آصف اثر
معطل
یہ تو آپ کی تعریف سے ہی باہر ہے محترم۔ آپ اندھادھند بغیر سوچے سمجھے کاپی پیسٹنگ کے بجائے اگر مائکرو بائیولوجی ہی پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔بیکٹیریا بائینری فیشن کے ذریعہ اپنی تعداد بڑھاتے ہیں۔
یہ تو آپ کی تعریف سے ہی باہر ہے محترم۔ آپ اندھادھند بغیر سوچے سمجھے کاپی پیسٹنگ کے بجائے اگر مائکرو بائیولوجی ہی پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔بیکٹیریا بائینری فیشن کے ذریعہ اپنی تعداد بڑھاتے ہیں۔
مراسلہ# 196 دوبارہ پڑھ لیجیے۔گویا 'نئی'نوع والا معاملہ 'فی الوقت' ڈانواں ڈول ہے اور اس میں 'تشکیک'کا عنصر پایا جاتاہے یعنی کہ سائنس کی رُو سے بھی اس ذیل میں حتمیت اور قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
توجہ دلانے کے لیے شکریہ!مراسلہ# 196 دوبارہ پڑھ لیجیے۔
انٹر بریڈنگ، کراس بریڈنگ، مختلف انواع کا آپس میں ملاپ یا بیکٹیریا اور وائرس کی تعداد کا بڑھنا۔ ان سب کا نظریہ ارتقا کے غلط ہونے میں کیا کردار ہے؟ڈاروِن کے چار میں سے دو اسپیشئز Geospiza fortis اور Geospiza scandens تیسرے اسپیشئز Geospiza magnirostris کے ساتھ Interbreed کرسکتے ہیں۔ یہاں تو ڈاروِن ہی غلط ہوگیا۔
اسی طرح بیکٹیریا آپس میں تولد ہی نہیں کرسکتے بلکہ وہ غیرجنسی تولید Asexual Reproduction کے ذریعے نسل بڑھاتے ہیں۔ اب آپ بتائیں ارتقا کے مفروضے کو کس بحراعظم میں پھینکنا چاہیے۔
اب کرلو گل۔انٹر بریڈنگ، کراس بریڈنگ، مختلف انواع کا آپس میں ملاپ یا بیکٹیریا اور وائرس کی تعداد کا بڑھنا۔ ان سب کا نظریہ ارتقا کے غلط ہونے میں کیا کردار ہے؟
کیا آپ نے ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا کے بارہ میں پڑھا ہے؟ یہ وہ بیکٹیریا ہیں جو انسانی ادوایات جیسے اینٹی بائیوٹکس سے مقابلہ کر کے ان پر غلبہ پا جاتے ہیں۔ اور اپنی خواص دیگر بیکٹیریا میں منتقل کر کے ان کی مدافعت بڑھاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا میں ارتقا کی واضح مثال ہے جو جدید انسانی ادوایات سے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ ان کے توڑ کے لئے ماہرین طب کو مسلسل نئی ادوایات بنانا پڑتی ہیں۔آپ ہی کی تعریف میں اس کا جواب ہے صاحب۔
آصف بھائی، آپ اپنا مؤقف ضرور پیش کریں، دوسروں کی آراء رد کریں، مگر مقتبس بالا طریقہ ناشائستہ ہے۔امریکی جہالت تو میں ختم نہیں کرسکتا۔ لیکن آخر میں برکلے یونیورسٹی کے ارتقا پرست ماہرین کا ”اسپیشئز“ کے حوالے سے جو بیان ہے وہ شائد بعض کے دماغ ٹھیک کرلے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس بات سے (مراسلہ #201 سے) غیرمتفق ہے تو اسے ایک گلاس پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔
میں بالکل اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اپنے مؤقف میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔مگر میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں ایک طرف تو سائنٹیفک اسٹڈیز، سائنٹیفک ریسرچ، سائنٹیفک تحقیق کے دعوے ہورہے ہوں لیکن خود اس کی یہ حالت ہو تو میرے لیے یہ خیانت، یہ بددیانتی اور یہ منافقانہ رویہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتاہے۔آصف بھائی، آپ اپنا مؤقف ضرور پیش کریں، دوسروں کی آراء رد کریں، مگر مقتبس بالا طریقہ ناشائستہ ہے۔
اگر کوئی میری رائے سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ڈوب مرنا چاہیے یا دماغ ٹھیک کرنا چاہیے۔
یہ مثبت طرزِ استدلال نہیں ہے۔ کسی موضوع پر اختلافی آراء کی بنیاد پر تذلیل و تحقیر کسی طور مناسب رویہ نہیں۔ اس سے گریز کیا جائے۔ جزاک اللہ خیر۔
