تخلیق یا ارتقاء

جاسم محمد

محفلین
نہیں کسی ایک آیت میں مجھے ایسی چیز نہیں ملی جو یہ کہے کہ انسان کی ابتداء کسی اور جاندار چیز یا حیوان سے ہوئی اور نہ ہی میں جانور کو ڈالنے پر مصر ہوں۔
اگر انسان زندگی ہے تو زمین پر موجود تمام تر زندگی تحقیق کے مطابق بے جان مادے سے شروع ہوئی۔ جو مختلف حیوانات و انواع کے تغیر سے گزر کرارتقائے انسانی میں ڈھل گئی۔ کوشش کریں۔ نظریہ ارتقا زیادہ مشکل نہیں ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق ادویہ سازی، بیماریوں کےخلاف مدافعت بڑھانا اور کیمائی تعاملات کی رفتار کو (بذریعہ بہتر کیے گئے نئے خامروں کے) زیادہ مؤثر بنانے سے ہیں
یعنی آپ مان گئے ہیں کہ نظریہ ارتقا کو بروئے کار لاتے ہوئے حیاتیانی بیماریوں پر مؤثر انداز میں قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈارون پھر بھی غلط ہے کیونکہ ایک نوع دوسری میں تبدیل ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں ارتقا کر سکتی ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
درست تھا لیکن کوئی کارنامہ نہیں تھا۔ کیوں کہ اس اصول کے تحت چمپنزی وغیرہ کا انسانوں میں تبدیل ہونا ممکن ہی نہیں۔ لہذا اس بہانے ارتقا کے مفروضے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
نظریہ ارتقا کو تسلیم نہ کرنے کے حیلے بہانے :)
 

جاسم محمد

محفلین
جب کہ آدم علیہ السلام سے اُن کی بیوی کا تخلیق ہونا، ڈاروینی ارتقا کی نفی کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ آپ دونوں سے پہلے مرد و عورتیں یعنی کوئی بھی انسان نہیں تھا۔ جب مرد وعورتیں نہ ہوں تو صرف ”دو ہی فرد“ بچ جاتے ہیں۔
حضرت آدم کی کہانی انسان کی حیاتیاتی تاریخ ہے یہ آپ کو کس نے کہہ دیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس تھیوری کو من و عن تسلیم کرنے میں اس کا کمپلیکس ڈیزائن آڑے آتا ہے۔ صرف Natural Selection کے کاندھوں پر سوار ہو کر کروڑ ہا صدیوں پہ محیط یہ ارتقائی فاصلہ ایک ہی جست میں طے نہیں کیا جاسکتا۔
یہ تو بہت پرانا اعتراض ہے۔ اس سے متعلق سائینٹفک امریکن کے یہ مضامین پڑھ لیں۔ امید ہے افاقہ ہوگا
The Surprising Origins of Evolutionary Complexity
Evolution: The Rise of Complexity
 

فرقان احمد

محفلین
بے جان مادے کوجان دار پروٹین میں بدلنے سے متعلق تجربات لیبارٹریز میں ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب انسان اس عمل پر قادر ہے تو قدرت کیلئے کیا ناممکن ہوگا۔
LIFE'S FIRST SPARK RE-CREATED IN THE LABORATORY

چلیں، بات قدرت تک جا پہنچی ۔۔۔!

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں، بات قدرت تک جا پہنچی ۔۔۔!
زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی۔ اس سوال پر ایک جامع مضمون کچھ سال قبل پڑھا تھا۔ تھوڑا لمبا ہے۔ وقت نکال کر پڑھئے گا۔
BBC - Earth - The secret of how life on Earth began

