تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی شرط پر فوج سے بات ہوسکتی ہے، مریم نواز

شمشاد

لائبریرین
mrm-jpeg.687734
بلی کو خواب میں چھیھڑے نظر آتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
نہیں آپی، بلکہ حقیقت بھی یہی ہے جو آپ نے لکھی ہے۔
بہت شکریہ بھیا ہمیں تو حیرت انکی دیدہ دلیری پہ ہوتی ہے ۔ہم نے ان محترمہ کو Edgware London
میں دیکھا تھا انکے وہاں رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے پاکستان آ کے انکے حلیے بدل جاتے ہیں۔۔بلکہ آج تک ہمیں اپنے بیٹے کا جملہ یاد ہے کیونکہ یہ عام شہری کی طرح گھوم رہے ہوتے ہیں تو ہماری نظر بھی نہیں پڑی اِن محترمہ پر” ارے واہ ماں!!!!آپ نے پہچانا ہی نہیں اپنے ملک کی شہزادی کو “۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
مکروہ کردار ہیں یہ پاکستانی سیاست کے۔
پاکستان کو لُوٹ کر کھا گئے ہیں اور کھا رہے ہیں اور پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔
بے شرم لوگ ہیں یہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آج سبزی خریدنے گیا اور جس چیز کی قیمت بھی معلوم کی تو زبان سے وہ جملہ نکلا جو منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لکھا ہے۔
 

Ali Baba

محفلین
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
"کچرا"
::::::::
فرمایا

"مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ عمران حکومت کی برطرفی کی شرط پر اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت ہوسکتی ہے۔ فوج سے سول حکومت کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرنے والے سول سپرمیسی کے قائل کیسے کہلائے جاسکتے ہیں ؟۔ دوسری بات یہ کہ جب فوج کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ہے تو پھر اسی فوج سے سیاسی امور پر بات چیت کے لئے تیار ہونے کا کیا جواز ؟"
عرض کیا
ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب کوئی پارک یا راستے وغیرہ میں کچرا پھیلادے تو اسی کو پکڑ کر اس سے کچرا صاف کروایا جاتا ہے۔ جمہوریت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بسا اوقات عوام غلط لوگوں کو چن لیتے ہیں جو کچرا ثابت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ ہی سڑکوں پر نکل کر اس کچرے کو "سمیٹ" لیتے ہیں۔ اب چونکہ پاکستان میں اس وقت جو کچرا پھیلا ہے وہ عوام کا پھیلایا ہوا نہیں بلکہ فوج کا پھیلایا ہوا ہے تو عوامی نمائندے اسی سے اس کا پھیلایا کچرا صاف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لھذا یہ قابل اعتراض نہیں بلکہ عین دانشمندانہ مطالبہ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ اپنا کچرا ٹھکانے لگائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اپوزیشن سیاست میں فوجی مداخلت کی قائل نہیں تو پھر اپوزیشن فوج سے بات چیت کیوں کرے گی ؟
اس کا جواب بہت سادہ مگر گہرے اثرات والا ہے۔ جس بات چیت کا ان دنوں ذکر چل رہا ہے یہ وہ بات چیت نہیں جس میں حکومتی لین دین ہوتا ہے۔ بلکہ یہ اس گرینڈ ڈائیلاگ کا ذکر ہورہا ہے جس میں ستر سالہ تجربوں کے دوران اپنے اپنے حصے کی غلطیاں تسلیم کرکے مستقبل کو آئین کی راہ پر ڈالنے کا سوچا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آئین کی خلاف ورزی صرف فوج کرتی آئی ہے۔ سول حکومتیں یعنی سیاستدان بھی اس میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس گرینڈ ڈائیلاگ کی کامیابی کی صورت مستقبل کے لئے متفقہ قومی لائحہ عمل طے پاسکتا ہے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ لہذا اس ڈائیلاگ میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ بہت بڑے فائدے کا امکان ہے۔
باجی مریم نے یہ نہیں بتایا کہ کس فو ج سے گند صاف کروانا ہے، چھ سات لاکھ فوج کو گوجرانولہ میں جمع کر کے گند صاف کروانا ہے یا آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے گند صاف کروانا ہے جن کے نام لے لے کر ابا جی گلا پھاڑ رہے ہیں، یا پنڈی کے کور کمانڈر سے گند صاف کروانا ہے یا ٹرپل ون بریگیڈ کے بریگیڈیئر سے یا پھر کوئی ریٹائرڈ کیپٹن شیپٹن ہی تسلی بخش حد تک گند صاف کرو ے گا، باجی مریم کو واضح کرنا چاہیئے تھا ناں۔
 

