فاتح
لائبریرین
اوووووووووووووووووہ اچھاااااااااااااااایہ ہولناک ماتمی مسکراہٹ ہے۔ تعزیتی ہنسی۔
تعزیتی ہنسی
اوووووووووووووووووہ اچھاااااااااااااااایہ ہولناک ماتمی مسکراہٹ ہے۔ تعزیتی ہنسی۔
یہ تو بہت پرانا استدلال ہے۔ میں بھی اپنے اور والدین اور دیگر رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرا چکا ہوں کہ حق الیقین کیا ہے۔ الحمدللہ میرے والدین نے مجھے سچ بتایا۔ آپ بھی اپنی مرضی سے یقین کر سکتے ہیںتری نگا ہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
جو دوست یہاں کسی بھی بات کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے ماننے پر تیار نہیں ہیں ان سے دست بستہ عرض ہے کہ جس عدم اعتماد کو انہوں اپنی سوچ کا محور و مرکز بنا رکھا ہے، پہلے اسے اپنی ذات پر لاگو کریں۔۔آپ جب پیدا ہوئے اور کچھ عرصے کے بعد آپ نے ہوش سنبھالا اور آپ کو بتایا گیا کہ فلاں صاحب آپکے والد صاحب ہیں اور فلاں والدہ۔۔آپ نے اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے اس بات کو من و عن تسلیم کرلیا۔ آپ بھی ضرور تسلیم کریں گے کہ اس اعتماد کی بنیاد تو قطعاّ غیر سائنسی ہے۔ انٹلکچوئل دیانت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنا اور اپنے مبینہ والدین کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر "عین الیقین" کی منزل حاصل کریں۔۔اسکے بعد دوسروں کے عقائد کا سائنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیجئے۔Charity begins at home.۔۔۔ اور بات یہیں ختم نہیں ہوگی کیونکہ حق الیقین کا درجہ حاصل کرنے کیلئے قدم قدم پر کئی منزلوں سے گذرنا پڑے گا۔
ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ دنیا میں آپ کو کسی نہ کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ہی پڑ تا ہے اور کئی باتوں کو دوسروں کے علم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسکے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے اور وہ جو کچھ تشخیص کردے اور جو دوا لکھ کر دے دے اسے آپ تسلیم کرلیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ کہیں سے سن رکھا ہے کہ یہ ڈاکٹر مستند ہے۔ جب اسکی تشخیص درست ثابت ہوتی ہے اور دوا اپنا اثر دکھانےلگتی ہے تو آپکو اس ڈاکٹر کی مسیحائی پر پہلے سے نسبتاّ زیادہ مضبوط بھروسہ (یا ایمان) حاصل ہوجاتا ہے۔
مذہب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کسی انسان پر اس درجے بھروسہ کرتے ہیں کہ اسکی کہی ہوئی ہر بات کو سچی اور معتبر جانتے ہیں۔ چنانچہ علم کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اور اس ذریعے کو چار و ناچار آپ بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے تین درجوں میں سے سب سے پہلا درجہ "اسلام" ہے یعنی مان لینا ۔۔۔ ۔اور جب زندگی کے تجربات سے آپکو اس انسان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں تو آپکو اس شخص کی دانائی ، فراست، علم وغیرہ پر مزید ایقان حاصل ہوتا ہے۔۔ہمارے خیال میں تو علم حاصل کرنے کا یہی ایک واحد طریقہ ہے یعنی کسی اور کے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے ابتدائی طور پر بغیر چون و چرا کئے اسی تحقیقات و تسلیم کرلیا جائے اور پھر درجہ بدرجہ اپنی جستجو اور صلاحیت کی مدد سے سے اس پوائنٹ سے آگے بڑھ کر علم میں مزید وسعت ، accuracy اور نکھار لایا جائے۔ جب ہم سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی اصول کارفرما ہے کچھ assumptionsہیں جنہیں ہم بغیر کسی ثبوت کے تسلیم کرکے اپنی تحقیقات کے سلسلے کوآگے بڑھاتے ہیں۔
