یہ آپ کی قرآن کی سمجھ کے مطابق ایسا ہوگا۔ اس مسئلے میں میری وہی سمجھ ہے جو اقبال کی ہے۔ اقبال اپنے خطبات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:اس آیتِ مبارکہ میں واضح اور غیر مبہم انداز میں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام (انسانوں کے جدامجد) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ جب کہ ڈاروینی ارتقا کے رُو سے (نعوذ باللہ) حضرت آدم علیہ السلام کے جد امجد میں گریٹ ایپس بھی گزرے ہیں۔ اگر آپ خود مفسرِ قرآن نہیں، یا خود کو نہیں سمجھتے تو کیا آپ کسی بھی تفسیر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر ”ڈاروینی ارتقا“ کے تناظر میں فرمایا ہے؟
یہ قول ہی ثابت کر رہا ہے کہ آپ کا علومِ قرآن کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا۔کیا ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ مذکورہ آیت میں موجود اتنے اہم نکتے کے مفہوم کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تھے؟
قرآن ہمیں آدم کی تخلیق ارتقاء میں ہی دکھاتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ پہلے کچھ بھی نہیں تھا پھر ایک دم سے آدم ہو گیا۔ بلکہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کبھی پانی کی صورت میں تھا، کبھی مٹی تھا، کبھی اِس حال میں تھا، کبھی اُس حال میں تھا۔ یہ آیات ہی بتاتی ہیں کہ آدم کی تخلیق ارتقاء کے عمل سے گزری ہے۔ اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں۔ اس لیے میں نے اوپر کہا کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے، جبکہ نظریہِ ارتقاء اس کی ایک تفسیر ہے۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ مزید دلائل پر ہوگا۔اگر نہیں تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی پیدائش کو بطورِ مثال پیش کرے جب کہ دوسری جانب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مراد ”ارتقائی پیدائش“ ہو۔
یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ ملحدین کے لیے ارتقا کے سِوا کوئی بھی نظریہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ارتقا کو تسلیم کرنا اور کروانا اِن کی جبلی مجبوری ہے۔
ملحدین کے لیے ارتقاکے رد میں سائنسی دلائل بعد میں دوں گا۔
ارتقاء کی ایک عمومی تعریف بھی ہے۔ کسی بھی شے کی تخلیق میں ارتقائی مراحل تو یقینًا آتے ہیں ۔ آدم کی تخلیق بھی انہیں مراحل سے گزر کر ہوئی ہو گی۔اختلاف اس پر نہیں۔لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
میں نے اس آیت کا ترجمہ
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔
بھی پڑھا ہے۔
اس کے علاوہ میرے ذہن میں آرہا ہے کہ کسی صوفیانہ کلام کے لفظ ہیں جو صحیح تو یاد نہیں شاید کچھ اس طرح ہیں "بنایا ڈھایا تے ڈھا کے بنایا"
فی الحال موضوع بحث ارتقاء کی وہ سائنسی تعریف ہی ہے جو بیالوجسٹس کرتے ہیں۔ جس کی رو سے انسان لازمًا ماضی میں زمین پر بسنے والے کسی جانور کی تبدیل شدہ شکل ہے۔اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں
ارتقاء خود بخود ہوا یا اس کی ابتداء کرنے والی کوئی ہستی ہے؟ ہماری دانست میں سائنس دانوں کے پاس بھی اس کا واضح جواب موجود نہیں۔ مذہبی تعبیر تو سامنے کی بات ہے اور ذہانت عمومی بھی یہی بتلاتی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔مزید یہ کہ سائنس نے کائنات کی ابتدا کے حوالے سے بگ بینگ کا معروف نظریہ پیش کر رکھا ہے تاہم اس نظریے میں بھی کئی جھول ہیں جن کی طرف بآسانی اشارہ کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے کئی مقالات اور ریسرچ آرٹیکلز بھی موجود ہیں۔ اور پھرآؤٹ پٹ کو بھی دیکھا چاہیے۔ صرف انسان وہ ہستی ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ کرہء ارض پر موجود ہے اور دیگر حیوانات و چرند پرند بظاہر اس کی شعوری قوت اور پوٹینشل کے عشر عشیر بھی نہ ہیں۔ اس لیے جس مخلوق کو کرہء ارض یا شاید کائنات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے، اس کو حیوانات کی صف میں کھڑا کرنا زیادتی ہے۔ یوں بھی انسان صرف 'حیوانی' وجود کا نام نہیں ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کا زور تخیل، احساسات و جذبات، علوم و فنون کے فروغ اور کائنات کی ایکسپلوریشن میں اس کا کردار اس طرح کا ہے کہ اسے محض ایک حیوان تصور کرنا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے اور کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو بظاہر اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس میں کیا شک کہ زیادہ تر مذاہب انسان کے اس امتیازی مقام کی توثیق کرتے ہیں۔ ارتقاء کے نظریے پر یقین رکھنے والے غیر مذہبی افراد کو ان خطوط پر بھی سوچنا چاہیے نہ کہ اپنی توجہ محض انسان کے 'حیوانی' وجود پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
نوٹ: ہمارا تبصرہ محض عمومی نوعیت کا ہے جس کے مخاطب سائنس دان نہیں۔سائنس نے وہی کرنا ہے، جو وہ کر رہی ہے اور شاید ہمیں اس میں مداخلت کا حق بھی نہیں تاہم فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ان تصورات کو زیر بحث لانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو کہ اس کے اپنے وجود اور کائنات سے اس کے تعلق کی ذیل میں آتے ہیں۔
ایک رائے میری بھی سن لیں اتنے قابل لوگوں کے درمیان کچھ عجیب سا لگ رہا ہے مگر کچھ سیکھنے کی غرض سے شمولیت دے رہا ہوں پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں (اس ہمارے سے مراد وہ سب جو میری بات سے اتفاق کرینگے) مذہب نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے کوئ چیز مذہب سے جدا نہیں اس میں کوئ دو رائے نہیں سونے جاگنے کھانے پینے ہنسنے بولنے رونے سب میں مذہب شامل ہے چہ جائیکہ سائنس چلیں جی یہ تو ہو گئی تمہیدی شروعات اب موضوع سے متعلق یعنی تخلیق یا ارتقا سے متعلق عرض یہ ہے کے انسان کو اشرف المخلوق بنایا گیا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کے اس کی ابتدا کمتر ہو ۔ ۔ ۔ بہرحال یہ ایک لامتناہی بحث ہے میں تو اس پر بات کو سمیٹونگا کہ ہم ابن آدم ہے اور آدم کو دینا میں انسان ہی کی شکل میں اتارا گیا اور سب اسی نسل سے ہیں ۔۔سمجھ نہیں آتا ۔۔آخر کچھ ابن بندر کہلانے پر کیوں مصر ہیں۔۔۔۔
محترم آپ کے جذباتی جواب سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کا ”تحریر میں کیفیات وجذبات“ کو سمجھنے کا ادراک کمزور ہے۔ میں نے جواب انتہائی تحمل سے دیا۔ لیکن آپ کا جذباتی دعویٰ میرے لیے حیران کُن ہے۔بات تو تب تھی جب آپ دلائل سے بات کرتے۔ جذباتی دلائل ہیں تو چلیں ایسے ہی سہی۔
میرے دوست بحث کا طریقہ یہ نہیں ہوتا۔
مخاطب کے مطمح نظر کو سمجھنے سے پہلے یہ بات بےمحل ہے۔اس طرح کے دلائل تو یہی دکھاتے ہیں کہ آپ قرآن اور اس فنِ تفسیر کا علم شاید نہیں رکھتے۔ ورنہ ایسی بات نہ کرتے۔
استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی قول و تحریر کا ذکر کرتے وقت اس کو سیاق وسباق مع حوالہ پیش کیا جائے۔ جو کم از کم آپ کے اس جملے میں مفقود ہے۔ جہاں تک امام ابو نعیم کے سورۃ نوح کی ذیل میں نظریہ ارتقا کے جواز کا تعلق ہے تو اس پر اقتباس پیش کرنے کے بعد ہی بات ہوگی۔آپ ابو نعیم سے بڑے عالم ہیں قرآن کی لغت کے جو کہ سورۃ نوح کی آیات سے نظریہ ارتقاء کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ آپ ابو نعیم سے بڑے عالم ہیں قرآن کی لغت کے جو کہ سورۃ نوح کی آیات سے نظریہ ارتقاء کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ اس طرح کے دلائل تو یہی دکھاتے ہیں کہ آپ قرآن اور اس فنِ تفسیر کا علم شاید نہیں رکھتے۔ ورنہ ایسی بات نہ کرتے۔
چلیں کچھ دیر کے لیے فرض کرتے ہیں کہ آدم علیہم السلام کا لفظ ایک ”فرد“ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ”تصور“ کا ہے۔ اور یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ ”جنت“ زمین پر ہی کوئی جگہ تھی۔یہ آپ کی قرآن کی سمجھ کے مطابق ایسا ہوگا۔ اس مسئلے میں میری وہی سمجھ ہے جو اقبال کی ہے۔ اقبال اپنے خطبات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
[...] The purpose of the Quran is further secured by the omission of proper names mentioned in the Biblical narration ‐ Adam and Eve.