Ali Baba

محفلین
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ لبرل جمہوریوں کو دھوکہ دیا تھا لیکن نون لیگ ایسی پُرکار جماعت ہے کہ اس نے نہ صرف لبرل جمہوریوں کو بار بار دھوکہ دیا ہے بلکہ جہاں دیدہ، گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے سفید، چگی اور کالی داڑھیوں والے مُلائی جمہوریوں کو بھی شیشے میں اتار کر دھوکے پر دھوکہ دے دیا۔

انہی مُلائی جمہوریوں کے لیے ایک مثال: جمعے کا با برکت دن، مسجد کوفہ سا پاک صاف مقام، مقدس خطبے کا وقت، منبر پر خلیفہ راشد امیر المومنین، مولائے کائنات علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علیہ السلام، اور نمازیوں کے بیچوں بیچ ایک گروہ اُٹھ کر خطبے کے عین درمیان نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے کہ لا حکم الا اللہ۔ امیر المومنین فرماتے ہیں واللہ انہوں نے سچ کہا لیکن یہ لوگ خود جھوٹے ہیں۔ ان کے منہ سے قرآن سن سن کر بھی کسی نے ان کا یقین نہیں کیا، شیطان کے منہ میں قرآنی آیت آ بھی جائے تو شیطان مومن نہیں ہوتا۔اور بلآخر سب خوارج امیر المومنین کی تلوار سے واصل جہنم ہوئے۔ یہی حالت نون لیگ کی ہے، بیانیہ سچا ہے، لوگ جھوٹے ہیں۔بیانیہ ایک نمبر ہے، لوگ دو نمبر ہیں۔ ان کے منہ میں سچا بیانیہ آ جانے سے بھی یہ صادق ثابت نہیں ہو سکتے کہ اول درجے کے مکار اور جھوٹے ہیں، اور باجی مریم کا تازہ ترین بیان اسی بات پر دال ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ لبرل جمہوریوں کو دھوکہ دیا تھا لیکن نون لیگ ایسی پُرکار جماعت ہے کہ اس نے نہ صرف لبرل جمہوریوں کو بار بار دھوکہ دیا ہے بلکہ جہاں دیدہ، گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے سفید، چگی اور کالی داڑھیوں والے مُلائی جمہوریوں کو بھی شیشے میں اتار کر دھوکے پر دھوکہ دے دیا۔

انہی مُلائی جمہوریوں کے لیے ایک مثال: جمعے کا با برکت دن، مسجد کوفہ سا پاک صاف مقام، مقدس خطبے کا وقت، منبر پر خلیفہ راشد امیر المومنین، مولائے کائنات علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علیہ السلام، اور نمازیوں کے بیچوں بیچ ایک گروہ اُٹھ کر خطبے کے عین درمیان نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے کہ لا حکم الا اللہ۔ امیر المومنین فرماتے ہیں واللہ انہوں نے سچ کہا لیکن یہ لوگ خود جھوٹے ہیں۔ ان کے منہ سے قرآن سن سن کر بھی کسی نے ان کا یقین نہیں کیا، شیطان کے منہ میں قرآنی آیت آ بھی جائے تو شیطان مومن نہیں ہوتا۔اور بلآخر سب خوارج امیر المومنین کی تلوار سے واصل جہنم ہوئے۔ یہی حالت نون لیگ کی ہے، بیانیہ سچا ہے، لوگ جھوٹے ہیں۔بیانیہ ایک نمبر ہے، لوگ دو نمبر ہیں۔ ان کے منہ میں سچا بیانیہ آ جانے سے بھی یہ صادق ثابت نہیں ہو سکتے کہ اول درجے کے مکار اور جھوٹے ہیں، اور باجی مریم کا تازہ ترین بیان اسی بات پر دال ہے۔
یہ تو وہی بات کر دی جیسے کانگرس نے کہا کہ جناح شیعہ ہے تو محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ گاندھی کو ووٹ دے دو وہ سنی ہے۔
عمران خان مخالفوں کو تو آپ نے خوارج کہہ دیا گویا عمران خان مولا علی المرتضی کے نقش قدم پر چل رہا ہو۔
عمران خان کی انسان دوستی اور مخلوق خدا کی خدمت کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بہت شکریہ بھیا ہمیں تو حیرت سنکی دیدہ دلیری پہ ہوتی ہے ۔ہم نے ان محترمہ کو Edgware London
میں دیکھا تھا انکے وہاں رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے پاکستان آ کے انکے حلیے بدل جاتے ہیں۔۔
مکروہ کردار ہیں یہ پاکستانی سیاست کے۔
پاکستان کو لُوٹ کر کھا گئے ہیں اور کھا رہے ہیں اور پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔
بے شرم لوگ ہیں یہ۔
چور اچکے انقلاب نہیں لا سکتے۔۔۔
ایسا لگتا ہےاقتدار کی ہوس میں اس کا بھی کام لگ جائے گا۔۔۔
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ لبرل جمہوریوں کو دھوکہ دیا تھا لیکن نون لیگ ایسی پُرکار جماعت ہے کہ اس نے نہ صرف لبرل جمہوریوں کو بار بار دھوکہ دیا ہے بلکہ جہاں دیدہ، گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے سفید، چگی اور کالی داڑھیوں والے مُلائی جمہوریوں کو بھی شیشے میں اتار کر دھوکے پر دھوکہ دے دیا۔