اب اس دھاگے میں پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا۔ یا تو آپ ود اس جگہ پر پہنچ کر بذاتِ خود اس بات کا مشاہدہ کرلیجئے کہ ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ پہلے سے موجود اپنے علم کی روشنی میں عقل اور منطق و استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ یہاں آکر دو فریق جدا ہوجاتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی منطق اور عقل کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ یہ درست ہے یا نہیں، مذہبی آدمی جسکی منطق کی بنیاد یہی ہے کہ اگر کسی قابلِ بھروسہ آدمی نے( جس کے سچ پر وہ بھروسہ کرسکتا ہے) یہ کہا ہے تو پھر یہ بات ٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔ جبکہ غیر مذہبی آدمی کو چونکہ اس معاملے میں ایسا کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر وہ بھروسہ کرسکے، چنانچہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اسکی منطق یہی کہتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔
محترم، اگر ایک بندے کی تعلیم اور اس کی قابلیت پر مجھے جب تک شک نہ ہو، میں یقین ہی رکھوں گا۔ جہاں ایک بندہ یا ایک ٹیکنالوجی یا ایک گروہ جھوٹ بولنے اور اسے سچ کہنے پر مصر ہو جائے تو پھر محتاط ہونا پڑتا ہے۔ دوسرا مغربی معاشرے والے والد کے انتخاب کو اتنی اہمیت نہیں دیتے کہ چند ہزار ڈالر کمانے کے لئے (جو وہ پیشگی لے چکے ہوتے ہیں) کسی کو کسی کا زبردستی کا باپ بنا دیںاس ڈی این اے ٹیسٹ کی Interpretationیقیناّ آپ نے نہیں کی ہوگی بلکہ متعلقہ ڈاکٹر صاحب پر بھروسہ کرتے ہوئے انکی interpretationکو تسلیم کرلیا ہوگا۔۔۔ یہی بات میں بھی کہنا چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی سٹیج پر آپ کو دوسرے کے علم پر بھروسہ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ شک دور نہیں ہوسکتا
محمود صاحب، آپ میرے متعلق اپنے ذاتی خیالات کی تشہیر نہ کریں تو بہتر ہے کیونکہ اس سے مجھے بھی آپ کے متعلق اپنے انتہائی ذاتی خیالات لکھنے کی تحریک ملے گی جو آپ کی طبع پر ناگوار گزرنے کا خدشہ ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خدا اور خدا کے ماننے والوں سے فاتح صاحب کی ناراضگی دراصل اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہے جو خدا کے ماننے والوں کی طرف سے انکی کمیونٹی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے اور خدا کی اس بارے میں بے پروائی یا بے نیازی سے پیدا ہوئی ہے۔۔۔ یعنی اگر خدا کے ماننے والے اتنے سخت گیر اور شدت پسند ہیں اور اوپر سے خدا نےبھی اس حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں کیا تو ایسے مومنین اور ایسے خدا کو فاتح صاحب کا سلام ہے۔۔
دل کی دھڑکن کے بارے تو آپ باقاعدہ سوڈیم چینل اور پوٹینشل ڈفرینس کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح دل کی دھڑکن پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کس طرح بگاڑ پیدا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیٹا بلاکرز کس طرح سے کس چینل پر کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہےجب اس کے متعلق علم ہی نہیں حاصل کر سکے تو "کوئی چیز ہی نہیں ہوتی" کہہ کر جان چھڑا لی۔
کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں جب بچے کا دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے تو وہ کیا چیز ہوتی ہے جو دھڑکن عطا کرتی ہے؟
کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ انڈے کے اندر جو بن رہا ہے اس کو زندگی کیسے ملتی ہے؟
