محمد سعد
محفلین
مجھے نہیں لگتا کہ اگر بات صرف شرک تک محدود ہوتی تو اللہ خاص طور پر "بہتان باندھنے" کا بھی ساتھ ذکر کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بھی آیت غیر ضروری نہیں رکھی۔ ان آیات میں، میری سمجھ کے مطابق، اللہ تعالیٰ شرک کو ناپسند کرنے کی ایک وجہ بتاتا ہے یعنی شرک بھی اللہ پر بہتان ہے۔جہاں تک سورہ یونس اور اس موضوع پر دوسری آیات کا تعلق ہے تو صاحب۔۔۔وہاں بات شرک اور مشرکانہ اعمال پر ہورہی ہے۔
یعنی اگر کوئی خدا کی بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے اور ان باطل خیالات پر اپنا مذہب اور مستقل عقیدہ قائم کرلے اور اس کا پجاری بن جائے تو وہ تو یقناً سَوَاء السبیل سے بھٹک گیا۔
جہاں تک سوال گندم اور جواب چنا والے نکتے کی بات ہے، تو آپ کو یاد دلا دوں کہ آپ نے طارق اقبال صاحب کی کس بات کے جواب میں "سوچنا حرام ہے" والا جملہ کسا تھا۔
اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق جو نکات ہیں، ان کے متعلق میں نے مزید وضاحت کی تھی کہ "اللہ تعالیٰ کا چہرہ کیسا ہے" جیسی باتوں، جن کا تعلق اللہ کی ذات کی کیفیات سے ہے، پر اپنی طرف سے تصورات قائم کرنا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ باقی کائنات پر آپ بے شک غور کریں، خالق کی تخلیق کو دیکھ کر اس کی لا محدود طاقت و حکمت کے بارے میں سوچیں۔ کسی نے روکا ہے؟ہاں قرآن مجید میں کچھ آیات متشابھات ہیں کہ جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی کھوج میں نہ پڑو اور سلف صالحین کا یہی عقید ہ ہے کہ ان آیات کی تشریح میں اپنی عقل استعمال نہ کریں اور جس طرح ان آیات میں فریایا گیا ہے بس اس پر ایمان رکھیں۔ جیسے اللہ تعالی کے بارے میں قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ہاتھ دو ہیں۔ اور دنوں دائیں ہاتھ ہیں۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں ان پر بس اتنا ہی ایمان رکھنا چاہیے۔ ان کی کیفیت کے بارے میں قرآن وحدیث خاموش ہیں توہمیں بھی خاموش ایمان رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر آپ قرآن کی آیات کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی تشریح کو قبول نہ کریں گے تو خود بھی گمراہ ہون گے اور دوسروں کے بھی گمراہ کریں گے۔
پہلے آپ نے اس نکتے سے کچھ اس انداز میں اختلاف کیا جس سے خود بخود یہ تاثر قائم ہو گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں من گھڑت تصورات پالنے کے حامی ہیں۔
اب آپ کہتے ہیں کہ آپ خالق کی تخلیق پر غور و فکر کے ذریعے خالق تک پہنچنے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی کم و بیش وہی بات جو میں نے کی۔
اگر یہی آپ کا مؤقف تھا تو خواہ مخواہ اتنا رولا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا میں نے اس نکتے کی مخالفت کی تھی یا طارق اقبال صاحب والے مراسلے، جس کے بعد یہ سارا سلسلہ شروع ہوا، میں اس کی مخالفت کی گئی تھی؟ارے بابا۔۔۔خالق کو پہچاننے کا ایک طریقہ اس کی تخلیق پر غور کرنا ہے۔
ایک پتھر ، ایک پتہ ، ایک چونٹی کی حقیقت پر غور کرنے بیٹھیں تو وہ بھی آپ کو لامحالہ خالق تک ہی لے جائے گی۔
فکر شرط ہے!