخصوص میٹرو اور اورنج لائن ٹرین پر تنقید کرتی رہی، اس نے اپنے ووٹ بینک کو خوش کرنے کےلیے یہ منصوبہ شروع کیا تھا، لیکن عجلت میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا کوئی پیپر ورک اور جامع منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف یہ پشاور کے رہائشیوں کےلیے وبال جان بن چکا ہے تو دوسری جانب قومی خزانے پر بھی اس کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔

اس وقت تک بی آر ٹی پشاور کے منصوبے پر تقریباً 68 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ 150 سے زائد بسیں ابھی پاکستان آنا ہیں اور اس کے 11 کے قریب بس اسٹیشنوں کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ ٹکٹ سسٹم سے لے کر آئی ٹی کے معاملات بھی ابھی باقی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ نومبر 2019 سے پہلے مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کی لاگت 100 ارب روپے تک پہنچنے کے امکانات موجود ہیں۔ یعنی بی آر ٹی پشاور بس کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پاکستانی تاریخ کا بسوں کے ذریعے سفر کا سب سے مہنگا منصوبہ بن جائے گا۔ لاہور میٹرو بس کا منصوبہ جس کا ٹریک 27 کلومیٹر پر محیط ہے اسے 29.65 ارب روپے، راولپنڈی۔ اسلام آباد میٹرو بس جس کا ٹریک 22 کلومیٹر لمبا ہے، اسے 44.31 ارب روپے اور ملتان میٹرو بس کے منصوبے کو 29 ارب روپے میں مکمل کیا گیا تھا۔

اس منصوبے کو شروع کرتے وقت تحریک انصاف نے اس منصوبے کے بلیو پرنٹ یعنی تعمیر سے متعلق پلاننگ کے کاغذات اور نقشوں کی تفصیل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور نتیجتاً اس منصوبے میں فاش غلطیاں بارہا سامنے آتی رہیں۔ مثال کے طور پر منصوبے پر کام کے دوران ایک انڈر پاس تعمیر کرنے کے بعد انجینئروں کو معلوم ہوا کہ جو انڈر پاس تعمیر کیا گیا ہے اس کی چوڑائی اتنی نہیں ہے کہ اس میں سے ٹریک پر چلنے والی بسیں گزر سکیں۔ چنانچہ اس انڈر پاس کو پھر سے تعمیر کیا گیا۔ حشت نگری اور فردوس سینما کے قریبی علاقے میں بھی منصوبے کا کام کئی بار اس لیے روک کر دوبارہ سے شروع کرنا پڑا کہ کہیں اس کے ٹریک سے سیوریج کے نظام کو مسئلہ آ رہا تھا اور کہیں یہ مختلف چوک اور یو ٹرین بند کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ اس قدر سنگین غلطیاں اگر مسلم لیگ نواز سے میٹرو بس کے منصوبوں کی تعمیر کے دوران سرزد ہوئی ہوتیں تو ہمارے میڈیا کے ساتھیوں نے زمین آسمان ایک کردینا تھا، نیب نے انکوائریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دینا تھا اور عدالتوں نے سوموٹو لیتے ہوئے ان پر سماعت کا آغاز کردینا تھا۔ لیکن چونکہ یہ غلطیاں تحریک انصاف سے سرزد ہوئی ہیں، اس لیے اسے سب معاف ہے۔

بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ دراصل تحریک انصاف کی تفضیلات میں نہ جانے، منصوبہ بندی نہ کرنے اور پھر منصوبوں کو تکمیل تک نہ لے جا پانے کی صلاحیتوں کی کمی کا غماز ہے۔ یہ ایک قابل فکر بات ہے، کیونکہ اب تحریک انصاف محض صوبہ خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ مرکز اور پنجاب میں بھی اقتدار پر براجمان ہے۔ پاکستان میں جاری حالیہ معاشی بحران بھی تحریک انصاف کی حکمرانی اور کام کرنے کی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے درپیش ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بے حد دیر کردی، پھر موصوف آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقاتوں کے دوران بیوروکریسی کی بنائی گئی فائلوں پر ہی گزارا کرتے رہے۔ یہی حال عمران خان کا ہے، جو وعدے اور دعوے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن تفصیلات اور منصوبوں کو قابل عمل بنانے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، اس لیے اب تک اپنا کوئی بھی وعدہ پورا کرنے سے قاصر ہیں اور یوٹرن لینے کو قیادت کے وصف کے طور پر گردانتے ہیں۔