انہی مُلائی جمہوریوں کے لیے ایک مثال: جمعے کا با برکت دن، مسجد کوفہ سا پاک صاف مقام، مقدس خطبے کا وقت، منبر پر خلیفہ راشد امیر المومنین، مولائے کائنات علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علیہ السلام، اور نمازیوں کے بیچوں بیچ ایک گروہ اُٹھ کر خطبے کے عین درمیان نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے کہ لا حکم الا اللہ۔ امیر المومنین فرماتے ہیں واللہ انہوں نے سچ کہا لیکن یہ لوگ خود جھوٹے ہیں۔ ان کے منہ سے قرآن سن سن کر بھی کسی نے ان کا یقین نہیں کیا، شیطان کے منہ میں قرآنی آیت آ بھی جائے تو شیطان مومن نہیں ہوتا۔اور بلآخر سب خوارج امیر المومنین کی تلوار سے واصل جہنم ہوئے۔ یہی حالت نون لیگ کی ہے، بیانیہ سچا ہے، لوگ جھوٹے ہیں۔بیانیہ ایک نمبر ہے، لوگ دو نمبر ہیں۔ ان کے منہ میں سچا بیانیہ آ جانے سے بھی یہ صادق ثابت نہیں ہو سکتے کہ اول درجے کے مکار اور جھوٹے ہیں، اور باجی مریم کا تازہ ترین بیان اسی بات پر دال ہے۔
آپ سب بالکل درست کہہ رہے۔ مریم نواز کے اس بیان کے بعد میں نے کل مختلف ٹالک شوز میں ن لیگی رہنماؤں کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی۔
سب سے اینکروں نے یہی پوچھا کہ فوج سے آپ نے جو بات کرنی ہے وہ اب بھی تو ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت کو گھر بھیجنے والی شرط کیوں رکھی ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی ایک رہنما بھی ٹھیک سے نہیں دے سکا تھا۔ بس آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔

صرف شاہد خاقان عباسی نے کچھ ہنٹ دئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوج اس حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دے تاکہ ہم پارلیمان میں ان کے اتحادی خرید کر “لیگل” طریقہ سے حکومت گرا دیں۔ جس کے بعد فوج سے اگلے الیکشن سے متعلق بات چیت ہوگی :)
مطلب اصل مقصد اس حکومت کو گھر بھیج کر حصول اقتدار ہی ہے۔ نہ کہ جمہوریت پسندی یا کوئی عوامی جمہوری انقلاب۔ فوج اگر اس کرپٹ سازشی ٹولے کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے اور ہر طرح سے بلیک میل کئے جانے کے باوجود ان کی بات نہیں مان رہی تو اس کے پیچھے کوئی اہم وجہ تو ہوگی۔
 