The word Adam is retained and used more as a concept than as the name of a concrete human individual. This use of the word is not without authority in the Quran itself. The following verse is clear on the point: 'We Created you; then fashioned you; then said We to the angels, "prostrate yourself unto Adam" (7:33).'
یہ قول ہی ثابت کر رہا ہے کہ آپ کا علومِ قرآن کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا۔
1۔ جس شخص نے بھی تفاسیر کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ یہ بتا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے تفسیر سے متعلق بہت کم احادیث وارد ہوئی ہیں۔
2۔ ابنِ عباسؓ کی تفسیر سے متعلق تو امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ان سے تفسیر میں ایک سو روایات سے زیادہ ثابت نہیں ہیں۔
3۔جو تفاسیر وارد ہوتی ہیں وہ آثار کی صورت میں وارد ہوتی ہیں جو کہ ظن کا درجہ رکھتی ہیں نہ کہ قطعیت کا۔ کوئی شخص قطعیت کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ فلاں بات ابنِ عباسؓ نے فرمائی۔
4۔ اگر آئمہ اکرام ابنِ عباسؓ کی تفاسیر کو ختمی سمجھتے تو پھر اپنی کوئی تفسیر نہ کرتے۔تفسیر ماتریدی، فخر الدین رازی، زمخشری، قشیری، ابنِ عطیہ، ثعلبی، ماوردی، واحدی، سمعانی وغیرہ ایک بار دیکھ لیں اور خود اندازہ لگائیں کہ ابنِ عباسؓ کے اقوال کو ختمی مانا جاتا ہے یا نہیں۔ اور کتنی روایات واقعتاً تفسیر میں وارد ہوئی ہیں۔
میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر اس تناظر میں کیا تھا جس کا ذکر میں نے ”شجرۂ انبیاء علیہم السلام میں جانوروں کو شامل کرنے“ میں کیا ہے۔ اس لحاظ سے آپ کی دلیل اور ”ڈاروینی ارتقا“ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ زمین کے ایک ہونے یا کئی ہونے کی کسی بھی ممکنہ تشریح سے آپ کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن انبیاء کرام کے مبارک اور پاکیزہ شجروں میں (نعوذباللہ) جانوروں کو شامل کرنے کی سعی کرنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔5۔ آپ کی خدمت میں ایک حدیث پیشِ خدمت ہے۔ اس کو امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا۔ اس کو امام سیوطی نے درِ منثورمیں سورۃ طلاق آیت 12 کی تفسیر میں لکھا کہ
عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {وَمن الأَرْض مِثْلهنَّ} قَالَ: سبع أَرضين فِي كل أَرض نَبِي كنبيكم وآدَم كآدم ونوح كنوح وَإِبْرَاهِيم كإبراهيم وَعِيسَى كعيسى
ترجمہ: ’’ابنِ عباسؓ نے فرمایا: سات زمینیں ہیں۔ ہر زمین پر تمہارے نبی جیسا ایک نبی ہے، تمہارے آدم جیسا ایک آدم ہے، تمہارے نوح جیسا ایک نوح ہے، تمہارے ابراہیم جیسا ایک ابراہیم ہے، اور تمارے عیسیٰ جیسا ایک عیسیٰ ہے۔‘‘
گزارش ہے کہ ذرا بتائیں کہ کیا آپ اس روایت کو مانتے ہیں؟ بتائیں کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ایک نہیں بلکہ 6 اور ثانی اس کائنات میں موجود ہیں؟ (نوٹ: اس کی سند صحیح ہے۔ امام عبد الحی لکھنوی نے اس کی سند کی تصحیح پر ایک مکمل رسالہ تصنیف فرما رکھا ہے)۔
میں آپ کو کتبِ تفسیر سے کئی روایات لا کر دے سکتا ہوں جن پر آپ ایمان نہیں لا سکتے، اگرچہ ان کی سند صحیح ہوگی۔
قرآن ہمیں آدم کی تخلیق ارتقاء میں ہی دکھاتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ پہلے کچھ بھی نہیں تھا پھر ایک دم سے آدم ہو گیا۔ بلکہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کبھی پانی کی صورت میں تھا، کبھی مٹی تھا، کبھی اِس حال میں تھا، کبھی اُس حال میں تھا۔ یہ آیات ہی بتاتی ہیں کہ آدم کی تخلیق ارتقاء کے عمل سے گزری ہے۔کیا قرآن و سنت کے مخالف ہے اور کیا نہیں ، اس بحث سے پہلے خدارا قرآن و سنت کے کچھ علوم ضرور حاصل کر لیں۔
