عبید انصاری
محفلین
میرا اشارہ کسی اور طرف ہے۔فونٹ کب معطل ہو رہا ہے؟
میرا اشارہ کسی اور طرف ہے۔فونٹ کب معطل ہو رہا ہے؟
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ انسان کو بندر کی اولاد ثابت کرنے سے انسانوں کی کیا خدمت کی جاسکتی ہے۔
سائنسدانوں کا ہمیشہ خیال رہا ہے کہ انسان اور بن مانس کے DNA میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے کی ریسرچ کے مطابق انسان اور بن مانس کے DNA ایک دوسرے سے 80 فیصد مختلف ہیں۔
Intelligent Design
نظریہ ارتقا سے متعلق عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہےکہ انسان کے آباؤ اجداد بندر تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حالیہ انسانوں اور بندروں کا جد ایک تھا مگر وہ بندر نہیں تھا:اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس کے آبا و اجداد بندر تھے تو ہو سکتاہے بندر ہی ہوں
یہ تو بلکہ اس نظریے کو مزید تقویت دیتی ہے۔ ارتقاء کی ضد تنزلی بھی ہے۔ اسفل سافلین کا ایک تو اخلاقی پہلو ہے کہ خدا نے انسان کو خوبصورت سانچے میں ڈالا اور وہ اپنے افکار و اعمال کی بدولت پست سے پست تر ہوتا گیا ۔ دوسرا پہلو حیاتیاتی نوعیت کا ہے۔ ہر عروج کو زوال بھی ہے ۔ حیاتاتی سطح پر اسفل سافلین کے درجے تک پہنچنا آنًا فانًا نہیں ہو جاتا۔ یہ سب رفتہ رفتہ، درجہ بہ درجہ انجام پزیر ہوتا ہے۔ بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا، پھر ایک وقت آتا ہے جب اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور آخر کار موت واقع ہو جاتی ہے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بعد از مرگ جسم گل سڑ جاتا ہے۔ ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ انسان صفحہِ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور اس کا دور دور تک کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر اسی حالت میں زمانے گزر جاتے ہیں۔ اگر تنزلی کے لئے کوئی ٹائم فریم درکار ہے جس کا ہم مشاہدہ بھی کرتے ہیں تو یہ ارتقائی عمل کے لئے کیوں ممکن نہیں۔اس آیت کو اسکے بعد والی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھئے۔ ثم رددناہ اسفل سافلین ۔ غور کیا جائے تو ارتقاء کی ضد نظر آتی ہے۔
ارتقاء کے فلسفے کو کلی طور پر رد کر دینا درست نہیں۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ خدا نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا اور وہی ہر شے کا خالق ہے۔ هُوَ اللّٰهُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ (سوره حشر)اس آیت کے بعد ارتقا کے مفروضے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے پیدا کیے گئے تھے۔
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.(۳: ۵۹)
’’عیسیٰ کی مثال، اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اس کو مٹی سے بنایا، پھر اس کو کہا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
بہت اچھا مراسلہ!یہ تو بلکہ اس نظریے کو مزید تقویت دیتی ہے۔ ارتقاء کی ضد تنزلی بھی ہے۔ اسفل سافلین کا ایک تو اخلاقی پہلو ہے کہ خدا نے انسان کو خوبصورت سانچے میں ڈالا اور وہ اپنے افکار و اعمال کی بدولت پست سے پست تر ہوتا گیا ۔ دوسرا پہلو حیاتیاتی نوعیت کا ہے۔ ہر عروج کو زوال بھی ہے ۔ حیاتاتی سطح پر اسفل سافلین کے درجے تک پہنچنا آنًا فانًا نہیں ہو جاتا۔ یہ سب رفتہ رفتہ، درجہ بہ درجہ انجام پزیر ہوتا ہے۔ بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا، پھر ایک وقت آتا ہے جب اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور آخر کار موت واقع ہو جاتی ہے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بعد از مرگ جسم گل سڑ جاتا ہے۔ ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ انسان صفحہِ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور اس کا دور دور تک کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر اسی حالت میں زمانے گزر جاتے ہیں۔ اگر تنزلی کے لئے کوئی ٹائم فریم درکار ہے جس کا ہم مشاہدہ بھی کرتے ہیں تو یہ ارتقائی عمل کے لئے کیوں ممکن نہیں۔
ارتقاء کے فلسفے کو کلی طور پر رد کر دینا درست نہیں۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ خدا نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا اور وہی ہر شے کا خالق ہے۔ هُوَ اللّٰهُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ (سوره حشر)
He is God, the Creator, the Maker, the Designer
دنیا کے پہلے انسان کے قالب یا انسانی ڈھانچے کی تخلیق کا عمل، علمِ الہی میں ایک وقتِ معلوم تک ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد ہی ہوا ہو گا۔ پھر اللہ نے اپنے حکم سے اس میں روح پھونک دی۔ مزکورہ آیت میں " کُن " یہی امر ِ ربّی ہے۔ واللہ اعلم!!