آپ سب بالکل درست کہہ رہے۔ مریم نواز کے اس بیان کے بعد میں نے کل مختلف ٹالک شوز میں ن لیگی رہنماؤں کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی۔
سب سے اینکروں نے یہی پوچھا کہ فوج سے آپ نے جو بات کرنی ہے وہ اب بھی تو ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت کو گھر بھیجنے والی شرط کیوں رکھی ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی ایک رہنما بھی ٹھیک سے نہیں دے سکا تھا۔ بس آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔

صرف شاہد خاقان عباسی نے کچھ ہنٹ دئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوج اس حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دے تاکہ ہم پارلیمان میں ان کے اتحادی خرید کر “لیگل” طریقہ سے حکومت گرا دیں۔ جس کے بعد فوج سے اگلے الیکشن سے متعلق بات چیت ہوگی :)
مطلب اصل مقصد اس حکومت کو گھر بھیج کر حصول اقتدار ہی ہے۔ نہ کہ جمہوریت پسندی یا کوئی عوامی جمہوری انقلاب۔ فوج اگر اس کرپٹ سازشی ٹولے کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے اور ہر طرح سے بلیک میل کئے جانے کے باوجود ان کی بات نہیں مان رہی تو اس کے پیچھے کوئی اہم وجہ تو ہوگی۔
کٹھ پتلی سیلیکٹڈ کو تو گھر ہی بھیجنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کٹھ پتلی سیلیکٹڈ کو تو گھر ہی بھیجنا چاہیے۔
تو یہ کام بھی فوج ہی کیوں کرے؟ ملک میں اگر فوج مخالف جمہوری انقلابیوں کی بڑی تعداد موجود ہے تو صرف عوامی جلسوں، دھرنوں اور احتجاجوں سے اس سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجا سکتا ہے۔ لیکن اگر ملک کی ۱۱ بڑی اپوزیشن جماعتیں مل کر بھی حکومت کو گرانے کیلئے فوجی حمایت کی محتاج ہیں تو پھر ان کو اپنی نام نہاد جمہوری انقلابی تحریک ختم کر دینی چاہیے۔ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔
 

Ali Baba

محفلین
عمران خان مخالفوں کو تو آپ نے خوارج کہہ دیا گویا عمران خان مولا علی المرتضی کے نقش قدم پر چل رہا ہو۔
آپ سلیم الفہم شخص جان پڑتے ہیں، میرا لکھا دوبارہ پڑھیے، میں نے شخصیات کا تقابل نہیں کیا تھا نعوذ باللہ۔ فقط اسلامی تاریخ سے ایک مثال دی تھی کہ ضروری نہیں کہ جو شخص سچ بات کہہ رہا ہو وہ خود بھی سچا ہو، جیسے خوارج بات سچ کہتے تھے لیکن خود جھوٹے تھے، جیسے نواز شریف بات سچی کہتا ہے لیکن خود مکار ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی شرط پر فوج سے بات ہوسکتی ہے، مریم نواز


اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے بات چیت پر غور کیا جاتا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔:daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming:

دوران انٹرویو انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت (پاکستان مسلم لیگ ن) فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہے:daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming::daydreaming:
لیکن شرط یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔:laughing3::laughing3::laughing3::laughing3::laughing3::laughing3::laughing3:

لیکن ان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
نواز شریف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کا آغاز کیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔:timeout:
:timeout::timeout::timeout::timeout::timeout::timeout::timeout::timeout:

مریم نواز نے کہا کہ فوج میرا ادارہ ہے۔:openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::openmouthed::jhooti::jhooti::jhooti:

اس میں رہ کر بات ہوگی اور یہ بات اب چھپ چھپا کر نہیں ہوگی بلکہ عوام کے سامنے ہوگی۔:yawn::yawn::yawn::yawn::yawn::yawn::yawn::yawn:

نائب صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ میں ادارے کے خلاف نہیں ہوں:shameonyou::shameonyou::shameonyou::shameonyou::shameonyou::shameonyou::shameonyou::shameonyou:

دوران انٹریو ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ تمام ’اسٹیک ہولڈرز‘ سے بات کرسکتی ہیں،
’ڈائیلاگ تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوں گا اور یہ ہورہا ہے جبکہ یہ اتنا اچھا ہورہا ہے کہ جو بھی قوتیں ہیں وہ اور جعلی حکومت گھبرائے ہوئے ہیں‘:talktothehand::talktothehand::talktothehand::talktothehand::talktothehand::talktothehand::talktothehand::talktothehand:

