میرا موڈ تھا کہ میں بھی کچھ مراسلوں کو اب پرمزاح کی درجہ بندی دے ہی دوں۔ لیکن خیر میں نے اپنے اوپر قابو پایا ہے۔
یہاں پر ایک مخالف نظریہ جس زور و شور سے بیان کیا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر ثبوتوں کہ اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ کسی کو کوئی بات سمجھ نہیں آرہی ہے تو میرا اب موڈ ہے کہ جتنے بھی یہاں پر اعتراضات کئے گئے ہیں ان کا سائنسی اور لوجیکلی ضرور جواب دوں۔
اس کا یہاں پر فائدہ کتنا ہوتا ہے یا کوئی سائنس سے متفق ہوتا ہے یا نہیں اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔ ملحد کہا جائے، جاہل وغیرہ بھی دوبارہ کہہ دیا جائے تو میں نے اپنے طور پر اس بات کا عہد کیا ہے کہ مجھے ان باتوں پر توجہ نہیں دینی ہے۔ اور جس کا جو دل چاہے وہ کہتا رہے مہربانی جناب ان سب کی!
میں اپنے گھر کے جن بائیولوجسٹس سے بیالوجی کے نظریوں کو سمجھتی رہی ہوں ان کا تو کہنا ہے کہ میں یہاں پر فضول میں اپنا وقت برباد کر رہی ہوں۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ ایک نظریہ ارتقاء کی بنیاد پر اور اس پر ہونے والی ریسرچ کی بنیاد پر پوری سائنس سے نفرت کروا دینا عجیب بات ہے۔
یہاں پر جس طرح کا رویہ ہے اس سے ایک عام قاری پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ بہت ساروں کو ہو سکتا ہے کہ یہ سمجھ آئے کہ جس سائنس کی بنیاد ہی اتنی کمزور ہے اور اسلام مخالف ہے تو وہ ہم کیوں پڑھیں یا اپنے بچوں کو کیوں پڑھوائیں؟ ہم کیوں اپنے خاندان کے لوگوں کو ریسرچ کرنے کے لئے یہود و نصاریٰ کی یونیورسٹیوں میں بھیجیں اور وہ یہ کافرانہ خیالات لے کر آئیں اور یہاں پر ان کو پڑھائیں اور ان پر ریسرچ کریں؟ اور پھر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان آگے بڑھیں اور سائنس کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ اسلام کے سنہری دور میں گزرے مسلمان سائنسدانوں کی مثالیں نکال نکال کر ہم دل خوش کرتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی کبھی ایسے تھے۔
میرا جو اب تک یہاں پر سائنسی حوالے سے بات چیت کرنے کا ارادہ ہے اس کے پیچھے مقصد صرف یہی ہے کہ انسانیت کے لئے جو سائنسی لحاظ سے اچھا کام ہو رہا ہے اس کے لئے کسی حد تک بیزارگی ختم کرنے کا تھوڑا بہت میں بھی کام کر دوں۔ اور میری یہ ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ سائنسی میدان میں ہمارا بھی کردار ہو جو کہ اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ باقی ہر کوئی خوشی سے الزام لگانے کے لئے آزاد ہے کہ ہم سائنسیوں کا مقصد انسانیت کی بھلائی نہیں ہے۔ کچھ دنوں پہلے غصہ آیا تھا کافی لیکن خیر مہربانی جناب جس کا جو دل چاہے سوچے اور کہے میں اپنی بات ضرور کہوں گی۔
اور میرا آج تک یہ رویہ رہا ہے کہ جو میں بات کرتی ہوں اس کے لئے ثبوت کے طور پر حوالہ ضرور دیتی ہوں۔ چاہے وہ میں مذہبی طور پر بات کروں یا سیاسی یا سائنسی۔ البتہ جو افراد ایک اسٹیٹمینٹ دیتے چلے آرہے ہیں بغیر کسی ثبوت کے تو اس طرح بات کرنا کافی مشکل ہے۔ لیکن خیر میں اپنی سی ایک کوشش ضرور کروں گی۔ فی الحال تو وقت کی کمی ہے۔ غالباً رات تک وقت میسر آجائے گا تو تفصیل سے کچھ پوسٹ کروں گی۔
کل ایک ڈاکٹر اسرار احمد کا ایک لیکچر یاد آگیا تھا تو دوبارہ لگا کر سنا۔ اس میں ان کا کہنا تھا کہ جن کا blind faith ہے وہ بہرحال سب سے زیادہ فائدے میں ہیں۔ ان کو ہم چیلنج نہیں کر سکتے۔ البتہ ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ جو قرآن پر ریسرچ کر رہے ہیں تو ان کا مقصد ان ذہین اور فطین لوگوں کو باہر کی دنیا سے واپس اپنے درمیان لانا ہے۔ کیونکہ یہ مغرب کی جانب سے ایک چیلنج ہے جو مسلمانوں کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہے جس نے عقائد کی بنیادیں ہلا دیں۔ یہ ایک ایسی راہ ہے جہاں چھینٹے تو آئیں گے ہی۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہم منہ چھپا کر دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں بھی ہر جگہ پر کام کرنا پڑے گا۔ اور اتنی طاقت بطور ایک قوم ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی پڑے گی کہ ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکیں۔
آخر میں پھر وہی بات کہ جس کا جو دل چاہے ہمیں سمجھے اور کہے، تھوڑے دنوں کا غصہ تھا اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ میں اب ہر کسی کو دوست احباب سمجھنے پر یقین نہیں رکھتی۔ اب تو میں یہی کہوں گی کہ جناب مہربانی ان سب کی جو بہت کچھ فرماتے رہتے ہیں
نظر بہت کچھ آتا رہا ہے لیکن خیر ان سب کا شکریہ