وجاہت حسین
محفلین
یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔باقی کی باتیں بھی دلیل نہیں محض آپ کی آراء ہیں۔
یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔باقی کی باتیں بھی دلیل نہیں محض آپ کی آراء ہیں۔
اگر آپ غور فرمائیں تو اس دھاگہ میں جہاں نظریہ ارتقا سے متعلق سائنسی نوعیت کی بحث ہونی چاہئے تھی وہاں مذہب نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ اس کا حل آپ اور میں اوپر بیان کر چکے ہیں:ریڈیکل نوعیت کانظریاتی اختلاف اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک مخصوص طرز میں فکر سائنس کو ایک مذہب کی شکل دیئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے
سائنس کو سائنس ہی رہنے دیا جائے اور مذہب کو مذہب
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ نظریہ ارتقا جو کہ سراسر سائنسی نظریہ ہے کو قرآن پاک سے ثابت یا رد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ کیا قرآن حکیم سائنس کی کتاب ہے؟جب دو لوگ اپنے دلائل کو قرآن ہی سے لے کر آرہے ہوں جیسا کہ نظریہ ارتقاء کے قائل و منکر دونوں کرتے ہیں
اس کا اس سے بھی سادہ جواب یہ ہے کہ قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ 1925 میں جب ہبل نے یہ تھیوری پیش کی تو تھیوری پیش کرنے سے پہلے ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آیا؟ ہماری بڑی سے بڑی تفسیر دیکھ لیں، دور دور تک یہ معنی ان لوگوں کے ہاں اس وقت نہیں پایا جاتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پہلے سائنس دریافت کرتی ہے بعد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے۔وہ یہ کہ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن کی سمجھ کو متاثر کرتی ہے۔
جی بالکل۔ قرآن پاک کی تعلیمات یہی ہیں کہ زمین و کائنات کو مسخر کرو۔ سائنس یعنی قدرتی علوم حاصل کرو۔ قرآن نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خود سائنس کی کتاب ہے۔ بلکہ ابتدائے قرآن میں واضح طور پر فرمادیا:یعنی سائنسی تحقیق میں تلاش کرو نہ کہ کتاب کے اندر۔
اس آیتِ مبارکہ میں واضح اور غیر مبہم انداز میں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام (انسانوں کے جدامجد) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ جب کہ ڈاروینی ارتقا کے رُو سے (نعوذ باللہ) حضرت آدم علیہ السلام کے جد امجد میں گریٹ ایپس بھی گزرے ہیں۔
سائنسی نظریہ ارتقا کی رو سے یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں:اگر نہیں تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی پیدائش کو بطورِ مثال پیش کرے جب کہ دوسری جانب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مراد ”ارتقائی پیدائش“ ہو۔
بیالوجسٹس کے؟قارئین کے سامنے مستند و منصوص استدلال پیش کیے جائیں تاکہ وہ صحیح نتیجے پر پہنچیں!!!
آپ کی تکرار سے واضح ہو چکا ہے کہ سائنسی نظریہ ارتقا کو آپ مذہب کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ جس کا رد ناگزیر ہے۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ بطور مومن مذہب کے نظریہ تخلیق اور بطور سائنسدان نظریہ ارتقا دونوں کو بیک وقت سمجھ سکتے ہیں۔ نظریات میں اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں سے کوئی ایک نظریہ غلط ہے۔ بلکہ اپنی اپنی ڈومین میں دونوں نظریات درست اور صحیح ہیں۔یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ ملحدین کے لیے ارتقا کے سِوا کوئی بھی نظریہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ارتقا کو تسلیم کرنا اور کروانا اِن کی جبلی مجبوری ہے۔
ملحدین کے لیے ارتقاکے رد میں سائنسی دلائل بعد میں دوں گا۔
دنیا بھر کے سائنس کے نصابوں میں نظریہ ارتقاء کے اسباق شامل ہیں۔
اس لڑی میں بعض محفلین بار بار یہ اعتراض کرتے پائے گئے ہیں کہ مذہب کو اس بحث میں بار بار کھینچ تان کر کیوں لایا جا رہا ہے تو ان سے یہ گزارش ہے کہ لڑی کے موضوع پر ایک نظر دوڑائیں۔ تخلیق و ارتقاء کے حوالے سے مذاہب کا ذکر کسی صورت لایعنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بہتر ہو گا کہ ہم انتہاپسندانہ روش سے نکلیں۔ ایک جینوئن سائنس دان، جینوئن فلسفی اور جینوئن مذہبی فرد زبردست قوت برداشت کا مالک ہوتا ہے یا اسے کم از کم ایسا ہونا چاہیے تاکہ حیات و کائنات کی گتھیاں سلجھانے میں ایک دوسرے کو اعانت فراہم کی جا سکے۔۔ نظریہ تخلیق، یعنی یہ کہ زندگی کی ہر شکل اپنی مکمل صورت میں پیدا کی گئی، اگرچہ آسمانی کتب کے متن سے مطابقت رکھتا ہے