کہنے کا مقصد یہ تھا جس طرح ہماری زمین پر زندگی وجود میں آئی۔اور اربوں سال کے ارتقائی مراحل سے گزر کر اشرف المخلوقات انسان میں تبدیل ہو گئی۔ ویسے ہی کائنات کے دیگر سیاروں میں بھی یہی عمل قدرتی طور پر ظہور پزیر ہوتا ہے۔اس تناظر میں ہم انسان انوکھے اور خاص نہیں۔ ہاں زمین کی دیگر حیات کے مقابلہ میں بلاشبہ افضل ہیں۔ کیونکہ ہماری عقل و فہم و شعور کا کوئی اور زمینی جاندارمقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی ذہنی و دماغی برتری کی وجہ سے آج انسان پوری روئے زمین پر غلبہ پا چکا ہے۔ اور دیگر سیاروں کو مسخر کرنے کا پلان بنا رہا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی۔ اس سوال پر ایک جامع مضمون کچھ سال قبل پڑھا تھا۔ تھوڑا لمبا ہے۔ وقت نکال کر پڑھئے گا۔
BBC - Earth - The secret of how life on Earth began

کہنے کا مقصد یہ تھا جس طرح ہماری زمین پر زندگی وجود میں آئی۔اور اربوں سال کے ارتقائی مراحل سے گزر کر اشرف المخلوقات انسان میں تبدیل ہو گئی۔ ویسے ہی کائنات کے دیگر سیاروں میں بھی یہی عمل قدرتی طور پر ظہور پزیر ہوتا ہے۔اس تناظر میں ہم انسان انوکھے اور خاص نہیں۔ ہاں زمین کی دیگر حیات کے مقابلہ میں بلاشبہ افضل ہیں۔ کیونکہ ہماری عقل و فہم و شعور کا کوئی اور زمینی جاندارمقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی ذہنی و دماغی برتری کی وجہ سے آج انسان پوری روئے زمین پر غلبہ پا چکا ہے۔ اور دیگر سیاروں کو مسخر کرنے کا پلان بنا رہا ہے۔
ہم دائرے کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایک جیسے دلائل مختلف انداز سے دیے جا رہے ہیں۔ کون کسے سمجھا رہا ہے؟ کچھ خبر نہیں!
 

وجاہت حسین

محفلین
ایک بھائی نے کہا کے مذہب کو کیوں لے کر آئے ہیں۔اس سے متعلق فرقان احمد صاحب نے بات تو کر دی ہے۔ میں اس میں چند باتوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔
اس دھاگے کا نام ہی بتا رہا ہے کہ اسے خالص سائنسی بحث کے لئے نہیں کھولا گیا۔ اگر نام ہوتا ’’نظریہ ارتقاء کے صحیح یا غلط ہونے پر سائنسی دلائل‘‘ تو بات سمجھ آتی۔ اس کے نام ہے ’’تخلیق یا ارتقاء‘‘ جو کہ واضح طور پر ایک تھیولوجی کی بحث کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں سائنس بھی شامل ہے۔

