میری رائے:
- مجے نہیں معلوم اس ”خبر“ میں کس حد تک سچائی ہے۔ یہ تو آپ تحقیق کرکے بتلائیں کہ یہ خبر کس حد تک سچی ہے۔
- اسلامی تعلیمات کے مطابق ”معجزہ“ صرف انبیا علیہ السلام سے منسوب ہوتا ہے۔ غیر نبی سے منسوب ایسے غیر معمولی واقعات ”کرامات“ کہلاتے ہیں۔
- قرآن و صحیح احادیث میں مذکور ”معجزاتِ انبیاء “ پر ”ایمان“ لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو اس کا ”انکار“ کرے یا اس میں شک و شبہ کا اظہار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
- غیر نبی سے منسوب بہت سی ”کرامات“ کچھ حقیقی ہیں اور کچھ عقیدتمندوں کی اپنی ذہنی اختراع۔ اور جو ”حقیقی اور مصدقہ کرامات“ ہیں بھی، اُن کا دینِ اسلام سے اس اعتبارسے کوئی ”تعلق“ نہیں کہ ان پر ”ایمان لانا“ فرضِ عین ہو اور جو ایمان نہ لائے، وہ دائرہ اسلام سے خارج
واللہ اعلم بالصواب
1- یہ خبر سچی ہے اور اس سے ملتے جھلتی بات میں نے اور نایاب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے
2- قران یا حدیث کے حوالہ جات درکار ہیں کہ معجزہ صرف انبیاء سے ہی منسوب ہوتے ہیں اور آنحضرت کی کس حدیث کی رو سے غیر نبی کے واقعات کرامات کہلاتے ہیں۔ اول بات تو عام غیر نبی اور آلِ رسوٌل (ص) میں فرق ہے ۔ دوسرے ان آلِ رسول اور حضرات حسنین میں بھی فرق ہے جو جوانانَ جنت کے سردار ہیں اور جنت میں کوئی جائے یا نا جائے انبیاء تو جائیں گے ہی حدیث میں یہ کہیں نہیں ہے کہ حسن(ع) اور حسین(ع) انبیاء کے علاوہ سب جنتیوں کے سردار ہیں اسلئے ان حضرات علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیئے کہ ان میں اور عام ہم جیسے غیر نبیوں میں فرق ہے مثلاََ عام غیر نبی کیلئے آیاتِ کسا ء نازل نہیں ہوئی پر انکے لئے ہوئی ہیں عام غیر نبی پر صدقہ حرام نہیں پر ان پر ہے۔ عام غیر نبی پر درود و سلام نہیں ہے پر آنحضرت (ص) کی اولاد پر ہے مختصراََ یہ سمجھ لیں کہ جس اللہ نے نبیوں کو عام انسانوں سے الگ اور مختلف مقام دیا ہے اسی طرح غیر نبیوں میں ان آئمہ کا الگ مقام ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ لغت میں معجزہ اس بات کو کہتے ہیں جس کو کرنے سے دنیا عاجز ہو ۔ جو بھی کام قانون ِفطرت کے خلاف ہو۔
3- بے شک ۔پر اسی قران نے جا بجا ایسے واقعات بھی پیش کئے ہیں جو غیر نبی نے انجام دئے اور ان پر ایمان لانا بھی واجب ہے جن میں فرشتوں کے کے بھی واقعات ہیں جب کہ فرشتے بھی نبی تو بہر حال نہیں ہیں۔ اور حجرت یحیٰ بن برقیا کا ملکہ بلقیس کا تخت چشمِ زدن میں لانا بھی شامل ہے۔ یعنی قران اور حدیث( جب کے اسکا صحیح ہونا ثابت ہو ) پر ایمان لانا واجب ہے چاہے وہ معجزہ ہو یا نہ ہو۔
4- میں اس بات کو مانتا ہوں کہ چاہے فقہ جعفریہ ہو یا فقہ حنفیہ یا کوئی اور فرقہ ہر ایک میں کچھ ایسے ضعیف الاعتقاد لوگ ضرور موجود ہیں جنہوں نے بہت سے ایسے واقعات مشہور کردئے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور ایسا انہوں نے عام اور غریب لوگوں کی جہالت کا فائدہ اٹھا کر کیا پر انکی وجہ سے ہم اصل اور حقیقی واقعات کو فراموش نہیں کرسکتے ۔
میں تو کہتا ہوں سب چھوڑیں امام حسین پر اب تک گریہ ہونا ان کے غم میں ماتم ہونا ہی میرے نزدیک سب سے بڑا معجزہ ہے کیں کہ لوگ اپنے باپ کو اور ماں کو اتنا نہیں روتے اگر روتے بھی ہیں تو چند دن پھر بھول جاتے ہیں پر انکا غم چودہ سو سال بعد بھی اب تک ہمارے دلوں میں ترو تازہ ہے۔ اور جب وہ دن آتے ہیں تو وہ لوگ جن کو ان سے سچی محبت ہے چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہیں سب کچھ چھوڑ کر انکے غم میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اگر یہ سب ڈھونگ ہے تو یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر انسان ڈرامہ بھی کر رہا ہو تو موت کو دیکھ کر سب بھول جاتا ہے پر اسی دور کا یہ معجزات ہیں کہ
1- اس سال 6 محرم کو ایک دھماکہ ہونے کے باوجود کئی لوگوں کے شہید ہونے کے باوجود اورنگی کے امام بارگاہ میں مجلس اسی طرح چلتی رہی یہ تو آپ اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گے اسکے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ جس نے نہ دیکھا ہو نیٹ پر سرث کرلے ۔
2- دو سال پہلےآٹھ محرم کو جس جلوس میں بم دھماکہ ہوا اس میں اسکے دوسرے ہی سال پہلے سے زیادہ لوگ تھے اور پھر وہی قانونِ فطرت کے خلاف بات کہ ایک ماں نے اپنے اس چھ سات سال کے بیٹے کو دوبارہ تیار کرکے علم ہاتھ میں دے کر بھیج دیا جو ایک سال پہلے شدید زخمی ہوگیا تھا آپ نے مدر ڈے پر ایسے بہت سے ایس ایم ایس پڑہیں ہونگے جس میں ماں کی اپنی اولاد سے محبت دکھلائی گئی ہو پر یہ کیسی محبت ہے جو چودہ سال پہلے ہونے والے ایک واقعے کی یاد میں نکلنے والے جلوس پر قربان ہورہی ہے ؟
3-چند سال پہلے عاشور کے جلوس میں جو خوفناک دھماکہ ہوا تھا اسکی اب بھی وڈیو نکال کر دیکھ لیں کہ جہاں دھماکہ ہوا وہاں لوگوں کہ جسم کے چیتھڑے اڑ رہے تھے پر علم اٹھانے والے پھر بھی علم اٹھائے ہوئے تھے جبکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگ جانا چاہیئے تھا۔ یہ سارے اور ایسے ہزاروں واقعات ہم کو بتاتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی ایک خاص محبت کی وجہ سے ہوتا ہے کہ چاہے امام حسین(ع) کے ذکر کو جتنا دبایا جائے وہ اور پھیلتا جاتا ہے بیشک اللہ کسی کی قربانی ضائع نہیں ہونے دیتا اور جو تاریخ کی سب سے بڑی قربانی ہے اسکے نشان کیسے مٹنے دے