پشاور میٹرو: ’بی آر ٹی منصوبہ یا سرکاری پیسے کا ضیاع‘
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کی صوبائی انسپکشن ٹیم نے کہا ہے کہ صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا منصوبہ ’بس رپیڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی‘ جلد بازی میں شروع کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور اس کا ڈیزائن بناتے وقت سنگین نوعیت کی کوتاہیاں ہوئیں ہیں۔ انسپکشن ٹیم نے کہا کہ اس سے قومی خزانے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
انسپکشن ٹیم کی طرف سے جاری کردہ 27 صفات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی ڈیزاننگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی کام میں متعدد سنگین غلطیاں اور کوتاہیاں کی گئیں جس سے نہ صرف منصوبہ مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا بلکہ اس سے سرکاری پیسہ بھی بے ضائع ہوا۔
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق رپورٹ میں ناقص منصوبہ بندی اور قومی خزانے کو مبینہ نقصان پہنچانے کے جرم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے گذشتہ ہفتے بی آر ٹی کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی انسپکشن ٹیم کے سپرد کی گئی تھی۔
دریں اثناء صوبائی حکومت نے صوبائی سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو ان عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ دونوں افسران بی آر ٹی منصوبے کے تعمیراتی اور دیگر امور کے نگرانی پر مامور تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منصوبے کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں اور اس دوران ایسا بھی ہوا کہ کچھ حصے تعمیر کیے گئے لیکن بعد میں ان میں غلطیوں کے باعث ان تعمیر شدہ حصوں کو دوبارہ توڑا گیا جس سے اس کی لاگت میں خاصا اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی کوریڈور میں تین مقامات پر بس سٹیشنوں کے لیے بنائی گئی سڑک مقررہ حجم سے کم پائی گئی جس سے ان مقامات پر دوبارہ توڑپھوڑ کی گئی اور ان حصوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا جس سے حکومت شدید تنقید کی زد میں بھی آئی۔
انسپکشن ٹیم کے مطابق کوریڈور کے قریب گزرنے والی سڑکوں کے سلسلے میں پہلے سے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں گئی تھی، تاہم جب مرکزی کوریڈور تیار ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ سڑکیں تنگ پڑ گئی ہیں اور اس سے ٹریفک کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض مقامات پر بس سٹیشنوں تک جانے اور سڑک عبور کرنے والوں کو تقریباً 1600 میٹر پیدل چلنا پڑے گا جس سے نہ صرف عوام مشکلات کا شکار رہیں گے بلکہ اس سے قریب سے گزرنے والی سڑکوں پر ٹریفک جام میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر مقامات پر پیدل سڑک عبور کرنے والوں کے لیے مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔
بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے کی ڈیزائننگ کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جس کے لیے ان کو تقریباً ایک ارب روپے سے زائد رقم دی گئی لیکن اس کے باوجود پراجیکٹ میں کئی نقائص سامنے آئے۔
خیال رہے کہ بی آر ٹی منصوبہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے اس پراجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ بدستور التوا کا شکار ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ 23 مارچ کو ہر صورت میں اس منصوبے کا افتتاح کریں گے لیکن حکومت اس دعوے میں بھی ناکام رہی۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی احتساب بیورو کی طرف سے تقریباً 68 ارب روپے پر مشتمل اس منصوبے کے بارے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی گئی ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر اس رپورٹ کو سیل کردیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ اس منصوبے میں مسلسل تاخیر اور اس میں سامنے آنے والے نقائص کے باعث مرکز اور صوبوں میں موجود تحریک انصاف کی حکومتوں کو میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا رہا ہے۔