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے ردعمل دینا ہے اور اسی میں وہ ایسی غلطیاں کر رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جائے۔ :silly::silly::silly::silly::silly::silly::silly::silly::silly:

ساتھ ہی مریم نواز نے ملک کے عوام کو سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر قرار دیا۔:laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing:

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست بند گلی میں نہیں جارہی۔:praying::praying::praying::praying::praying::praying:

گوجرانوالہ ہو، کراچی، کوئٹہ یا گلگت بلتستان ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے۔:thinking::thinking::thinking::thinking:

انہوں نے کہا کہ یہ بیانیہ ہے ’ووٹ کو عزت دو اور ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ‘۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:


:atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend:



بلاتبصرہ
:grin::grin::grin::grin::grin::grin::grin::grin::biggrin::biggrin::biggrin::biggrin::biggrin::biggrin::biggrin:
آزادی اور غلامی، قید اور رہائی
آج کا حسن نثار کا بہترین کالم آپ سے اس لئیے شئیر کیا کہ آپ بھی مجھے اپنی طرح لگتی ہیں جنکی سوچ اپنی اپنی سی لگتی ہے۔۔۔

اتنے رنگ تو گرگٹ بھی نہیں بدلتا


ن لیگی لیڈر شپ مسلسل باندر ٹپکیاں لگا رہی ہے، قلابازیاں کھا رہی ہے اور خوش قسمتی اس کی یہ ہے کہ ہماری اجتماعی یادداشت مکمل طور پر فالج زدہ ہے ورنہ اگر ان کے تضادات جمع کئے جائیں تو انہیں قلم بند کرنے کیلئے والیومز کی ضرورت پڑے گی اور عنوان ہو گا ’’جھوٹ در جھوٹ، لوٹ در لوٹ ’’۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اس ’’کلرکانہ ایکسرسائیز’’ کیلئے دو چار ریسرچرز کی خدمات حاصل کروں اور پھر ان کا یہ ناقابل تردید کچا چٹھا اپنے ’’غیور اور باشعور‘‘ عوام کی خدمت میں پیش کر دوں اور پھر دیکھوں کہ ہم کتنی ’’زندہ قوم ‘‘ ہیں کیونکہ زندہ قوموں کی یادداشتیں بھی زندہ ہوتی ہیں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ ساری محنت غارت اور اکارت جائے گی۔نہ کسی کی آنکھ نم ہو گی، نہ کسی کے کان پہ جوں رینگے گی، نہ کسی کے ٹھنڈے خون میں کوئی ابال آئے گا کہ زوال آتا ہے تو پورے کمال میں آتا ہے۔

ایسا کیا ہے جو ہمارے ’’اجتماعی بدن‘‘ کے اندر موت کے گھاٹ اتر چکا اور وہ کس قسم، شدت کا حادثہ، سانحہ ہو گا جو ہمیں عالم بے ہوشی سے ہوش میں لاسکے گا؟ شاید کوئی نہیں کیونکہ جو سائیں لوک’’ سقوط مشرقی پاکستان‘‘ پی گئے، وہ سمندر بھی پی جائیں تو پیاسے کے پیاسے ہی رہیں گے۔قبیلے، قومیں بدترین حالت میں بھی ہوا میں تحلیل تو نہیں ہو جاتیں۔ میں نے امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں لاتعداد ریڈانڈینز، مقامی لوگ دیکھے ہیں۔ چشم بددور جنموں سے زندہ ہیں اور نجانے کتنے جنموں تک زندگی کے جہنم میں جیتے جلتے رہیں گے۔ یہ کھاتے پیتے بھی ہیں، ہنستے کھیلتے بھی ہیں۔مخصوص قسم کے کاروبار دھندے بھی کرتے ہیں، شادیاں بھی کرتے بچے بھی جنتے ہیں یعنی ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے ‘‘ لیکن یہ ٹیپو سلطان کے فلسفہ کی ضد ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ کبھی کبھی میں بھی خود کو رینگتے سسکتے ریڈ انڈینز سے متفق پاتا ہوں کہ دفعہ کرو شیر کی ایسی ایک روزہ زندگی کو جس میں نہ مزہ نہ سواد۔ ایسے احمق جذباتی شیر سے تو وہ گیدڑ کہیں بھلا جو ’’زمینی حقائق‘‘ پر گہری نظر رکھتا اور کئی سال زندہ رہتا ہے۔ عزت، حرمت، حمیت کی ایسی تیسی، چمچہ گیری کرو اور لذیذ دیگوں کے اندر ’’محوگردش‘‘ رہو۔

قارئین !