آپ کی فہم میں اضافہ کر دوں کہ انسانی دماغ کو انہی سائنسدانوں نے کائنات کی پیچیدہ ترین شے قرار دے رکھا ہے۔ تمام تر سائنسی ترقیات کے باوجود ہمارا اپنا دماغ اور اس سے پھوٹنے والا شعور سائنس کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ اس پیچیدہ دماغ کے بغیر انسان کی حیثیت دیگر حیوانات الارض سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا واضح ثبوت دماغی صلاحیت سے کمزور افراد جیسے ’’ڈولے شاہ کے چوہے‘‘ ’’ڈاؤن سینڈروم ‘‘ اور اس جیسی دیگر دماغی بیماریاں ہیں۔ جن کے ہوتے ہوئے انسان اور حیوان کے درمیان برقرار رکھنے والا ”واضح“ فرق بہت معمولی رہ جاتا ہے۔صرف انسان وہ ہستی ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ کرہء ارض پر موجود ہے اور دیگر حیوانات و چرند پرند بظاہر اس کی شعوری قوت اور پوٹینشل کے عشر عشیر بھی نہ ہیں۔ اس لیے جس مخلوق کو کرہء ارض یا شاید کائنات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے، اس کو حیوانات کی صف میں کھڑا کرنا زیادتی ہے۔ یوں بھی انسان صرف 'حیوانی' وجود کا نام نہیں ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کا زور تخیل، احساسات و جذبات، علوم و فنون کے فروغ اور کائنات کی ایکسپلوریشن میں اس کا کردار اس طرح کا ہے کہ اسے محض ایک حیوان تصور کرنا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے اور کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو بظاہر اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس میں کیا شک کہ زیادہ تر مذاہب انسان کے اس امتیازی مقام کی توثیق کرتے ہیں۔ ارتقاء کے نظریے پر یقین رکھنے والے غیر مذہبی افراد کو ان خطوط پر بھی سوچنا چاہیے نہ کہ اپنی توجہ محض انسان کے 'حیوانی' وجود پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
یہ تو اور بھی زیادہ اچھی بات ہو گئی نا؛ بس سائنس کے اس سبق کو پلو سے باندھ لیجیے۔ ہماری نہ سنیں، سائنس دانوں کی ریسرچ کا مان ہی رکھ لیں۔آپ کی فہم میں اضافہ کر دوں کہ انسانی دماغ کو انہی سائنسدانوں نے کائنات کی پیچیدہ ترین شے قرار دے رکھا ہے۔ تمام تر سائنسی ترقیات کے باوجود ہمارا اپنا دماغ اور اس سے پھوٹنے والا شعور سائنس کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ اس پیچیدہ دماغ کے بغیر انسان کی حیثیت دیگر حیوانات الارض سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا واضح ثبوت دماغی صلاحیت سے کمزور افراد جیسے ’’ڈولے شاہ کے چوہے‘‘ ’’ڈاؤن سینڈروم ‘‘ اور اس جیسی دیگر دماغی بیماریاں ہیں۔ جن کے ہوتے ہوئے انسان اور حیوان کے درمیان برقرار رکھنے والا ”واضح“ فرق بہت معمولی رہ جاتا ہے۔
The human brain is the most complex structure in the universe
The brain is the 'most complex thing in the universe
دنیا کے متعدد مذاہب و اقوام کی اپنی اوریجن سٹوریز ہیں۔ کیا ان سب کا برابر مقام ہے؟تخلیق و ارتقاء کے حوالے سے مذاہب کا ذکر کسی صورت لایعنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دنیا کے متعدد مذاہب و اقوام کی اپنی اوریجن سٹوریز ہیں۔ کیا ان سب کا برابر مقام ہے؟
کیا ان اوریجن سٹوریز کو لٹرلی لینا لازمی ہے؟ اگر ان کا سائنسی ریسرچ سے اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیئے؟
اس میں آپ کی سمجھ کا کوئی قصور نہیں۔ آدم و حوا کی کہانی قرآنی تعلیم کے عین مطابق مومنین کو شیطان سے دور رہنے کیلئے ہدایت کے طور پر بتائی گئی ہے۔ لیکن کچھ مومنین نے اسے انسان کی حیاتیاتی تاریخ سمجھ کر آگے پڑھانا شروع کر دیا۔ جس کے انتہائی حیرت انگیز نتائج یہ نکلے کہ جب ماہرین حیاتیات نے ارتقا کے حقائق پر سے پردہ اٹھایا تو ان کا سائنسی نظریہ، مذہبی نظریہ تخلیق آدم سے ٹکرا گیا۔اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
حیاتیاتی سائنسدانوں کے مطابق زمین پر زندگی کا سب سے پہلا ظہور بے جان مالیکولز کا ”خود نقلی“ یا self-replication کی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد ہوا۔ جوارتقا کے مراحل طے کرتے کرتے اربوں سال بعد حالیہ انسان (آدم) بن کر ابھرا۔ اگر آپ آدم کی تخلیق کو یہاں لٹرل بھی لیں تب بھی وہ سائنس کی رو سے درست ہے۔آدم علیہم السلام کی تخلیق سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں اُن سب میں آدم علیہم السلام کی تخلیق کے لیے ضروری جتنی بھی اشیاء کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ سب بے جان ہیں
معصومانہ سوال: یہ 'بے جان' مالیکیولز کہاں سے آئے؟بے جان مالیکولز کی ”خود نقلی“ یا self-replication کی صلاحیت
پوری کائنات بگ بینگ سے لے کر اب تک بے جان مالیکولز کا منبع ہے۔ ان میں 'جان' خود نقلی یا self-replication کی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کی سب آسان اور سادہ تعریف یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنا وجود مرنے سے پہلے آگے منتقل کر سکتی ہے۔ حقیر بیکٹیریا، وائرس سے لے کر بابا آدم جیسی اشرف المخلوقات تک سب اس زندگی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔معصومانہ سوال: یہ 'بے جان' مالیکیولز کہاں سے آئے؟
'بے جان' مالیکیولز جو کہ زندہ بھی ہیں۔ یا ہو سکتے ہیں، ضرورت پڑنے پر ۔۔۔! بہت خوب! اور مر اس لیے نہیں سکتے کہ پہلے ہی 'بے جان' ہیں۔!پوری کائنات بگ بینگ سے لے کر اب تک بے جان مالیکولز کا منبع ہے۔