سائنس اگر خدا کے وجود کی منکر ہے تو بھلے ہوتی رہے ۔ قرآن کو تو سائنس سے کوئی عداوت نہیں ۔ خدا تو خود کائنات میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ کوئی بھی شے خالی از حکمت پیدا نہیں کی گئی اور سائنس بھی منطقی استدلال مانگتی ہے۔ اگر خدا کی حکمت کی تشریح سائنس کر سکتی ہے اور تخلیق کی گتھیاں سلجھا سکتی ہے تو کیوں نہیں۔
پہلے تو سائنس یہ طے کرے کہ آیا دنیا کا پہلا انسان originally اسی زمین کا باشندہ تھا یا پھر مکمل انسان کی صورت کسی اور جگہ سے اس سیارے پر اتارا گیا۔ موخر الذکر کی صورت میں زمینی مخلوق سے مماثلت تلاش کرنا اور انسانی ارتقاء کے شواہد یہاں سے ڈھونڈنا بے کار ہے۔نظریہ ارتقا سے متعلق عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہےکہ انسان کے آباؤ اجداد بندر تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حالیہ انسانوں اور بندروں کا جد ایک تھا مگر وہ بندر نہیں تھا:
چمپینزی اور جدید انسان کے درمیان کئی انواع آئے اور گزر گئے۔ ان سب میں مشترک یہ تھا کہ وہ سب افریقہ کے رہنے والے تھے۔
اور چونکہ حالیہ جدید انسان کی ابتدا بھی افریقہ سے ہوئی۔ یوں اس نظریہ ارتقا کو تقویت ملتی ہے کہ یہ نوع انسانوں کا قریب ترین جد تھا جب وہ چیمپنزیوں سے جدا ہوا۔
نظریہ ارتقا سے متعلق عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہےکہ انسان کے آباؤ اجداد بندر تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حالیہ انسانوں اور بندروں کا جد ایک تھا مگر وہ بندر نہیں تھا:
چمپینزی اور جدید انسان کے درمیان کئی انواع آئے اور گزر گئے۔ ان سب میں مشترک یہ تھا کہ وہ سب افریقہ کے رہنے والے تھے۔
اور چونکہ حالیہ جدید انسان کی ابتدا بھی افریقہ سے ہوئی۔ یوں اس نظریہ ارتقا کو تقویت ملتی ہے کہ یہ نوع انسانوں کا قریب ترین جد تھا جب وہ چیمپنزیوں سے جدا ہوا۔
آثار قدیمہ سے اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اور نہ ہی کسی اور سیارہ سے آئی مخلوق کا زمین کی آب و ہوا میں زندہ رہنا ممکن ہے۔مکمل انسان کی صورت کسی اور جگہ سے اس سیارے پر اتارا گیا۔
انسانی ارتقا کی تاریخ نئی دریافت و تحقیق کی بدولت بار بار تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ ارتقا ہوا ہی نہیں؟A skull found in China could re-write our entire understanding of human evolution
یہی ارتقا کی حقیقت ہے۔
ارتقاء کے فلسفے کو کلی طور پر رد کر دینا درست نہیں۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ خدا نے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا اور وہی ہر شے کا خالق ہے۔ هُوَ اللّٰهُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ (سوره حشر)
He is God, the Creator, the Maker, the Designer
دنیا کے پہلے انسان کے قالب یا انسانی ڈھانچے کی تخلیق کا عمل، علمِ الہی میں ایک وقتِ معلوم تک ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد ہی ہوا ہو گا۔ پھر اللہ نے اپنے حکم سے اس میں روح پھونک دی۔ مزکورہ آیت میں " کُن " یہی امر ِ ربّی ہے۔ واللہ اعلم!!