یہ تو عجیب رائے دی ہمیں پہلے عشق کا طعنہ دیا جاتا تھا اب پیسے کا اب فاتح کی باری ہےمیرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خدا اور خدا کے ماننے والوں سے فاتح صاحب کی ناراضگی دراصل اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہے جو خدا کے ماننے والوں کی طرف سے انکی کمیونٹی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے اور خدا کی اس بارے میں روا رکھی گئی بے پروائی یا بے نیازی سے پیدا ہوئی ہے۔۔۔ یعنی اگر خدا کے ماننے والے اتنے سخت گیر اور شدت پسند ہیں اور اوپر سے خدا نےبھی اس حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں کیا تو ایسے مومنین اور ایسے خدا کو فاتح صاحب کا سلام ہے۔۔
قتل تو ہونا ہی تھا بھئی جو خدا اپنے بندے نا سنبھال سکے تو کیا فائدہ ۔نہیں خدا کے قتل پر نہیں ۔
آپ کے خدا کے قتل پر ہنس رہے ہیں۔
میں تو ہنسنے یا نہ ہنسنے کا فیصلہ نظم پڑھنے کے بعد ہی کروں گا۔
ہزار راستے ہیں منزل کی جانب نکلتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے کاش کہ ہم مسلمان مذہب کو روایات، جھوٹے اعتقادات، رسومات اور رواجوں، جھوٹی تاریخ اور سچے جھوٹے سیاسی واقعات سے آزاد کرکے صرف اور صرف شارع علیہ السلام کے لائے ہوئے قرآن اور ان ﷺ کے سکھائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا سیکھ لیں۔ نیز آپ ﷺ اور حضراتِ شیخین ( حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ) کے ادوار کو اپنی زندگیوں کا ماڈل بنا لیں۔حضراتِ شیخین نے جس طرح آپ ﷺ کے پیغام کی تشریح کی ( فقہ کے بانی اور تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمرؓ ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی) وہ رہتی دینا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے ہجرِ اسود کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان‘‘ جب ہجرِ اسود کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں کہ حضراتِ صحابہ ؓنے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ حج اور عمرے کے ارکان کی ادائیگی میں اسے بوسہ دیا یا استلام کیا، تو کوئی اور پتھر جو رنگ بدلتا ہو اس کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔’’اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے، اسی بناء پر کعبہ اور ہجرِ اسود کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی اصول سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہوگئی تھی حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلطی میں پڑنے سے باز رکھا۔ ( الفاروق۔ از علامہ شبلی نعمانی)وما علینا الا البلاغ
یہ تو الزام ہوا جبکہ بے چارے باباجی تو اس دھاگے پر آئے ہی نہیںتھریڈ کا مطالعہ کیے جا رہا ہوں اور متفق، پسند یا زبردست پر کلک کیے جا رہا ہوں مگر تھریڈ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اب سوچا کہ کیوں نہ ایک پوسٹ ہی داغ دی جائے کیوں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں
کئی نظریات کا مکسچر تیار ہو چکا ہے صبح، دوپہر اور رات کو ایک ایک صفحہ پڑھیں ان شاء اللہ (او ہو یہ کیا لکھ دیا چلیں اگر ۔۔۔ اممم کیا لکھوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا)افاقہ ہو گا ،کس میں، یہ پتا نہیں ۔۔۔ ۔۔۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
دیکھا شعر بھی الٹا ہو گیا اب آپ بتائیں دماغ کی کیا حالت ہو گی۔
لیکن۔۔۔ ۔۔
بابیو!
ہن بس کرو۔
چلو جی ایک ہور بابا جی آ گئے!یہ تو الزام ہوا جبکہ بے چارے باباجی تو اس دھاگے پر آئے ہی نہیں
بالکل درست سمجھے !ہم ڈھکے چھپے بابے ہیں، وہ علی اعلان باباجی ہیں
جتنی دیر سے آپ اس دھاگے پر تشریف لائے ہیں، اس سے مجھے یہی شک آپ کے بارے ہو رہا ہےبالکل درست سمجھے !