کیا آپ کسی ایک آیت کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں آدم علیہم السلام کی تخلیق اور پھر ارتقا، کسی جاندار شے سے کی جانے کا ذکر ہو؟ آدم علیہم السلام کی تخلیق سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں اُن سب میں آدم علیہم السلام کی تخلیق کے لیے ضروری جتنی بھی اشیاء کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ سب بے جان ہیں، جب کہ آپ اُن اشیاء میں جانوروں کو شامل کرنے پر مُصر ہیں۔ آپ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ ”آدم تخلیق کے دوران ارتقا سے گزرے“ اور (نعوذباللہ) ”آدم کو جانور سے ارتقا کرکے تخلیق کیا گیا“ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہاں الفاظِ قرآنی کے لحاظ سے دورانِ تخلیق کی ممکنہ ارتقا کی بات نہیں ہورہی، ڈاروینی ارتقا کی بات ہورہی ہے۔اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں۔ اس لیے میں نے اوپر کہا کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے، جبکہ نظریہِ ارتقاء اس کی ایک تفسیر ہے۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ مزید دلائل پر ہوگا۔
اکمل بھائی چند گزارشات۔
1۔ اشرف المخلوقات۔ کس اعتبار سے؟
2۔ کیا ابو جہل جبرائیل سے افضل ہے؟ چونکہ ابو جہل ’اشرف المخلوقات‘ ہے۔
3۔ انسان کی تخلیق کا حال تو یہ ہے کہ جس قطرہ سے بنتا ہے اسےانسان کے جسم سے خارج ہونے والا ناپاک ترین قطرہ مانا جاتاہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اسے اپنے ’جسم‘ کی تخلیق سے متعلق کس بات پر فخر ہے۔ اللہ پاک تو جگہ جگہ قرآن میں انسان کی یہ ابتداء یاد دلا کر اسے عار دلاتے ہیں۔
4۔ رہی ابنِ بندر والی بات۔ تو یہ علم سے زیادہ انا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔
بہتر ہو کہ جذباتی دلائل کی بجائے اصل معاملہ پر بات کی جائے تاکہ کچھ سیکھنے سکھانے کو ملے۔
شائد آپ ”تکوینی فیصلے“ کی اصطلاح سے واقف نہیں۔اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
آیت کا حوالہ۔اللہ پاک نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ’’اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے تخلیق کیا‘‘۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ ابو نعیم اصفہانی کا نام ذہن میں آیا۔ اصل کتاب راغب اصفہانی کی ہے۔ اقتباس پیشِ خدمت ہے۔استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی قول و تحریر کا ذکر کرتے وقت اس کو سیاق وسباق مع حوالہ پیش کیا جائے
البتہ یہ مان لینے سے کہ انسان کے تخلیق ایک سیاہ بو دار مادہ سے ہوئی (سورۃ حجر) آپ کے ایمان کو فرق نہیں پڑتا۔جانوروں کو شامل کرنے کی سعی کرنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔
نور 45آیت کا حوالہ۔
ذرا ہماری اس تصور سے واقفیت کروا دیں۔ شکریہشائد آپ ”تکوینی فیصلے“ کی اصطلاح سے واقف نہیں۔
گوکہ میں یہاں کسی قسم کی بحث میں شریک نہیں ہوں لیکن یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ اس عبارت میں کون سا نظریہ ارتقاء ثابت کیا گیا ہے؟في تكوين الإنسان شيئاً فشيئاً حتى يصير إنساناً كاملاً الإنسان يكون أولاً جماداً ميتاً قال الله تعالى: (وكنتم أمواتاً فأحياكم) وذلك حيث كان تراباً وطيناً وصلصالاً ونحوها. ثم يصير نباتاً نامياً كما قال الله تعالى: (والله أنبتكم من الأرض نباتاً) وذلك حيث ما كان نطفة وعلقة ومضغة ونحوها. ثم يصير حيواناً وذلك حيث ما يتبع بطبعه بعض ما ينفعه ويحترز من بعض ما يضره. ثم يصير إنساناً مختصاً بالأفعال الإنسانية وقد نبه الله تعالى على ذلك في مواضع نحو قوله: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلَّقة وغير مخلَّقة)
ہر زندہ چیز کو۔آیت کا حوالہ۔