چونکہ تحریک انصاف ہر مسئلے کا دوش نواز شریف یا پھر پیپلز پارٹی پر دھر دیتی ہے، اس لیے باقی منصوبوں اور دعووں پر بات نہ بھی کریں لیکن بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ تو خود تحریک انصاف نے شروع کیا تھا اور اس میں التوا کے باعث قومی خزانے پر جو اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے اس کا دوش بھی تحریک انصاف کے سر ہی ہے۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا ہمیشہ سے میٹرو بس کے منصوبوں کو جنگلی بسیں کہتے رہے اور بنا کسی ثبوت کے مسلم لیگ نواز پر ان منصوبوں میں کرپشن کے الزام دھرتے رہے، اب جبکہ بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے اور مسلسل قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے تو ایسے میں کیا تحریک انصاف پر اس کی نااہلی کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے معاملے کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے؟

بی آر ٹی منصوبہ کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ہی شاید تحریک انصاف نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی ہے، کیونکہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق جب ترقیاتی کاموں کےلیے بجٹ ہی نہیں بچے گا تو تحریک انصاف کو ایسے منصوبے بنانے ہی نہیں پڑیں گے۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ اب وفاق میں حکومت آنے کے بعد تحریک انصاف کے بی آر ٹی جیسے کئی منصوبوں مثلاً پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے منصوبوں کے بھی پول کھلتے جائیں گے۔ بی آر ٹی پشاور کے معاملے کی کسی غیر جانبدارانہ ادارے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان تمام افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے جو اس منصوبے کی ناقص حکمت عملی تیار کرنے اور اس کی تعمیر میں نقائص کے ذمے دار ہیں۔ حکمرانی کوئی آن جاب ٹریننگ نہیں ہوتی کہ جس میں آپ غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں تو بھی خیر ہے۔ یہاں قومی خزانے سے پیسوں کا زیاں ہورہا ہے، جس کا تدارک بے حد ضروری ہے۔

بی آر ٹی کا منصوبہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے محض دشنام طرازیوں اور مخالفین پر تہمتیں دھرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ منصوبہ رفتہ رفتہ تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے اور اس کی تعمیر میں حماقت در حماقت نے تحریک انصاف کے عملی محاذ پر کھوکھلے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پشاور میٹرو: ’بی آر ٹی منصوبہ یا سرکاری پیسے کا ضیاع‘
_106280883_72fcf662-8f2a-4a0c-a1f6-715615c270fe.jpg

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کی صوبائی انسپکشن ٹیم نے کہا ہے کہ صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا منصوبہ ’بس رپیڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی‘ جلد بازی میں شروع کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور اس کا ڈیزائن بناتے وقت سنگین نوعیت کی کوتاہیاں ہوئیں ہیں۔ انسپکشن ٹیم نے کہا کہ اس سے قومی خزانے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

انسپکشن ٹیم کی طرف سے جاری کردہ 27 صفات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی ڈیزاننگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی کام میں متعدد سنگین غلطیاں اور کوتاہیاں کی گئیں جس سے نہ صرف منصوبہ مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا بلکہ اس سے سرکاری پیسہ بھی بے ضائع ہوا۔

نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق رپورٹ میں ناقص منصوبہ بندی اور قومی خزانے کو مبینہ نقصان پہنچانے کے جرم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گذشتہ ہفتے بی آر ٹی کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی انسپکشن ٹیم کے سپرد کی گئی تھی۔