معاف کیجئے بات جعلی شیروں سے شروع ہو کر اصلی شیر یعنی شیر میسور سے ہوتی ہوئی گیدڑوں تک پہنچ گئی تو آپ کے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتا ہوں ۔تقریباً تین چار سال پہلے ایک پاکستانی نژاد امریکن سرجن کا فون آیا۔ ملنا چاہتے تھے، میں نے کہا ’’موسٹ ویلکم‘‘۔ طے شدہ وقت پر تشریف لائے۔ جنرل گپ شپ کے دوران آپ نے مجھ سے کاغذ قلم مانگا جو میں نے فوراً پیش کر دیا کیونکہ بیٹھے ہی اسٹڈی میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی دماغ کا ایک سکیچ سا بنایا اور سمجھایا کہ ’’ہیومن برین‘‘ کا کون سا حصہ کس شے کے ساتھ ’’ڈیل ‘‘کرتا ہے۔ ایک حصہ پر قلم رکھ کر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’حسن صاحب! انسانی دماغ کا یہ حصہ دلیل، ریزن، لاجک وغیرہ کے ساتھ ڈیل کرتا ہے اور اگر دو تین نسلوں تک یہ حصہ استعمال میں نہ آئے تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مر جاتا ہے، ناکارہ ہو جاتا ہے اور پھر اس قسم کے انسان نہ کوئی عقلی بات کر سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جانوروں سے ملتے جلتے مخصوص جبلتوں کے اسیر ہوتے ہیں ورنہ دلت، ملیچھ، شودر ہزاروں سال بعد بھی اپنی موجودہ حیثیت پر ’’قناعت‘‘ نہ کرتے اور ہندوستان کے برہمنی سماج کی دھجیاں بکھیر دیتے۔ شودر ہوں یا ریڈ انڈین، کہانی ایسوں کی ایسی ہی ہے۔

یہاں بندر پر کیا گیا اک سائنسی تجربہ یاد آیا۔ بندر کو پنجرے میں بند کرکے ہلکے پھلکے الیکٹرک شاکس دیئے گئے تو بندر نے بری طرح اچھلنا کودنا پھڑکنا شروع کر دیا اور رہائی کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا لیکن پنجرے کا دروازہ بند تھا۔ ’’تجربہ ‘‘ جاری رہا تو بیچارے بندر نے تھک ہار کر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تو کچھ دیر بعد بجلی کے جھٹکوں کی شدت میں تھوڑا سا اضافہ کر دیا گیا۔ تھکے ہوئے بندر نے ایک بار پھر ’’آزادی‘‘ کیلئے جدوجہد شروع کر دی لیکن حسب معمول نتیجہ صفر۔ بندر بے دم ہو کر لیٹا رہا تو تجربہ کرنے والوں نے اسے ریسٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اگلے روز اگلی ٹیم نے یہی عمل دہرایا تو بندر نے بھی وہی احتجاجی عمل دہرایا تو نتیجہ پھر صفر کا صفر۔ اس سے اگلے روز تیسری قوت یعنی تیسری ٹیم آئی اور اس نے بھی پہلی دو ٹیموں والی کارروائی جاری رکھی۔ بندر پھر پھدکا، تڑپا، مچلا لیکن نتیجہ پھر وہی۔مختصراً یہ کہ تجربہ کامیابی سے جاری رہا تو جب تجربہ کرنے والے ایکسپرٹس نے محسوس کیا کہ بندر کی قوت مزاحمت مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے اور بندر تقریباً ’’سن‘‘ ہو کر حالات حاضرہ سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ہتھیار پھینک چکا ہے اور جھٹکوں کا عادی ہو چکا ہے تو ’’سائنس دانوں‘‘نے پنجرے کا دروزہ کھول کر الیکٹرک شاکس دینے شروع کئے تو بندر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر اطمینان سے بیٹھا ’’ریلیکس‘‘ کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی ختم ہو چکی تھی کہ ’’تبدیلی ‘‘ آ چکی تھی ....دروازہ کھل چکا تھا۔