مزید یہ کہ اگر کسی کے نزدیک مذہب فقط نماز روزہ کا نام ہے تو پھر آپ کو واقعی حیرانگی اور پریشانی ہونی چاہئے کہ ارتقاء کے مسئلے پر مذہبی آراء سامنے کیوں آرہی ہیں۔میرے نزدیک مذہب صرف نماز روزہ کا نام نہیں۔ میرا دین ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے جو میری افکار سے لے کر میرے ذاتی و معاشرتی اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور سائنس سمیت کوئی شے اس سے باہر نہیں۔
مذہب، فلسفے اور اعلیٰ درجے کی شاعری میں یہ استفہام مشترک طور پر ملتا ہے کہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی صنعت اور ساخت کیا ہے؟ اس تغیر پذیر عالم میں کوئی ثابت عنصر بھی ہے؟ انسان کا اس میں کیا مقام ہے اور اس مقام کے لحاظ سے اس کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس لئے جب بھی کوئی ایسی سائنسی تھیوری آئے گی جس کا تعلق انسان کے وجود سے متعلق بنیادی سوالات سے ہوگا تو اس پر مذہبی ذہن بھی کلام کرے گا، فلسفی بھی اور اعلیٰ درجے کا شاعر بھی۔ کسی ایک گروپ کی اس پر اجارہ داری نہیں۔بقول اقبالؔ
سرود و شعر و سیاست، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عقل کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت میں وحدت کی تلاش کرے۔ یہ تب ہی ممکن ہی جب مختلف علوم کو ایک کُل کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ سائنس جو علم فراہم کرتی ہے اس کا تعلق حواس سے ہوتا ہے۔ فلسفہ عموماً عقلی دلائل پر کام کرتا ہے۔ جبکہ مذہب ان سب کے احاطہ کے ساتھ ساتھ روحانیات کو بھی شامل کرتا ہے۔ انسان کے علم کا ایک پہلو دوسرے پر لازمی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے یہ دین و سائنس کو ’’الگ الگ‘‘ رکھنے کا تصور میری نظر میں کم علمی یا تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ ان کا دائرہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔ جو انسان کثرت میں وحدت تلاش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ تمام علوم کو بغیر کسی انتہاء پسندی کے سیکھے اور سمجھے۔ اس کائنات کا خالق ایک ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ علوم وحدت کی طرف جائیں گے (جس طرح جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں)۔
اس طرزِ فکر کی مثال میں امام ابنِ سینا اور سر آئیزک نیوٹن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جہاں ابنِ سینا اپنے طب پر کام کے حوالے سے مشہور ہیں وہاں پر ان کی قرآن کی فلسفیانہ تفاسیر بھی موجود ہیں۔نیوٹن کی مشہور ریاضی و طبعیات کی کتاب ’’ (principia mathematica) Mathematical Principles of Natural Philosophy‘‘کے آخر کے ابواب دیکھیں۔ وہ کس طرح ایک سائنس (نیچرل فلاسفی) کی کتاب میں خدا کا وصف بیان کر تا ہے اور اپنے علوم کی غایت خدا ہی کو بیان کرتا ہے۔ علم سے شغف رکھنے والے احباب کتاب کے صفحہ 504 کے آخری پیراگراف سے مطالعہ کریں۔
http://redlightrobber.com/red/links_pdf/Isaac-Newton-Principia-English-1846.pdf

اور جن کو کثرت میں وحدت کی تلاش نہیں ہوتی یا نظر نہیں آتی میرے نزدیک یہ ان کی اپنی منتشر خیالی، حیاتیاتی بے رخی، اور علمی بے مقصدیت کا ثبوت ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس طرزِ فکر کی مثال میں امام ابنِ سینا اور سر آئیزک نیوٹن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جہاں ابنِ سینا اپنے طب پر کام کے حوالے سے مشہور ہیں وہاں پر ان کی قرآن کی فلسفیانہ تفاسیر بھی موجود ہیں۔نیوٹن کی مشہور ریاضی و طبعیات کی کتاب ’’ (principia mathematica) Mathematical Principles of Natural Philosophy‘‘کے آخر کے ابواب دیکھیں۔ وہ کس طرح ایک سائنس (نیچرل فلاسفی) کی کتاب میں خدا کا وصف بیان کر رتا ہے اور اپنے علوم کی غایت خدا ہی کو بیان کرتا ہے۔
درست فرمایا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی سائنسدان یا محقق کے اہل ایمان ہونے سے اس کی سائنسی قابلیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔زیادہ دور نہ جائیں۔ پاکستانی نوبیل انعام یافتہ طبیعات دان ڈاکٹر عبدالسلام اپنے قادیانی مذہب کے حوالہ سے بہت کٹر تھے۔ لیکن طبیعات کے میدان میں ان کی قابلیت پر کسی کو شک و شبہ نہیں۔
اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے کہ سائنس ایک الگ و منفرد ڈسپلن ہے۔ جس میں غیرسائنسی نظریات و افکار شامل نہیں ہو سکتے۔ ایسا کرنا سوڈوسائنس(Pseudoscience) کہلاتاہے۔
 
آخری تدوین:
اس لڑی میں کافی مواد جمع ہو چکا ہے۔ فریقین کی جانب سے پیش کی گئی کچھ چیزیں خاصی غور طلب ہیں تاہم دونوں طرف سے کچھ جگہوں پر کچھ زیادہ ہی تنگ نظری بھی دکھائی گئی ہے۔ بہرحال آئیڈیاز پر غور کرنے کے لیے کچھ وقت لوں گی تاہم یہ دو بیسک سے سوالات اچانک ذہن میں آئے ہیں تو کر رہی ہوں ایک طالب علم کی حیثیت سے۔
عبرت کا مقام ہے کہ جس ”اسپیشئز“ کی بنیاد پر ارتقا کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے، اِن سے اس ”اسپیشئز“ ہی کی تعریف نہیں ہوپاتی۔ اگر کسی کے پاس اسپشئز کی تعریف ہو تو براہِ کرم بتادیجیے۔
سپیشز کی ڈیفینیشن اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے کہ وہ جاندار جن کی انٹر بریڈنگ سے فرٹائل آف سپرنگ پیدا ہو سکیں؟ اگر ہے تو اس اصول سے انحراف کی مثالیں کون کون سی ہیں؟ مجھے علم نہیں تھا، براہ کرم بتا دیجیے۔