_106283675_27e244d9-babb-473f-af07-b9ea4c5413f8.jpg

دریں اثناء صوبائی حکومت نے صوبائی سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو ان عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ دونوں افسران بی آر ٹی منصوبے کے تعمیراتی اور دیگر امور کے نگرانی پر مامور تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منصوبے کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں اور اس دوران ایسا بھی ہوا کہ کچھ حصے تعمیر کیے گئے لیکن بعد میں ان میں غلطیوں کے باعث ان تعمیر شدہ حصوں کو دوبارہ توڑا گیا جس سے اس کی لاگت میں خاصا اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی کوریڈور میں تین مقامات پر بس سٹیشنوں کے لیے بنائی گئی سڑک مقررہ حجم سے کم پائی گئی جس سے ان مقامات پر دوبارہ توڑپھوڑ کی گئی اور ان حصوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا جس سے حکومت شدید تنقید کی زد میں بھی آئی۔

انسپکشن ٹیم کے مطابق کوریڈور کے قریب گزرنے والی سڑکوں کے سلسلے میں پہلے سے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں گئی تھی، تاہم جب مرکزی کوریڈور تیار ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ سڑکیں تنگ پڑ گئی ہیں اور اس سے ٹریفک کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
_106283677_cda32fd9-1a11-4361-b228-46fe16f5a8d5.jpg

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض مقامات پر بس سٹیشنوں تک جانے اور سڑک عبور کرنے والوں کو تقریباً 1600 میٹر پیدل چلنا پڑے گا جس سے نہ صرف عوام مشکلات کا شکار رہیں گے بلکہ اس سے قریب سے گزرنے والی سڑکوں پر ٹریفک جام میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر مقامات پر پیدل سڑک عبور کرنے والوں کے لیے مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔

بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے کی ڈیزائننگ کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جس کے لیے ان کو تقریباً ایک ارب روپے سے زائد رقم دی گئی لیکن اس کے باوجود پراجیکٹ میں کئی نقائص سامنے آئے۔

_106283679_2afe0e17-6bb8-470f-9dfa-f293ccae8214.jpg

خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے اس پراجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ بدستور التوا کا شکار ہے۔

موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ 23 مارچ کو ہر صورت میں اس منصوبے کا افتتاح کریں گے لیکن حکومت اس دعوے میں بھی ناکام رہی۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی احتساب بیورو کی طرف سے تقریباً 68 ارب روپے پر مشتمل اس منصوبے کے بارے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی گئی ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر اس رپورٹ کو سیل کردیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ اس منصوبے میں مسلسل تاخیر اور اس میں سامنے آنے والے نقائص کے باعث مرکز اور صوبوں میں موجود تحریک انصاف کی حکومتوں کو میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
 

جان

محفلین
خان صاحب کی انتقام کی آگ کے چکر میں پاکستان کی فضا میں جو ایک خوف کا عالم ہے جو معیشت کے ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سرمایہ دار کمیونٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے! یہ سلسلہ ثاقب نثار سے شروع ہوا تھا نجانے کہاں جا کر ختم ہو گا۔ "اسلامی" صدارتی نظام کا خطرہ زور پکڑتا جا رہا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت وفاقی حکومت کے تمام 435 اداروں کی تنظیم نو کا فیصلہ
طاہر شیرانی27 اپريل 2019

اسلام آباد: حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت وفاقی حکومت کے 435 اداروں کی تنظیم نو کا فیصلہ کرلیا۔

اس حوالے سے سیکریٹری کابینہ ڈویژن کی سربراہی میں سیکریٹریز کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں ادارہ جاتی اصلاحات سیل کی جانب سے تجاویز پیش کی گئی۔