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

لیکن زندہ تو ریڈانڈینز بھی ہیں اور شودر بندر بھی کہ کبھی کبھی آزادی اور غلامی، قید اور رہائی میں فرق ختم ہو جاتا ہے، تمیز کرنے والی یاداشت ہی مر کھپ جاتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی یہ خبر نہیں پڑھی کہ طویل قید کے بعد رہائی پانے والے لاوارث قیدی نے رہا ہونے سے انکار کر دیا۔

آزادی اور غلامی، قید اور رہائی
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
آزادی اور غلامی، قید اور رہائی
آج کا حسن نثار کا بہترین کالم آپ سے اس لئیے شئیر کیا کہ آپ بھی مجھے اپنی طرح لگتی ہیں جنکی سوچ اپنی اپنی سی لگتی ہے۔۔۔

اتنے رنگ تو گرگٹ بھی نہیں بدلتا


ن لیگی لیڈر شپ مسلسل باندر ٹپکیاں لگا رہی ہے، قلابازیاں کھا رہی ہے اور خوش قسمتی اس کی یہ ہے کہ ہماری اجتماعی یادداشت مکمل طور پر فالج زدہ ہے ورنہ اگر ان کے تضادات جمع کئے جائیں تو انہیں قلم بند کرنے کیلئے والیومز کی ضرورت پڑے گی اور عنوان ہو گا ’’جھوٹ در جھوٹ، لوٹ در لوٹ ’’۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اس ’’کلرکانہ ایکسرسائیز’’ کیلئے دو چار ریسرچرز کی خدمات حاصل کروں اور پھر ان کا یہ ناقابل تردید کچا چٹھا اپنے ’’غیور اور باشعور‘‘ عوام کی خدمت میں پیش کر دوں اور پھر دیکھوں کہ ہم کتنی ’’زندہ قوم ‘‘ ہیں کیونکہ زندہ قوموں کی یادداشتیں بھی زندہ ہوتی ہیں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ ساری محنت غارت اور اکارت جائے گی۔نہ کسی کی آنکھ نم ہو گی، نہ کسی کے کان پہ جوں رینگے گی، نہ کسی کے ٹھنڈے خون میں کوئی ابال آئے گا کہ زوال آتا ہے تو پورے کمال میں آتا ہے۔

ایسا کیا ہے جو ہمارے ’’اجتماعی بدن‘‘ کے اندر موت کے گھاٹ اتر چکا اور وہ کس قسم، شدت کا حادثہ، سانحہ ہو گا جو ہمیں عالم بے ہوشی سے ہوش میں لاسکے گا؟ شاید کوئی نہیں کیونکہ جو سائیں لوک’’ سقوط مشرقی پاکستان‘‘ پی گئے، وہ سمندر بھی پی جائیں تو پیاسے کے پیاسے ہی رہیں گے۔قبیلے، قومیں بدترین حالت میں بھی ہوا میں تحلیل تو نہیں ہو جاتیں۔ میں نے امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں لاتعداد ریڈانڈینز، مقامی لوگ دیکھے ہیں۔ چشم بددور جنموں سے زندہ ہیں اور نجانے کتنے جنموں تک زندگی کے جہنم میں جیتے جلتے رہیں گے۔ یہ کھاتے پیتے بھی ہیں، ہنستے کھیلتے بھی ہیں۔مخصوص قسم کے کاروبار دھندے بھی کرتے ہیں، شادیاں بھی کرتے بچے بھی جنتے ہیں یعنی ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے ‘‘ لیکن یہ ٹیپو سلطان کے فلسفہ کی ضد ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ کبھی کبھی میں بھی خود کو رینگتے سسکتے ریڈ انڈینز سے متفق پاتا ہوں کہ دفعہ کرو شیر کی ایسی ایک روزہ زندگی کو جس میں نہ مزہ نہ سواد۔ ایسے احمق جذباتی شیر سے تو وہ گیدڑ کہیں بھلا جو ’’زمینی حقائق‘‘ پر گہری نظر رکھتا اور کئی سال زندہ رہتا ہے۔ عزت، حرمت، حمیت کی ایسی تیسی، چمچہ گیری کرو اور لذیذ دیگوں کے اندر ’’محوگردش‘‘ رہو۔

قارئین !

