ایک بھائی نے کہا کے مذہب کو کیوں لے کر آئے ہیں۔اس سے متعلق فرقان احمد صاحب نے بات تو کر دی ہے۔ میں اس میں چند باتوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔
اس دھاگے کا نام ہی بتا رہا ہے کہ اسے خالص سائنسی بحث کے لئے نہیں کھولا گیا۔ اگر نام ہوتا ’’نظریہ ارتقاء کے صحیح یا غلط ہونے پر سائنسی دلائل‘‘ تو بات سمجھ آتی۔ اس کے نام ہے ’’تخلیق یا ارتقاء‘‘ جو کہ واضح طور پر ایک تھیولوجی کی بحث کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں سائنس بھی شامل ہے۔
مزید یہ کہ اگر کسی کے نزدیک مذہب فقط نماز روزہ کا نام ہے تو پھر آپ کو واقعی حیرانگی اور پریشانی ہونی چاہئے کہ ارتقاء کے مسئلے پر مذہبی آراء سامنے کیوں آرہی ہیں۔میرے نزدیک مذہب صرف نماز روزہ کا نام نہیں۔ میرا دین ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے جو میری افکار سے لے کر میرے ذاتی و معاشرتی اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور سائنس سمیت کوئی شے اس سے باہر نہیں۔
مذہب، فلسفے اور اعلیٰ درجے کی شاعری میں یہ استفہام مشترک طور پر ملتا ہے کہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی صنعت اور ساخت کیا ہے؟ اس تغیر پذیر عالم میں کوئی ثابت عنصر بھی ہے؟ انسان کا اس میں کیا مقام ہے اور اس مقام کے لحاظ سے اس کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس لئے جب بھی کوئی ایسی سائنسی تھیوری آئے گی جس کا تعلق انسان کے وجود سے متعلق بنیادی سوالات سے ہوگا تو اس پر مذہبی ذہن بھی کلام کرے گا، فلسفی بھی اور اعلیٰ درجے کا شاعر بھی۔ کسی ایک گروپ کی اس پر اجارہ داری نہیں۔بقول اقبالؔ
سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عقل کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت میں وحدت کی تلاش کرے۔ یہ تب ہی ممکن ہی جب مختلف علوم کو ایک کُل کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ سائنس جو علم فراہم کرتی ہے اس کا تعلق حواس سے ہوتا ہے۔ فلسفہ عموماً عقلی دلائل پر کام کرتا ہے۔ جبکہ مذہب ان سب کے احاطہ کے ساتھ ساتھ روحانیات کو بھی شامل کرتا ہے۔ انسان کے علم کا ایک پہلو دوسرے پر لازمی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے یہ دین و سائنس کو ’’الگ الگ‘‘ رکھنے کا تصور میری نظر میں کم علمی یا تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ ان کا دائرہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔ جو انسان کثرت میں وحدت تلاش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ تمام علوم کو بغیر کسی انتہاء پسندی کے سیکھے اور سمجھے۔ اس کائنات کا خالق ایک ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ علوم وحدت کی طرف جائیں گے (جس طرح جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں)۔
اس طرزِ فکر کی مثال میں امام ابنِ سینا اور سر آئیزک نیوٹن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جہاں ابنِ سینا اپنے طب پر کام کے حوالے سے مشہور ہیں وہاں پر ان کی قرآن کی فلسفیانہ تفاسیر بھی موجود ہیں۔نیوٹن کی مشہور ریاضی و طبعیات کی کتاب ’’ (principia mathematica) Mathematical Principles of Natural Philosophy‘‘کے آخر کے ابواب دیکھیں۔ وہ کس طرح ایک سائنس (نیچرل فلاسفی) کی کتاب میں خدا کا وصف بیان کر تا ہے اور اپنے علوم کی غایت خدا ہی کو بیان کرتا ہے۔ علم سے شغف رکھنے والے احباب کتاب کے صفحہ 504 کے آخری پیراگراف سے مطالعہ کریں۔
http://redlightrobber.com/red/links_pdf/Isaac-Newton-Principia-English-1846.pdf
اور جن کو کثرت میں وحدت کی تلاش نہیں ہوتی یا نظر نہیں آتی میرے نزدیک یہ ان کی اپنی منتشر خیالی، حیاتیاتی بے رخی، اور علمی بے مقصدیت کا ثبوت ہے۔