تخلیق کائنات کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں : اسٹیفن ہاکنگ

محمد سعد

محفلین
جہاں تک سورہ یونس اور اس موضوع پر دوسری آیات کا تعلق ہے تو صاحب۔۔۔وہاں بات شرک اور مشرکانہ اعمال پر ہورہی ہے۔
یعنی اگر کوئی خدا کی بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے اور ان باطل خیالات پر اپنا مذہب اور مستقل عقیدہ قائم کرلے اور اس کا پجاری بن جائے تو وہ تو یقناً سَوَاء السبیل سے بھٹک گیا۔
مجھے نہیں لگتا کہ اگر بات صرف شرک تک محدود ہوتی تو اللہ خاص طور پر "بہتان باندھنے" کا بھی ساتھ ذکر کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بھی آیت غیر ضروری نہیں رکھی۔ ان آیات میں، میری سمجھ کے مطابق، اللہ تعالیٰ شرک کو ناپسند کرنے کی ایک وجہ بتاتا ہے یعنی شرک بھی اللہ پر بہتان ہے۔


جہاں تک سوال گندم اور جواب چنا والے نکتے کی بات ہے، تو آپ کو یاد دلا دوں کہ آپ نے طارق اقبال صاحب کی کس بات کے جواب میں "سوچنا حرام ہے" والا جملہ کسا تھا۔
ہاں قرآن مجید میں کچھ آیات متشابھات ہیں کہ جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی کھوج میں نہ پڑو اور سلف صالحین کا یہی عقید ہ ہے کہ ان آیات کی تشریح میں اپنی عقل استعمال نہ کریں اور جس طرح ان آیات میں فریایا گیا ہے بس اس پر ایمان رکھیں۔ جیسے اللہ تعالی کے بارے میں قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ہاتھ دو ہیں۔ اور دنوں دائیں ہاتھ ہیں۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں ان پر بس اتنا ہی ایمان رکھنا چاہیے۔ ان کی کیفیت کے بارے میں قرآن وحدیث خاموش ہیں توہمیں بھی خاموش ایمان رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر آپ قرآن کی آیات کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی تشریح کو قبول نہ کریں گے تو خود بھی گمراہ ہون گے اور دوسروں کے بھی گمراہ کریں گے۔
اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق جو نکات ہیں، ان کے متعلق میں نے مزید وضاحت کی تھی کہ "اللہ تعالیٰ کا چہرہ کیسا ہے" جیسی باتوں، جن کا تعلق اللہ کی ذات کی کیفیات سے ہے، پر اپنی طرف سے تصورات قائم کرنا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ باقی کائنات پر آپ بے شک غور کریں، خالق کی تخلیق کو دیکھ کر اس کی لا محدود طاقت و حکمت کے بارے میں سوچیں۔ کسی نے روکا ہے؟
پہلے آپ نے اس نکتے سے کچھ اس انداز میں اختلاف کیا جس سے خود بخود یہ تاثر قائم ہو گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں من گھڑت تصورات پالنے کے حامی ہیں۔
اب آپ کہتے ہیں کہ آپ خالق کی تخلیق پر غور و فکر کے ذریعے خالق تک پہنچنے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی کم و بیش وہی بات جو میں نے کی۔
ارے بابا۔۔۔خالق کو پہچاننے کا ایک طریقہ اس کی تخلیق پر غور کرنا ہے۔
ایک پتھر ، ایک پتہ ، ایک چونٹی کی حقیقت پر غور کرنے بیٹھیں تو وہ بھی آپ کو لامحالہ خالق تک ہی لے جائے گی۔
فکر شرط ہے!
اگر یہی آپ کا مؤقف تھا تو خواہ مخواہ اتنا رولا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا میں نے اس نکتے کی مخالفت کی تھی یا طارق اقبال صاحب والے مراسلے، جس کے بعد یہ سارا سلسلہ شروع ہوا، میں اس کی مخالفت کی گئی تھی؟
 