معاف کیجئے بات جعلی شیروں سے شروع ہو کر اصلی شیر یعنی شیر میسور سے ہوتی ہوئی گیدڑوں تک پہنچ گئی تو آپ کے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتا ہوں ۔تقریباً تین چار سال پہلے ایک پاکستانی نژاد امریکن سرجن کا فون آیا۔ ملنا چاہتے تھے، میں نے کہا ’’موسٹ ویلکم‘‘۔ طے شدہ وقت پر تشریف لائے۔ جنرل گپ شپ کے دوران آپ نے مجھ سے کاغذ قلم مانگا جو میں نے فوراً پیش کر دیا کیونکہ بیٹھے ہی اسٹڈی میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی دماغ کا ایک سکیچ سا بنایا اور سمجھایا کہ ’’ہیومن برین‘‘ کا کون سا حصہ کس شے کے ساتھ ’’ڈیل ‘‘کرتا ہے۔ ایک حصہ پر قلم رکھ کر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’حسن صاحب! انسانی دماغ کا یہ حصہ دلیل، ریزن، لاجک وغیرہ کے ساتھ ڈیل کرتا ہے اور اگر دو تین نسلوں تک یہ حصہ استعمال میں نہ آئے تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مر جاتا ہے، ناکارہ ہو جاتا ہے اور پھر اس قسم کے انسان نہ کوئی عقلی بات کر سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جانوروں سے ملتے جلتے مخصوص جبلتوں کے اسیر ہوتے ہیں ورنہ دلت، ملیچھ، شودر ہزاروں سال بعد بھی اپنی موجودہ حیثیت پر ’’قناعت‘‘ نہ کرتے اور ہندوستان کے برہمنی سماج کی دھجیاں بکھیر دیتے۔ شودر ہوں یا ریڈ انڈین، کہانی ایسوں کی ایسی ہی ہے۔

یہاں بندر پر کیا گیا اک سائنسی تجربہ یاد آیا۔ بندر کو پنجرے میں بند کرکے ہلکے پھلکے الیکٹرک شاکس دیئے گئے تو بندر نے بری طرح اچھلنا کودنا پھڑکنا شروع کر دیا اور رہائی کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا لیکن پنجرے کا دروازہ بند تھا۔ ’’تجربہ ‘‘ جاری رہا تو بیچارے بندر نے تھک ہار کر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تو کچھ دیر بعد بجلی کے جھٹکوں کی شدت میں تھوڑا سا اضافہ کر دیا گیا۔ تھکے ہوئے بندر نے ایک بار پھر ’’آزادی‘‘ کیلئے جدوجہد شروع کر دی لیکن حسب معمول نتیجہ صفر۔ بندر بے دم ہو کر لیٹا رہا تو تجربہ کرنے والوں نے اسے ریسٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اگلے روز اگلی ٹیم نے یہی عمل دہرایا تو بندر نے بھی وہی احتجاجی عمل دہرایا تو نتیجہ پھر صفر کا صفر۔ اس سے اگلے روز تیسری قوت یعنی تیسری ٹیم آئی اور اس نے بھی پہلی دو ٹیموں والی کارروائی جاری رکھی۔ بندر پھر پھدکا، تڑپا، مچلا لیکن نتیجہ پھر وہی۔مختصراً یہ کہ تجربہ کامیابی سے جاری رہا تو جب تجربہ کرنے والے ایکسپرٹس نے محسوس کیا کہ بندر کی قوت مزاحمت مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے اور بندر تقریباً ’’سن‘‘ ہو کر حالات حاضرہ سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ہتھیار پھینک چکا ہے اور جھٹکوں کا عادی ہو چکا ہے تو ’’سائنس دانوں‘‘نے پنجرے کا دروزہ کھول کر الیکٹرک شاکس دینے شروع کئے تو بندر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر اطمینان سے بیٹھا ’’ریلیکس‘‘ کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی ختم ہو چکی تھی کہ ’’تبدیلی ‘‘ آ چکی تھی ....دروازہ کھل چکا تھا۔

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

لیکن زندہ تو ریڈانڈینز بھی ہیں اور شودر بندر بھی کہ کبھی کبھی آزادی اور غلامی، قید اور رہائی میں فرق ختم ہو جاتا ہے، تمیز کرنے والی یاداشت ہی مر کھپ جاتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی یہ خبر نہیں پڑھی کہ طویل قید کے بعد رہائی پانے والے لاوارث قیدی نے رہا ہونے سے انکار کر دیا۔

آزادی اور غلامی، قید اور رہائی
 
Top