ساقی۔
محفلین
السلام علیکم
حاضرین میں آج صبح تلاوت قران پاک بمعہ اردو ترجمعہ کی تلاش میں تھا کہ سرچ کے دوران مجھے مندرجہ ذیل تحریر ملی۔ مجھے بہت نافع محسوس ہوئی سوچا آپ دوستوں کے مطالعے کے لیئے بھی یہاں پوسٹ کر دوں۔
آپ اسے پڑھیں اور اظہار خیال کریں۔
شکریہ
حاضرین میں آج صبح تلاوت قران پاک بمعہ اردو ترجمعہ کی تلاش میں تھا کہ سرچ کے دوران مجھے مندرجہ ذیل تحریر ملی۔ مجھے بہت نافع محسوس ہوئی سوچا آپ دوستوں کے مطالعے کے لیئے بھی یہاں پوسٹ کر دوں۔
آپ اسے پڑھیں اور اظہار خیال کریں۔
شکریہ
سیّد قطب شھید کی کتاب معالم فی الطریق سے اقتباسات
تحریک جہاد کے مراحل
امام ابن قیّم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے:---- بعثت سے لیکر وصال تک کفار و منافقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیسا رہا؟-------- اس باب میں امام موصوف نے درحقیقت اسلامی جہاد کی تحریک کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپ (ص) پر جو وحی نازل فرمائی، وہ یہ تھی:" اقرأ باسم ربک الذی خلق۔۔۔" یہ آغازِنبوت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) کو حکم دیا کہ آپ(ص) اس وحی کو دل میں پڑھا کریں۔ دوسروں تک اس کی تبلیغ کا حکم نہیں دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا کہ :" یا ایہا المدثر، قم فانذر" اسی طرح "اقرأ" کی وحی سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) کو نبوت عطا فرمائی اور "یاایھا المدثر" کے ارشاد سے اپ (ص) کو رسالت کا منصب دیا۔ بعد میں آپ (ص) کو حکم دیا کہ آپ(ص) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ چنانچہ آنجناب (ص) نے پہلے اپنی قوم کو ڈرایا، پھر آس پاس کے عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر آگے بڑھ کر تمام عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر بآلاخر آپ نے تمام اہلِ جہاں کو ڈرایا۔ چنانچہ آپ (ص) اپنی بعثت کے بعد تقریباً 13 سال تک دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصہ میں نہ جنگ کی اور نہ جزیہ لیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں اور عفو و درگزر سے کام کو شعار بنائیں۔ پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا۔ اور قتال کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر یہ حکم ملا کہ جو لوگ آپ(ص) سے جنگ کریں آپ (ص) اُن سے جنگ کریں۔ اور ان لوگوں سے ہاتھ روک لیں جو الگ تھلگ رہے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ کے لیے نہیں نکلے۔ بعد ازاں یہ حکم دیا کہ مشرکین سے جنگ کریں، یہاں تک کہ دین پُورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر حکم جہاد انے کے بعد کفار کی تین قسمیں ہوگئیں: ایک اہل صلح، دوسرے اہل حرب، اور تیسرے اہل ذمہ۔ جن کفّار سے آپ (ص) کا معاہدہ اور صلح تھی۔ حکم ہوا کہ ان کا معاہدہ پورا کریں۔ اور جب تک وہ خود عہد پر استوار رہیں اُن کے معاہدے کا ایفأ کیا جائے۔ اور اگر ان سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اُن کا عہد اُن کے منہ پر دے ماریں، اور اس وقت تک ان کے خلاف تلوار نہ اُٹھائیں جب تک نقصِ عہدکی ان کو اطلاع نہ کردیں۔ اور حکم ہوا کہ عہد شکنی کرنے والوں سے جنگ کی جائے-------------------------------- اور جب سورہ برأت نازل ہوئی تو اس سورہ میں تینوں قسم کے احکام بیان کیے گیے۔ اور یہ واضح کردیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ خدا اور رسول کے دشمن ہیں اُن سے جنگ کریں یہاں تک کہ وہ جزیہ دینا قبول کرلیں، یا اسلام میں داخل ہوجائیں۔ کفار اور منافقین کے بارے میں اس سورہ میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے، اور اُن سے سخت برتاؤ کیا جائے۔ چنانچہ آپ (ص) نے کفار کے ساتھ شمشیر و سناں سے جہاد کیا۔ اور منافقین کے ساتھ دلیل اور زبان سے۔ اسی سورۃ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام معاہدوں سے اعلان برآت کردیں، اور ان کے معاہدے ان کے منہ پر ماردے ماریں---------- اس سلسلہ میں اہل معاہدہ کی تین قسمیں قرار دی گئیں: ایک وہ قسم جس سے قتال کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود عہد شکنی کی تھی۔ اور عہد کی پانبدی پر قائم نہ رہے تھے۔ آپ(ص) نے ان سے جنگ کی اور ظفریاب ہوئے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے ساتھ آپ(ص) کے معاہدے ایک مدت تک کے لیے تھے۔ اور انہوں نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی، اور نہ ہی آپ (ص) کے خلاف کسی کی مدد دی۔ ان کے بارے میں اللہ نے حکم دیا کہ ان کے معاہدوں کی مدت پوری کریں۔ تیسری قسم کے لوگ ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ آپ(ص) کا کوئی معاہدہ نہ تھا اور ن ہ آپ (ص) سے برسرپیکار ہوئے، یاایسے لوگ تھے جن کے ساتھ غیر معینہ عرصہ کے لیے آپ(ص) کا معاہدہ تھا۔ تو ایسے سب لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے، اور جب یہ مہلت ختم ہوجائے تو ان سے قتال کیا جائے----------- چنانچہ عہد شکنی کرنے والوں کو قتل کیا گیا، اور جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا یا جن کے ساتھ غیر محدود مدت تک کے لیے معاہدہ تھا انہیں چار ماہ کی مدت دی گئی۔ اور ایفائے معاہدہ کرنے والوں کو مدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح تمام لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ اور عرصہ مہلت کے خاتمہ تک وہ کفر پر قائم نہ رہے۔ اہل ذمہ پر جزیہ عائد کردیا گیا۔------ الغرض سورہ برأت کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ آپ(ص) کے برتاؤ نے مستقل طور پر تین شکلیں اختیار کرلیں۔ محاربین، اہل عہد، اور اہل ذمہ۔ اہل عہد بھی بآلاخر اسلام میں داخل ہوگئے، اور صرف دو قسم لے لوگ رہ گئے: محاربین اور اہل ذمہ۔ محاربین آپ(ص) سے خائف رہتے تھے۔ اس طرح تمام اہل زمین تین شکلوں میں آپ(ص) کے سامنے اگئے: ایک جو مسلمان جو آپ(ص) پر ایمان لائے، دوسرے صلح جُوجن کو آپ(ص) کی طرف سے امان ملی، اور تیسرے خائفین جو برسرِجنگ رہے۔ رہا منافقین کے معاملہ میں آپ(ص) کا اسوہ، تو آپ(ص) کو حکم دیا گیا کہ آپ(ص) اُن کے ظاہر کو قبول کریں اور اُن کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑدیں اور علم اور دلیل سے اُن کے ساتھ جہاد کریں۔ اُن سے رُوکشی کریں اور شدّت کا برتاؤ کریں۔ اور قول بلیغ کے ساتھ ان کے دلوں پر اثر ڈالیں ان کا جنازہ پڑھنے سے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے آپ(ص) کو منع کردیا گیا۔ اور آپ(ص) کو بتادیا گیا کہ اگر آپ(ص) ان کے لیے مغفرت بھی طلب کریں گے تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا------------ یہ ہے آپ(ص) کا اسوہ کافروں اور منافق دشمنوں کے بارے میں"
اس مضمون میں جہاں جہاد اسلامی کے تمام مراحل کی بڑی عمدگی سے تلخیص کی گئی ہے۔ اس تلخیص میں دین حق کے تحریکی نطام کے امتیازی اور دُوررس اوصاف کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کا بغائر نظر مطالعہ کیا جائے۔ لیکن ہم یہاں چند مُجمل اشارات ہی سے کام لے سکتے ہیں:
مزید پڑھیں