انتہا

محفلین
[AYAH]كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَهِمْ فَرِحُوْنَ[/AYAH]
(المومنون:53)
ترجمہ: ہر فرقہ جو ان کے پاس ہے اس پر ریجھ رہے ہیں۔
یعنی ہر ایک یہی سمجھ رہا ہے کہ ہم ہی حق پر ہیں اور ہماری ہی راہ سیدھی ہے۔
 

عثمان

محفلین
مجھے نہیں لگتا کہ اگر بات صرف شرک تک محدود ہوتی تو اللہ خاص طور پر "بہتان باندھنے" کا بھی ساتھ ذکر کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بھی آیت غیر ضروری نہیں رکھی۔ ان آیات میں، میری سمجھ کے مطابق، اللہ تعالیٰ شرک کو ناپسند کرنے کی ایک وجہ بتاتا ہے یعنی شرک بھی اللہ پر بہتان ہے۔
بھائی جی۔۔۔
شرک اللہ پر بہتان ہی تو ہے۔
قرآن کی آیات کو موضوع اور پورے سیاق و سباق سے پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ نہیں کہ ایک آیت نکالی اور معنی پہنا دیے۔
خدا جانے کہ آپ الفاظ سے کھیلنا چا رہے ہیں کہ میری بات سمجھ نہیں پا رہے۔
میں اپنے تمام تر مراسلات اور اس میں اپنائے گئے موقف جو درحقیت ایک ہی موقف ہے ۔۔۔ اس پرقائم ہوں۔
غالباً میرے اور آپ کے درمیان رابطے کا کچھ فقدان ہے۔
اللہ ہم دونوں کی عقل و فہم میں اضافہ فرمائے۔ آمین!
دھاگے سے اجازت چاہوں گا۔
 

محمد سعد

محفلین
بھائی جی۔۔۔
شرک اللہ پر بہتان ہی تو ہے۔
قرآن کی آیات کو موضوع اور پورے سیاق و سباق سے پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ نہیں کہ ایک آیت نکالی اور معنی پہنا دیے۔
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر شرک، بحیثیت اللہ پر بہتان، اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے تو اس کی ذات کے ساتھ منسوب کیے جانے والے دیگر جھوٹے تصورات بھی تو ناپسند ہوں گے۔

میں اپنے تمام تر مراسلات اور اس میں اپنائے گئے موقف جو درحقیت ایک ہی موقف ہے ۔۔۔ اس پرقائم ہوں۔
غالباً میرے اور آپ کے درمیان رابطے کا کچھ فقدان ہے۔
یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا کہ آپ کی بات (کم از کم میرے لیے) اتنی واضح نہیں ہے چنانچہ سمجھنے کے لیے اس بات سے مدد لینی پڑتی ہے کہ آپ نے کس نکتے پر اعتراض کیا ہے۔
گزارش ہے کہ ایک بار بالکل واضح اور سنجیدہ الفاظ میں اپنے مؤقف کو بیان کر دیں تاکہ دوبارہ سمجھنے میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ ورنہ جب آپ کے مراسلوں میں دوسروں کا مذاق اڑانا زیادہ اور اپنے مؤقف کا ذکر کم ہوگا تو مجھ جیسے لیفٹ دماغیوں کو کیسے سمجھ آئے گی؟
کمپیوٹر کی زبان میں بولے تو
Insufficient data
 

محمد وارث

لائبریرین
عبدالحمید عدم مرحوم کا ایک شعر تھریڈ کی مناسبت سے یاد آ گیا

آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

دخل در معقولات کیلیے پیشگی معذرت :)
 
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر شرک، بحیثیت اللہ پر بہتان، اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے تو اس کی ذات کے ساتھ منسوب کیے جانے والے دیگر جھوٹے تصورات بھی تو ناپسند ہوں گے۔


یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا کہ آپ کی بات (کم از کم میرے لیے) اتنی واضح نہیں ہے چنانچہ سمجھنے کے لیے اس بات سے مدد لینی پڑتی ہے کہ آپ نے کس نکتے پر اعتراض کیا ہے۔
گزارش ہے کہ ایک بار بالکل واضح اور سنجیدہ الفاظ میں اپنے مؤقف کو بیان کر دیں تاکہ دوبارہ سمجھنے میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ ورنہ جب آپ کے مراسلوں میں دوسروں کا مذاق اڑانا زیادہ اور اپنے مؤقف کا ذکر کم ہوگا تو مجھ جیسے لیفٹ دماغیوں کو کیسے سمجھ آئے گی؟
کمپیوٹر کی زبان میں بولے تو
Insufficient data

السلام علیکم ورحمتہ اللہ
جی مجھے بھی خود کلامی صاحب کے انداز گفتگو سے یہی لگا تھا کہ ان کی فکر کچھ اور ہے ۔ اسی لیے میں نے ان سےگزارش کی تھی کہ آپ اپنے عقائد واضح کریں۔ بحرحال اگر ان کا مقصد صرف تفکر تھا اور اپنی تفکر کو وہ حرف آخر بھی نہیں سمجھتے تو پھر تو ٹھیک ہے ۔ ویسے ایک بات عرض کردوں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان معاملات کے متعلق سوچنے سے منع کیا ہے تو یہ بھی یقننآ اللہ ہی کے احکامات کے تحت کیا ہے اس لیے کہ نبی کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا اور وہ امر ربی ہی ہوتا ہے ۔جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وما ینتق عن الھویٰ ، ان ہوالا وحی یوحیٰ۔ مقصد کہنے کا یہی ہے کہ جن معاملات کی تہہ تک ہم نہیں پہنچ سکتے ،ا نہی کے بارے میں ہمیں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی عقل کو کسی دوسرے مثبت کام میں استعما ل کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ شرک کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے۔ یعنی جو حق کسی کا ہو وہ اس کو نہ دینا ۔ ان الشرک لظلم عظیم ۔۔۔
 

محمد سعد

محفلین
پتہ نہیں میرا یہ اندازہ کتنا صحیح ہے، لیکن میں نے خدا کا انکار کرنے والوں میں ایک بات مشترک دیکھی ہے۔ کہ ان کی تقریباً تمام تر توجہ صرف ایک ہی موضوع (مثلاً صرف طبیعیات یا صرف کیمیا) تک محدود ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ کائنات کی پوری تصویر کا وہ حصہ تو دوسروں سے بہتر دیکھ لیتے ہیں جس پر ان کی توجہ ہوتی ہے لیکن کئی بار باقی تمام تصویر کو فراموش کر دیتے ہیں۔
سٹیفن ہاکنگ کے اس بیان کے بعد اب تک میں نے اس موضوع پر جتنا غور کیا ہے، اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ صرف طبیعیات یا صرف کیمیا یا صرف تاریخ خدا تک پہنچنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی نشانیوں پر صحیح معنوں میں غور و فکر کرنے کے لیے ہمیں طبیعیات کے ساتھ ساتھ کیمیا، حیاتیات، ریاضی، تاریخ اور دیگر مفید علوم سے بھی مناسب حد تک واقفیت ہونی چاہیے۔ ورنہ سائنس کی صرف ایک شاخ تک محدود رہنے والا شخص تو سائنس کی دوسری شاخ کے متعلق بھی ٹھیک سے بات نہیں کر پائے گا، جیسے میں نے حال ہی میں دو معروف طبیعیات دانوں کے ماحولیات کے بارے میں اوٹ پٹانگ بیانات دیکھے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

(مرزا غالب)
 

جاسمن

لائبریرین
کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نا کسی طبعی عوامل کے مرہون منت ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کی کوئی نہ کوئی توجہیہ ہوتی ہے۔ جب تک یہ توجہیہ معلوم نہیں ہوتی ہم اسے "معجزہ" کہتے ہیں۔ جب معلوم ہوجائے تو ہم سائنس کہتے ہیں۔
میرا بھی یہی یقین ہے۔شکریہ عثمان!
 
Top