آپ اپنا مؤقف مکمل دلائل کے ساتھ پیش کر دیں۔ دوسرا اپنا مؤقف جیسے بھی پیش کرے گا۔ پڑھنے والے کے سامنے ہر دو طرف کی آراء موجود ہوں گی، اسے اپنے فہم کے مطابق سمجھنے دیجیے۔ زبردستی کسی کی رائے تو کبھی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ دنیا کا کوئی موضوع اختلاف سے خالی نہیں ہے۔ دو بھائی تمام معاملات پر ایک رائے نہیں رکھ پاتے۔میں بالکل اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اپنے مؤقف میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔مگر میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں ایک طرف تو سائنٹیفک اسٹڈیز، سائنٹیفک ریسرچ، سائنٹیفک تحقیق کے راگ الاپے جارہے ہو لیکن خود اس کی یہ حالت ہو تو میرے لیے یہ خیانت، یہ بددیانتی اور یہ منافقانہ رویہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتاہے۔
آخر ہم کون سی سائنس کی باتیں کررہے ہیں؟ کیا ہمیں کوئی نئی سائنس ایجاد کرنا ہے۔ کیا ہماری تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ اپنے فلسفے جھاڑتے رہیں؟ کیا سائنس صرف اس لیے رِہ گیا ہے کہ اسے کمبل بنا کر اپنا منھ چھپاتے رہیں۔۔۔
یہ بائیولوجسٹ کراچی سے ہیں؟ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کا کچھ حصہ پاکستان میں نہیں ہے
تو اس میں کیا برائی ہے؟ جدید طبیعات جن قوانین قدرت پر چل رہی ہے وہ انسان نے خود ایجاد کئے ہیں۔ قدرت کو اس سے سروکار نہیں کہ انسان اس کے قوانین کو کیا نام دیتا ہے۔ مگر ان کا وجود اٹل ہے۔It's not so surprising that these blurry places exist — after all, the idea of a species is something that we humans invented for our own convenience!k
سارا غصہ رفوچکر ہوگیا۔ شکریہ جاسم!تو اس میں کیا برائی ہے؟ جدید طبیعات جن قوانین قدرت پر چل رہی ہے وہ انسان نے خود ایجاد کئے ہیں۔ قدرت کو اس سے سروکار نہیں کہ انسان اس کے قوانین کو کیا نام دیتا ہے۔ مگر ان کا وجود اٹل ہے۔
یہی حال جدید حیاتیات میں نظریہ ارتقا کا ہے۔ اگر انسان نےاپنی آسانی کیلئے انواع کی ایک تعریف بنا لی ہے تو اسے ارتقا کے رد میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ارتقا ماضی و حال کے تجربات و شواہد سے ثابت شدہ مسلم حقیقت ہے۔ جیسے قوانین قدرت ایک حقیقت ہیں۔
ساتھ دینے کا شکریہ۔بات کرنا یہاں واقعی اتنا آسان نہیں ہے میں اپنی کوشش کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ رہی ہوں۔ جس کا جو دل چاہے سمجھتا رہے اور کہتا رہے!
دیکھیں نظریہ ارتقا کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ سائنس میں نظریہ ارتقا کو فیکٹ کا مقام حاصل ہے۔ یہ سچ ہے کہ سائنسدان ابھی ارتقا کے عمل کو مکمل سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے سوالات کا جواب معلوم نہیں ۔ لیکن ایک غیرمکمل زیر تعمیر عمارت کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عمارت بغیر ارتقا کے وجود میں آگئی۔کیا سائنس صرف اس لیے رِہ گیا ہے کہ اس بہانے اپنے فلسفے جھاڑتے رہیں۔
مراسلہ # 182 اور 188 ملاحظہ کریں۔دیکھیں نظریہ ارتقا کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ سائنس میں نظریہ ارتقا کو فیکٹ کا مقام حاصل ہے۔ یہ سچ ہے کہ سائنسدان ابھی ارتقا کے عمل کو مکمل سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے سوالات کا جواب معلوم نہیں ۔
پیچھے ہٹنے کی کیا ضرورت ہے بہن۔ آپ بھی اپنی دلیل دینے کا اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا آپ کی دلیل کے خلاف دلیل دینے والے۔ اتنا تو میں سمجھ چکا ہوں کہ آپ میں ہمت اور حوصلہ بھی ہے اور لکھنے کا انداز بھی بہت اچھا۔ تو میرے خیال سے آپ اپنی بات ادھوری نہ چھوڑیں۔بات کرنا یہاں واقعی اتنا آسان نہیں ہے میں اپنی کوشش کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ رہی ہوں۔ جس کا جو دل چاہے سمجھتا رہے اور کہتا رہے!