الکنایۃ ابلغ من الصریح۔۔شاید ایسا ہی کچھ ہے۔
خیر عمر کے اس حصے میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے
ذرا دیر سے سمجھ آئی تو کوئی بات نہیں دیر آید درست آید
محترم بھائی آپ کا تبصرہ پڑھ کر اک قصہ یاد آگیا ۔ کافی عرصہ قبل کی بات ہے ۔ نیا نیا مسلمان بنا تھا سعودی عرب آ کر ۔ اور بات بات میں قران و حدیث کے ذکر سے مشرف ہوتے غیر مسلموں سے بحث کرتے بزعم تبلیغ جنت کماتا تھا ۔ اک دن اک کرسچن نے مجھے کہا کہ کیا آپ میرے کچھ اعتراضات کے جوابات دے سکتے ہیں جو کہ آپ کے قران و حدیث سے متعلق ہیں ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ حامی بھر لی ۔۔۔ بات شروع ہوئی ۔تھریڈ کا مطالعہ کیے جا رہا ہوں اور متفق، پسند یا زبردست پر کلک کیے جا رہا ہوں مگر تھریڈ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اب سوچا کہ کیوں نہ ایک پوسٹ ہی داغ دی جائے کیوں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں
کئی نظریات کا مکسچر تیار ہو چکا ہے صبح، دوپہر اور رات کو ایک ایک صفحہ پڑھیں ان شاء اللہ (او ہو یہ کیا لکھ دیا چلیں اگر ۔۔۔ اممم کیا لکھوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا)افاقہ ہو گا ،کس میں، یہ پتا نہیں ۔۔۔ ۔۔۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
دیکھا شعر بھی الٹا ہو گیا اب آپ بتائیں دماغ کی کیا حالت ہو گی۔
لیکن۔۔۔ ۔۔
بابیو!
ہن بس کرو۔
دیکھنے کا منظر ہوا بھائی جیمحترم بھائی آپ کا تبصرہ پڑھ کر اک قصہ یاد آگیا ۔ کافی عرصہ قبل کی بات ہے ۔ نیا نیا مسلمان بنا تھا سعودی عرب آ کر ۔ اور بات بات میں قران و حدیث کے ذکر سے مشرف ہوتے غیر مسلموں سے بحث کرتے بزعم تبلیغ جنت کماتا تھا ۔ اک دن اک کرسچن نے مجھے کہا کہ کیا آپ میرے کچھ اعتراضات کے جوابات دے سکتے ہیں جو کہ آپ کے قران و حدیث سے متعلق ہیں ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ حامی بھر لی ۔۔۔ بات شروع ہوئی ۔
کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ قران کی اک آیت ہے جس میں قران نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ " اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو ۔ میں نے بالکل ہے ۔ پوچھنے لگا کہ اس آیت سے کیا مراد ہے ۔ ؟ میں نے صاف سیدھی بات ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو اللہ کی ذات کو مرکز بناتے اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے ۔ کہنے لگا کہ جو یہ آیت نہ مانے یا اس سے اختلاف کرے کیا وہ مسلمان رہےگا ۔۔۔ ۔۔؟
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والا تو مسلمان نہیں رہے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
کہنے لگا کیا آپ نے یہ حدیث سنی ہے جو کہ مسلمانوں کے رسول سے ثابت ہے ۔ ؟ میں نے پوچھا کون سی حدیث ؟
کہنے لگا کہ وہ جس میں کہا گیا ہے کہ " میری امت میں بہتر تہتر فرقے ہوں گے اور اک فرقہ ناجی ہوگا "
میں نے اقرار کیا کہ بالکل ہے اور اس کی بنیاد اختلاف پر ہے ۔ تو کہنے لگا کہ مسلمان کے لیئے کس کی بات اہم ہوگی ۔
اللہ کی یا اللہ کے رسول کی ؟
مجھے جب اس کی بات کی سمجھ آئی تو میں نے کان لپیٹے اور کہا کہ ذرا کفیل سے مل آؤں اس نے بلایا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سو اک صفحہ روز افاقہ لازم درست لکھا آپ نے ۔۔۔ ۔۔۔