جب تک 100 فیصد (2 فیصد معلوم + 98 فیصد تاریک/نامعلوم) ڈی این اے کو نہیں سمجھا جاتا، DNA کو بطورِ ثبوت پیش کرنا لاعلمی کی انتہا ہے۔
ہول جینوم سیکؤئنسنگ تو ہو چکی ہے اور سپیشز کے ڈی این اے کی الائنمنٹ یا میچنگ اس سیکؤنس کی بنیاد پر کہی جاتی رہی ہے۔ جبکہ سارے سیکؤنس کا فنکشن ابھی معلوم نہیں کیونکہ زیادہ تر نان کوڈنگ ہے۔ ان کے کہنےکی بنیاد وہ سیکؤنس ہے جو معلوم ہو چکا ہے اور وہ دو فیصد نہیں ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
 
1۔ کسی ارتقا پرست کا یہ کہنا کہ وہ مسلمانوں کو ارتقاپرستی سکھاتی ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کو ورغلانے کے یہ کچھ ٹیکنیکس استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر یہاں موجود ارتقاپرستوں میں سے کوئی ٹیچنگ سے وابستہ ہوجائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ میں طلباء کو تخلیق پرستی سکھاتاہوں؟
2۔ عین ممکن ہے انہوں نے صرف ارتقاپرستی کے حق میں لکھے گئے مضامین پڑھے ہیں۔
3۔ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ارتقا کی بنیاد اسپیشئز پر ہے اور اسپیشئز کی تعریف ہی نہیں ہے۔ لہذا بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی کرنا فرض تو کیا جاسکتا ہے (مفروضہ)، حقیقت نہیں ہوسکتا۔

4۔ ملحدین کا ارتقا پر ایمان لانا عین منطقی ہے کیوں کہ خدا کے انکار کے بعد اُن کو موجودات کی کوئی نہ کوئی توجیہہ درکار ہوتی ہے چاہے وہ ارتقا جیسا مفروضہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن مسلمانوں کے لیے قرآن کے واضح احکامات سے مفر ممکن نہیں۔
آپ کو پہلی بار کب علم ہوا کہ ارتقا کی تھیوری غلط ہے اور کس طرح؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی۔ اس سوال پر ایک جامع مضمون کچھ سال قبل پڑھا تھا۔ تھوڑا لمبا ہے۔ وقت نکال کر پڑھئے گا۔
BBC - Earth - The secret of how life on Earth began
اگر کسی کو اس مضمون کا ترجمہ پڑھنے میں دلچسپی ہو تو اس کے ترجمے کا پی ڈی ایف فائل کا لنک پوسٹ کے آخر میں ہے۔

زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا Michael Marshall :تحریر زندگی کے آغاز کے بارے میں جدید ترین سائنس پر یہ تفصیلی مضمون بی بی سی کی ویب سائٹ پر سنہ 2016 میں شائع ہوا تھا اس مضمون میں عام قارئین کے لیے )جنہیں سائنس میں دلچسپی ہے لیکن جنہیں شاید سائنس کا تفصیلی علم نہ ہو( اس پیچیدہ مسئلے کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے – اس مضمون کا ترجمہ سائنس کی دنیا فورم پر قسط وار پیش کیا گیا تھا جسے قارئین نے بہت سراہا تھا - سائنس کی دنیا کے قارئین کے لیے ہم اس مضمون کا مکمل ترجمہ پیش کر رہے ہیں اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل والنٹیرز نے مدد کی ترجمہ: 1۔ قدیر قریشی )Ele Mentary( منٹری ایلی- 2 3 -دل آرام 4 -ابصار فاطمہ ایڈیٹنگ: فاطمہ شیخ کمپوزنگ: قدیر قریشی بی بی سی کے آرٹیکل کا لنک The secret of how life on Earth began