ان تجاویز کے تحت وفاقی حکومت کے 435 اداروں کی تنظیم نو کی تجویز دی گئی جبکہ مختلف اداروں کو ایگزیکٹو محکموں میں تبدیل کرنے کی بھی تجاویز دی گئیں۔


اجلاس میں پیش کی گئی تجاویز کے تحت وفاقی حکومت کے کل 435 اداروں میں سے 45 کو سرمایہ پاکستان کمپنی کے سپرد کرنے، 19 کو صوبوں، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، گلگت بلتستان کے حوالے کرنے، 12 کو آزاد اداروں میں بدلنے، 43 اداروں کو ضمن کرنے، 228 اداروں کو خودمختار کرنے، 82 اداروں کو ایگزیکٹو محکموں میں تبدیل کرنے جبکہ 6 کو ختم کرنا شامل ہیں۔

اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پیش کی گئی ان تجاویز میں 29 وفاقی وزارتوں، ڈویژنز سے منسلک اداروں کو ایگزیکٹو محکموں میں تبدیل کرنے کی تجویز شامل ہے۔

اسی طرح سندھ، پنجاب رینجرز، کوسٹ گارڈذ کراچی، میرین فشریز کراچی، وفاقی تحقیقاتی ادارے، نیشنل پولیس بیورو اور اینٹی نارکوٹکس فورس کو بھی ایگزیکٹو محکموں کا درجہ دینے کرنے کی تجویز ہے۔

ایگزیکٹو محکموں کا درجہ دینے کی تجویز میں ڈائریکٹر جنرل آف سول ڈیفنس، ڈائریکٹر جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس، ایف سی جنوبی، شمالی خیبرپختونخوا، ایف سی جنوبی، شمالی بلوچستان کو بھی شامل کیا گیا۔

اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، این ایچ اے اور موٹرویز پولیس کو بھی ایگزیکٹو محکمہ بنانے کی تجاویز پیش کی گئیں۔

اس کے علاوہ ڈائریکٹریٹ آف ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ، فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کنٹونمنٹ کو بھی ایگزیکٹو محکموں میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ساتھ ہی پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی، اسٹاف ویلفیئر آرگنائزیشن، پاکستان ریلویز پولیس کو بھی ایگزیکٹو محکمے میں بدلنے کی تجویز پیش کی گئی۔

اجلاس میں جن اداروں کو ایگزیکٹو محکموں میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی، اس میں ڈائریکٹریٹ جنرل آف حج اور عمرہ، انڈس واٹس کمیشن اور بیرون ملک تمام پاکستانی مشنز بھی شامل ہیں۔


اس کے علاوہ کابینہ ڈویژن سے منسلک ابینڈنڈ پراپرٹیز آرگنائزیشن اسلام آباد، فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹرینگ سے منسلک نینشل ٹیلنٹ پول (این ٹی پی)، معذور افراد کی بحالی کے لیے قومی کونسل (این سی آر ڈی پی) اور سماجی بہبود کے لیے قومی کونسل کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ساتھ ہی پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ اور ریفارم ڈویژن سے منسلک نیشنل کنسٹرکشن کمپنی لمیٹڈ اسلام آباد اور کشمیر امور اور گلگت بلتستان ڈویژن سے منسلک جے اینڈ کے اسٹیٹ پراپرٹی لاہور کے محکموں کو بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ادارہ جاتی اصلاحات سیل کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے وفاقی حکومت پر بوجھ کم کرنے اور امور تیزی سے نمٹانے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
FB_IMG_1556971817482.jpg


میرے نانا جان خط و کتابت کے بہت شوقین ہیں مختلف اداروں اور لوگوں کو خطوط وغیرہ بھیجتے رہتے ہیں کل غصے سے بھرے بیٹھے تھے کہنے لگے مہنگائی کرتے ہیں تو کسی طریقے سے کریں خط کا جو لفافہ پہلے آٹھ کا آتا تھا دس کا کر دو بارہ کا کر دو سیدھا آٹھ سے بیس پر پہنچا دیا.
 
Top