سائنس اگر خدا کے وجود کی منکر ہے تو بھلے ہوتی رہے ۔ قرآن کو تو سائنس سے کوئی عداوت نہیں ۔ خدا تو خود کائنات میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ کوئی بھی شے خالی از حکمت پیدا نہیں کی گئی اور سائنس بھی منطقی استدلال مانگتی ہے۔ اگر خدا کی حکمت کی تشریح سائنس کر سکتی ہے اور تخلیق کی گتھیاں سلجھا سکتی ہے تو کیوں نہیں۔
انسانی ارتقا کی تاریخ نئی دریافت و تحقیق کی بدولت بار بار تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ ارتقا ہوا ہی نہیں؟
اور چونکہ حالیہ جدید انسان کی ابتدا بھی افریقہ سے ہوئی۔ یوں اس نظریہ ارتقا کو تقویت ملتی ہے کہ یہ نوع انسانوں کا قریب ترین جد تھا جب وہ چیمپنزیوں سے جدا ہوا۔
آپ کے فراہم کر دہ ربط سے؛ارتقا پرستی الفاظ کے ہیر پھیر کا دوسرا نام بھی ہے۔ جس کے ذریعے وہ سادہ لوح افراد کو گھیرتے ہیں۔
یعنی محققین نے ارتقا انسانی کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کی تاریخ پر سوال اٹھایا ہے۔ سائنسی حلقوں میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پرانی تحقیق کو رد کر کے ہی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اور سائنسی علوم کا دائرہ وسیع ہوتا جاتاہے۔A skull found in China could re-write our entire understanding of human evolution
لیکن پھر بھی ارتقا پرست ہر تحقیق کو درست ثابت کرنے پر قسمیں کھانے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ سائنسی حلقے نہیں ارتقا پرستوں کے حلقے ہیں جو عوام کو ہڈیوں سے بےوقوف بنانے میں دیر نہیں کرتے۔آپ کے فراہم کر دہ ربط سے؛
یعنی محققین نے ارتقا انسانی کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کی تاریخ پر سوال اٹھایا ہے۔ سائنسی حلقوں میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پرانی تحقیق کو رد کر کے ہی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اور سائنسی علوم کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتاہے۔
نئی تحقیق کی افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ اگر اس سے انسانی ارتقا کو بہتر سمجھنے میں مدد ملتی ہے تو تحقیق سے بیر کیوں؟ سائنسدان و محققین اس مصدقہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ زمین پر موجود تمام حیات و انواع ارتقا کا نتیجہ ہیں۔ وہ کیسے ، کب، کہاں ہوا ہے اس پر نئی تحقیق کی بدولت اختلاف ہو سکتا ہے۔لیکن پھر بھی ارتقا پرست ہر تحقیق کو درست ثابت کرنے پر قسمیں کھانے کو تیار رہتے ہیں۔
1۔ کسی ارتقا پرست کا یہ کہنا کہ وہ مسلمانوں کو ارتقاپرستی سکھاتی ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کو ورغلانے کے یہ کچھ ٹیکنیکس استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر یہاں موجود ارتقاپرستوں میں سے کوئی ٹیچنگ سے وابستہ ہوجائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ میں طلباء کو تخلیق پرستی سکھاتاہوں؟ایک مسلم پروفیسر کے ارتقاء پر خیالات
Why I teach evolution to Muslim students
اس آرٹیکل میں سے کچھ اقتباسات
Students in my classes often get a shock. I wear a hijab, so they know that I am a practising Muslim, yet they hear me endorsing evolution as a mechanism to explain diversity and the development of species, and citing Charles Darwin as a scientist who contributed to our understanding of the emergence and diversification of life on Earth. I am almost always the first Muslim they have met who says such things.
In teaching, I offer a detailed explanation of the natural evolution of plants and artificial breeding. Later, we discuss antibiotic resistance, influenza vaccines and the development of HIV drugs. After these discussions, most students are willing to accept evolution as a mechanism for the emergence of all species except humans.