پی ڈی ایف فائل کا لنک
 

فرقان احمد

محفلین
زمین پر زندگی کا سب سے پہلا ظہور بے جان مالیکولز کا ”خود نقلی“ یا self-replication کی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد ہوا۔ جوارتقا کے مراحل طے کرتے کرتے اربوں سال بعد حالیہ انسان (آدم) بن کر ابھرا۔
معصومانہ سوال: یہ 'بے جان' مالیکیولز کہاں سے آئے؟
سائنسی نظریہء ارتقاء کی روشنی میں اس معصومانہ سوال کا جواب درکار ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
اگر کسی کو اس مضمون کا ترجمہ پڑھنے میں دلچسپی ہو تو اس کے ترجمے کا پی ڈی ایف فائل کا لنک پوسٹ کے آخر میں ہے۔

زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا Michael Marshall :تحریر زندگی کے آغاز کے بارے میں جدید ترین سائنس پر یہ تفصیلی مضمون بی بی سی کی ویب سائٹ پر سنہ 2016 میں شائع ہوا تھا اس مضمون میں عام قارئین کے لیے )جنہیں سائنس میں دلچسپی ہے لیکن جنہیں شاید سائنس کا تفصیلی علم نہ ہو( اس پیچیدہ مسئلے کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے – اس مضمون کا ترجمہ سائنس کی دنیا فورم پر قسط وار پیش کیا گیا تھا جسے قارئین نے بہت سراہا تھا - سائنس کی دنیا کے قارئین کے لیے ہم اس مضمون کا مکمل ترجمہ پیش کر رہے ہیں اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل والنٹیرز نے مدد کی ترجمہ: 1۔ قدیر قریشی )Ele Mentary( منٹری ایلی- 2 3 -دل آرام 4 -ابصار فاطمہ ایڈیٹنگ: فاطمہ شیخ کمپوزنگ: قدیر قریشی بی بی سی کے آرٹیکل کا لنک The secret of how life on Earth began


پی ڈی ایف فائل کا لنک
پی ڈی ایف نستعلیق میں ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
[…] زمین پر زندگی کا سب سے پہلا ظہور بے جان مالیکولز کا ”خود نقلی“ یا self-replication کی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد ہوا۔ […]

معصومانہ سوال: یہ 'بے جان' مالیکیولز کہاں سے آئے؟

سائنسی نظریہء ارتقاء کی روشنی میں اس معصومانہ سوال کا جواب درکار ہے۔
زندگی کا ظہور یا زندگی کی ابتدا abiogenesis کا میدان ہے، ارتقا کا نہیں۔ Abiogenesis کے لیے فی الوقت کوئی متفقہ تھیوری موجود نہیں ہے، البتہ کچھ hypotheses ضرور تجویز کیے گئے ہیں جن پر تحقیق جاری ہے۔ اس ضمن میں Miller–Urey experiment کا مطالعہ بھی دلچسپ ہے۔
 
کیا آپ نے ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا کے بارہ میں پڑھا ہے؟ یہ وہ بیکٹیریا ہیں جو انسانی ادوایات جیسے اینٹی بائیوٹکس سے مقابلہ کر کے ان پر غلبہ پا جاتے ہیں۔ اور اپنی خواص دیگر بیکٹیریا میں منتقل کر کے ان کی مدافعت بڑھاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا میں ارتقا کی واضح مثال ہے جو جدید انسانی ادوایات سے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ ان کے توڑ کے لئے ماہرین طب کو مسلسل نئی ادوایات بنانا پڑتی ہیں۔
5080768325_3b03b6722c_z.jpg

اگر بقول آپکے بیکٹیریا میں Asexual reproduction کی وجہ سے ارتقا ممکن نہیں۔ تو ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا کہاں سے آگیا؟
کبھی کہا جاتا ہے کہ کسی سپیشی کے خواص کی تبدیلی کو ارتقا نہ سمجھا جائے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ سمجھا جائے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی!
 
Top